Pak Urdu Installer

Saturday 25 April 2015

چلتے ہو تو لاہور کو چلیے (قسط ششم)۔

0 آرا

کافی دیر تک ہم بغکگیر رہے. افی صاحب نے ایک بار پھرمجھے لاہور میں خوش آمدید کہا، اور  مجھے لےکر اپنے گھر کی طرف چل پڑے۔ جو کہ سبزہ زار میں واقع ہے۔ وہاں سب سے پہلےافی صاحب کے والد گرامی قدرسے ملاقات ہوئی ، اور افی صاحب نے میرا اس قدر مبالغہ آمیز تعارف کروایا کہ مجھے شرمندگی ہونے لگی۔

افی صاحب مجھے بٹھا کے نماز پڑھنے اندر چلے گئے میں ان کے والد صاحب سے گپ شپ کرتا رہا۔  مجھے افی صاحب  پہ بہت رشک آیا۔ کیونکہ ان کے والد صاحب اپنے ہونہار صاحبزادے کا ذکر  نہایت توصیفی انداز  میں کرتے رہے۔ ایک ہم تھے کہ اپنے والد صاحب کو کسی غیرکے سامنے   اپنی تعریف میں رطب اللسان دیکھنے یا سننے کی  حسرت دل  میں لیے اتنی عمر گزار  دی ، یہاں تک  کہ ان کی وفات ہو گئی اور وہ حسرت دل میں داغ ہو کر رہ گئی۔

افی صاحب اس لحاظ سے بھی خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ ان کے والدین ان سے خوش اور راضی ہیں۔ اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ  جس بندے سے اس کے والدین اس قدر خوش اور راضی ہوں یقیناً اس سے اللہ  تعالیٰ بھی خوش اور راضی ہی ہوگا۔ اوراس لحاظ سے فدوی خوش نصیب ہےکہ ایسے دوست رکھتا ہےجن سے اللہ تعالیٰ راضی ہے۔

اب ہم نے والد صاحب سے دعائیں اور رخصت لی اور مون مارکیٹ آ گئے۔ اس دوران افی صاحب نے مجھے اپنی ایک مدحیہ نظم کی ویڈیو دکھائی جو کہ انہوں نے بابا جی اشفاق احمد صاحب کی شان میں کہی تھی۔ بلا مبالغہ بہت ہی سادہ اور دلی جذبات کی عکاس بہترین نظم تھی۔ سن اور دیکھ کر مزہ آ گیا۔

مون مارکیٹ میں کار پارک کی اور اندر بنے پارک میں چلے گئے۔ جہاں افی صاحب نے مجھے اپنا مخصوص گوشہِ نشست دکھایا، اوروہیں رکنے کا کہہ کرایک طرف غائب ہو گئے۔ میں اس دوران  آس پاس کا جائزہ لیتا رہا۔ اس وقت جہاں میں کھڑا تھا اس کے  بالکل سامنے گجرریسٹورنٹ اوراس کی اوپری منزل پر نرگس بیوٹی پارلر تھا۔

اتنے میں افی صاحب تین کرسیاں اٹھائے آگئے۔ دو پہ ہم بیٹھ گئے اور تیسری پہ انہوں نے ہاتھ میں پکڑے سگریٹ اور بسکٹ کے پیکٹ دھر دئیے۔  اتنے میں چائےبھی آگئی۔ افی صاحب نے دو جملے چائے کی تعریف میں کہے اورساتھ ہی کہا کہ میں  آدھا کپ پیوں گا۔ چائے کی چسکی لی تو ماننا پڑا  کہ واقعی مزے دار ہے۔ اگر یہی چائے استادِ محترم مرزا غالب کو کوئی پلاتا توآج مے نوش  کی بجائے چائے نوش مشہور ہوتے۔ اور یہ شعر  بھی یوں ہوتا:۔
قرض کی پیتے تھے چے، اور  سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری بھی ڈھابہ مستی ایک دن
 
چے نوشی اور بسکٹ خوری کے دوران ہماری   زبان بھی چلتی رہی۔ اس سے فارغ ہوئے تو افی صاحب نے  دھواں نوشی  شروع کر دی۔ یہاں  مجھے اپنی غالبانہ نسبت پر شکر گزار ہونے کی ایک اور وجہ میسر آئی اور میں نے اس پہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔

ایک بچہ ہمارے پاس آیا اور افی صاحب سے مصافحہ کر کے پوچھا:۔ آپ ڈراموں میں آتے ہیں ناں۔؟ افی صاحب نے اقرار میں نہ صرف سر ہلایا  بلکہ زبان بھی ہلائی, اور بچے سے پوچھا آپ نے کونسے ڈرامے میں مجھے دیکھا ہے؟ بچے نے پُرجوش ہو کر دو تین ڈراموں کے نام بتائے اور کہا کہ "ان میں سے دعا والا آپ کا ڈرامہ مجھے بہت پسند ہے۔" افی صاحب نے اس کا شکریہ ادا کیااور ساتھ ہی میراتعارف بھی یہ کہہ کر کروایا کہ یہ بھی ڈراموں میں کام کرتا ہے۔ آپ نے اس کا ڈرامہ دیکھا ہے "مرزا غالب"؟ بچے نے نفی میں سر ہلادیا۔

میں اس دوران یہ سوچ رہا تھا کہ اگر میں صرف اویس قرنی ہوتا تو اس بچے کی طرح میں بھی بس افی صاحب سے مصافحہ کرنے اور زیادہ سے زیادہ دو منٹ بات کرنے کا موقع پاسکتا۔ مگر بھلا ہو میری نسبت کا جس نے مجھے اویس قرنی سے جونیئر غالب بنا دیا ہے۔ جیسے اس بچے کی افی صاحب سے پہلی بار بالمشافہ ملاقات ہوئی ہے ویسے ہی میری بھی پہلی ملاقات تھی۔  مگرفرق یہ تھاکہ وہ آیا, افی صاحب سے ہاتھ ملائے چند باتیں کیں اور ملاقات ختم..... لیکن جونیئر غالب کیلئے افی صاحب اپناڈرامہ لکھتے لکھتے اٹھے ، بس ٹرمینل پراستقبال کو آئے، گھر لے گئے ، بچوں سے ملوایا ، اب ساتھ لیے پھر رہے ہیں۔  میرے ہی  ایک دوست کے انتظار کی وجہ سے ایک گھنٹہ لیٹ ہو رہے ہیں۔ میری مدارات ہو رہی ہیں۔

یہ سب کیا ہے؟؟؟
عزت دینے والا بے شک اللہ تعالیٰ ہے مگر
یہ سب عزت اور  توجہ مجھے غالب کے توسط سے مل رہا ہے۔
اے اہلِ دل ، اے اہلِ نظر  ۔۔۔ دیکھو  !!!! اگر دیکھ سکتے ہو  تو
مجھے یہ سب کچھ غالب سے مل رہا ہے

  ابو ظہبی سے شانی کی کال آگئی اور وہ مجھ سے ناراض ہونے لگا کہ جب میں پاکستان میں تھا تو آپ کو لاہور آنے کا خیال کیوں نہیں آیا۔ اسے اس بات پہ بھی حیرانی تھی کہ شانی اور ارسل سے میری دوستی افی صاحب سے بھی زیادہ پرانی تھی، مگر آج تک میں ان کے کسی بلاوے میں نہیں آیا ، جبکہ  افی صاحب سے  ملنے "آواں گی ہوا بن  کے" گنگناتاہوا دوڑا چلا آیا۔ اس نے مجھے پیشگی خبردار کیا کہ جنوری کے اخیر میں  وہ اپنے بھائی کی شادی کیلئے پاکستان آرہا ہے ، اور میری بھی شادی میں شرکت ضروری ہے ، جس کیلئے چشم براہ افی صاحب اور متمنی شرکت شانی ہوگا۔ اور کسی ٹال مٹول کی  صورت میں اچھا نہیں ہوگا۔
 
مزید تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد جب کہیں سے بھی ارسل کے آنے کے آثار نظر نہ آئے توارسل کوکال کرکے بتایا کہ اڈے سے رکشہ پکڑنا اور داستان سرائے آجانا، ہم وہیں جارہے ہیں۔ اب ہم  مون مارکیٹ سے نکلے، کار میں بیٹھے اور اقبال پارک کے قریب سے ہوتے ہوئے داستان سرائے کی جانب چل پڑے۔ راستہ بھرافی صاحب اپنی پیروڈیز سنا سناکرہنساتے رہے۔

اچانک میرے موبائل پر ایک انجان نمبر سے کال آگئی۔ میں ایسی پر اسرار کالزکو نظر انداز ہی کر دیتا ہوں، لیکن افی صاحب نے مجھے کال سننے کا مشورہ دیا۔ سننے پر پتاچلا کہ وہ کوئی اور نہیں جناب عبدالرزاق قادری صاحب ہیں۔ چھوٹتے ہی شکوہ کناں ہو گئے کہ میں کتنے دنوں سے کالز اور میسیج کر رہاہوں مگر آپ تودرخور اعتنا ہی نہیں سمجھتے۔ میں نے معذرت کی اور بتایا کہ اس وقت آپ کے شہر میں ہوں ، نیز داستاں سرائے جا رہا ہوں، واپسی پرآپ کو بتاؤں گا، اگر آپ ملنا چاہیں تو چشمِ ما روشن دلِ ما شاد۔

اس کے بعد افی صاحب دوبارہ وصی شاہ کے  کلام کی درگت بنانے لگے اور میرے حلق سے قہقہے پھوٹتے رہے۔
یہاں تک کہ ماڈل ٹاؤن پہنچ گئے ، ایک جگہ افی صاحب نے گاڑی روکی اور درود شریف پڑھنے لگے۔ میں اس کایا پلٹ پرحیران تو ہوا کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے...؟؟ لیکن  اس سے پہلے کہ کچھ پوچھتا کہ میری نظر سڑک کے دوسری جانب  ایک گیٹ پر جگمگاتے "داستاں سرائے" کے الفاظ پر پڑی اورمیں دم بخود رہ گیا۔

(جاری ہے....)                    

کرم فرما