Pak Urdu Installer

Friday 11 January 2013

میرے کملی والے صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہی نرالی ہے

10 آرا




اگر آپ اسے کوئی دینی یا مذہبی تحریر سمجھ کر پڑھنے بیٹھے ہیں ، تو میں آپ کی غلط فہمی پہلے ہی دور کر دوں یہ کوئی مذہبی قسم کی تحریر نہیں ۔
میں اپنے پسندیدہ لوگوں کا تذکرہ اپنے الفاظ میں کرتا رہتا ہوں ، یہ تو آپ سب کو معلوم ہی ہے ، پس میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ اس ہستی پر کچھ لکھوں جو اس کائنات کی سب سے زیادہ پسندیدہ ترین ہستی ہیں۔ جن کی تعریف میں ہر وقت خالق ِ کائنات سے لیکر تمام مخلوقات ، اور جمادات ، اور تمام مظاہرِ قدرت ہمہ وقت رطب اللسان ہیں ۔جن کا اسم گرامی ہی "محمدﷺ " ہے ،  ان کی شان میں کچھ لکھنا کوئی آسان کام نہیں ، آسمانی کتابوں میں  جن کے تذکرے ، زمینی کتابوں جن کے قصیدے ، حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی ٰ عنہ  سے لیکر تابعین ، تبع تابعین ، ائمہ کرام، اولیا کرام ، علما کرام نے اپنی بہترین صلاحیتوں کو کام میں لا کر فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیئے تو کہیں شیخ سعدیؒ نے دریا کوزے میں بند کر دیا۔  مگر بھلا ہو اس محبت کا جو مجھ جیسے بے مایہ ، اور ہیچمداں سے یہ سب لکھوا رہی ہے ، میں ایک بار پھر بتاتا چلوں کہ یہ کوئی مذہبی نقطہ نظر سے لکھی گئی تحریر نہیں ۔ اس تحریر میں نہ ان کے بے شمار معجزوں کا ذکر ہے نہ ہی ان کی شانِ نبوت ، اور شانِ رسالت کا تذکرہ ہوگا۔ اس تحریر میں کائنات کے بہترین انسان کا تذکرہ ہوگا۔ جن کی زندگی کا ہر ایک مبارک لمحہ خود خالقِ کائنات کو اتنا پسند ہے کہ قیامت تک دنیا میں آنے والے ہر انسان کیلئے اسے سٹینڈرڈ مقرر کر دیا۔


ایک بار میں بیٹھا دنیا کی عظیم ہستیوں کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ میرے ذہن میں جتنے بھی نام آئے ان میں حیرت انگیز طور پر ایک بات مشترک تھی ۔ وہ سب بچپن میں ہی یتیم ہو گئے تھے، یا چھوٹی عمر میں ہی کسی بڑے دکھ کا سامنا کیاتھا، مرزا غالبؔ تقریباً پانچ سال کے تھے جب والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔ شیخ سعدیؒ بچپن میں ہی یتیم ہو گئے تھے ، اولیا کرام کے ملفوظات دیکھ لیجئے ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ  بھی یتیم تھے ، اور حضرت محمد ﷺ کی شان کا اندازہ لگائیے ، پیدائشی یتیم تھے ،
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ شیر خوارگی کی عمر میں بھی اتنے انصاف پسند تھے کہ صرف اپنے حصے کا دودھ پیتے تھے ، اور اپنے دودھ شریک بھائی کے حصے کو کبھی منہ نہ لگایا ۔دوسرے بچوں کی طرح آپ ﷺ کا لڑکپن کھیل کود اور لہو لعب میں نہیں گزرا، آپ ﷺ نے فنِ حرب سیکھنے میں گزارا ، چچا ابو طالب  اپنے بڑے کنبے کے باعث تنگ دست رہتے ہیں ، تو غیور بھتیجا ، بوڑھے چچا پر بوجھ بننے کی بجائے اجرت پر دوسروں کی بکریاں چرا کر چچا کا ہاتھ بٹاتا ہے ۔
جوانی ملاحظہ ہو :۔ حرب فجار  میں شرکت تو کرتے ہیں ، مگر براہ راست لڑائی کا حصہ نہیں بنتے ، ہاں البتہ چچا ؤں کو تیر پکڑاتے جاتے ہیں
سچ بولنا اور امانت داری ان کی خاص پہچان ہے نہ صرف خاندان ِ بنو ہاشم ، یا قبیلہ قریش میں بلکہ پورے مکہ میں صادق اور امین کہلائے جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ مکہ کی ایک پہاڑی پر کھڑے ہو کرقریش کو  آواز دیتے ہیں ،  جب قریش جمع ہو ئے   تو آپ ﷺ فرماتے ہیں :۔ اگرمیں تم سے کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے دشمن کا ایک لشکر موجود ہے اور تم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو کیا تم مجھ پر یقین کرو گے؟ ۔ قریش بیک آواز بولے :۔ کیوں نہیں ، ہم یقین کریں گے ، کیونکہ ہم نے آپ سے بڑھ کر سچ بولنے والا کوئی نہیں دیکھا۔   مظلوموں کی مدد اور ظالم کے قلع قمع کیلئے جب حلف الفضول نامی معاہدہ ہوتا ہے تو آپﷺ اس کے پر جوش حمائتی ہیں ۔فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اس معاہدے کے بدلے سو سرخ اونٹ بھی پیش کرنے تب بھی اس معاہدے سے دستبردار نہ ہوں۔
خاندانی پیشہ تجارت ہے ، آپ ﷺ بھی تجارت کیلئے سفر کرتے ہیں ، مگر تجارت میں کبھی دھوکا دہی ، جھوٹ ، فریب یا کم ناپ تول سے دامن داغدار نہیں ہونے دیا۔ پچیس سال کا  خوبصورت جوان، جس کا حسب نسب بھی عالی ہے اس کیلئے عرب کی ایک سے بڑھ کر ایک دوشیزہ کا رشتہ ملنا کوئی مشکل بات نہیں ، مگر وہ نہ صرف خود سے پندرہ سال بڑی بلکہ بیوہ خاتون سے نکاح کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت اور رسالت کی ذمہ داری عطا ہوتی ہے ، تو خاندان والے آنکھیں پھیر لیتے ہیں ، سگا چچا جانی دشمن بن جاتا ہے ، بیٹیوں کا رشتہ طے ہو چکا ہے مگر انکار کر دیا جاتا ہے ، پھر بھی زبان پر کلمہ شکایت ہے نہ ماتھے پر شکن ، لبوں پر ایک خوبصورت مسکراہٹ ہر وقت کھیلتی رہتی ہے ۔
ایک بڑھیا روزانہ گھر کا کوڑا کرکٹ لے کر چھت پر کھڑی ہوتی ہے ، جب بھی محمد ﷺ وہاں سے گزرتے ہیں ، وہ کوڑا ان پر پھینک دیتی ہے ، محمد ﷺ اوپر دیکھ کر مسکراتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں ، کچھ دن خلافِ معمول کوڑا پھینکنے والی چھت پر موجود نہیں تھی  ، محمد ﷺ اس کے گھر تشریف لے جاتے ہیں ، دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں ، اندر بڑھیا بیمار پڑی ہے ،  کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا کون ہے ؟ آ جاؤ اندر۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں میں محمد ﷺ ہوں ، آج آپ چھت پر موجود نہیں تھیں ، تو مجھے خیال آیا کہ کہیں آپ بیمار نہ ہوں ۔ بڑھیا ڈر گئی کہ کہیں بدلہ لینے نہ آئے ہوں ، مگر محمد ﷺ اس کے گھر میں جھاڑو دیتے ہیں، اس کیلئے تازہ پانی بھر کر لاتے ہیں ، اسے دوا لا کر دیتے ہیں ، اور جب تک وہ ٹھیک نہیں ہوگئی محمد ﷺ کا یہی معمول رہا۔
یہ ایک بڑھیا گٹھڑی سر پہ رکھے ، لاٹھی ٹیکتی کہیں جا رہی ہے ، ایک خوبصورت جوان ملتا ہے راستے میں ، پوچھتا ہے اماں جی کہاں جا رہی ہیں ، لائیے میں آپ کی مدد کروں ، گٹھڑی مجھے دے دیجئے ، آپ جہاں جا رہی ہیں میں آپ کو وہاں تک پہنچا آتا ہوں ۔ بڑھیا کہتی ہے بیٹا سنا ہے شہر میں  ایک جادوگر آیا ہوا ہے جس کا نام محمد (ﷺ) ہے ، جو اس سے ملتا ہے یا اس سے بات کرتا ہے وہ اسی کا ہو جاتا ہے ، میں اسی کے ڈر سے یہ شہر چھوڑ کر جا رہی ہوں۔ منزل پر پہنچا کر جوان نے بڑھیا کا سامان سر سے اتارا اور اس سے اجازت چاہی ۔ بڑھیا نے بہت دعائیں دیں اور کہا کہ چہرے سے تو کسی اعلیٰ خاندان کے لگتے ہو، اور بہت نیک بیٹے ہو ، تم نے میری مدد کی ہے ، میری نصیحت مانو تم بھی اس جادوگر سے بچ کر رہنا ، ارے ہاں میں تمہارا نام تو پوچھنا بھول ہی گئی ۔ بیٹا کیا نام ہے تمہارا ۔؟ وہ جوان مسکرا کے کہتا ہے اماں جی میرا نام ہی محمد (ﷺ) ہے ۔
مکہ سے کچھ فاصلے پر ایک پر فضا شہر طائف کی گلیوں میں شرارتی بچے ایک دوسرے شہر سے آئے ہوئے مہمان کے پیچھےلگے ہوئے ہیں ، آوازے کس رہے ہیں ، اور پتھر بھی مارتے جاتے ہیں ۔ شہر کے رؤسا اورشرفا یہ منظر دیکھ کر ہنس رہے ہیں ۔ پتھر لگنے سے محمد ﷺ  کے جسم مبارک سے اتنا خون بہا ہے کہ آپ ﷺ کے جوتے مبارک خون بھر جانے سے پیروں سے چپکنے لگے ہیں ۔ محمد ﷺ شہر سے باہر ایک باغ میں سستانے کیلئے رکتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر جبریل علیہ السلام حاضر ہوتے ہیں ۔ عرض کیا :۔ اگر آپ کہیں تو اللہ کے حکم سے ان دو پہاڑوں کا اٹھا کے اس وادی پر دے ماروں ۔؟  دنیا کا حیرت انگیز جواب سنیے :۔ نہیں ! مجھے امید ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ اسلام پر مائل ہو جائیں گے۔
محمد ﷺصحن ِ کعبہ میں طواف کر رہے ہیں کہ اچانک ایک طرف سے ابو جہل آ جاتا ہے ۔ آپ ﷺ کو دیکھ کر وہ برا بھلا کہنا اور گالیاں بکنا شروع کر دیتا ہے ۔ مگر آپ ﷺکے ماتھے پر شکن بھی نہیں  آتی اور آپ اسی یکسوئی سے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ وہ بدبخت اس بات سے اور بھی آگ بگولہ ہوا اور   ایک بڑاسا پتھر اٹھا کر آپ ﷺ کو مار دیا۔آپ ﷺ نے پھر بھی اسے کچھ نہیں کہا ، اور طواف مکمل کر کے اپنے گھر تشریف لے گئے ۔ حمزہ بن عبدالمطلب  شکار سے واپس آئے تو ایک لونڈی نے جو یہ سب ماجرا دیکھ رہی تھی، ان کو بتا دیاکہ عمر بن ہشام نے محمد ﷺ کے ساتھ ایسے بدسلوکی کی ہے  ۔ وہ غصے سے دارلندوہ کی جانب بڑھے ، ابوجہل وہاں سردارانِ قریش کے ساتھ بیٹھا تھا ۔ حمزہ بن  عبدالمطلب نے جاتے ہی اپنی کمان اس زور سے اس کے سر پر ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا۔ مگر حمزہ کے تیور دیکھ کر چپ سادھ لی ۔ حمزہ بن عبدالمطلب  محمد ﷺ کے پاس جا کر انہیں بتاتے ہیں کہ بھتیجے میں نے تمہارا بدلہ لے لیا ہے ۔ مگر ملاحظہ فرمائیے رحمت عالمﷺ کا جواب:۔ چچا جان مجھے اس بات سے کوئی خوشی نہیں ہوئی ، مجھے خوشی تب ہو گی جب آپ اسلام قبول کر لیں گے۔
اہل مکہ محمد ﷺ کے جانی دشمن ہو چکے ہیں ، آپ ﷺ کو قتل (نعوذ باللہ) کرنے کے منصوبے بن چکے ہیں ، مگر پھر بھی یہ حال ہے کہ مکہ کے تمام لوگ اپنی امانتیں محمد ﷺ کے پاس رکھتے ہیں ۔ اور محمد ﷺ کی مانت داری کا عالم دیکھئے ۔  دشمنوں نے آپ ﷺ کے گھر کو گھیرے میں لے رکھا ہے ، زہر میں بجھی تلواریں ، بھالے اور نیزوں سے مسلح ہیں ، تاکہ ایک کھرونچ بھی لگے تو نعوذباللہ آپ ﷺ  کا کام تمام ہو جائے ، اللہ کی طرف سے محمد ﷺ کو ہجرت کا حکم ہوتا ہے ، مگر محمد ﷺ کو اپنی جان سے زیادہ اپنے جانی دشمنوں کی رکھوائی امانتوں اور ان کی با سلامت واپسی کی فکر ہے ۔  کائنات میں محمد ﷺ سے زیادہ امانت دار  کسی نے دیکھا یا سنا ہو تو وہ مجھے بتائے ۔ محمد ﷺ اس وقت تک گھر سے باہر قدم نہیں نکالتے جب تک اپنے چچا زاد بھائی علی کو ان امانتوں کی بخیر واپسی کی تاکید اور ذمہ داری نہیں سونپ لیتے۔
محمد ﷺ یثرب پہنچ چکے ہیں ، بیماریوں کا گھر اب مدینہ منورہ قرار دیا جا چکا ہے ، اور اللہ تعالیٰ اپنے قرآن میں اس شہر کی قسمیں کھا رہا ہے ۔محمد ﷺ مدینہ میں مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں ، ایک موزوں اور مسجد کیلئے نہایت مناسب جگہ بھی موجود ہے اور اس زمین کے مالک بخوشی اسے مسجد کیلئے دینے آئے ہیں ۔ مگر محمد ﷺ بلا معاوضہ وہ زمین لینے کیلئے رضامند نہیں کیونکہ اس زمین کے مالک دو یتیم بھائی ہیں۔ جب تک زمین کی قیمت نہیں دے دی جاتی ، وہاں مسجد کی تعمیر شروع نہیں ہوئی ۔ مسجد تعمیر ہو رہی ہے جانثار ان  مسجد کی تعمیر میں جانفشانی سے منہمک ہیں ، مگر یہ دیکھئے ، یہ جو اتنا بھاری پتھر اٹھا کر لا رہے ہیں ،یہ محمد ﷺ ہیں ، صحابہ کرام بے اختیار دوڑ کر آپ سے وہ پتھر لے لیتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ آپ تعمیر کی نگرانی کیجئے ، مگر ذرا یہ منظر تو دیکھئے محمد ﷺ ایک اور پتھر اٹھا کے لا رہے ہیں ۔ محمد ﷺ گارا ڈھو رہےہیں ۔ محمد ﷺ ستونوں اور شہتیر وں کے لیے کھجور کے تنے کٹوا رہے ہیں ، انہیں اٹھا کر لا رہے ہیں ، اور اٹھوانے میں دوسروں کی مدد کر رہے ہیں۔
محمد ﷺ مدینہ کے بلا روک ٹوک حکمران ہیں ، مگر وہ یہودیوں کے قبیلوں کے ساتھ معاہدہ کر رہے ہیں ، جسے میثاقِ مدینہ کا نام دیا جا رہا ہے ۔ کسی پر اسلام قبول کرنے کیلئے کوئی سختی نہیں کی جا رہی ، جو غیر مسلم ہیں ان کے حقوق کی بھی اتنی ہی حفاظت کی جارہی ہے جتنی کہ ایک مسلمان کے حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے۔
مدینہ پر دشمنوں کے حملے کی اطلاعات ہیں ، تین سو تیرہ جانبازوں کے ساتھ محمد ﷺ بدر کے میدان میں موجود ہیں ۔آئیے آپ کو ایک سپہ سالار سے ملواتا ہوں ۔ مجھے یقین ہے روئے زمین پر نہ کسی نے ایسا سپہ سالار دیکھا ہوگا نہ سنا ہوگا۔وہ سامنے دیکھئے جہاں مسلمان مجاہد صفیں باندھ رہے ہیں ، اور سپہ سالار ان کی صفوں کا معائنہ کرتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے ایک تیر سے صفیں بھی درست کرتے جا رہے ہیں ۔ ایک مجاہد صف سے نکل کر سامنے آتا ہے اورکہتا ہےکہ آپ نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے ،آپ نے میرے جسم پر زور سے چھڑی مار دی ہے ، جس سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے ،  مجھے اس کا بدلہ چاہیے ۔ سپہ سالارنے  اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی اپنی اس مختصر فوج کے سپاہی کے ہاتھ میں دے دی ہے ، اور اسے کہتے ہیں کہ یہ لو اور اپنا بدلہ لے لو۔ سپاہی کہتا ہے کہ نہیں ، اس طرح نہیں ، کیونکہ آپ نے میرے جسم پر چھڑی کی ضرب لگائی تو میرے جسم پر کپڑا نہیں تھا ۔ جبکہ آپ قمیض پہنے ہوئے ہیں ۔ اور سپہ سالار اپنی قمیض اتار کر خود کو پیش کر دیتے ہیں کہ آؤ اور مجھے چھڑی کی ضرب لگا کر اپنا بدلہ لے لو۔کیا کوئی ایسی مثال اور بھی ہے دنیا میں؟  روم  کے سیزر، ایران کے دارا ، نوشیروان، جمشید ، کیخسرو ،  مصر کے فراعنہ ، منگولیا کے چنگیز خان اور ہلاکو خان، چین کے سمراٹھ ، برطانیہ کا جنرل لارڈ کلائیو  ہو یا جنرل منٹگمری ، اٹلی کا مسولینی ، جرمنی کا ہٹلر یا امریکہ کا جنرل میک آرتھر ۔ ،دنیا اس عظیم سپہ سالار کی مثل ڈھونڈ لانے سے عاجز ہے۔
مسلمان اللہ کی مدد سے لڑائی جیت چکےہیں ، مخالف لشکر کے تقریباً  ستر سپاہی قیدی بنائے جا چکے ہیں ، باندھتے وقت باندھنے والوں نے ان کے ہاتھ ذرا سختی سے باندھ دئیے ہیں ، رات کو جب محمد ﷺ قیدیوں کے کراہنے کی آواز سنتے ہیں تو بے چین ہو جاتے ہیں ، اور فرماتے ہیں قیدیوں سے بندھی رسیاں کچھ ڈھیلی کر دو۔ صبح مجلسِ شوریٰ میں فیصلہ ہوتا ہے کہ جو قیدی پڑھنا لکھنا جانتے ہیں ، وہ مسلمانوں کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں اور آزادی پائیں۔ اور جو ان پڑھ ہیں وہ فدیہ دے کر رہائی پا سکتے ہیں ۔ کیا جنگی قیدیوں کے ساتھ ایسے حسنِ سلوک کی مثال کہیں اور ہے؟؟؟؟   ً         
احد کے میدان میں جب مسلمان دوبارہ جوش سے حملہ کرتے ہیں ، اور کفار کو میدان چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں ، تو اس وقت اگر ان کا پیچھا کیا جاتا تو بڑی آسانی سے ان کو تہہ تیغ اور گرفتار کیا جا سکتا تھا ۔ مگر سپہ سالار کا مقصد قتل و غارت نہیں تھا ۔ پھر جب مکہ کے کفار عرب کے تمام غیر مسلم قبائل کو ساتھ ملا کر مدینہ پر حملہ آور ہوتے ہیں تو سپہ سالار سب سے مشورہ کرتے ہیں ، حضرت سلمان فارسی کے مشورے پر شہر کے ایک طرف خندق کھودنے کا فیصلہ ہوتا ہے ، اور دیکھنے کے لائق یہی منظر ہے جب باقی سپاہیوں کے ساتھ فوج کا سپہ سالار بھی خندق کھودنے میں شامل ہے  ، جسمانی طاقت کا یہ عالم ہے کہ ایک چٹان جو بہت سے زور آوروں کی کدال بازی سے بھی نہیں ٹوٹ رہی ، محمد ﷺ کی ایک چوٹ سے ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے ۔
 اگر آپ کا کلیجہ تاب لا سکے توایک اور منظر دیکھئے  :۔  بعض جانثارآ کے خوراک کی قلت کے باعث  کمزوری اور بھوک کی شکایت کرتے ہیں ، اور اپنے پیٹ پر بندھے پتھر دکھاتے ہیں  تو  سپہ سالار بھی اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹاتے ہیں تو سب نے دیکھا کہ سپہ سالار کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے ہیں ۔
بہادری اور شجاعت کی بات ہو تو اس ضمن میں  بھی کوئی ثانی نہیں ، حضرت علی المرتضیٰ جنہیں اللہ کے رسول ﷺ نے اسد اللہ کا لقب عطا کیا ، وہی علی رضی اللہ تعالی  عنہ  فرماتےہیں ، جنگ کے دوران ، میں نے محمد ﷺ سے زیادہ دشمن کے قریب اور شجاع کوئی نہیں دیکھا ۔حنین کا میدان ہے ، دشمن کے تیروں کی بوچھاڑ اور حملے کی شدت سے جب بڑے بڑے بہادروں کے قدم میدان سے اکھڑ چکے ہیں تو چشم فلک حیرت سے میدان میں ڈٹے سپہ سالار کو دیکھا ، جو اللہ کی وحدانیت کا اعلان کرتے ہوئے  بہادری سے دشمن کا سامنا کر رہے ہیں۔
یہاں دیکھئے ، سپہ سالار اپنے سپاہیوں کو کہیں جنگ پر بھیجتے وقت ہدایات دے رہے ہیں :۔ عورتوں اور بچوں پر ہاتھ مت اٹھانا
مذہبی لوگوں (پجاری، پادری، پروہت، راہب) پر ہاتھ مت اٹھانا
درخت نہ کاٹنا ، دشمن کی فصلیں مت اجاڑنا
جو ہتھیار ڈال دے اس پر ہاتھ مت اٹھانا
قیدیوں پر سختی مت کرنا وغیرہ وغیرہ 
اور دیکھئے یہ وہی مکہ ہے جہاں سے محمد ﷺ رات کے اندھیرے میں اللہ کے حکم سے ہجرت کر گئے تھے ۔ یہ وہی ابو سفیان ہے جس نے محمد ﷺ کی دشمنی میں کوئی کسر نہ چھوڑ رکھی تھی ، جو جنگ بدر کا   باعث بنا ، اور پھر اسی سبب  سے  جنگ احد ہوئی ، اور یہ ابو سفیان کی بیوی ہند ہے ، جس کا باپ عتبہ ، اور بھائی شیبہ اور ولید اسلام دشمنی میں سب سے آگے تھے ، اور یہ وہی ہند ہے جس نے محمد ﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزہ کو  نہ صرف شہید کروایا بلکہ ان کا کلیجہ چبا کر اپنی قسم بھی پوری کی تھی۔ اور یہ وہی محمد ﷺ ہیں جو اعلان کر رہے ہیں ، جو ابو سفیان کے گھر پناہ لے اسے امان ہے ۔  اور یہ وہی اہل مکہ ہیں ، جنہوں نے  محمد ﷺاور ان کے ساتھیوں کیلئے دائرہ حیات تنگ کر رکھا تھا ،  وہ کونسا ظلم اور زیادتی تھی جو روا نہیں رکھی گئی ۔  مگر  محمد ﷺ فرماتے ہیں ۔ لا تثریب علیک الیوم  آج کے دن تم سے کوئی باز پرس نہیں۔
اور یہ میدانِ عرفات ہے ، محمد ﷺ مسلمانوں کے ساتھ حج کرنے آئے ہیں ، اور اپنا تاریخی خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں ۔ کسی گورے کو کالے پر ، کسی کالے کو گورے پر ، عربی ، کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں
آئیے ذرا ان کی عائلی زندگی پر نظر ڈالیں :۔ محمد ﷺ گھر میں جھاڑو بھی دے رہے ہیں ، اپنے کپڑے خود ہی رفو کر رہے ہیں ، بکری کا دودھ بھی دوہ رہے ہیں ، اپنے جوتے مبارک بھی خود گانٹھ رہے ہیں ۔ اپنے گھوڑے اور دوسرے جانوروں کو چارہ بھی خود ڈال رہے ہیں ۔
 محمد ﷺ شوہر ہیں ۔جو اپنی تمام ازواجِ مطہرات کو باقاعدہ اجازت دے رہے ہیں کہ گھر میں رہتے ہوئے مجھ  میں  جو کچھ بھی آپ دیکھتی ہیں ، وہ آپ عوام الناس پر ظاہر کر سکتی ہیں ۔ کیا اس قدر شفاف زندگی کی کوئی اور مثال ہے کہیں ؟؟؟؟؟
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ساتھ گھر میں دوڑنے کا مقابلہ کر رہے ہیں ،اپنے ساتھیوں کو تاکید کر رہے ہیں کہ اپنی بیویوں کا خاص خیال رکھا کرو ، وہ تمہارا لباس ہیں تم ان کا لباس ہو، ان کے ساتھ بد سلوکی مت کرو، ان کے منہ پر مت مارو،  ان میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھو تو بجائے دوسروں کے سامنے ان کی بے عزتی کرنے کے انہیں گھر میں سمجھا ؤ ، طلاق اللہ کے نزدیک جائز کاموں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ فعل ہے ۔ اگر بیویوں کو طلاق دے دو تو پھر انہیں اچھے طریقے کچھ دے کر رخصت کرو ، انہیں ظلم سے روکے مت رکھو،یاد رکھوتم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے اچھا ہے۔
محمد ﷺ باپ ہیں ۔ آپ کی پیاری بیٹی جب آپ سے ملنے کو تشریف لاتی ہیں تو آپ اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر استقبال کرتے ہیں ، اپنی چادر ان کے بیٹھنے کیلئے بچھاتے ہیں ، ان کا حال احوال پوچھتے ہیں ، اپنے ساتھیوں سےفرماتے ہیں کہ جس شخص کی بیٹیاں ہوں اور وہ ان کو اچھے طریقے سے پال پوس کر انہیں اپنے گھروں کا کردے تو قیامت کے دن میرے ساتھ ہو گا ۔  جس عورت کی پہلی اولاد بیٹی ہو وہ نیک بخت ہے۔
محمد ﷺ صرف انسانوں کیلئے ہی رحمت نہیں ہیں ، آپ جانوروں کیلئے بھی سراپا رحمت ہیں ۔ 
ایک اونٹ محمد ﷺ کو دیکھ کر بلبلانے لگا ، آپ نے اس کے مالک کو بلوایا اور فرمایا کہ اپنے جانور کے کھانے پینے کا خیال رکھا کرو ، اور اس پر زیادہ بوجھ مت لادا کرو۔ سفر کے دوران ایک جگہ پڑاؤ ڈالا توایک چڑیا کو بے تابی سے چکر کاٹتے دیکھ کر پوچھا کہ  کیا کسی نے اس کو ستایا ہے ، کچھ صحابہ عرض کرتے ہیں کہ گھونسلے میں انڈے پڑے تھےوہی اٹھا ئے ہیں ۔ محمد ﷺ انڈے واپس گھونسلے میں رکھنے کا حکم  دیتے ہیں ، اور  بے سبب جانوروں اور پرندوں کو ستانے سے منع فرماتے ہیں۔
اس چھوٹی سی تحریر میں ، ان کی زندگی کا احاطہ کرنا ناممکن ہے ، اس لیے صرف انہی چند مثالو ں پر اکتفا کیا گیا ۔ اب آپ ہی انصاف کیجئے اور بتائیے بھلا ایسی پیاری ہستی سے کوئی کیسے نہ پیار کرے ، کیسے نہ ان کی تعریف کرے ، پیارے نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے جان، مال ،ماں ، باپ آل  اولاد سے بڑھ کر زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں ۔

 رحمت ِ عالم کی زندگی میری  امت میری  امت کرتے گزر گئی، اور امت کا یہ حال ہے دعویٰ ایمان کا ہے مگر ناموسِ رسالت سے زیادہ ہمیں اپنے دو چار روپے زیادہ عزیز ہیں  ، یہودی  گستاخانہ ، کارٹون ، خاکے شائع کریں ، یا گستاخانہ فلم بنائیں ، ہم ان کی مصنوعات کا استعمال ترک کر کے اپنا احتجاج تک ریکارڈ نہیں کروا سکتے ، ہاں البتہ اپنی ہی چیزیں توڑ پھوڑ کر ، آگ لگا کر اپناجھوٹا غصہ ٹھنڈا کر سکتے ہیں ۔ 

 کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ ۔۔۔۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی    

Tuesday 8 January 2013

تو شاہین ہے ، بسیرا کر۔۔۔۔۔۔

1 آرا




تو شاہین ہے ، بسیرا کر۔۔۔۔۔۔





ہمارے ملک میں بہت سی چیزوں کا رواج ہے اور بہت سی "چیزوں "کا راج ہے ۔ایک رواج   تو یہ ہے کہ جو شاعر نہیں ہیں  وہ بھی شاعری کرتے ہیں ۔یہاں اتنی چیونٹیاں نہیں ہیں  جتنے شاعر ہیں اور اوپر سے قیامت یہ کہ محبوب کو تشبیہات دیتے دیتے  جانور بنا دیتے ہیں ۔ مثلا ً تمہارے ناک طوطے جیسی ، تمہاری آواز کوئل جیسی ،  تمہاری چال مور جیسی وغیرہ وغیرہ۔ گویا اب محبوب کی تلاش میں چڑیا گھر کی سیر کرنی پڑے گی ۔۔۔ شاعر لوگ خود چاہے 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ سہتے رہیں ، مگر محبوب کی آنکھوں سے یوں بجلیاں گرواتے ہیں  جیسے ہمارے ملک کی سب سے زیادہ  بجلی محبوب کی آنکھوں سے حاصل ہو تی ہے ۔
ایک دن اپنے  وارث مرزا  بے غم  کے سامنے شیخی بگھار رہے تھےکہ میں اپنی شاعری کے ذریعے دنیا میں آگ لگا سکتا ہوں ۔ آپا جی شاید پہلے ہی ان کی باتوں سے جلی بھنی بیٹھی تھیں، بولیں :۔ اچھا تو دو چار غزلیں  چولہے میں بھی پھینک دیں ، گھنٹا ہونے کو آیا ہے مگر آگ نہیں جل رہی۔۔۔۔

میرےایک  دوست بھی شاعر ہیں ۔ نہ صرف میٹرک پاس ہیں بلکہ بقول کرنل محمد خان:۔"اس کے علاوہ کچھ فالتو تعلیم  بھی حاصل کر رکھی ہے" ۔ شاعری کا شوق پیدا ہوا تو کچھ گوگل کی مدد لی اورکچھ  ادھر ادھر سے  کتابیں حاصل کر کے بادل نخواستہ  مطالعہ بھی کرنا پڑا  تاکہ الفاظ کا  ذخیرہ اکٹھا  کر سکیں ۔ ایک دن جو میں نے دیکھاتو موصوف کچھ کا غذات کو ترازو میں رکھ کر تول رہے تھے ۔ میں بہت حیران ہوا اور سمجھا کہ شاید وہ یہ کاغذات ردی میں بیچنے کا ارادہ رکھتے ہوں گے  مگر پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ اپنی شاعری کو وزن میں لا رہے ہیں ۔جب میں نے پوچھا کہ کتنا وزن ہے  آپ کی شاعری کا ؟ تو بولے دو اعشاریہ آٹھ گرام ۔ اور ان کی اسی بات سے متاثر ہو کر انہیں علامہ اقبال ؒ کی نسبت سے" شاعرِ شمال مشرق" کا خطاب دے ڈالا۔

ایک دن اخبار میں  اشتہار پڑھا کہ ملی نغموں کی شاعری کا مقابلہ ہو رہا ہے  تو موصوف جو پہلے ہی موقعے کی تلاش میں تھے ، فوراً کاغذ قلم سنبھال کر ملی نغمہ لکھنے کیلئے تیار ہو گئے ، ذخیرہ الفاظ کی کمی کے پیش ِ نظر احتیاطاً  اردو لغت بھی لائبریری سے لا کر اپنے پاس رکھ لی ۔ اردو لغت کے ذخیرہ الفاظ اور اپنی خداداد شاعرانہ صلاحیتوں کی مدد سے اپنے وطن کی شان میں پہلا مصرعہ کہا :۔
اے وطن تجھے نومی ہم بنائیں گے
میں نے نومی کا مطلب پوچھا تو فیروز اللغات میرے آگے کرتے ہوئے بولے  کہ یہ دیکھو۔ اس کا مطلب ہے سونے والا ، اور میں اپنے وطن کو سونے چاندی سے لاد دینا چاہتا ہوں ۔ میں نے سمجھایا کہ نومی کا مطلب زیورات والا سونانہیں بلکہ آنکھیں بند کر کے سونے والا سونا ہے ۔ جیسے تم کمبل میں کچھوے کی طرح گردن چھپا کر سوئے رہتے ہو ۔ اس بات پر ذرا کھسیانے ہوئے اور مقابلے میں ملی نغمہ بھیجنے سے باز آئے ۔

ایک دن ان کے جی میں نجانے کیاسمائی  کہ "شوہر کی شان" نامی ایک مزاحیہ نظم لکھی اور میرے سامنے ملاحظے اور داد کیلئے رکھی ، اور خود سینہ چوڑا کر کے یوں بیٹھ گئے  جیسے نظم لکھ  کر انہوں نے دنیا بھر کے شوہروں پر احسانِ عظیم کر دیا ہو ۔ میں نے حواس مجتمع کر کے ، جی کڑا کرکے نظم کا پہلا مصرعہ پڑھا:۔
چوپائیوں سے بھی بڑھ کے وفادار ہیں شوہر
میں نے پوچھا چوپائیوں سے تمہاری مرادکیا ہے؟ فرمانے لگے چوپایہ نامی ایک قوم تھی جس کی وفاداری ضرب المثل بن گئی ہے ۔ میرے دماغ میں ایک شرارت آئی ، میں نے کہا کہ اگر برا نہ مانو تو تمہیں ایک مشورہ دوں اگر چوپایہ کا مطلب وفادار ہے تو تم اپنا تخلص چوپایہ رکھ لو   میری یہ تجویزاس وقت  تو  موصوف کو بہت پسند آئی مگر اگلے دن منہ بنایا ہوا تھا ، جو مجھے دیکھتے ہی اور بھی زیادہ بن گیا

یہ تو حسبِ عادت گپ بازی تھی ، جس کے بغیر میں رہ ہی نہیں سکتا، مگر سچ تو یہ ہے کہ بندہ بڑا باذوق ہے ۔

ہماری  پہلی ملاقات شہزاد احمد کے تھریڈ پر ہوئی تھی ، اوراب ان کا کہنا ہے کہ "میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑتا ۔"

ایک دن نیٹ گردی کرنے کے دوران ان کے بلاگ پر بھی جا پہنچا ، دل خوش ہو گیا ، بہت زبردست بلاگ بنایا ہوا ہے ، صرف احمد فراز کی شاعری ہی نہیں بلکہ غالبؔ ، اقبالؔ کے علاوہ دیگر کلاسیکی اساتذہ  کا کلام  بھی زینتِ بلاگ  ہے ۔ انہی  جیسے لوگوں کیلئے شاید یہ محاورہ بنا تھا " ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات"
موصوف کم عمر ترین مگر فعال محفلین ہونے کے بھی دعویدار ہیں ۔ اس عمر میں جب لڑکے لڑاکیوں کے پیچھے کائیں کائیں  کرتے پھرتے ہیں، علامہ اقبال کے یہ شاہین  صاحب  الف چاچو کے مدرسے میں  فاعلاتن، فاعلات کرتےہوئے ملتے ہیں۔ ایک دن بکھرے بالوں کے ساتھ مل گئے، حا ل پوچھا تو بیزاری سے بولے :۔ تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں اور ہم بیزار بیٹھے ہیں۔میں بھلا کہاں ادھار رکھنے والا تھا، کہہ دیا :۔ ایسا تو ہوتا ہے اس طرح  کے کاموں میں۔

ایک دن خبر آئی کہ موصوف  ونڈوز 8 کا بیڑہ غرق کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔یعنی کہ انسٹال کرنے کے چکر میں ہیں
 
اس کے بعد سے کوئی خبر نہیں

اللہ خیر کرے  
 

Sunday 6 January 2013

کوئی پرانی یاد

0 آرا




کوئی پرانی یاد





کوئی پرانی یاد میرا رستہ روکے مجھ سے کہتی ہے 


اتنی جلتی دھوپ میں یوں کب تک گھومو گے


آؤ


چل کے بیتے دنوں کی چھاؤں میں بیٹھیں


اس لمحے کی بات کریں


کہ جس میں کوئی پھول کھلا تھا


اس لمحے کی بات کریں


کہ جس میں کسی آواز کی چاندی کھنک اٹھی تھی


اس لمحے کی بات کریں


کہ جس میں کسی کی نظروں کے موتی برسے تھے


کوئی پرانی یاد میرا رستہ روکے مجھ سے کہتی ہے 





کرم فرما