Pak Urdu Installer

Monday 8 April 2013

ڈبویا مجھ کو ہونے نے (قسط اول) ۔

7 آرا



 آسماں سے اتارا گیا


پاکستان میں فی کس آمدنی یا  زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو یا نہ ہو,  آبادی میں اضافہ تو پہلے دن سے ہو رہا ہے اور حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہاجا سکتا ہے کہ ہوتا رہے گا۔اس لیے پاکستان کے ایک دور افتادہ ضلع کے دور افتادہ گاؤں میں ہونے والی , جوگی کی پیدائش کو بھی کوئی انہونا واقعہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔
البتہ جوگی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ایک دھاندلی تھی ، جس کے تحت اچانک اسے دارلقرار سے دار الخجالت میں دھکا دے دیا گیا تھا۔اوراس دھاندلی کی شانِ نزول کے طور پر ماضی بعید میں کی جانے والی جوگی کے جد ِ امجد کی ایک چھوٹی سی حکم عدولی سنا کر "زخم پر نمک چھڑکا" گیا۔
روایت ہے کہ جوگی نے دنیا میں آمد کا اعلان ایک دردناک چیخ سے کیا، جس میں بیک وقت بے بسی،ناراضگی اور  استاد جی سے جدائی کادرد جھلک رہا تھا۔مگر جس دنیا سے نجم الدولہ ، دبیر الملک ، نظام جنگ خان بہادر اسد اللہ بیگ جیسے پھنے خان "قدرِ سنگِ سرِ راہ رکھتا ہوں"کا شکوہ  اور "دے مجھ کو زباں اور" کا ورد کرتے  رخصت ہو گئے  اس  نقار خانے میں اس چھوٹے موٹے جوگی کی بھلا کیا حیثیت ہوتی۔یوں دنیا کا فرسٹ امپریشن  ہی جوگی پر کچھ ایسا الٹا پڑا کہ اس نے دنیا کو مبلغ ایک عدد طلاق دے ڈالی... صرف یہی نہیں بلکہ احتجاج کے طور پر بولنے چالنے کا بھی بائیکاٹ کر دیا۔ چند ثقہ راویوں کے مطابق جب جوگی کے اس احتجاج نے طول پکڑا اور 3 سال کا ہو جانے کے بعد بھی اس نے منہ سے ایک لفظ بول کے نہیں دیا تو متعلقین میں تشویش ناک لہروں کی میراتھن  دوڑ شروع ہو  گئی۔  کچھ عجلت پسند بزرگوں نے جوگی کے گونگے ہونے کے امکان پر بھی اچھی خاصی روشنی پھینکی۔آخر کار پتا نہیں کس کس جتن سے "کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے"

 جوگی کی پچھلی سات چھوڑ جتنی بھی پشتوں پر نظر دوڑائی جائے تو یہ ظاہر ہوگا کہ اس قبیلے میں تصوف، فقیری اور حکمت  کا دور دورہ تھا، یہاں علم سے مراد علمِ باطن ، علم الانسان اور علم دین سمجھا جائے، جدید تعلیم (اس زمانے کے مطابق) کو شجرِ ممنوعہ قرار دیا جا چکا تھا۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ اس بات کی خوب وضاحت کرے گا۔یہ تب کی بات ہےجب  پاکستان کا بھی بچپن تھا اور جوگی کے  والد صاحب کا بھی..یاد رہے کہ اس زمانے میں اس علاقے کا عمومی لباس دھوتی اور کُرتا ہوتاتھا.  انہیں سکول داخل کرایا گیا،پرائمری تک تو سب ٹھیک چلتا رہا مگر جب چھٹی جماعت میں پہنچے  تو اس زمانے میں شلوار قمیص کو لازمی وردی  قرار دیا گیا اور بچوں پردھوتی (تہبند) کی بجائے شلوار قمیص  پہن کر آنے پر زور دیا گیا ، اس سلسلے میں ابا جان سے روایت ہے کہ " ایک دن جب ہم کچھ بچے بدستور دھوتی میں ملبوس سکول اسمبلی میں پائے گئے تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے سکول سے واپس گھر بھیج دیا. کہ وردی کے بغیر سکول نہ آنا.جب ہم سکول سے گھر پہنچے تو والد صاحب دربار شریف کے سامنے ٹہل رہے تھے ۔ ہمیں جو یوں بے وقت آتا دیکھا تو غضب ناک ہو گئے ، مگر جب صورتِ حال واضح کی گئی کہ ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا ہے کہ شلوار پہن کر آؤ ورنہ نہ آنا ۔ تو  اباجان نے اسی وقت ہمیں ساتھ لیا اور سکول  جا پہنچے ۔ سادات کا جلال سب جانتے تھے ، اس لیے ہیڈ ماسٹرصاحب کو ابا جان کی آمد کی اطلاع ہوئی تو چپکے سے دفتر سے نکلے اور کہیں غائب ہو گئے ۔ اباجان اساتذہ پر خوب گرجے برسے ، اور وہ سر جھکائے سنتے ناں تو بھلا کیا کرتے ۔ بعد میں ہیڈ ماسٹر صاحب نے گھر آ کر معافی مانگی اور اپنی مجبوری بتائی ۔ مگر ابا جان  نے اپنے بچوں کو سکول بھیجنے سے انکار کر دیا۔"
خیر جوگی کا بچپن آنے تک زمانہ کافی آگےبڑھ چکا تھا اور پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔


ہمہ از قبیلہ من عالمان بودند

یوں تو فی زمانہ سید ہونا کوئی بڑی بات نہیں ۔ تقسیم ہند کے بعد برصغیر کا ہر ایرا غیرا نتھو خیراسید اور راجپوت ہو گیا ۔ایسے میں بھلا میں کیا اپنی نجابت کے قصے سنا سنا کے قارئین کا وقت ضائع کروں ۔ کسی کو مرعوب کرنا یا اپنی نجابت کا ڈھنڈورا پیٹنا ہر گز مقصود نہیں ۔ مقصد صرف ایک مختصر تعارف ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ "وہ کیا گردوں تھا جس کا ہوں میں اک ٹوٹا ہوا تارا۔" اور پڑھنے والوں پر بھی واضح ہو جائے کہ صرف سید ہونے کا دعویٰ کر نے  یا سید ہونے کی اداکاری سے کوئی سید نہیں ہو جاتا ۔  
جوگی کو جس خاندان میں پیدائش کا لائسنس جاری ہوا تھا۔ اس پر شیخ سعدیؒ کا یہ مصرعہ اس بری طرح فٹ آتا ہے کہ ذیل میں مذکور  چند مثالوں سے یہ سمجھنا مشکل نہ ہوگا کہ اس خاندان میں جلال اور کمال کی کوئی کمی نہیں ، اور جمال تو ویسے بھی سادات کی  ایک عام نشانی ہے ۔   بخاریوں  میں پیدا ہونے والےجوگی  کا سلسلہ نسب اچ شریف میں حضرت سید بدرالدین بخاریؒ  سے جا ملتا ہے ۔اس طرح حضرت شیر شاہ سید جلال الدین بخاری ؒ(سرخ پوش) اور حضرت جلال الدین بخاری ؒ (مخدوم جہانیاں جہانگشت )جیسے جلالی بزرگوں کی اس شجرہ میں موجودگی اس خاندان کی جلالیت  کا عالم واضح کرنے کیلئے کافی ہے ۔
روایات کے مطابق ہمارے جد امجد حضرت سید باغ علی شاہ بخاری ؒ (اول) مشیت ایزدی سے اس علاقہ میں تشریف لائے ۔ جو کہ اس زمانے میں ہندومت کا گڑھ تھا ۔ انہوں نے نواحی جنگل میں  ڈیرہ ڈالا اور انسانوں اور جنوں کو مشرف بہ اسلام کیا ۔ ان کے سجادہ نشیں سید محمد نواز شاہ بخاری ؒ (اول) کی  ایک مشہورِ زمانہ حکایت جو بڑے بوڑھوں کے ذریعے سینہ بسینہ چلی آتی ہے ۔ ایک دن انہیں کسی نے کھال پھاندتے دیکھا ۔ حیرانی کی بات کھال پھاندنا نہ تھی ، مگر وہ ایک طرف پھاند کے پھر دوبارہ واپس پھاندتے ۔ کچھ دیر جب یہی شغل جاری رہا تو دیکھنے والوں کی حیرت فطری تھی ۔ پوچھنے پر جواب ملا کہ :۔" کہنے والے کہتے ہیں یہ دنیا ڈھائی قدم ہے ، مگر میرا تو ایک قدم ہو رہا ہے ۔" یہ کہہ کر انہوں نے پھر دوسری طرف چھلانگ لگائی 
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
دشت امکاں کو ہم نے نقش پا پایا
ان کے زمانے کا آنکھوں دیکھا واقعہ بھی شاید ہی کسی کو بھولا ہو ۔ کوٹ بنایا جا رہا تھا (سرائیکی میں گاؤں کے ارد گرد حفاظتی دیوار کو کوٹ کہتے ہیں ) دوپہر کے وقت مزدور سستانے کیلئے بیٹھے تو ان کی شامت آئی کہ پیر صاحب سے کہا :۔ " پیر سائیں ! حقہ پینے کیلئے تھوڑی سی آگ تو منگوا دیں (واضح رہے کہ ہمارے خاندان میں کسی بھی قسم کی تمباکو نوشی ، یا منشیات کا استعمال تو انتہائی سختی سے ممنوع ہے ہی ، دربار شریف اور اس گاؤں کی حدود میں بھی سگریٹ حقہ وغیرہ قسم کی کسی بھی چیز کا استعمال ممنوع ہے ۔ خلاف ورزی کرنے والا اپنے انجام کا خود ذمہ دار ہوتا ہے)انہیں شاید معلوم نہیں تھا اس لیے بے خبری میں فرمائش کر دی ۔  دادا جان کے دادا جان نے جلال کے عالم میں قریب ہی کھیلتے بچے سے کہا :۔ " ونج خدا بخش شاہ بھا چاوا" (جاؤ خدا بخش آگ لے آؤ )  وہ بھاگتے ہوئےگئے  اوراپنی جھولی انگاروں سے بھر کے لے آئے ۔ مزدوروں کیلئے اتنا نظارہ ہی کافی ہو گیا ۔ فوراً حقہ توڑ کے توبہ تائب ہو گئے ۔
(شاہ خدا بخش شاہ ؒ  صاحب پیدائشی مجذوب تھے ، اور میری دادی جان کے والد گرامی تھے۔ )
ہمارے اجدا د کے وہاں آباد ہونے سے پہلے وہ ویرانہ جنات کا مسکن تھا ۔ پھر وہ اسلام قبول کر کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے۔ ان کے بچے ہمارے بزرگوں سے ہی قرآن مجید کی تعلیم پاتے رہے ۔ پھر ہمارے پردادا سید عبدالقادر شاہ بخاری ؒ(دوم ) کا زمانہ آیا ۔  دو بیگمات سےان کے سات بیٹے تھے ۔ اس زمانے تک دربار عالیہ کوٹ والا پر ہر سال بہت بڑا میلہ لگتا تھا. ایک بار میلے کے موقع پر کسی نے ان سے کسی بیٹے کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا :۔ " اگلے سال نہ فقیر ہوسی ، نہ میلہ (اگلے سال نہ فقیر زندہ ہوگا ، نہ ہی میلہ لگے گا)۔" ان کے یہ الفاظ جیسے پتھر پہ لکیر ہو گئے ۔ ان کی وفات کے بعدباوجود کوششوں کے میلہ پھر نہ لگ سکا ۔  اماں جان سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ان کی دادی اور میری پردادی جان نے پردادا جان سے کہا کہ گھر میں لکڑیاں ختم ہو گئی ہیں ۔ کچھ انتظام کیجئے . انہوں نے جنات خادمین سے لکڑیوں کا انتظام کرنے کہہ دیا۔ اور انہوں نے ساتھ والے گاؤں سے ہر خشک لکڑی کےڈھیر سمیت رہٹ  کی لکڑیا ں بھی اکھاڑ کر  حاضر کر دیں ۔  جب اس گاؤں کے لوگوں کی  شکایت پر راز کھلا  توپردادا جان نے جنوں کی اچھی خاصی کلاس لی ۔ مگر جب جال(پیلو) کے درخت سے ایک شخص الٹالٹکا پایا گیا ، اور چھان بین پر معلوم ہوا کہ کسی صاحبزادے کے حکم کی خلاف ورزی کی سزابھگت رہا تھا تو یہ واقعہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا ۔ پردادا جان نے جنوں کے قائدین کو بلایا اور کہا کہ  میرے بعد میری اولاد تمہیں اپنے مفادات کیلئے استعمال کرے گی  اس لیے آپ سب کو رخصت دی جاتی ہے ۔ان کی وفات کے بعد اکثر قبائل چلے گئے اور باقیات کی موجودگی ہمارے نانا جان کے زمانے تک ثابت ہے ۔ 
عینی شاہدین سے روایت ہے جب اچ شریف سے پیر صاحب تشریف لائے تھے ، دربار شریف میں حاضری اور کشف قبور کے بعد جب وہ باہر آئے تو باوجود سرد موسم  کے پسینہ پسینہ ہو رہے تھے ، اور چہرہ لال سرخ تھا ۔ باہر آتے ہی انہوں نے پینے کیلئے پانی منگوایا اور فرمایا :۔ " اس قدر جلال ۔۔۔۔ ! ہم نے کبھی نہ دیکھا تھا ۔ میں نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ؒ کے مزار پر بھی ان سے ملاقات کی ہے ۔ اور انہوں نے اپنے مزار سے باہر آ کر میرا استقبال کیا تھا ۔ مگر یہاں تو عالم ہی اور ہے ۔ "دراصل وہ اجازت لینے آئے تھے کہ سید باغ علی شاہ بخاری ؒ (دوم ) کو  اپنے ساتھ اچ شریف لے جائیں ۔ مگر ان کے بقول جواب ملا:۔" ہماری اولاد میں یہ ڈیوا (چراغ ) جلتاہے اور اس چراغ کی روشنی کا حقدار یہ علاقہ ہے ۔ " اس شرط پر اجازت ملی تھی کہ تعلیم کے بعد وہ واپس لوٹا دئیے جائیں گے ۔ پرنانا جان نے تعلیم کے ساتھ ساتھ  اکلوتی صاحبزادی بھی  شاگرد کے نکاح میں دی۔ یوں ہمارا رشتہ دوبارہ اچ شریف سے جڑ گیا ۔
مذکورہ بالا مثالوں سے واضح ہو گیا ہوگا ۔ کہ جلال اس خاندان کے ناک پر دھرا رہتا ہے ، اور رگوں میں خون کی بجائے گندھک کا تیزاب دوڑتا ہے ۔ جلال اور صرف تصوف ہی ہمارا طرہ امتیاز نہیں ۔ اسے ایک اتفاق کہیں یا کچھ اور (ہمارے خاندان کی نشانی بھی کہہ سکتے ہیں )  کہ نرینہ اولاد کی تعداد تین ہوتی ہے ۔  ان میں سے ایک عالم ِ دین ، ایک طبیب  و حکیم  اور ایک مجذوب  ہوتا ہے ۔ مثلا ً ہمارے جد امجد کے بھی دو بھائی تھے ۔ ان کے تین بیٹے تھے ۔ جن میں سید محمد نواز شاہ بخاری ؒ کے تین بیٹے تھے۔ آگے سید عبدالقادر شاہ بخاری ؒ کے سات بیٹے تھے (حیران نہ ہوں تین بیٹے ایک بیگم صاحبہ سے تھے ، اور چار بیٹے دوسری بیوی سے تھے ) ان تین بیٹوں میں سے سید شرف حسین شاہ بخاریؒ(دادا جان )نے طب میں کمال حاصل کیا ۔ اور سید باغ علی شاہ بخاری ؒ (نانا جان ) علم دین کی روایت کو آگے بڑھانے والے ہوئے ۔ حکیم صاحب کےحسبِ معمول  تین بیٹے ہوئے ۔ منجھلے چچا نے علم دین کا علم پکڑا ۔ اور طبابت میرے والد گرامی کے حصے میں آئی ۔ میرے والد صاحب کے (حسبِ معمول) تین بیٹے ہوئے ۔جن میں سے سب سے چھوٹے کو آپ چھوٹا غالب ؔ کے نام سے جانتے ہیں۔
باقی سب قصے تو  سنالیے چلتے چلتے طبابت میں کمال کی بھی ایک دو مثالیں سن لیجئے۔ تاکہ الجلال والکمال کے پوری طرح وضاحت ہو سکے ۔
ایک بندہ اس حال میں لایا گیا کہ استسقا میں مبتلا تھا ۔ پانی پی پی کر اس کا پیٹ پھٹنے کو آ گیا مگر پیاس نہ بجھتی تھی ۔ یہ بڑے حکیم صاحب (پرداد اجان ) کا زمانہ تھا ۔ انہوں نے نبض دیکھ کر کہا کہ مریض کو الٹا لٹکا دیا جائے ۔ اور مریض کے سر کے عین نیچے ایک بڑی سی کنالی (پانی بھرنے کیلئے مٹی سے بنا بہت بڑا برتن) پانی سے بھر کے رکھ دیا جائے ۔ سننے والے حیران رہ گئے اور مریض سمیت اس کے لواحقین بہت چیں بجبیں ہوئے کہ آپ حکیم ہیں یا قصائی ۔ مگر جب حکم کی تعمیل کی گئی تو تین منٹ کے اندر مریض کے حلق سے کچھوے کے چھوٹے چھوٹےبچے پانی کی کنالی میں آ گرے ۔ 
 اور یہ واقعہ ہمارے دادا جان کا ہے ۔ اس زمانے میں آمد ورفت کا واحد ذریعہ ریل ہوا کرتی تھی ۔ ایک سفر سے واپسی پر انہوں نے ریل میں ایک نوجوان لڑکی کو دیکھا ۔ جس کی حالت انتہائی نازک تھی ، اور رنگ زرد ی کی زیادتی سے سرسوں جیسا پیلا پڑا ہوا تھا ۔ اس کا یرقان آخری سٹیج پر تھا ، ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا کہ بقول غالب :۔ "کس سے ہو جز مرگ علاج۔"  اس کی قسمت کہ بہاولپور سے دادا جان ریل کے اس ڈبے میں سوار ہوئے ۔ انہوں نے اس لڑکی کے والد سے کہا کہ اسے گدھی کا دودھ پلائیں یہ انشاءاللہ شفا یاب ہو گی ۔ لڑکی کا والد تو (حسبِ سابق) حیران ہوا جبکہ لڑکی نے غصے کے مارے دادا جان کو گالیاں دینا شروع کر دیں ۔ دادا جان نے اس کے والد سے کہا کہ اس کی بے خبری میں سہی اسے کسی طرح گدھی کا دودھ استعمال کرائیں ۔ اگر آپ اسے زندہ دیکھنا چاہتے ہیں  تو ۔  سنا ہے تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ لڑکی خود اپنے پیروں پر چل کر آئی . مکمل صحت یاب ہو چکی تھی۔ اور اپنے سابقہ رویے کی معافی مانگی ۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں. 
لیکن ہر عروج کو زوال ہے ۔ اب ہمارے پاس بھی باپ دادا کے یہ قصے ہی رہ گئے ہیں سنانے کو ۔ بقول اقبال
تھے وہ تو آباء تمہارے ، تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

الف نون قسط 2 (حصہ دوم) ۔

2 آرا

الف نون قسط 2 کا بقیہ حصہ



اگلا دن ٹکور کرنے ،  ایک دوسرے کوالزام دینے  اور لعن طعن کرنے میں گزرا ۔ اچھی خاصی منتیں کروانے کے بعد الف نے مزید ساتھ دینے کا سگنل دیا ۔ اور دونوں پھر  سکول جا پہنچے (لیکن راستہ بدل کر) ۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ مس "رے" کے چچا فوت ہو گئے ہیں  اس لیے وہ آج سکول نہیں آئی اور کل  بھی نہیں آئے گی ۔ الف نے تو بلا ٹل جانے پر شکر ادا کیا مگر نون ہمت ہارنے والوں میں سے نہ تھا ۔ اچانک اچھلتے ہوئے بولا:۔ " ایک ترکیب دماغ میں آئی ہے ۔" 
الف نے بے اختیار ہاتھ جوڑ دئیے :۔ "رحم کر یار اپنے آپ پر بھی اور مجھ خستہ جاں پر بھی ترس کھا۔۔۔۔تیری ترکیبوں سے تو اللہ پناہ دے ۔"
 نون کا اصرار جاری رہا :۔ " ایک منٹ سن تو لو یار ! مستقبل قریب میں ہونے والے سسرال سے تعلقات استوار کرنے کااس سے اچھا موقع اور کیا ہوگا۔"
"تم کہنا کیا چاہتے ہو ۔۔۔؟؟" الف کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا ۔
نون جھنجھلا گیا :۔ " میں تو ہمیشہ کہتا ہوں کہ تم کوڑھ مغز ہو ۔۔۔ یہ سامنے کی بات بھی تمہاری سمجھ دانی میں نہیں آ رہی ۔ ۔۔۔ یار !! چچا کے ہاں تعزیت کیلئے جائیں گے تو اس طرح بالواسطہ مس "رے" پر میرے خلوص کا اثر ہوگا ۔ اور اس کے گھر والوں کی نظر میں بھی آ جاؤں گا ۔ میرے جیسا بر تو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گا ۔" نون کی خوش فہمیاں عروج پر تھیں ۔الف ایک گہرا سانس لے کر بے بسی سے نون کو دیکھتا رہا ۔
"تمہاری خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم اس نئے پلان سے متفق ہو ۔" نون کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی چل پڑے ۔
الف نے بے چارگی سے کہا :۔ " قسمت میں اگر مزید ذلت ہی لکھی ہے تو ہونی کوکون ٹال سکتا ہے بھلا ۔۔۔۔  مگر تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھے تعزیت کرنا نہیں آتا۔ اور میری معلومات کے مطابق تم بھی اس فن میں کورے ہو ۔ "
نون زچ ہو کر بولا:۔" یار پچھلی بار بھی تیری انہی منحوس باتوں نے گل کھلایا تھا ۔ اب پھروہی باتیں لے کے بیٹھ گیا ۔ ۔۔۔ تعزیت کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ ۔۔۔ بس تم میرے ساتھ چلو اور جو میں کروں وہ تم بھی کرتے جانا ۔" اور الف نے بے چارگی سے سر ہلا دیا۔

اگلے دن سر پہ قوالوں والوں  ٹوپیاں سجائے الف ،نون تیار تھے ۔ صرف ہارمونیم اور طبلے کی کمی تھی ورنہ بالکل غلام فرید صابری اور مقبول احمد صابری قوال لگ رہے ہوتے  ۔ نون نے الف کو سمجھایا :۔ " تعزیت کرنا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ۔ بس مسکین سا منہ بنا لو اور رونی آواز میں کہو کہ بہت افسوس ہوا ، مرحوم بہت اچھے آدمی تھے ، خدا انہیں جنت نصیب کرے اور آپ کو صبر جمیل عطا کرے ۔۔۔۔ سمجھ گئے ناں۔۔۔۔؟؟؟" نون نےتصدیق چاہی اور الف نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
 نون نے خوشی سے نعرہ لگایا :۔ " چلو ۔۔۔۔ تو پھر یلغار ہو ۔۔۔۔۔"
"بندہ خوار ہو۔۔۔۔۔۔۔ " الف نے ٹکڑا جوڑا ۔ 
اور یہ دو رکنی تعزیتی وفد روانہ ہو گیا ۔
مس "رے" کے چچا کے گھر کے سامنے ٹینٹ کے نیچے بہت سے لوگ تعزیتی منہ بنا کر بیٹھے غیبت میں مصروف تھے ۔ قریب پہنچ کر نون نے باآواز بلند سلام کیا ۔ مگر بجائے جواب کے سب لوگ منہ اٹھا کر انہیں دیکھنے لگے ۔ سب کے اس طرح با جماعت گھورنے سے نون کا بلڈ پریشر لو (ایل او ڈبلیو) ہونے لگا ۔ الف نے ہمت کی اور ایک خالی جگہ دیکھ کر غڑاپ سے بیٹھ گیا ، نون نےبھی تقلید کی ۔ 
ایک بوڑھے کی زبان میں کھجلی ہوئی :۔ " آپ لوگ کون ہیں بیٹا ، ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا آپ کو ۔" نون نے اس غیر متوقع حملے پر گڑبڑا کر الف کی جانب مدد طلب نظروں سے دیکھا اور الف مسکین صورت بنا کے بولا :۔ "وہ جی ۔۔۔ رہتے تو ہم آپ کے ساتھ والے محلے میں  ہیں لیکن تبلیغی جماعت میں ہونے کی وجہ سے اکثر بیرون ِ شہر ہی رہتے ہیں ۔ مرحوم سے ہماری بہت اچھی علیک سلیک تھی ۔ "
جملہ حاضرین و ناظرین میں سناٹا  چھایا ہوا تھا اورسب خشوع و خضوع سے یک ٹک انہیں یوں گھور رہے تھے جیسے اس سے زیادہ ثواب کا کام دنیا میں اور کوئی نہیں ۔ الف نے دل میں سب کو کوستے ہوئے نون کو کہنی ماری کہ آگے کی بات تم سنبھالو ۔مگر بیک وقت اتنے بوڑھوں کی نظروں کا ارتکاز اسے نروس کرنے کیلئے کافی تھا۔ الف کے بار بار کہنیاں مارنے سے بے چارے کا منہ تکلیف کے مارے عجیب و غریب زاویے اختیار کر رہا تھا ۔اچانک ایک شخص بولا:۔ " کیا بات ہے ۔۔۔؟  پیٹ میں درد ہے ۔۔۔؟؟؟"
" جی نہیں ۔۔۔ !! ایسی بات نہیں ۔۔۔ دراصل ۔۔۔۔ چچا ۔۔۔بہت اچھے آدمی تھے ۔۔۔" بمشکل نون کے حلق سے الفاظ برآمد ہوئے ۔
"کون چچا۔۔۔؟؟" وہ شخص حیرانی سے بولا ۔ اور نون کی گھبراہٹ دو چند ہو گئی :۔ "وہی جن کا انتقال ہوا ہے ۔" یہ کہتے ہوئے نون نے الف کو زور سے کہنی ماری ۔الف حالانکہ تعزیت کے فن سے نابلد تھا مگر مجبوری تھی ، دوست خطرے میں تھا   اس لیے بولنا پڑا :۔ "چچا مرحوم بہت نیک آدمی تھے ۔"
"کیسے۔۔۔؟؟" ایک بلغمی بوڑھا بولا تو الف نے ایک لمبی چھوڑی :۔ "وہ نیکی کے کام بہت کرتے تھے ۔"
"مثلاً۔۔۔۔؟؟"وہ اپنی منحوس آواز میں پھر کھڑکھڑایاتو الف بے اختیار دانت پیس کر رہ گیا ۔ جی میں تو آیا کہ کہہ دے کہ بڈھے شتر مرغ !! میں کوئی مرحوم کے دائیں کندھے پر بیٹھنے والا فرشتہ نہیں ہوں جو نیکیوں کی تفصیلات بیان کروں ۔مگر دل کی بات کہنے کا موقع نہ تھا  اس لیے منہ سے  فقط اتنا نکلا :۔ "انہوں نے کبھی غیر محرم پر دوسری نگاہ نہیں ڈالی ۔"  
"جی ہاں  ! جب بھی دیکھا ٹکٹکی باندھ کر دیکھا ۔" نون نے اپنی دانست میں کمک پہنچائی ۔
وہ ناگواری سے بولا:۔"لیکن میں نے تو اسے ہمیشہ عورتوں کی خوشبوئیں سونگھتے دیکھا ہے ۔"لگتا تھا مرحوم سے اس کی کچھ زیادہ ہی لگتی تھی جو مرنے کے بعد بھی اس کی تعریفیں برداشت نہیں ہو رہی تھیں ۔
"جی اس کی بھی ایک وجہ ہے ۔" الف کی خود اعتمادی اب لوٹ آئی تھی ۔
"کیا اس کی کوئی سائنسی وجہ ہے۔؟"ایک چشمش سے  لڑکے نے  جو شکل سے ہی طالب علم لگتا تھا ، بیچ میں ٹانگ اڑانے کا فرض ادا کیا ۔ 
الف نے کلس کے اس کی جانب دیکھا اور پوچھا :۔ "کیا آپ سائنس پڑھتے ہو ۔؟"
"جی ہاں میں  نے میٹرک سائنس میں  کیا ہے ۔" فخریہ جواب آیا۔
"کاش تم نے میٹرک دینیات میں کیا ہوتا۔۔۔۔" نون نے بے اختیارالف کو  داد بھری نظروں سے دیکھا جو ابھی مزید لمبی لمبی چھوڑرہا تھا :۔ "دیکھو ہم نے چچا مرحوم کو یہ بات بتائی تھی کہ اگر کوئی عورت خوشبو لگا کر باہر نکلے اور اس کی خوشبو غیر سونگھے تو مرنے کے بعد اس کو سخت عذاب ہوگا ۔ چونکہ چچا کو عورتوں کا خوشبو لگا کر باہر نکلنا سخت ناپسند تھا اسی لیے وہ عورتوں کی خوشبوئیں زیادہ سے زیادہ سونگھ کر انہیں زیادہ سے زیادہ عذاب میں  پھنسانا چاہتے تھے ۔ ۔۔ 
واہ ۔۔۔۔۔!!! کیا اعلیٰ پائے کی سوچ تھی ۔ مگر تم لوگ نہ سمجھ سکے۔ خدا آسمان پر موجودان کی روح کا درجہ بلند کرے ۔ "
"نیوٹن کے قانون کے مطابق زمین کششِ ثقل رکھتی ہے ۔ پھر روح آسمان پر کس طرح جا سکتی ہے ۔" وہی طالب علم پھر بولا۔
"جس طرح نیوٹن کی روح اوپر چلی گئی تھی اس طرح ۔" نون نے اپنی طرف سے منطقی دلیل جھاڑی۔ 
"کیوں اوپر چلی گئی ۔۔۔؟؟ اس کی کوئی سائنسی وجہ ۔۔۔؟؟؟ " وہ گلے پڑتے ہوئے بولا۔
"ابے تو کیا ہم پر سائنس والوں کا چھوڑا ہوا ہے ۔۔۔؟؟ " حالات کا رخ بدلتا دیکھ کر نون کی برداشت جواب دے گئی ۔ 
"آپ نے ایسا کیوں سوچا ۔۔۔؟؟؟ اس کی کوئی سائنسی وجہ ۔۔۔؟؟؟ " وہ لڑکا پھر بولا ، بڑا ڈھیٹ تھا ۔ 
"ساری تعزیت کمبخت سائنس کی نذر ہوگئی ۔" نون تپتے ہوئے بولا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔ الف نے بھی پیروی کی ۔
"کہاں چل دیے۔۔۔۔؟؟" وہ لڑکا تو پیچھے ہی  پڑ گیا تھا ۔ 
"گھر ۔۔۔۔ ذلیل کمینے کمبخت منحوس انسان۔۔۔"گھر کے علاوہ باقی سب الفاظ دل میں ہی بولے گئے ۔
"کیوں اس کی کوئی سائنسی وجہ ۔۔۔؟؟" اس کا پرنالہ ابھی تک وہیں تھا ۔ اور نون نے تہیہ کر لیا کہ ایک بار یہ کہیں اکیلا ہاتھ آ جائے، ساری فزکس ، کیمسٹری ناک کے راستے نکال کے رکھ دوں گا۔

کچھ دیر بعد کنواروں اجلاس  پھرمنعقد ہوا ۔ جس میں بلغمی اور شکی قسم کے تمام بوڑھوں اور سائنس کی جملہ شاخوں کے خلاف متفقہ قراردادِ مذمت منظور گئی ۔ اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ اب ڈائریکٹ ایکشن کے سوا کوئی چارہ نہیں ، اس سلسلے میں کیا تدبیر اختیار کی جائےکہ کارگر ثابت ہو ۔ اس سوال پر الف تو سنیاسی باواکی طرح سر جھکا کر مراقبے میں غرق ہو گیا۔ لیکن نون کو کسی پل چین نہ تھا ،  اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے پہلو بدلنے سے بھی جب کچھ نہ سوجھا تو  الف پر چڑھ دوڑا :۔ "یار تم نے جو اتنی فلمیں دیکھ رکھی ہیں ، وہیں سے کوئی آئیڈیا اخذ کرو ۔۔۔ اس سچوئیشن میں ایک غریب ہیرو کو ہیروئن کو اپنی جانب مائل کرنے کیلئے کیا کرنا چاہیے۔۔۔؟؟؟"
"اخلاق سے متاثر ۔۔۔" الف کے پاس ریڈی میڈ جواب ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں ۔
نون طنزیہ لہجے میں بولا :۔ "تمہارا مطلب ہے جب وہ سکول سے چھٹی کے بعد گھر جانے لگے تو میں اس سے ہاتھ جوڑ کر کہوں "بی بی ۔۔۔!! ذرا دو منٹ کیلئے میری بات سن لیجئے ۔ میری ظہر کی نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے ، اور آپ بھی گھر جا کر دو رکعت نفل ضرور پڑھ لیجئے گا ، بے انتہا اجر و ثواب ہوگا۔"تاکہ اس پر یہ تاثر پڑے کہ میں کتنا پرہیز گار ، بااخلاق اور متقی ہوں ۔"
الف کی پٹاری میں ترکیبوں کی بھلا کیا کمی تھی، بولا :۔ " اب تو پھر ڈائریکٹ ایکشن کی ذیل میں صرف دو آپشن باقی رہ گئے ہیں ۔ یا تو مس "رے" کو پھول پیش کر کے اپنے جذبات کا اظہار فرمائیے یا پھر گھٹیا قسم کے عاشقوں کی راہ اپناتے ہوئے ایک عدد محبت نامے کا سہارا لیجئے ۔" 
الف کی اس سہانی ترکیب پر  نون کا بھنگڑا پروگرام شروع ہو گیا مگر  جیسے بجلی جانے سے ٹی وی بند ہو جائے اچانک نون کو ایک دم  بریکیں لگ گئیں :۔ "مگر یار یہ بھی تو سوچ بلی کےگلے میں گھنٹی باندھے گا کون۔۔۔؟؟"
الف نے پہلے ہی ہاتھ کھڑے کر دئیے :۔ "خبردار ۔۔۔!! مجھ سے یہ چھچھوری امید ہر گز نہ رکھنا ۔ ویسے بھی بقول منی بیگم 
؎ اے دوست محبت کے صدمے تنہا ہی اٹھانا پڑتے ہیں 
رہبر تو فقط اس رستے پر ، دو گام  سہارا دیتا ہے۔۔"
اورالف کی طوطا چشمی پر نون کا دمکتا چہرہ فیوز ہو گیا ۔
اب فیصلہ ہوا کہ ووٹ ڈالے جائیں تاکہ خط یا پھول میں سے ایک کا انتخاب ہو سکے ۔ لیکن 5 روزہ ٹیسٹ میچ کی طرح الیکشن بھی ڈرا ہو گیا ۔ کیونکہ انتخابی نشان "پھول" کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد ایک تھی ۔ انتخابی نشان "خط"کو  بھی کل ملا کے ایک ووٹ ملا تھا ۔اب معاملہ جوڑ توڑ اور ہارس ٹریڈنگ کی مدد سے نپٹانے کی کوشش کی گئی بالآخر الف کے انتخابی نشان "پھول " پر سینٹ کے ارکان میں اتفاق رائے ہو گیا ۔ 
اگلے مرحلے میں ایک موزوں گلاب کی تلاش میں پٹواری صاحب کی کیاری اجاڑی گئی ۔ کافی لتاڑ پچھاڑ کے بعد ایک گلاب کا انتخاب عمل میں آیا ۔ نون نے الف سے شرٹ مانگی اور بڑے بھائی کی پینٹ زیب تن کی ۔ چھٹی سے پہلے دونوں سکول کے راستے میں گھات لگا کر بیٹھ گئے ۔ الف وقتاً فوقتاً حوصلہ بڑھا کر یارِ غار ہونے کا فرض نبھاتا رہا جبکہ نون آیت الکرسی پڑھتے ہوئے مطلع صاف (گلی خالی ) رہنے کی دعائیں کرتا ہوا اپنے آپ پر پھونکیں مارتا رہا ۔ دور سے آتی مس"رے " کو دیکھ کر نون کا دل دھک دھک کرنے لگا لیکن الف نے ہمت بندھا کر روانہ کیا ۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا چاچے کریم بخش کی بیٹھک کے سامنے بنے تھڑے کے پاس پہنچ کر رک گیا ۔ اتنے میں مس "رے" بھی نرسری کی کاکیوں کی پلٹن سمیت قریب پہنچ گئی۔ دور ہونے کی وجہ سے الف تک آواز تو نہ پہنچ رہی تھی البتہ ویڈیو سگنل کلیئر ہونے سے سب دکھائی دے رہا تھا ۔ نون نے جونہی مس " رے" کو روک کر پھول پیش کیا اور "رے" صاحبہ نے لینے کیلئے ہاتھ بڑھایا کہ عین اسی وقت چاچے کریم بخش کی بیٹھک کا درازہ کھلا اور نون کی بدقسمتی "مس" رے کے ابا کے پیکر میں چاچے کریم بخش سے بات کرتے ہوئے باہر آئی ۔
پھر کیا تھا۔۔۔۔ مس "رے" کے ابے نے وہی کیا جو فلموں میں ہمایوں قریشی اس قسم کے موقع پر کرتا ہے ۔ 
ظاہر ہے مس "رے" نے بھی وہی کیا جو اس قسم کی صورتِ حال میں عمومالڑکیاں کرتی ہیں ۔ یعنی فوراً پارٹی بدل کر یہ ظاہر کیا کہ نون اسے زبردستی پھول پکڑانے کی کوشش کر رہا تھا ۔
باقی رہ گیا الف ۔۔۔۔ تو اس نے بھی وہی کیا جو میر جعفر نے پلاسی کے میدان میں نواب سراج الدولہ کے ساتھ کیا تھا ۔۔۔ موقع واردات سے فرار ہو کر عزت بچانے کو کوئی برائی سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے ۔۔۔ سانوں کی ۔۔۔۔
مصیبتوں نے بھی جیسے آج ہی ایکا کر لیا تھا ۔ نون کی بھاگنے کی کوشش بھی بے کار گئی کیونکہ دیگر غمخواروں کی طرح ٹانگوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ، اور بھاگنے پر کانپنے کو ترجیح دی ۔اور اس طرح ٹیپو سلطان کی طرح نون دشمنوں میں اکیلا رہ گیا ۔
بعد کی شنیدہ اطلاعات اور عینی شاہدین کے حلفیہ بیان کے مطابق جوتا کاری کے کارخیر میں اہلِ محلہ   جوق در جوق شریک ہوئے ۔ ظالموں کااس سے بھی دل نہ بھرا تو بطور سویٹ ڈش بخشو کمہار کی کھوتی پر بٹھا کر محلہ کی سیر بھی کرائی گئی ۔ 
"گھوڑی پر چڑھنے والے خواب کی تعبیر اگر کھوتی پہ چڑھنا ہے تو کنوارہ ہی اچھا ۔۔۔۔۔" الف نے جھرجھری لے کر سوچا ۔
فاعتبرو یا اولوالابصار                             

الف نون قسط 2 (حصہ اول) ۔

5 آرا

الف نون نیکسٹ ایڈونچر


یہ اس زمانے کی بات ہے جب کراچی سے بدھو لوٹ کے گھر کو آ چکے تھے ۔ چونکہ راوی کے قلم میں سیاہی نہ تھی اس لیے ستلج ، چناب کی مدد سے چین ہی چین لکھ رہا تھا ۔ کچھ تو سفر کی تھکان اور کچھ الف کا سد ابہار آلسی پن ، دن رات بستر پر ہی گزر رہے تھے ۔ مگر الف جھنجھلا کے سوچتا کہ سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے ۔ بندروں ، مینڈکوں سے اپنا شجرہ نسب ملانے والے تو بہت ہوئے مگر کسی کمبخت سائنسدان کو ہم آلسیوں کا خیال تک نہ آیا ۔ الم غلم مشینوں کی وہ بھرمار ہے کہ  دنیا "دی میٹرکس " کا سیٹ نظر آنے لگی ہے۔ مگر ابھی تک کسی کو اٹیچ کموڈ والی چارپائی ایجاد کرنے کی نہ سوجھی ۔ نہ چائینہ والوں کو ترس آیا نہ ہی جاپانیوں کو رحم آیا ۔یہ ستم کیا کم تھا کہ جہلم سے ستلج کا چین لکھنا برداشت نہ ہو سکا اور وہ بدخو عین غین لکھنے پر تل گیا ۔

ہوا یوں کہ ایک دوپہر جب الف شہتوت کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں بہتے کھال کے اوپر چارپائی ڈالے کسلمندی سے پڑا اینڈ رہا تھا کہ نون اس کی بو سونگھتا سونگھتا وہاں پہنچ گیا ۔ الف نے نون کو آتا دیکھ کر آنکھیں بند کر لیں اور سوتا بن گیا ۔ نون بھی گھر کا بھیدی تھا ، الف کی رگ رگ سے واقف تھا ، ٹک کے بیٹھ گیا ۔
شرافت سے ایک دو بار آوازیں دیں مگر جیسا کہ سیانے کہتے ہیں:۔ " سویا تو جگایا جا سکتا ہے لیکن جاگتے کو کوئی کیسے جگائے ۔"  لیکن وہ نون ہی کیا جو اتنی آسانی سے ٹل جائے ۔ ناک الف کے منہ کے قریب لایا ، ناک مروڑ کر سوں سوں کر کے سونگھا اور بولا :۔ 
" جو لسی پی کے سوتا رہے گا 
وہ بندہ تو کھوتے کا کھوتا رہے گا"
ضبط کے باوجود بھی الف کی بے اختیار ہنسی نکل گئی ۔ الف کے دانت نکلتے دیکھ کر نون کچھ پھیل کے بیٹھ گیا ۔ مگر اتنے سستے میں الف کہاں بخشنے والا تھا ۔منہ بنا کے گنگنایا :۔ "کتا پال کے شاکر کھیر پلا ، بے دید کنوں تاں ٹھیک اے۔" 
اس قدر عزت افزائی پر بھی جب نون کے ماتھے پر شکن نہ آئی تو الف کے کان کھڑے ہو گئے ۔ دل ہی دل میں "جل تو جلال تو آئی بلا ٹال  تو " کا ورد کرتے ہوئے پوچھا :۔ "آج صبح سویرے کیسے اپنی منحوس صورت کے درشن کروانے کی زحمت گوارہ فرمائی جناب نون صاحب  نے۔؟"
ان پے درپے حملوں سے نون بوکھلا سا گیا اور کھسیا کے بولا :۔ " کمال کرتے ہو یار ! اب اپنے جگری یار سے ملنے کیلئے بھلا مجھے کسی وجہ کی ضرورت ہو گی۔؟"
الف نے ماتھے پہ ہاتھ رکھ کے ادھر ادھر دیکھا اور بولا:۔ " کونسا یار۔۔۔؟؟؟ مجھے تو دور و نزدیک تمہارا کوئی یار نظر نہیں آ رہا ۔ کہیں سلیمانی توپی تو نہیں اوڑھ رکھی اس نے ۔؟"
"یار کیا ہو گیا ہے تمہیں ۔ اس قدر بے دید تو کبھی نہ تھا ۔ کراچی والوں کی صحبت کا اثر ہو گیا ہے جو تو اپنے لنگوٹیے یار سے ایسا ناروا سلوک کر رہا ہے ۔ " نون تڑپ کے بولا ۔
الف نے سرہانا اٹھا کر ایک طرف رکھا ، ٹیک لگائی اور اطمینان سے بولا :۔ "  میرا منہ کھلوا ۔۔۔۔ !! یاری دوستی کی قل خوانی تو اسی دن دتے کے گرم حمام پر تیرے ہاتھوں ہو گئی تھی ۔ اور اب تجھے ڈائیلاگ سوجھ رہے ہیں ۔۔۔؟؟"
بس چپ رہو ، ہمارے بھی منہ میں زبان ہے 
نون جیسے چمکارتے ہوئے بولا :۔ " یار وہ تو میں تمہیں تھوڑا تنگ کرنے کا لطف لے رہا تھا ۔ مگر تم تو سچ مچ مجھے اناتھ کر کےاکیلےاکیلے ہی کراچی دفع ہو گیا تھا ۔ خیر ۔۔۔۔۔۔ !! اب چھوڑو یہ ماضی کا منحوس تذکرہ ۔۔۔۔۔ چل جگر اب غصہ تھوک دے ۔۔۔۔۔"
اور  نون کو سرہانے کی پناہ لینی پڑی کیونکہ الف کا رخ اس کے منہ کی طرف تھا ۔ وہیں سے غرایا :۔ " بے ہودگی کے دیوتا میں نے اپنے منہ پر تھوکنے کو نہیں کہا ۔"
الف ہنسا :۔ " مجھے تو جو موزوں جگہ معلوم ہوئی وہیں تھوکنا تھا نا۔۔۔۔ "
نون کی جھنجھلاہٹ دیکھنے لائق تھی۔۔۔ دانت پیس کر بولا :۔ اب بندے دا پتر بن ۔۔۔۔۔ تین دن ہو گئے تجھے کراچی سے آئے ہوئے اور ذرا بھی تمہیں میرا خیال نہ آیا کہ تیرے یار پر کیا کیا قیامتیں بیت رہی ہیں ۔۔۔۔ تیرےبغیر میں کتنا اکیلا ہو گیا تھا ۔۔۔۔ " کہتے کہتے نون کا گلا رندھ گیا ۔
الف فوراً سنجیدہ ہو گیا :۔ تیری شکل پر تو سدا بارہ ہی بجے رہتے ہیں ، اور جیسا کہ اپنے استاد فرماتے ہیں :" جانوں کسی کے دل کی کیونکر کہے بغیر " اس لیے بہتر یہی ہے کہ بجائے پہیلیاں بجھوانے کی بجائے سیدھی طرح منہ سے پھوٹو کہ کس بلا نے اس بار خانہ ءِ انوری کا رخ کر لیا ہے ۔"
نون انیس سو باسٹھ کی فلمی ہیروئن کی طرح شرما کر بولا :۔ " بلا نہیں یار ۔۔۔۔ اس طرحدار حسینہ مہ جبینہ کا نام نامی رضیہ ہے ۔"
الف ہونقوں کی طرح نون کا منہ تکنے لگا ۔  جیسے بات اس کے سر سے گزر گئی ہو ۔ آخر نون نے لجاتے ہوئے وضاحت کی :۔ "مجھے ۔۔۔۔۔ مجھے  ناں ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔ پیار ہو گیا ہے ۔"
اتنا سننا تھا کہ الف میں جیسے امریش پوری کی روح حلول کر گئی ۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ ۔۔۔۔ جوتا اٹھایا اور ۔۔۔۔ موسلا دھار بارش کا سا سماں باندھ دیا۔ نون بے چارا اس آفت ِ ناگہانی سے ایسا بوکھلایا کہ اپنا بچاؤ بھی نہ کر سکا اور ۔۔۔۔"ارے یار ۔۔۔۔۔ ارے یار ۔۔۔۔" کرتا رہ گیا۔
اس فی البدیہہ پاپوش کاری کے باوجود بھی نون بے مزہ نہ ہوا ۔ بسورتے ہوئے بولا :۔ "تیرے سینے میں تو میڈ ان چائینہ دل فٹ ہے ، تو کیا چاہتا ہے کہ میں بھی تیری طرح خود ساختہ اور بلاوجہ جوگ کا روگ لگا لوں خود کو۔۔۔۔؟؟؟ آخر میرے بھی کچھ ارمان ہیں ۔۔۔ جو نکلنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔سنگدل آدمی ! کیا تو نہیں چاہتا تیرا یار سہرا باندھے اور تمہیں بھنگڑے ڈالنے کا موقع ملے ۔۔۔۔"
"بس۔۔۔۔ بس۔۔۔۔۔" الف گرجا۔:۔ "تنگ آ چکا ہوں میں تیرے ان ٹوپی ڈراموں سے ۔۔۔۔ ہر دو تین ماہ بعد تمہیں ایک تازہ پیار ہو جاتا ہے ۔"
نون کو تو جیسے پتنگے لگ گئے ۔ دو بدو بولا:۔ " سڑیل انسان ۔۔۔۔ اتنی جیلسی ۔۔۔۔ میرے فسانہ ہائے عشق سے تمہیں کیا نقصان ہوتا ہے جو تم اس قدر بھڑک رہے ہو ۔۔۔"
غصے کے مارے الف لال بھبھوکا ہو رہا تھا :۔  "الٹا چور کوتوال کو ۔۔۔۔ تیرے ہر نئے عشق پر ہر بار صرف میرا ہی تو نقصان ہوتا ہے ۔کیا خوب کہا ہے مرزا غالب نے
؎ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟
تیری محبتوں کا کوئی دی اینڈ ہو تو بندہ برداشت کرے ، مگر اس فلم کا تو کوئی اینڈ ہی نہیں ۔ ۔۔۔ شانی کا ابو ظہبی سے بھیجا واک مین تمہارے گزشتہ عشق کی بھینٹ چڑھ گیا ۔ جب تمہیں ماسٹر جی کی صاحبزادی سے عشق ہوا تھا   اور اسے غمگین گانے سنا کر رام کرنے کیلئے میرا مرحوم واک مین لے گیا تھا ۔"
نون فوراً بات کاٹ کر بولا :۔ " عشق میں یہ سب تو جھیلنا پڑتا ہے ۔۔۔ میری بھی تو ہڈیاں پسلیاں ٹوٹی تھیں اس سانحے میں  ۔۔۔۔ اس کا تمہیں کوئی افسو س نہیں ۔۔۔ ہونہہ !!"
"تمہاری پسلیاں تو پھر بھی جڑ گئیں نا ۔۔۔۔ مگر میرا میڈم نور جہاں سننے کا اکلوتا ذریعہ تو فی سبیل اللہ شہید ہو گیا ناں۔۔۔۔کاش اس کی آئی تجھے آئی ہوتی تو مجھےتیرے ساتھ بخشو کمہار کے گھر ذلیل نہ ہوتا پڑتا ۔ غضب خدا کا تمہیں تو لڑکی اور کھوتی میں بھی کوئی فرق نظر نہیں آتا ۔۔۔۔یاد آیا کچھ؟؟"الف کو موقع کیا ہاتھ آیا ۔ اگلے پچھلے سارے حساب بے باق کرنے بیٹھ گیا ۔
نون  کھسیا کر سر کھجاتے ہوئے بولا :۔ "اس خدائی خوار بخشو سے تو اللہ پوچھے ۔۔۔ بھلا کھوتی کا نام سوہنی رکھنے کی کوئی تک بنتی ہے بھلا۔۔۔؟"
"ہاں ۔۔۔۔ اور جناب ایسے ٹھرکی واقع ہوئے کہ صرف نام سن کر  سوہنی کے غائبانہ عشق میں گوڈے گوڈے دھنس گئے ۔۔۔"
نون نے بے اختیار ہاتھ جوڑ دئیے :۔ " بس کر دے یار ۔۔۔۔ بس کر دے ۔۔۔ تمہاری قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر اس بار کام بن گیا تو یہ میرا قطعی آخری عشق ہوگا ۔۔۔۔ لیکن ایسا تبھی ہوگا جب تم میرا ساتھ دو گے۔" نون کے چہرے پر مسکینی کا نور چھایا ہوا تھا۔
"ہوں ۔۔۔۔!!" الف کا سوچ میں ڈوبا ہنکارا فضا میں گونجا ۔"اچھا یہ بتاؤ کہ مبینہ بھابھی جی کا محل وقوع اور حدودِ اربعہ کیا ہے۔؟ "
الف کو مائل بہ آمادگی پا کر نون کی باچھیں پھیلنے لگیں :۔ " یہ ہوئی نا جگروں والی بات ۔۔۔۔ مجھے پتا تھا تیرا ۔۔۔۔۔ تو بس باہر سے ہی اخروٹ کی طرح سخت نظر آتا ہے ۔۔۔۔ اندر سے پورا خرگوش ہے ۔۔۔۔۔ میرا یار مجھے کسی مشکل میں اکیلا چھوڑ دے یہ ہو ہی نہیں سکتا ۔" نون کا بس نہیں چل رہا تھا کہ الف کا منہ چوم ڈالے ۔
اس قدر خوشامد سے الف بھی تھوڑا پھول گیا اور اترا کے بولا :۔ " بندے دا پتر بن اور میرے سوال کا جواب دے ۔"
"زیادہ توکچھ پتا نہیں ، بس اتنا پتا ہے کہ سکول میں استانی ہے ۔ اور ۔۔۔۔۔۔" نون ابھی آگے کچھ بتانے والا تھا کہ الف نے حسبِ عادت بات بیچ میں ہی اچک لی ۔اور کمر پہ ہاتھ رکھ کے کراہا:۔ " ہائےےےےے ۔۔۔۔ میری تو ابھی سے ہڈیاں دکھنے لگی ہیں ۔"
نون نے بڑی بوڑھیوں کی طرح ماتھا پیٹ لیا :۔ "کچھ تو عقل کو ہاتھ مار ۔ ابتدا سے ہی ایسی بدشگونی کی باتیں کر کے میرے عشق کا  انجام مشکوک نہ کر ۔"
الف ہنسا:۔ " ادھر سے بھی کوئی امید افزا حالات ہیں یا لکی ایرانی سرکس کے مسخرے کی طرح فقط تم ہی عشق کی یونی سائیکل چلانے پہ تلے ہو ۔؟"
"یار وہ مجھے دیکھ کر مسکراتی تو ہے ۔" نون گڑبڑا گیا ۔
"یہ تو کوئی بات نہ ہوئی ۔ تمہیں دیکھ کر تو اچھے بھلے شخص کی بلاوجہ ہنسی نکل ہی جاتی ہے ۔ اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ وہ تجھ پہ لٹو ہے ۔" الف تو باقاعدہ وکیلوں کی طرح جرح پر اتر آیا ۔
"یار وہ بار بار مجھے کن انکھیوں سے دیکھتی بھی تو ہے ۔ اور اپنی سہیلی سے کھسر پھسر بھی کرتی ہے ۔ " نون اپنے موقف پر مضبوطی سے ڈٹا ہوا تھا ۔
"ٹھیک ہے ۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔۔!! " الف نے ہاتھ اٹھا کر جیسے اعلان کیا ۔"مگر پہلے میں خود تسلی کروں گا ۔" 
اور اس طرح کنواروں کا یہ دو رکنی اجلاس اختتام کو پہنچا۔
اگلے دن ناشتہ نون کے ذمے تھااس نے الف نے ڈٹ کر ناشتہ کیا ۔ ناشتے کے بعد دن بھر کا شیڈول طے کیا گیا ۔ پروگرام کے مطابق  سکول سے چھٹی کے وقت  نون اور  الف ،  نون کے بھتیجے کو سکول سے لینے جائیں گے اسی بہانے استانی جی کا دیدار بھی کر لیا جائے گا ۔ نون کا دل آج گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ اٹکا ہوا تھا ۔ اور وقت  جیسے آج لنگڑا لنگڑا کر چل رہا تھا۔ چھٹی سے دو تین گھنٹے پہلے ہی نون نے تیار ہونا شروع کر دیا ۔ نون  مغلِ اعظم لٹھے کا کھڑکھڑا تا سوٹ پہنے تیار ہو کر باہر آیا ۔ اور اترا کے پوچھا :۔ " کیسا لگ رہا ہوں ۔۔۔؟  سچ بتانا ۔۔۔۔ "
اگر سچ ہی پوچھا ہے تو سنو ! دفنانے کیلئے تیار شدہ میت لگ رہے ہو ۔ کافور لگا لیتے تو بالکل زندہ لاش فلم کے ہیرو لگتے ۔" الف کی زبان سے تو توبہ ہی بھلی ۔
مگر نون آج کسی اور عالم میں تھا اس لیے کسی قسم کا برا منائے بغیر جیسے فیصلہ سنایا :۔"تم تو جلتے ہو ۔۔۔ میرے حسنِ جاں سوز ، اور خداد اد وجاہت سے ۔۔۔  پتا نہیں یہ  وحید مراد اور دلیپ کمار میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے تھے ۔ بس میں نے ہی پیدا ہونے میں دیر کر دی تھی ۔ ورنہ آج   دنیا میں ان کی بجائے میرے قصیدے پڑھے جاتے اور تمہیں  دنیا کے ہینڈ سم ترین ہیرو کا دوست ہونے کا شرف حاصل ہوتا ۔ آہ ۔۔۔۔!! تمہاری بدنصیبی کہ ایسا نہ ہو سکا ۔"پھر اپنے سراپے پر ایک تعریفی نظر ڈال کر پوچھا :۔ " کوئی کمی تو نہیں رہ گئی نا۔۔۔؟؟"
الف نےفوراً  ادھار چکائی  :۔ " باقی سب تو ٹھیک ہے ، مگر زرہ بکتر کی کمی ہے ۔۔۔ وہ بھی پہن کے آتے تو بہتر تھا ، ہنگامی حالات بھلا کوئی بتا کر نازل ہوتے ہیں ۔"نون کھسیا گیا اور ہی ہی ہی کر کے رہ گیا۔اور ہیکل اور جیکل کی یہ جوڑی  اپنے مشن پر روانہ ہو گئی ۔
جب بخشو کمہار والی گلی میں پہنچے تو گلی میں سوہنی ( گدھی )کو بندھا دیکھ کر الف کی رگِ ظرافت پھڑکی :۔ " وہ دیکھو ۔۔۔ تمہاری سابقہ محبوبہ اور میری نہ ہو سکنے والی  بھابھی ۔۔۔"
نون نے کھا جانے والی نظروں سے الف کو گھورا اور بولا :۔ "بکواس نہ کر یار۔۔۔"
نون کا رد عمل تو معمولی تھا مگر گدھی نے شاید "نہ ہوسکنے والی بھابھی " کا طعنہ سن لیا تھا اور ہضم کرنا مشکل تھا ۔ جیسے ہی الف اور نون اس کے قریب سے گزرنے لگے تو الف نے شرارت سے گدھی کی طرف جھک کےکہا:۔ " سلام عرض ہے سابقہ بھابھی جی ۔۔۔"اور بات سوہنی کی برداشت سے باہر ہو گئی ۔ اس نے ننجا  کا داؤ آزمایا اور گھما کے ایک دولتی الف کو جھاڑی ۔ الف اچھل کے دور جا گرا ۔ اب میدان میں صرف نون باقی رہ گیا ۔ سوہنی تھی یا پھولن دیوی ، نون کو بھاگنے کا موقع ہی نہ دیا ۔ اور ایسی فلائنگ دولتیاں جھاڑیں کہ کیا ننجا   ماسٹر جھاڑتے ہونگے۔ اور نون کے کورے کھڑکھڑاتے لٹھے کے سوٹ پر گوبر سے سندھی ٹانکے ، کشمیری ٹانکے جیسی کشیدہ کاری کر دی ۔ کوئی اور موقع ہوتا تو شاید نون مس رضیہ کے صدقے اکلوتے سوٹ کے لیرو لیر ہونے پر بھی صبر کے گھونٹ بھر لیتا۔ مگر نون کی اور اس سے زیادہ کھوتی کی بدقسمتی کہ عین اسی وقت کالج سے واپس آتی طالبات کا قافلہ وہاں سے گزرااور الف اور نون کی اس ہیئت کذائی پر بے اختیار قہقہے پھوٹ نکلے ۔ اب تو نون کو شفقت چیمہ بننے سے دنیا کی کوئی طاقت نہ روک سکتی تھی ۔ الف جو ایک طرف سے کمر سہلاتا ، کراہتا ہوا کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا تھا ، اتنی ساری لڑکیوں کے سامنے نقد بے عزتی پر اس کا دل چاہا کہ کاش ابھی سلیمانی ٹوپی ہوتی تو وہ اس منظر یوں غائب ہو جاتا جیسے پاکستان سے بجلی ۔۔۔۔ مگر "ہزاروں خواہشیں  ایسی " کی طرح ایک یہ کاش بھی کاش ہی رہی ۔
البتہ نون نے اٹھتے ہی بغیر ارد گرد کی پرواہ کیے کھوتی پر جوابی حملہ کر دیا ۔ اور جیٹ لی ، جیکی چن کی فلموں سے سیکھا سارا  مارشل آرٹ کھوتی کو خراجِ تحسین کے طور پر  پیش کردیا۔ تھک کر ہانپنے لگا تو سوہنی نے مخاطب ہو کر بولا:۔ " گدھے کی بچی ! میں کوئی تم سے کم  ہوں کیا۔۔۔؟؟"
اور تماشا دیکھتی لڑکیوں کے ماند ہوتے پھر سے بلند ہو گئے ۔الف کا دل تو جل کر کباب ہو گیا :۔ " ہونہہ ان کو بس کھی کھی کھی کرنے کا بہانہ چاہیے ۔۔۔" الف کو موقع واردات سے کھسک جانے میں ہی راہِ عافیت نظر آئی ۔ کان لپیٹ کر نکل لیا  ۔ پیچھے آتے قدموں کی آواز ظاہر ہے نون کے علاوہ کس کی ہو گی ۔
دونوں کے دل سے مشترکہ کلمہ شکر نکلا :۔ "شکر ہے محلہ دوسرا تھا ، ورنہ اپنے محلے میں تو ۔۔۔۔۔۔!!!"   

Monday 1 April 2013

(نہایت) بے ادبی مشاعرہ

2 آرا

آج ٹی وی پر دیکھئےکل ٹی وی۔۔۔۔۔۔۔۔
عقل کے اندھے ناظرین کیلئے ، کل ٹی وی کی آزمائشی نشریات کا آغاز ہو چکا ہے۔
ملاحظہ فرمائیےایک منفرد ، بے باک ، اور خالصتاً بے ادبی مشاعرہ۔آپ نے کئی مشاعرے دیکھے ہونگے، لیکن یہ اپنی نوعیت کا انوکھا مشاعرہ ہےجو عالمِ بے ادبی میں تہلکہ مچا دے گا ۔ اس مشاعرہ کو آپ تک پہنچانے کیلئے ہمارے سر پہ احسان کیا ہےٹیلی مادہ نے۔۔۔۔۔۔
ٹیلی مادہ۔ موبائل صنعت میں زنانہ انقلاب۔ ٹیلی مادہ۔
جی ہاں ۔
وجودِ زن سے ہے ہر موبائل فون میں رِنگ
انسان چاند پر مٹر گشت کر آیا لیکن ہمارے دیس میں آج تک زنانہ موبائل سروس کا آغاز نہ ہو سکا ۔ مایوسی کی ایسی کوئی بات نہیں ۔ اب آپ کی خدمت میں پیش ہے ٹیلی مادہ۔صرف اور صرف ماداؤں کیلئے ،جسے مردوئےبھی عورت کی اجازت و مرضی سے چھو سکتےہیں ان ٹچ رہنے کیلئے۔۔۔۔
آئیے ہم ٹیلی مادہ کی سروس کے متعلق آپ کی بے جان کھوپڑی سے سر کھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اپنا موبائل ہاتھ میں لئے رہیں۔
خلا میں خالی گھورنے کیلئے صفر دبائیں۔
 کسی اور خلا کو گھورنے کیلئے دوبارہ صفر دبائیں ۔
خود سے ہم کلام رہنے کیلئےایک۔ کسی سے بے بات الجھنے کیلئے دو۔ تو تڑاخ و تلخ گوئی کیلئے تین  ۔ جن سے آنکھیں چار ہو چکی ہیں ان کیلئے چار۔ پانچوں گھی اور سر کڑاہی میں ڈالنے کیلئے پانچ۔ خالص نجی اور خفیہ باتوں کیلئے سکس ۔ہفتہ بھر مسلسل بکواس کرنے کیلئےسات۔ آٹھوں پہر جاگنے کیلئے آٹھ ۔ اور جو کام خوشی و شوق سےکرنا ہو لیکن دکھاوے کیلئے 
 No , No کرنے کو نو نو دبائیں۔
امید ہے آپ نے پوری سروس رٹ لی ہوگی


آئیے پیارے بے کل ، بے چین و بے قرار ناظرین مع غیر حاضرین! آپ کا میز پوش و میزبان چھوٹا غالبؔ آپ کی زہر آلود نظروں کے سامنے ہے  ۔ انتہائی عجلت یعنی خالص ایمر جنسی میں یہ محفلِ مشاعرہ لت پت کی جا رہی ہے کیونکہ شاعرانِ بے لگام  و بے ہنگم کی تعداد  حدود پار کر چکی ہے 
شاعر:۔ کیا کہا؟ حدود آرڈیننس کو پار کر گئی ہے؟
دوسرا شاعر:۔ حدِ بے ادبی ملحوظ رہے۔
چھوٹا غالب:۔ اس مشاعرے کو بلا مشاہرہ بطور حشر برپا کرنے میں شاعرانِ بے لگام کی بے وزن دولتیوں کا بڑا گہرا دخل ہے ۔۔ جن شاعرانِ بے لگام پر کڑا وقت پڑا ہو وہ اس مشاعرے میں نازل ہو سکتے ہیں لہذا بہت سےشاعرانِ بے لگام  خود ساختہ نام و نمود کی خاطر کود پڑے ہیں ۔
برداشت ہے تو برداشت کر۔ ورنہ ہارن دے کے پاس کر
مگر اس مشاعرے کے ضابطہ بد اخلاقی کا لحاظ رہے۔
پیارے بے کل ، بے چین و بے قرار ناظرین مع غیر حاضرین!آج کے اس مشاعرے میں صاحبِ صدر کے گھٹیا ترین و انتہائی ذلت آمیز منصب کیلئے جس شخصیت کا ذکر ِ ملامت ہے وہ نہایت بے حس و ڈھیٹ ترین شاعرِ بے ہنگم و بے لگام ثابت ہوتے رہے ہیں ۔صاحبِ صدر ہونے کی سب سے بڑی خصوصیت یعنی خراٹے دار نیند میں غوطہ زنی کی واردات کے ماہر و رسیا ہیں اور کسی مشاعرے کے دوران انہیں بیدار نہیں پایا گیا ۔ان سے اجازت لے کر مشاعرے کی کاروائی شروع کی جائے یہ امید ہی فضول ہے ۔لہذا مشاعرے کا تسلسل قائم رکھا جا سکتا ہے چاہے یہ اجازت دیں یا نہ دیں۔ اب رہ گیا ان کا خالص غیر ادبی و رسمی تعارف تو آپ اسے صرف وقت کے زیاں سے تعبیرکر سکتے ہیں  ۔
مشاعرے کے بے باکانہ آغاز سے پہلے میں ناچیز و حقیر بلکہ تقریبا ً فقیر آپ کی زد میں  ہوں ، جو دے اس کا بھی بھلا  اور جو نہ دے اس کا تو واقعی بھلا ہے۔
شاعر:۔ مانگ کیا مانگتا ہے اے سائل نا ہنجار۔
چھوٹا غالب:۔ صاحبِ صدر سے اجازت۔
لیکن ناظرین مع غیر حاضرین! آج کے مشاعرےکی صدارت  کیلئے بے ادب دنیا میں جن کا ڈنکا بج رہا ہے وہ خود ہی جبراً صدارت کیلئے مصر ہیں اور سر دھننے نازل ہیں  عالی جناب  شاعرِ ٹن باز ، احمق دراز ۔ لہذا اجازت کا فضول سا تکلف کیے بغیر اپنا کلام تھوکنا چاہتا ہوں ۔
ایک شاعر:۔ نازل ہو ، نازل ہو ۔ شوق سے تھوکیں تاکہ پھر دنیا آپ پر تھوکے۔
چھوٹا غالبؔ:۔عرض فرمایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎  ہو سکے گا نہ ہم سے کوئی معاملہ
چاہے ناہید  و نرگس ہو یا ہو نائلہ
ایک شاعر:۔ آج تو ساری مشوکاں دا ناں لے لیتا اے۔
دوسرا شاعر:۔ بڑی اونچی فلم نکلے ہو۔
خان صاحب:۔خوچہ وئی وئی کنہ یہ تو بڑا شہ معلوم اوتی اے۔
چھوٹا غالبؔ:۔
  اس قدر جھک گئے تیرے دیدار میں 
اب تو باقی رہے گا نہ کچھ فاصلہ

خان صاحب :۔ خوچہ یہ تو ام لوگ سے بی آگے جکتی اے۔
ایک شاعر:۔ واہ کیا جھکان ہے۔

چھوٹا غالبؔ:۔ آداب۔۔۔۔۔۔ اب انجام تو دیکھئے۔۔۔۔۔۔
اب تو انجام کا بھی نہیں ڈر ہمیں 
ہوگئی ہم سے کیسی خطا کاملہ

ایک شاعر:۔ واہ جی ، تسی تے وڈے اشتیاری نکلے۔۔۔ بلے بھئی بلے

چھوٹا غالبؔ:۔ آداب ، آداب ، جتنا داب سکے داب۔
اب اس مشاعرے کا شاہی طمنچہ جس شاعر ِ بے لگام کے منہ پر رکھنے جا رہا ہوں ، وہ ہمیشہ سے تعارف کے محتاج ہی رہے ہیں بچپن سے آج تک۔کیونکہ بچپن میں اپنا نام ہی مشکل سے ادا کرتے تھے۔ بڑے ہوئے تو بڑے مسائل پیدا ہوئے، والدین کیلئے۔لہذا کوئی فرق نہیں پڑے گا میں ان کا نام لوں ، نہ لوں  وہ نازل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔۔۔۔ان کا تخلص کیا ہے یہ آج تک خود ان کی سمجھ نہ آیا۔ بہرحال برداشت پر ناز ہے تو برداشت کیجئے۔مرزا ناک چنے چباوی

مرزا :۔ناکوں چنے چبواؤں  گا محبوب کو ہر دم
گر کر گلے لگاؤں گا محبوب کو ہر دم 

ایک شاعر :۔ابے کیا نالے میں گر پڑے تھے؟
دوسرا شاعر:۔نہیں نالہ ان پر آ گرا ہوگا۔
چھوٹاغالبؔ:۔حدِ بے ادب ، حدِ بے ادب۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی ان کا کلام چل رہا ہے۔

مرزا :۔بندر نے بھی نہ دکھایا ہوگا جو طویلہ
کرتب میں وہ دکھلاؤں گا محبوب کو ہردم 

ایک شاعر:۔ابے اس کی دُم پر پیر رکھو۔دُم  دبا دُم ، دُم دبا دُم۔
مرزا :۔ بھائی دُم پر نہیں دم پر۔۔  شعر قرض ہے
ایک شاعر :۔ کون سے بنک کا ہے؟
مرزا:۔ جب قرض چڑھے گا میرے سر پر جو زیادہ
اچھی طرح نچواؤں گا محبوب کو ہر دم

ایک شاعر:۔ دُر فٹے منہ
مرزا:۔ کیا آپ کے دل پر لگی جا کے؟ تو پھر لگائیں ٹھمکا۔
غالبؔ:۔شاعرانِ بے لگام اپنی حدود کو سامنے رکھیں۔ اور اب آپ پتلی گلی سے نکل لیں ۔
یہ تھے مرزا ناک چنے چباوی۔
اب جگر ، گردے ، پھیپھڑے سنبھال کر بیٹھئے۔
ایک شاعر:۔ کیا کسی قصائی کو بلایا ہے؟
غالبؔ:۔ اب آ رہے ہیں حضرت کریلا  نیم چڑھاوی
کریلا:۔ اماں  چڑھاوی نہیں ، چڑھوی
کریلا عرض کرے ہے
اب کیا چھپائیں آپ سے ، پالے ہیں ایسے روگ
کہتے ہیں کریلے کو سبھی نیم چڑھا لوگ

 شاعر:۔ارے بھئی یہ مطلع ہے یا مقطع؟
کریلا:۔ہونے کو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ درا صل آج مطلع ابر آلود تھا تو یہ دونوں کا مرکب ہے، اسے منقطع بھی کہہ سکتے ہیں ۔ جاہل لوگ اسے مُنَکا بھی بولتے ہیں ۔
ایک شاعر:۔ کچھ زیادہ ہی نیم چڑھا ہے
خان :۔ (نسوار دیتے ہوئے) خوچہ نسوار کاتی اے؟ بالکل اصل اے۔
کریلا :۔ خان! ایسی چیزیں آپ کو ہی راس آ سکتی ہیں ۔ ویسے بھی نسوار کا کریلے سے کیا میل؟۔۔۔۔
؎ ہم نے تو کمر باندھ لی محبوب کے آگے
چاہے رقیب کرتا پھرے دنیا بھر میں سوگ

ایک شاعر:۔ واوا بھئ واوا، رقیبِ روسیاہ کو کیا چماٹ ماری ہے
کریلا:۔ آداب، بہت زیادہ داب
صاحبِ صدر کیا آپ نے افیم چڑھائی ہوئی ہے؟۔۔۔۔۔ شعر عرض ہے؎
پیتا ہوں میں تو روز کریلے کا خود ہی جوس
انجام تو معلوم ہے، آغاز بھی ہے روگ

ایک شاعر:۔ واہ بھئی واہ، کیا شیر مارا ہے، ببر شیر ہے
دوسرا شاعر:۔ راج ببر کا بڑا بھائی لگتا ہے یہ تو۔
غالبؔ:۔ اپنا بے معنی کلام  لیے ہوئےیہ تھے کریلے وہ بھی نیم چڑھے۔
اب سلسلہ کلام کو ساکت وجامد کرنے آرہی ہیں ایک بہت بُڑھیا اور انتہائی بے باک شاعرہ۔جنہیں آپ نے اکثر ریڈیو پر دیکھا اور ٹی وی، اخبارات ، رسائل و جرائد پر سونگھا ہوگا۔نہایت چھچھورے ، اوباش ، تماش بین قسم کے شائقین جن کا شاعری سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ، ان کی صرف ایک جھلک دیکھنے کیلئے اور اپنا ندیدہ پن فخریہ طور پر ظاہر کرنے چلے آتے ہیں ۔
ایک بار ان کے کسی سچے پرستار نے وفورِ جذبات سے بے قابو ہو کر بھری محفل میں ان کے گلے میں






جوتوں کا ہار ڈال دیا تھا ۔
جس پر دنیائے ادب ابھی تک سکتے میں ہےاور آج تک فیصلہ نہیں کر پائی کہ یہ خود ساختہ شاعرہ دیکھنے کی چیز ہیں یا بس یونہی اپنے گلے کا استعمال کرتی ہیں ، وطن عزیز کے سارے ہی چینلز ان کی شاعری سے زیادہ ان کو اہمیت دیتے ہیں اور اس لیے یہ آپکو ہر جگہ پڑی ہوئی ملتی ہیں ۔ لہذا میں آپ کی برداشت کی داد دیتے ہوئےدرمیان سے ہٹنے ہی میں عافیت سمجھتا ہوں ۔ بڑے لشکارے و ناز وانداز سےآ رہی ہیں محترمہ زہر آلودہ زہرؔ
زہر:۔آداب بجا لاتی ہوں 
سب بیک آواز:۔ وعلیکم آداب۔
زہر :۔صاحبِ صدر اگر ہوش میں ہیں تو شعر ملاحظہ ہو۔۔۔
میرا جلوہ کہیں دیکھا، گلا ایسا کہیں دیکھا 
میرا جوڑا کہیں دیکھا ، ملا ایسا کہیں دیکھا

خان:۔ (پھڑکتے ہوئے) وئی وئی ، خوچہ بی بی جان ! تم کیدر ریتا اے ؟ کسم نسوار کا ، ام نے تو ایسا کبی نئیں دیکا ۔ ابی ام تم کو دیکنا چاتی اے بوت ٹیم تک۔
زہر:۔ آداب ، ابھی نہیں ، ذرا صبر سے کام لیجئے، ابھی نہیں
ایک شاعر:۔ واقعی  زہر ہو تو ایسا
زہر :۔ آداب۔ عرض کیا ہے جسے اکثر طول دیتی رہتی ہوں ، ملاحظہ ہو

زہر آلودہ سی نظریں لئے پھرتی ہوں دنیا میں 
ستم اتنا کہیں دیکھا ، برا  ایسا کہیں دیکھا 

ایک شاعر:۔ واہ جی واہ، کیا ستم توڑا ہے آپ نے
خان:۔ خوچہ وئی وئی، اک ستم اور میری جان ابی ام باکی اے۔
زہر:۔ آداب، بہت آداب۔ لیکن ذرا صبر سے کام لیں ۔ 
آگے ملاحظہ ہو، مزید آگے دیکھیں ۔ تھوڑی اور توجہ دیں مجھ پر۔
شاعر:۔ جی ہاں ، ہمہ تن گوشت ہیں ۔ ہم تو ٹکٹکی باندھ کر آئے ہیں ۔
زہر:۔ بچہ بچہ ، بوڑھا بوڑھا ، حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، محلہ تو سارا جانے ہے
خان:۔ خوچہ وئی وئی ام تو جانتی اے۔آپ امارا تاریف کرتا اےبی بی جان ! لیکن کسی کو بولنا نئیں ، امارا اورت بوت جلدی شک کرتا اے
زہر:۔ آداب لیکن ذرا ٹھہر کر، اطمینان سے۔۔۔۔۔۔ شعر ملاحظہ ہو۔
پڑے رہتے ہیں  دھت  میرے اشعار کو سن کر
زہر ایسا کہیں دیکھا ، چڑھا ایسا کہیں دیکھا
میں نے یہ دوگنا مقطع کہا ہے ۔ اس کو دو مکھا یا دو مقطع کہتے ہیں ۔ جاہل اسے دو مٹکا کہتے ہیں۔
ایک شاعر:۔ واہ صاحب۔ واہ جی کیا زہر گھولا ہے۔جو بات ہے زہر آلود ہے۔کہیں صدر صاحب فوت نہ ہوجائیں
دوسرا شاعر:۔کیوں بھئی ایمبو لینس تو تیار ہے نا؟
زہر:۔ اس قدر کمزور صدر کیوں لایا جاتا ہے ؟ صدر تو وہ ہے جس پر کسی کے کلام کا اثر ہی نہ ہو۔ دنیا بک بک کرتی ہے تو کرتی رہےصدر آرام سے پڑ ا سوتا رہے۔ صبح جب تنبو والا آکر ٹھوکریں مارےتو پتہ چلے کہ صدر کیا ہوتا ہے
غالبؔ:۔ شکریہ ! آپ نے صدر کی شان میں جو نقشہ بازی کی۔
زہر:۔آداب ۔ لیکن ابھی نہیں ، مشاعرے کے بعد۔
غالبؔ:۔آپ کے سامنے بے لگام تھیں محترمہ زہر آلودہ زہر۔ جو مشاعرے میں زہر گھولنے پر مکمل عبور رکھتی ہیں  اور نہ جانےکب آپ کی زندگی میں زہر گھولنے میں کامیاب ہو جائیں ۔
زہر:۔ حد درجہ تعریف کا شکریہ ۔۔۔۔

غالبؔ:۔بے کل و بے چین ناظرین مع غیر حاضرین! ابھی یہ مشاعرہ جوں کا توں ہے، کہیں بھاگئےگا ہر گز نہیں ورنہ ہم مشاعرہ لیکر آپ کے گھر نازل ہو جائیں گےاور پورا کا پورا مشاعرہ آپ پر مسلط کر کے رہیں گے۔ آخر آپ کے ذوق کی قیمت بھی تو آپ ہی ادا کریں گےلہذا ہم آپ کے ساتھ ہیں بریک سے پہلے اور بعد بھی۔
اپنا بریک آئل لازمی چیک کرتے رہیں ، کم ہو تو فوری ڈالیں ورنہ نتیجہ میں  کلیجہ منہ کو آسکتا ہے،
ڈھیشوں
کتا مارکہ، بریک آئل یاد رکھیں
ڈھیشوں 

پیارےبے کل و بے چین ناظرین مع غیر حاضرین!ویلکم بیک  یعنی پچھلے دروازے سے خوش آمدید۔۔۔۔۔

اب آپ کی قوتِ برداشت کا کڑا امتحان ہے۔ اس مشاعرے کے بے حد بے لگام شاعر  آپ پر کودنے کیلئے لنگوٹ کس چکے ہیں ۔ازل سے تکلیف میں ہیں ۔بچپن میں متعدد بار سکول سے نکالے گئےاور یوں ان کا دل اس قسم کی لغویات سے اچاٹ ہو گیا ۔  ٹُن پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے معاشرے میں پھٹکارے جاتے ہیں ۔بس ذرا ان کے نام سے پکاریں اور پھر دیکھیں کرشمہ۔۔۔۔ یہ فیصلہ آپ پر ہے کہ انہوں نے کہاں تک چڑھائی ہوئی ہے۔  ۔۔۔۔استاد تیوری چڑھا پوری
استاد تیوری:۔ (تیوری چڑھاتے ہوئے) صاحبِ صدر ! کلام پیش کروں یا نہ کروں؟
غالبؔ:۔ ضرور کریں
استاد:۔۔۔۔
اس قدر میں نے کیا اس کا ذکر دنیا سے
کہ ہے مفرور میری جورو فکرِ دنیا سے
ایک شاعر:۔ کیا فوت ہوگئیں؟
استاد:۔ جی ہاں، ان کا نام تھا فوت بیگم ولد قضائے الٰہی۔۔۔۔۔۔۔
خان:۔خوچہ وئی وئی کنا، ام کو تمارا اورت کا بوت دک اوا، بے چارا جوان مر گیا۔
استاد:۔ لیکن وہ تو پہلے ہی سے فوت تھی۔۔۔۔۔۔۔ کلام تو سنئے ۔ ابھی مجھے ایک اور مشاعرے میں بھی جانا ہے
۔۔۔
تذکرے ہوتے رہے اس کی بدمزاجی کے
فوت بیگم جو ہوئی میری، شکر ، دنیا سے
ایک شاعر:۔ کیا غضب کا شیر ہے۔
خان:۔ خوچہ کدر اے؟ (جیب سے پستول نکال کر)ام ابھی فیر کرتی اے۔
استاد:۔ بھئی آگے سنیں گے یا میں چلوں ؟
غالبؔ:۔ استاد آپ اپنی تیوری چڑھائے رہیں ، اپنے کلام سمیت
استاد:۔ میں نے جب تیوری اپنی چڑھائی بیگم پر
اس قدر بکنے لگی لے کر مکر دنیا سے
خان:۔ اوئے خوچہ کیا بکتی اے۔ مکر و فریب تو امارا چوٹا باچا کا نام اے۔ ام نے سوچا توڑا موڈرن نام اے۔

غالبؔ:۔پیارےبے کل و بے چین ناظرین وغیر حاضرین! ابھی آپ نے موقع دیا استاد کو پوری تیوری چڑھانے کا ۔ اب آپ لوگ دم بخود ہو جائیں، نہ جانے آپ کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے کیونکہ آپ کو نسوار سنگھانے آرہے ہیں انتہائی بے لگام و ریشہ ختمی۔۔۔۔خوچہ خان گل قباچہ۔ جنہیں بچپن سے شاعری کی بے نسبت نسوار زیادہ چڑھی ہے۔ یہ جس مشاعرے میں جاتے ہیں ، اس کے اختتام پر فرش کو فینائل سے دھلوانا پڑتا ہے
خان:۔ خوچہ ام آپ لوگ کی بوت مشکوک اے کہ آپ ام لوگ کا سنتی ہے۔ ام آپ لوگ کو بولتی اے کہ ام جو لکتی اے ام کو خود سمجھ نئیں آتی
غالبؔ:۔ حضور ارشاد ہو ، یقیناً ہمارے بھی پلے کچھ نہیں پڑے گا۔
خان:۔ خوچہ اس کا نام نئیں لو، ام نے اس خانہ خراب ارشاد کا نوکری چوڑ دیا اے۔ امارا شیر دیکو۔۔۔۔۔۔
خوچہ گر تم پٹان ہوتی
چہ میں میربان ہوتی
ایک شاعر:۔ واہ خان صاحب خالص جرگہ کا شیر ہے
خان:۔ او خو آگے کا بی سنو۔۔۔۔۔۔
میں تیرا جان لیتی 
تو میرا جان اوتی 
تو بی بی جان بنتا
میں تیرا خان اوتی
ایک شاعر:۔ واہ خان صاحب کیا غضب کی سٹوری ہے۔
خان:۔ خوچہ جان، ابی تو کانی آگے چلتا اے۔۔۔۔۔
توڑا بچہ زیادہ اوتی
بڑا خاندان اوتی
ایک شاعر:۔ خان صاحب !ذرا ہلکا ہاتھ رکھیں۔۔
خان:۔ خوچہ امارا کانی اے، کسی چڑی چاپ کا نئی۔۔۔۔۔۔۔۔
کبی مجھ سے جھگڑا کرتی
تو بلائے جان اوتی 
خوچہ گر تم پٹان اوتی
چہ میں میربان اوتی
ایک شاعر:۔ واہ خان صاحب ! خالص نسواری کلام ہے

 غالبؔ:۔پیارےبے کل و بے چین ناظرین وغیر حاضرین! بے وقت کا بریک آ چکا ہے ۔
میں اگر عورت  ہوتا تو یہی کہتا کہ ہمارے ساتھ ہر گز نہ رہئے گا، کیونکہ ہمارے علاقہ میں پانی نہیں آتا

تابڑ توڑ تعمیراتی ادارہ پیش کرتا ہےچند نئے اور انہونےمنصوبے
الدھڑام پلازہ
زمیں بوس ٹاور
اور 
منہدم اسکوائر
  جیسے کامیاب شاہکاروں کے بعد سمندر پار سرمایہ کاروں کیلئے 
تیتر ٹاؤن  میں تصوارتی پلاٹس، اور خوابیدہ بنگلے
نہ پانی، نہ بجلی ، نہ گیس ، نہ ٹرانسپورٹ کا غم
جس میں آپ کے تیتر و بٹیر انتہائی عیش وآرام سے آکری سانسیں لے سکتے ہیں ۔
ہینگ لگے نہ پھٹکڑی ، اور رنگ آئے چوکھا۔
خرکار بینک کی کسی بھی شاخ پر لٹک کر بلیک میں قرعہ اندازی کا فارم آنکھ بند کرکے خریدیں 
اگر آپ کا قرعہ نہ نکلے تو آدھی رقم ڈوبنے کا غم نہ کریں ، بلکہ آدھی رقم بچنے کا شکر ادا کریں۔
ڈھیشوں


غالبؔ:۔پیارےبے کل و بے چین ناظرین وغیر حاضرین!آئیےوہیں سے  ازار بندباندھیں جہاں سے ٹوٹا تھا۔ آپس کی بات ہے ، مہنگائی کا دور ہے  لہذا پیوند کاری سے کام چلتا ہے۔  اس بے باک و بے لگام  مشاعرے میں عجیب و غریب بولیاں سننے کو مل رہی ہیں ۔ اب ہم ایسے شاعر کو دعوت دے رہے ہیں جنہیں بچہ بچہ  جانتا ہے کیونکہ ان کا کلام ناقابلِ برداشت اور ان کی بری عالمی شہرت کے صلہ میں ناقابلِ نشر و اشاعت قرار دیا جا چکاہے ۔ برداشت پر ناز ہے تو برداشت کیجئے۔ انہوں نے اپاچی قبائل کیلئے کئی قومی و ملی نغمات بھی  تخلیق کیے ہیں ۔
تو ملاحظہ ہو اپاچی ایوارڈ یافتہ شاعر استاد عجیب بھونکوی
استاد عجیب:۔صدر صاحب ! اب میں آپ کے سرھانے بھونکوں کہ نہ بھونکوں؟

شاعر:۔بھونکیں ، بھونکیں ضرور بھونکیں ۔
استاد عجیب:۔
میں نے بھونکا جو کبھی آپ نے سمجھا نہ کبھی
لاکھ بھونکا جو کبھی آپ نے دیکھا نہ کبھی
ایک شاعر:۔ واہ کیا لاچاری و مجبوری ہے
استاد عجیب:۔میرے بھونکے  پہ موقوف ہے یہ دل کی رونق
بھونک کر ٹوٹ گیا دل میرا سنبھلا نہ کبھی
ایک شاعر:۔واہ کیا لگاتا اور لاجواب بھونکا ہے آپ کے دل نے۔
خان:۔ خوچہ ام کو دیک کر بوت زیادا بونکتی اے، امارا تو گلی سے گزرنا بی مشکل اے۔
استاد عجیب:۔ مزید بھونکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؎
آپ گزریں کہ نہ گزریں  میں سدا بھونکوں گا
کہ عجب بھونکنے کا کام یہ روکا نہ کبھی
ایک شاعر:۔واہ استاد بھونکوی واہ ! آپ نے تو بھونکنے کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا
استاد عجیب:۔ اب میں بھونکوں کہ نہ بھونکوں
شاعر:۔ بھونکیں بھونکیں
غالب:۔ استاد عجیب بھونکوی صاحب !شاعری پہلے ہی آپ کے احسانات کے بوجھ تلے پس چکی ہے۔ لہذا آپ کا مزید احسان یہ ہوگا  کہ آپ اپنا بوریا بستر سمیٹ لیں  کیونکہ وقت کی قلت نے ہمیں ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا ہے۔
پیارےبے کل و بے چین ناظرین وغیر حاضرین!انتہائی بے لگام شعرائے بے نیل و مرام نے کر دیا ہےجینا حرام ۔ اب میں صاحبِ صدر کی اجازت کے بغیر ایک بے سرے اور بے لگام شاعر کو پیش کر رہا ہوں جنہیں یہ خبط سوار ہے کہ وہ گلوکار شاعر ہیں ۔ لیکن دراصل انہیں خود بھی علم نہیں کہ گائیکی کیا ہے، یہ تو چیخنے ، چلانے ، اچھلنے ، کودنے  اور بلبلانے کو گلوکاری سمجھتے ہیں ۔ مجبورا ً  ہم مشاعرے کا شاہی طمنچہ علامہ سر دھنوی کے منہ سے لگاتے ہیں
علامہ :۔ بغیر عرض کیے کلام حاضر ہےکیونکہ میں کوئی منگتا فقیر نہیں ہوں کہ آپ جیسے کنگلے شعرا و شائقین کے سامنے عرض کروں  کہ عرض ہے یہ گلہ نہیں ، سمجھا ہے جتنا آپ نے اتنا تو بے سرا نہیں ۔ آپ جیسے بے سرے شائقین نے ہی مجھے علامہ سر دھنوی بنا ڈالا ہے ورنہ ہم بھی ہوتے کام کے ۔۔۔۔۔۔
سونگھیئے اور سر دھنئیے۔۔۔
ہم سے گایا نہ گیا ، ان سے بجایا نہ گیا 
ایک بھی سر کوئی ہم سے لگایا نہ گیا 
ایک شاعر:۔ وا جی ، کی کمال کیتا اے ، ایویں دھمال کیتا اے۔
علامہ :۔ آگے تو سر دھنئیے۔۔۔
یوں ہی بدنام رہے ہم تو سدا گانے میں
لے اٹھانی تھی جہاں، ہم سے اٹھایانہ گیا  
خان :۔ خوچہ ام بولتی اے کس کو کب اور کہاں اٹانا اے ، امارے کو بولو ام کام بلکل پکا کرتی اے۔
غالبؔ:۔خان صاحب یہ مشاعرہ تو آپ ہی نے اٹھایا ہے جب تک آپ جیسے بے لگام  و بے ہنگم شاعر نازل نہ ہوتے تو شاعری بے چاری ہمیشہ بری طرح  شرمائی اور نادم رہتی
علامہ:۔ آگے سونگھئیے اور سر دھنئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھکے دیتے رہے ہم اپنی ہی دھن میں دھن کو
شور جتنا بھی کیا ، اور مچایا نہ گیا
غالبؔ:۔ہم سے گایا نہ گیا ان سے بجایا نہ گیا۔ ۔۔۔یہ تھے انتہائی بے سرے و بے ہنگم گلوکار نما شاعر جناب علامہ سر دھنوی ۔۔۔۔
اب ہم اپنے پیارے وطن کی مایہ ناز ملکہ ء شاعری  کو ہم نازل ہونے کی بھیک دیتے ہیں  ان کی شاعرانہ عظمتِ بے لگام  کی سند عالمی مشاعروں میں گم ہو چکی ہے۔انہوں نے اپنا تن، من اپنا برتن اپنا سالن غرض یہ کہ  اپنا سبھی کچھ خود فراموشی کی کیفیت میں اپنی بے ہنگم شاعری کے سپرد کر دیا ، یہاں تک نوبت آ چکی ہے کہ انہیں یہ بھی یاد نہیں رہتا  کہ یہ کس وقت کہاں ہیں ۔ان کے بے شمار تابڑ توڑ قسم ے دیوان یکے بعد دیگرے ردی فروشوں کے تھڑوں پر بآسانی دستیاب ہیں جنہوں نے دنیائے بے ادب میں کہرام مچا دیا ہے۔ گنجی ٹنڈ والے نقادوں نے انہیں بے تحاش  اپنے سروں پر چڑھانے کی ناکام کوششیں کیں اور اب یہ عالم ہے کہ کتب فروش خود کو ردی فروش  کہلانے میں بڑا فخر محسوس  کرتے ہیں ۔بصد ذلت و خواریہم انہیں پیش کرنے کیلئے خود کو انتہائی مجبور و بے بس پاتے ہیں ۔ جگر ، پھیپھڑے  اور گردے  سنبھالیں کہ آپ کا جینا حرام کرنےنازل ہوا چاہتی ہیں محترمہ نازک اندام بیماروی۔۔۔۔
نازک:۔ آداب بجواتی ہوں ، مجھے فخر ہے کہ میری بیماری کو آپ شاعری سمجھتے ہیں ۔ یہ سب آپ کی گھٹیا محبت کا ثبوت  ہے جسے میں تا زندگی سرمایہ ء پھٹکار محسوس کرتی رہوں گی۔ آج میں آپ کے چرنوں میں اپنی بدنامِ زمانہ غزل پیش کرتی ہوں جسے زمانہ شاعری کی بہتی ہوئی ناک کہتا پھرتا ہے۔ شاید یہ بے رومال زمانہ ہے۔۔۔۔۔۔۔
خود بخود پھیل گئی بات اس انگڑائی کی
اس نے کتے کی طرح میری پذیرائی کی
ایک شاعر:۔(قدموں میں لوٹنے کی کوشش میں)واہ جی واہ 
نازک:۔مزید ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔
جب بھی کیچڑ میں وہ لوٹا تو میرے پاس آیا 
بس یہی بات ہے بڑھیا میرے اس نائی کی
خان:۔ خوچہ وئی وئی ، یہ کونسا نائی اے، ام اس کا اجامت بنائے گی
ایک شاعر:۔ یہ سب کیچڑ کی کرامات ہیں ۔
نازک آداب بجواتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ مزید سنئے۔۔۔۔
میں ا سکا نام نہ لوں لوگ بو سے پہچانیں 
بات کہنے کی نہیں ، بات ہے قصائی کی
خان:۔ خوچہ بی بی جان ! تم ا س  کا نام ضرور لو ، کسم نسوار کا اس کو نئیں چوڑے گی۔
ایک شاعر:۔ خان صاحب صبر سے کام لیں ایسا وقت کسی پہ بھی آسکتا ہے۔
 غالبؔ:۔پیارےبے کل و بے چین ناظرین وغیر حاضرین!اب ہم سب مل کر صاحبِ صدر کو بیدار کرتے ہیں اور اس مشاعرے کا اختتامی ٹوکرا ان کے سر پر رکھتے ہیں ۔ان کی تعریف کرنا کچھ عجیب سا لگتا ہے کیونکہ انہوں نےا پنی سطحی اور بے ہنگم سے شعرا کے ہجوم میں کھلبلی سی مچا دی ہے۔ ان کے ناقدین میں تو جیسے جیسے صفِ ماتم بچھ گئی ہے اور کتب فروش حیران ہیں کہ ردی فروش ان سے آگے نکل گیا ۔میڈیا کےکارندے ان کے سامنے کشکول لیے پھرتے ہیں جیسا کہ مزاروں پر دیکھا جاتا ہے، ممکن ہے صاحبِ صدر آنکھ بچا کر تعویز گنڈوں کا کام بھی کرتے ہوں  لیکن سانوں کی۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں تو ان کی شاعری سے لچر پن کی حد تک عشقِ مجازی ہے۔۔۔۔۔۔۔
انجام خطاوی:۔ (آنکھیں ملتے ہوئے اٹھتے ہیں ) آن ، ہوں ، ہاں میں کہاں ہوں ، کیا مشاعرہ ابھی چالو ہے؟
نہایت کوفت محسوس ہوتی ہے جب مجھے نیند سے اغوا کیا جاتا ہے۔
 بہرحال۔ ۔۔۔ جو بچا تھا وہ لٹانے کیلئے آئے ہیں 
آخری گیت سنانے کیلئے آئے ہیں 
شیر ملاحظہ ہو
شعرا:۔ خطا فرمائیے ۔ خطا فرمائیے۔۔۔۔۔۔۔۔
صدر:۔ پٹ کے یوں ہم نے گال سہلائے
جیسے برکھا کی رت چلی آئے
شعرا :۔ واہ صاب، کیا پٹائی کی رت ہے
صدر:۔میں آپ کی داد کے ہر گز لائق نہیں کیونکہ پٹنا تو میرا محبوب مشغلہ ہے۔۔۔۔۔۔شیر حاضر ہے۔۔۔۔
راز داری سی راز داری ہے
مانگ کر ہم ادھار پچھتائے
خان :۔ خوچہ ! ام لوگ  کس لئے اے، جب بولو آپ کو سود پر ادھار دیتی اے ۔
صدر:۔ دراصل میں بچپن سے ہی حساب میں کمزور ہوں ، اور جسمانی طور پر بھی
شیر سونگھیئے۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنے اشعار ہم نے چوری کیے
پھر بھی احمق دراز کہلائے
غالبؔ:۔ واہ کیا سچا شعر ہے ، اعترافِ جرم ہو تو ایسا۔۔۔۔۔۔۔
صدر:۔ اب اجازت ہی مانگنی ہے  مجھے
بس صدارت کو آج بھر پائے 

غالبؔ:۔ (شعرا کا شور اور کھڑے ہو جانا دیکھ کر)پیارے بے کل ، بے چین و بے قرار ناظرین مع غیر حاضرین! ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے اتنی توجہ اور انہماک سے اس انتہائی بے لگام ، بے ہنگم و بے ہودہ مشاعرے کو برداشت کیا 
یہ ہے انجامِ مشاعرہ
یار زندہ ، درگت باقی

پاکستان زندہ باد

کرم فرما