Pak Urdu Installer

Saturday 30 May 2015

چلتے ہو تو لاہور کو چلیے (آخری قسط)۔

13 آرا
راستے میں ہماری زبانیں قینچی کی طرح چلتی رہیں. ارسل نےتیسری مرتبہ پھر مجھ سے پوچھا:۔ "یار چھوٹے بتا! میں تمہیں کیسا لگا۔" اورجواباً مجھے وہی تعریفی الفاظ دہرانے پڑے جو پہلے بھی کئی بار دہرا چکا تھا۔ افی صاحب نےگھڑی دیکھی اور بولے یار اس وقت وہ ٹی سٹال بند ہو چکا ہوگا، ورنہ تم دونوں کو وہاں کی زبردست چائے پلاتا۔ میں نےکہاجوچائے ہم نے مون مارکیٹ میں پی تھی بری تو وہ بھی نہیں تھی۔ مسکرا کے بولے:۔ یہ بہت......... قسم کی چائے ہوتی ہے، پیتے تو زندگی بھر اس کا مزہ نہ بھولتے۔" اس نادر  تشبیہہ پر ارسل اور میرے حلق سے قہقہے پھوٹ پڑے۔

افی صاحب کی شخصیت کے کیاکہنےایسے بے تکلف اوریار باش قسم کے بندے ہیں کہ انکی صحبت میں بوریت تو پاس نہیں پھٹکتی، البتہ  ہنسا ہنسا کے پسلیوں کے ہاتھ کھڑے کروادیتے ہیں۔
اشفاق احمدصاحب کی قبر پہ حاضری کے ایجنڈے پر بات شروع ہوئی توافی صاحب نے  بتایا کہ شام کے بعد قبرستان کا مین گیٹ بند کر دیا جاتا ہے۔ میں نےتجویزپیش کی کہ کیوں نہ گاڑی باہرکھڑی کر کے ہم دیوار پھاندجائیں۔ افی صاحب نےکہاچوکیدارہمیں چرسی سمجھیں گے جو سُوٹے لگانے کیلئےقبرستان میں گھس آئے ہیں۔ اور یہ معاملہ بھی ملتوی ہوگیا۔

ہنستے ہنساتے ایک بارپھرمون مارکیٹ جا پہنچے اورافی صاحب کے مخصوص گوشہِ نشست یعنی نرگس بیوٹی پارلرکے بالکل سامنے والے کونےمیں پڑاؤ کیا۔ وہاں پہنچتے ہی افی صاحب اورارسل ایکا کرکے میرے لمبے بالوں کے پیچھے پڑ گئے اور لگے پھبتیاں کسنے، دونوں نے بہت کوشش کی کہ  مجھےاسی وقت حجامت کیلئے حجام کے سامنے پیش کر دیں، لیکن میں نے پروں پہ پانی نہ پڑنے دیا۔ اسی دوران عبدالرزاق قادری صاحب کی کال آ گئی۔ میں نے بتایا کہ ہم واپس مون مارکیٹ پہنچ چکے ہیں۔ اگر آپ اس وقت یہاں آسکیں تو  ملاقات کا آنند آجائے گا۔ اور قادری صاحب نے جو کچھ جواب میں فرمایااس کارواں پنجابی ترجمہ "بوہے باریاں تے نالے کندھاں ٹپ کے ۔۔۔۔ آواں گاہوا بن کے" کیاجاسکتاہے۔

 اس کے بعد سلسلہ کلام وہیں سے جڑ گیاجہاں سے کال آنے پر ٹوٹاتھ ، لیکن جلد ہی خاکساراس دریا کا رخ موڑنے میں کامیاب ہوگیا۔ ایسالگتاتھا  کہ ہم تینوں ایک ٹینک پربیٹھےہیں اورسامنے آنے والے مختلف موضوعات کو روندتے لتاڑتےچلےجا رہے ہیں۔ بات سے بات نکلتی جا رہی تھی۔ نہ وقت کا ہوش تھانہ اردگرد کا, کہ قادری صاحب کی پھر کال آ گئی۔ سننے پر معلوم ہوا کہ وہ مون مارکیٹ میں تشریف لا چکے ہیں، مگرنشانِ منزل ڈھونڈنے میں ناکامی کامنہ دیکھےجارہے ہیں۔ میں نےدوتین نشانیاں دیں لیکن انہوں نے نہ "مدعا پایا"۔

راقم کرسی سےکھڑاہوا , اور ادھرادھرجھانکتے  گھومتے قادری صاحب کو ڈھونڈ رہا تھا اوروہ کان سے موبائل لگائے گجر ہوٹل کے نیچے کھڑے  ہوئے تھے۔ اچانک میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جو ہمارے پڑاؤ کے اردگرد مشکوک اندازمیں منڈلا رہا تھا۔ جب اسے اندازہ ہوا کہ میں قادری صاحب  کو کال پر راستہ سمجھارہا ہوں، تو اس نے خوشی سے نعرہ نما آواز نکالی اب تومیری کامن سینس بھی شیر ہوگئی۔ اس کی نظروں کے تعاقب میں نظریں دوڑائیں تو کوئی موبال کان سے لگائے ،منہ اٹھائے نرگس بیوٹی پارلرکےپینا فلیکس پر چمکتی دمکتی حسیناؤں سےآنکھ  مٹکا کرنے میں مصروف تھا۔ میں نے موبائل پہ کہا سرکار میری طرف بھی توجہ فرمائیے۔ تو آپ نے بکمال مہربانی حسیناؤں کی جان بخشی اور پیچھے کو مڑے ، مجھ پر نظر پڑی تو میری کھلی بانہیں دیکھ کر ایک ہی جست میں پارک کی ریلنگ پھلانگی اور سینے سے آ لگے ٹھاہ کر کے.... ان سے مل کر مولانا حالی کی طرح میرا بھی جی خوش ہو گیا۔ افی صاحب اور ارسل سےان کا تعارف کروایا اور آپ نےنوید (ساتھ آئے نوجوان) سے ہمارا تعارف کروایا۔ افی صاحب نے باآوازِ بلند کرسی سمیت کا چائے کا آرڈردیا، جس کی فوراً ہی تعمیل ہوئی۔

ہمیں چائے پہ لگاکرافی صاحب کو ایساغنیمت موقع ہاتھ آیا کہ پھر انہوں نے ہمیں بولنے کا موقع ہی نہ دیا۔ میں تو پھر بھی افی صاحب کے خطاب  کو آتشِ امرود سمجھ کر بے خطرکود پڑتااورچند لقمےدے آتا مگرعبدالرزاق، ارسل اور نوید کا  کردار محوِ تماشائے برلبِ کرسی، یعنی صرف  ایک اچھے سامع کا تھا۔ ایک بار تائیدکی تلاش میں ارسل کی طرف دیکھا تو موصوف ہمیں ہمارے حال پہ چھوڑکر موبائل پہ انگلیاں دوڑا رہے تھے۔  ہم پہ بس نہ چل سکا توموبائل کو بس میں کرلیا۔ اوروقفے وقفےسےواپسی کا نعرہ بھی لگاتے رہے۔ جسے کچھ دیر تو ہم ٹالتے رہے، آخر مجھے بھی خیال آیا کہ سفر بہت لمبا ہے۔ اس لیے اب محفل برخاست کرنی چاہیے۔

محفل برخاست ہوتے ہوتے بھی کچھ دیرلگ گئی۔  دراصل میرا ، ہم سب کا اٹھنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ پھر نجانے کب یوں مل بیٹھنے کا موقع ملے، اس لیے جتنا وقت ایک ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، بیٹھے رہیں۔ مگروقت شاید خرگوش سے شرط لگا کردوڑا جا رہا تھا۔
 
آخرافی صاحب اورارسل اٹھے اور ریل گاڑی کی طرح آہستہ آہستہ رینگتےرینگتے چل پڑے ،جبکہ  عبدالرزاق اور خاکسارصرف اٹھے اور کھڑے ہی رہے۔ کہنے کواختتامی باتیں تھیں مگرایک بار شروع کیا ہوئیں ختم ہونا بھول گئیں۔ اچانک قادری صاحب کو کچھ یاد آیا، انہوں نے میجک شوکے چرب زبان جادوگر کے سے انداز میں شال کے اندر ہاتھ ڈالا اور پھر اپرکے اندر ڈال لیا۔ ہاتھ کے اس اندر در اندر سفرسے میرے کان کھڑے ہوئے مگردو عدد کتابیں برآمد ہوتے دیکھ کر  اطمینان سے بیٹھ گئے۔ قادری صاحب نے دونوں میرے حوالے کردیں، میں ڈھنگ سے ان کا شکریہ بھی ادا نہ کر پایا، کیونکہ میری نظریں آہستہ آہستہ دور جاتے افی صاحب اور ارسل پر لگی تھیں۔ جو اب پارک سے نکل رہے تھے.

اب میں بھی ایک بار پھرالوداعی مصافحہ کرکے رخصت ہوا۔ پارک سے نکلا تو افی صاحب کار پارکنگ سے نکال کر میرے انتظار میں تھے، میں بیٹھااور ہم مون مارکیٹ سے بھی نکل گئے۔ اب کار سوئے سٹی ٹرمینل رواں دواں تھی۔ کچھ ہی دیر میں ہم وہاں پہنچ گئے۔ دونوں کار سے نکل کر مجھ سے بغلگیر ہوئے اور میں نے ان سے رخصت چاہی۔ ارسل تو مجھے بس پہ بٹھانے کو آرہا تھا مگرمیں نے شکریے کے ساتھ اسےاپنی بس پہ (نیازی اڈے سے) سوار ہونے کا مشورہ دے کر ٹال  دیا۔ پھر میں تو سڑک پار کر کےٹرمینل میں داخل ہوگیااور یہ لوگ کار میں بیٹھ کرآگے چل پڑے۔

بہاولپور جانے والی بس روانگی کیلئے بالکل تیار تھی، کوئی سیٹ خالی ہونے امید تو نہیں تھی، مگر پھر بھی کنڈیکٹر سے پوچھ لیا کہ شاید کوئی جُگاڑ ہوجائے، لیکن ہاؤس فُل کی خبر پاکرکندھے اچکائےاورٹکٹ کاؤنٹر پہ پہنچا، اگلی بس ایک گھنٹہ بعد یعنی ایک بجے روانہ ہونی تھی اور   مجھے 19 نمبر سیٹ کا ٹکٹ نصیب ہوا۔

وقت گزاری کیلئےانتظار گاہ میں آبیٹھا، ٹی وی  دیکھ کے ایک گھنٹہ گزارنے کا سوچالیکن، بارہ بجتے ہی بجلی صاحبہ رخصت پہ چلی گئیں۔ اور میری قسمت کی طرح یہاں بھی اندھیراچھاگیا۔  کسی نہ کسی طرح ایک گھنٹہ توگزارناتھاسب سے پہلے بھائی کو فون کرکے بتایا کہ ایک بجے لاہور سے  نکلوں گا، صبح گھر پہنچ جاؤں گا۔ اس کے بعدوقت گزارنے کیلئےسانپ والی گیم کھیلنے میں مشغول ہو گیا۔ کچھ ہی دیرمیں اس سے بھی اکتا گیا تو باہر نکل کرٹہلنے لگا۔
جب ٹہلنے سے بھی بہلنے کی سبیل نہ نکلی تو  بس میں گھس گیا، کنڈیکٹر کو رحم آیا تو بطور چارہ سازی وحشت اس نے USB سی ڈی پلیئر  میں لگا کے زمانہ قدیم کے گانے چلا دیے، مگر زنداں میں بھی خیال ِبیاباں نورد تھا، سو ٹی وی دیکھنےکی بجائےکھڑکی کے شیشےسےناک لگا کر باہرنظر آتی بتیاں گنتا رہا۔ میری دیکھا دیکھی باقی مسافر بھی بس میں بیٹھنے لگے اور نتیجتاً 12 بج کر 50 منٹ پر ہی بس ٹرمینل سے نکلی اور بہاولپور کی جانب دوڑنے لگی۔ صبح کی نماز وہاڑی میں ادا ہوئی۔ اور پھر میلسی, کہروڑ پکا   کو بھی پیچھے چھوڑ آئے۔ تین گھنٹے بعد...... بدھو  جس منہ سے جمعہ کی صبح لاہور گیاتھا ہفتہ کی صبح آٹھ بجے واپس لوٹ آیا۔

مؤرخین سے مجھے کوئی امید نہیں کہ وہ اِس ناچیز بھولے کا نام تاریخ میں سنہرے چھوڑکالے حروف سےبھی لکھنے کو تیار ہوں جو شام کی بجائےصبح صبح ہی لوٹ آیا۔ البتہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈز والوں کواپنا نام بھیجنے کے بارے  میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں۔


آپکا کیا خیال ہے؟؟؟؟

Wednesday 27 May 2015

چلتے ہو تو لاہور کو چلیے (قسط دہم)۔

0 آرا
اسی  سوچ  میں گم تھا  کہ  میں نے آپا  جی کی زمزم  سے دھلی  نگاہیں اپنے اندر اترتی ہوئی  پائیں۔    ان کو اپنی طرف دیکھتا پا کر میں  چونکا تو انہوں نے   بڑی شفقت اور پیار سے  مجھے اپنے قریب بلایا ۔  اور  میں بے خودی کے عالم  میں آپا  جی کی طرف کھنچا چلا گیا۔  ارسل ابھی تک ان کے قدموں  سے لپٹا بیٹھا تھا،  میں نے  اسے ہاتھ  لگا کے  اٹھنے کا  اشارہ دیا اور  خود  بانو آپا   سامنے بکھری  جنت میں داخل ہو کر ان کے قدموں پر ڈھیر  ہو گیا۔تیس سال سے  بھٹکتے  جوگی  نے     ماں  جی  کی  گود  میں  سر جھکا دیا۔  بانو آپا کا  شفقت اور ممتا سے  لبریز  پاکیزہ ہاتھ  اپنے سر  پر محسوس  ہوا ۔  جی تو چاہا  کہ  دھاڑیں مار مار کے رونا شروع کر دوں  مگر  اتنا  شفیق ہاتھ  میرے سر پر تھا  کہ رو  بھی نہ سکا ۔  روتا بھی تو کس منہ سے  روتا۔  ۔۔۔؟
  کتابوں  میں پڑھا ہے جب آقائے  نامدار  تاجدارِ کائنات   معراج پر  تشریف لے گئے  تھے ، تو  وقت کی  لگامیں  کھینچ لی گئیں تھیں ۔سیر افلاک  اور  "قابَ قوسین  " کے  اعزاز  سے سرفراز  ہونے  کے  بعد  جب واپس  عالم  ِ خاکی میں تشریف لائے  تو  در مبارک  کی  کنڈی  ابھی ہل  رہی تھی اور وضو  کا پانی  زمین پر  ابھی ویسے ہی  بہہ رہا تھا۔ 
اللہ جھوٹ نہ بلوائے  جتنی  میری  اوقات  ہے اس حساب سے  تو یہ میری  معراج تھی۔  
تیری معراج  کہ تو لوح و قلم  تک پہنچا
میری معراج  کہ میں تیرےقدم تک پہنچا
رسول  اللہ صلی اللہ  علیہ  وآلہ  وسلم  کو  اللہ  تعالیٰ نے  بلایا  ، غلام ِ   رسول  اللہ  کو  اللہ  کی  برگزیدہ  بندی  بانو آپا  نے بلایا  ۔    رسول  اللہ صلی اللہ  علیہ  وآلہ  وسلم  کو  جبرئیل  علیہ السلام سفید   براق  لے کر  لینے  کو آئے تھے ، غلام  ِ رسول اللہ  کیلئے افتخار احمد  عثمانی  صاحب سفید  کار  لے کر  لینے کو آئے ۔    رسول  اللہ صلی اللہ  علیہ  وآلہ  وسلم   کو جنت  کی سیر  کرائی گئی  اور  غلام  ِ  رسول اللہ  کو  بانو آپا کے قدموں میں بچھی  جنت  (داستان سرائے)میں  سیر کرائی گئی۔قرآن مجید  میں اللہ تعالیٰ خود  گواہی دے رہا  ہے  کہ میرے آقارسول  اللہ صلی اللہ  علیہ  وآلہ  وسلم    کو "قابَ قوسین ِ او ادنیٰ"(ایک  کمان  کے دونوں سروں  جتنا  قریب  بلکہ اس سے  بھی تھوڑا کم)کا تاج پہنایا  گیا۔  اور حاضرین گواہ  ہیں کہ   غلامِ  رسول اللہ  جب  بانو آپا  کے سامنے  زانوئے ادب تہہ  کر  کے  ان کی گود میں  جھکا  اور  ان کا دستِ شفقت اس  کے سر پہ تھا  تو  یہ  مقامِ "قابَ قوسینِ او ادنیٰ" کی  ایک  خاکی  تمثیل  تھی۔
دیکھنے  والوں  کی دانست  میں جوگی چند  ثانیے  بانو آپا کی گود میں جھکا رہا ۔  لیکن  
کوئی میرے دل سے  پوچھے تیرے تیرِ نیم کش کو
ان چند لمحوں میں مجھ پر  کئی عالم  گزر گئے ،  میرے  لیے وقت  رک چکا تھا ،  اور سیر افلاک  جاری تھی۔ البتہ  جب واپس  لوٹا  تو معلوم ہوا  کہ  بانو آپا  کا دست مبارک میرے سر پہ ہے،  اور  صوفے پہ بیٹھا  ارسل  ویسے  ہی  مسکرا رہا ہے۔  ساتھ  بیٹھی  محترمہ عشرت صاحبہ ماں  بیٹے کے  اس پیار کو دیکھ رہی ہیں ،  افی صاحب  جو  دروازہ  کھول کے اندر داخل  ہو رہے تھے  ابھی دروازے  سے دو تین قدم  ہی آگے آئے  ہیں۔پس ثابت ہوا  کہ یہ جوگی  عرف  چھوٹے غالب کی معراج ہی تھی۔  الحمد اللہ  رب العلمین

میں سیدھا ہو کے  وہیں آپا  جی کے قدموں  میں پسر گیا۔  اتنے میں افی صاحب قریب  آ چکے تھے  اور  آتے ہی  انہوں نے  پھر سے میرا (تفصیلی)تعارف شروع کر دیا۔ کہ یہ لودھراں  سے  تقریباً ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کا  سفر کرکے صرف آپ کی  زیارت کیلئے  آج ہی  آیا  اور راتوں  رات واپس بھی  چلا جائے گا، غالب  پر اس کی بڑی تحقیق  ہے ،  اور آگے بہت سی   نہایت ہی  مبالغہ  آمیز  تعریفیں  جن کا لکھنا یہاں مناسب نہیں، البتہ  افی صاحب کے حسنِ ظن  اور ذرہ نوازی  پر  بہت بہت  شکریہ  اور جزاک اللہ ۔
پھر افی صاحب  نے کہا  چلو بھئی  ارسل  اور چھوٹے !آپا جی کے  ساتھ تصویر  بنانے لگا ہوں، میں نے ارسل  کو  صوفے  سے  اٹھا  کر کہا  کہ    ایک سائیڈ  پر ہو جا بابو!! میرے  اور میری  محترم  آئیڈیل  بانو آپا  کے درمیان کوئی  تیسرا نہ ہو۔  اس پر  بانو  آپا کے  لبوں  پر پھیلی دل نشین  مسکراہٹ گہری ہو گئی اور حاضرین ہنس پڑے۔  ارسل  ہنستا  ہوا  اٹھ   گیا اور بقول  غالب:غیر از  نگاہ کوئی  حائل نہ رہا۔ اب  آپا  جی کے ساتھ والے  صوفے  پر صرف  میں براجمان تھااور  افی صاحب  میری  تصویریں  بنانے لگے۔پھر  افی صاحب  اور ارسل  مبشر  بھی  میرے ساتھ آ کے  بیٹھ گئے  اور  گپ شپ شروع ہو گئی ۔  میں  آپا  جی کی  طرف اتنا محو  تھا کہ  جناب  اثیر احمد  خان صاحب  مجھ سے کوئی بات کرتے رہے  مجھے  پتا ہی نہ چلا ، وہ تو  جب افی صاحب نے ادھر  متوجہ کیا  تو  دیکھا  کہ  محترمہ  عشرت صاحبہ  میری  بانو آپا  کی طرف محویت پر ہنس  رہی تھیں  اور  اثیر احمد  خان صاحب  مجھ سے کچھ کہہ رہے تھے ۔  واللہ  کچھ ایسی  بے خیالی  تھی کہ  سن اثیر صاحب کو رہا تھا  لیکن سمجھ کچھ  نہ آیا  کہ کیا کہہ رہے ہیں، بس ان کے ہونٹ ہلتے  نظر آرہے تھے ۔  آخر میں نے  معذرت کر لی کہ  اس وقت  میں آپا  جی کے سائے  میں بیٹھا  ہوں  مجھ پر  جتنا  پریشر ہے  وہ  مجھے پتا ہے ، اس لیے نہ  مجھے  کچھ سمجھ آ رہا ہے نہ بولا جا رہا ہے۔ اس بات  پر ایک بار پھر  سب ہنس پڑے ۔       

سب نے مجھے میرے  حال پر چھوڑ  دیا ، پھر  بانو  آپا  اور فدوی  ایک دوسرے  کی طرف متوجہ ہو گئے ۔  میں نے آپا  جی کو  بتایا  کہ  آپ  کی تخلیق  راجہ  گدھ مجھے کتنا پسند ہے  اور آپ  کا ناولٹ "ایک دن" تو میرا پسندیدہ  ترین ہے ،  وہ میں نے اتنی بار پڑھا ہے  کہ  ا ب تو حفظ ہو چکا ہے۔ آپا  جی مونا لیزا  والی  مسکراہٹ سے نوازتیں  اور فرماتیں "مہربانی"۔  آپا  جی نے  مجھے  اپنی  وراثتی زمین  کے بارے میں بتایا  جو کہ  ضلع لودھراں کے نواح  میں چک 92  اور  چک 95 میں واقع ہے ، اور  جس پہ فراڈئیوں  نے  قبضہ  کیا  ہوا  ہے۔ میں نے  آپا جی کو تسلی  دی کہ  میں چک  92 اور 95  جا کر حالات  معلوم کروں گا۔  جس پر آپا جی نے مجھے دعاؤں سے نوازا۔  میں نے آپا  جی سے کہا  کہ "آپ  میرے آئیڈیل  ادیبوں  میں سر فہرست ہیں، میرے اور میرے قلم کے  حق میں بھی دعا کریں"۔  آپا  جی نے  مجھے فرمایا:۔ "بے فکر  رہو بیٹا!" اور میرے حق میں  دعا فرمائی۔اس کے علاوہ  بہت سی  باتیں ہوئیں ماں بیٹے میں،  جن کا تذکرہ  ضروری نہیں۔
اس دوران  فوٹو گرافر  ہماری تصویروں  پر تصویریں  بنائے جا رہا تھا۔  افی صاحب آپا جی  سے مخاطب  ہوئے اور بتایا  کہ  :۔"آپا جی ! یہ آپ کا اتنا مداح ہے  کہ کہتا تھا ایک  بار آپا  جی کی  خدمت میں حاضری  نصیب  ہو جائے پھرچاہے موت آ جائے  میں مرنے کو تیار ہوں۔" آپا جی  نے  میری  طرف ممتا  بھری  ڈانٹنے  والی نگاہوں سے دیکھا اور  ایک  علامتی  سی چپت  کے طور پر  میرے گال کو پیار سے  چھوا  اور فرمایا:۔ "ایسا  نہیں کہتے بیٹا ۔ زندگی  جینے کیلئے ملی ہے ، اسے چیلنج سمجھ کر  جیو۔" اور  پھر فرمایا کہ:۔"بیٹا  جاب  کی فکر نہیں کرنی ،  جاب مل جائے گی۔" میں  نے  ہنس کے  ان کا ہاتھ پکڑا  اور  کہا:۔ "آپا  جی !  بھاڑ میں جائے جاب۔  آپ سے ملاقات میرے لیے لائف  اچیومنٹ  ایوارڈ ہے۔بس  آپ کا پیار پا لیا  ہے تو   زندگی سے  بھی راضی اور اللہ سے بھی راضی ہو گیا" اور حاضرین  ہنس پڑے  ۔
شام  پانچ بجے سے  یہ محفل شروع  ہو ئی تھی  اور اب رات کے دس  بجنے کو  تھے ۔  آفرین ہے  عالی  جناب محترمہ  بانو قدسیہ آپا  جی  پر  کہ چھیاسی  سال  کی عمر  اور اتنی  ضعیفی کے باوجود   اتنی دیر سے  ہمارے درمیان   تشریف  فرما رہیں ۔  اس  عرصے میں ، ایک  بار  بھی  انہیں اکتائے ہوئے  نہ دیکھا، ایک لمحے کو بھی اس درخشاں  پیشانی پر  ہلکی سی شکن نے  بھی نہ جھانکا تھا۔ بے شک اللہ  والوں کے  رنگ ہی نیارے ہیں۔ 
میں ابھی وہیں بیٹھا تھا  کہ دو لوگوں  نے  مجھ سے میرا فون نمبر مانگا، اور میں نے  دیکھے بغیر دے  دیا،  کیونکہ  آنکھیں تو  آپا جی  پر مرکوز تھیں۔  پھر  محترمہ  عشرت  صاحبہ  نے آپا  جی سے کہا کہ  چھوٹے غالب سے  کہیں کہ غالب کا  کلام سنائے۔  آپا جی مجھے حکم فرمایا  تو  میں نے  جھٹ سے شعر عرض کیا:۔
کھلتا کسی  پہ  کیوں میرے دل کا معاملہ
شعروں  کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
اثیر احمد  خان صاحب  نے دوبارہ پڑھنے کو  کہا تو میں نے وضاحت کی کہ  موجودہ  سیاسی  حالات کے پیشِ نظر  دوسرے  مصرع کو   یوں  بھی پڑھا  جا سکتا ہے کہ :۔
"شیروں" کے انتخاب نے  رسوا کیا مجھے
اثیر صاحب کو حیرانی ہوئی  کہ یہ شعر  غالب کا ہے  ، تو جواباً میں تصدیقی سرٹیفیکیٹ  دے دیا ۔
محترمہ  عشرت صاحبہ  اور ان کی دوست سمیر ا صاحبہ  رخصت ہونے لگیں  تو  افی صاحب انہیں باہر تک چھوڑنے گئے ، اور  مجھ سے ایک نوجوان نے نمبر مانگا  اور ساتھ ہی اپنا تعارف بھی کروایا  کہ  :۔" مجھے امجد  نواز کہتے ہیں، اور  میں بانو  آپا  جی کا منہ بولا بیٹا ہوں"۔ ہم  دونوں  مزید  گپ شپ کیلئے  باہر پورچ میں آ گئے اور   پھر گپوں  کی  پٹاریاں  کھل  گئیں ، یہاں تک کہ افی صاحب  واپس  آئے اور  مجھے ساتھ لیتے ہوئے  اندر چلے گئے۔   اندر  اثیر  احمد خان  صاحب  ارسل مبشر کا  انٹرویو  لے رہے تھے ۔ میں اندر گیا تو میرا بھی انٹرویو  شروع ہو گیا۔  مجھ سے  میری کوالیفیکیشن  پوچھی ۔ بتانے پر   ان کے چہرے پر کچھ ایسے تاثرات ابھرے  جیسے سوچ رہے ہوں  کہ:۔"حلیے سے اتنے پڑھے لکھے لگتے تو نہیں ہو۔"کچھ دیر  کے انٹرویو  کے بعد  انہوں نے  ہمیں رخصت ہونے کی اجازت  دے دی،  اور ہم  الٹے قدموں  چلتے دروازے  سے  باہر نکل آئے ۔ جوتے پہنے اور  شاداں و فرحاں  داستان  سرائے  کے گیٹ سے باہر  آ گئے ۔   
 داستاں  سرائے  کی نیم پلیٹ پر چمکتے الفاظ  کے ساتھ  افی صاحب  نے ایک  میری  اور ارسل  مبشر کی تصویر لی اور دو تین چھلانگوں  میں ہم سڑک کے پار کھڑی افی صاحب کی  کار کے پاس  جا پہنچے ۔  ارسل نے  پچھلی  سیٹ پر قبضہ  جما لیا اور  میں آگے  افی صاحب  کے ساتھ  بیٹھ  گیا۔  افی صاحب  نے گاڑی سٹارٹ  کی اور  ہم وہاں سے چل پڑے۔

Monday 25 May 2015

چلتے ہو تو لاہور کو چلیے (قسط نہم)۔

0 آرا
اور بات  آئی گئی ہو گئی ، کھانے کیلئے اٹھنے لگے  تو  افی صاحب کی آواز آئی  :۔ "اماں جی! یہ دو فنکار  آئے بیٹھے  ہیں ۔ ان سے ابھی  کچھ سنا جائے  یا کھانے کے بعد۔ ؟ اور  کچھ دیر کے تردد کے بعد  پہلے ان کو موقع دینے کا فیصلہ ہو گیا۔  
اتنی دیر سے میں بھی کمرے میں  موجود تھا اور وہ میاں بیوی  بھی موجود تھے، مگر  واللہ  باللہ  ان کے گانا شروع کرنے سے پہلے  مجھے ان کی موجودگی کا احساس تک نہ ہوا  تھا۔  افی صاحب  نے  ان   سے پوچھا  کہ  ایسے  ہی زبانی کلامی  سنائیں گے یا بجانے کیلئے  تھال بھی  حاضر کیا جائے ۔اس  نے  "مومن  ہے تو بے تیغ بھی   لڑتا ہے سپاہی " قسم کا  جواب دے کر  یہ بھی کہا کہ اگر تھال مل جائے تو سونے پہ سہاگہ والی بات ہو گی ۔تھال حاضر کیا گیا۔  اور انہوں نے اپنے  فن کا مظاہرہ کیا کیا، بس یوں سمجھیں  کے  ماحول پہ  فسوں پھونک دیا۔  میں  نے زندگی میں پہلی بار   ایک تھال  اس قدر مسحور کن دھن میں بجتے ہوئے  سنا تھا۔ صرف میں ہی  کیا سب کا یہی خیال  ہوگا یقیناً ۔ تبھی تو ہر کوئی اپنے موبائلز  اور آئی فونز  سے ان کی ویڈیو بناتا نظر آیا ۔اختتام  پر بھرپور  تالیوں  سے انہیں داد  دی گئی۔
اچانک  مجھے  احساس  ہوا  کہ  میری بغل میں کھڑا  کلین  شیو  بندہ  میری طرف کنکھیوں سے دیکھ رہا ہے ۔  میں ذرا سائیڈ  پہ ہوا تو  وہ سرک کے پھر قریب   ہوا اور  کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو گیا۔  میں ابھی اس کی طرف دیکھنے ہی والا  تھا کہ  وہ آگے بڑھا  اور  افی صاحب  سے جھک کر ملتے ہوئے بولا:۔ "سر آپ  ڈراموں میں آتے ہیں  ناں۔" افی صاحب کے چہرے پر  شرارتی سی  مسکراہٹ دوڑ گئی۔ اور انہوں نے  میری طرف دیکھا ، میں کچھ نہ سمجھنے والے  انداز  میں   ہونق کھڑا تھا یہاں  تک کہ  وہی  کلین شیو  بندہ سیدھا  ہو کے میری  طرف مڑا  اور میرے گلے لگ گیا۔ 
یہ حضرت کوئی  اور نہیں، ارسل مبشر صاحب تھے۔
خلاف معمول  شلوار قمیض  اور کیمل کلر  کے  کوٹ میں ملبوس ،  ارسل  تصویروں  سے کہیں زیادہ اصل میں شاندار نظر آ رہا تھا۔  اور یہ بات میں نے اس سے کہہ بھی دی (جس پر بعد میں  کئی بار پچھتایا)کہ  تصویروں سے  زیادہ  اچھی پرسنالٹی تمہاری اصل میں ہے۔ اور  اس پر اسے ایک شعر بھی سنایا
تجھ میں جو بات ہے، وہ بات نہیں آئی ہے
کیا یہ تصویر  کسی غیر سے کھنچوائی ہے؟؟
ابھی اس بات پر  ارسل  ٹھیک سے پھول  بھی  نہ پایا تھا  کہ افی صاحب نے  ہمیں  ڈائننگ ہال میں دھکیلا کہ  پہلے کھانا کھا لو،   باتیں تو تمہاری ایک  بار شروع ہوئیں  پھر ختم نہیں ہونیں ۔ اور ہم  ڈائننگ ہال میں آ گئے۔ زبردست چپاتیاں  اور  مرغی کا گوشت  تھا۔  سویٹ ڈش میں حلوہ تھا۔باقی سب مہمان بھی شرماتے  لجاتے  وہیں جمع  ہو گئے ۔ کیونکہ  بانو آپا کی سخت تاکید تھی کہ کوئی بھی مہمان کھانا کھائے  بغیر  نہیں جائے ۔ ارسل  نے تو  مجھے  کہہ دیا کہ  میں کھانا کھا کرفیصل آباد  سے   نکلا تھا، لیکن   میں  بھلا کیسے داستان سرائے  کی مہمانی  ہاتھ سے جانے دیتا۔  البتہ  کھڑے ہو کر  ایک ہاتھ میں روٹی اور ایک  ہاتھ میں سالن  کی پلیٹ لے کر کھانے سے مجھے الجھن ہو رہی تھی۔افی صاحب تو  بھنبھیری  بنے ہوئے کبھی ادھر آ رہے تھے کبھی ادھر جا رہے تھے ۔ میں  نے کہا  :۔"ہمیں تو بیٹھنے کی  کوئی مناسب جگہ دکھا دیں ۔" افی صاحب بھلا کب چوکتے، بڑے معصومانہ انداز میں دریافت کیا:۔ "کیوں ؟  کی کتیاں طرح  کھانی اے ؟" حلق سے ابلتے قہقہے کو کہا کہ زمزم، اور افی صاحب سے کہا :۔ "جی نہیں ، بلکہ انسانوں  کی طرح بیٹھ کے کھانی ہے ۔" وہ کوئی جواب دئیے بغیر  پھر غائب  ہو گئے ۔ آخر میں نے دو روٹیاں اور ارسل نے سالن نکالا  اور ہم  اپنی مدد آپ کے تحت  جگہ  تلاش کرتے لاؤنج میں گھس گئے۔ وہاں بیٹھ کے اطمینان  سے کھاتے رہے  اور  گپیں بھی ہانکتے رہے ۔ارسل  بھی میرا ساتھ دینے  کے بہانے  کھاتا  رہا۔  مگر  ڈائننگ  ہال میں کھانا  کھاتی  دو تین خوبصورت  حسیناؤں  کی  موجود گی  ارسل کو بے چین کیے رہی۔ اسے شاید میرے ساتھ ادھر بیٹھ  کے  کھانے کے  فیصلے پر  پچھتاوا ہو رہا تھا  جس کی پاداش میں وہ  دیدارِ حسن سے اتنی دیر تک ناحق محروم  رہا۔ تھوڑی تھوڑی  دیر بعد مجھ سے پوچھتا :۔" یار چھوٹے!! حلوہ بڑا زبردست ہے، تمہارے لیے لے آؤں؟" میں نے ٹال دیا:۔ "دیکھنے میں تو واقعی زبردست لگ رہا تھا  مگر تمہاری بدقسمتی  کہ میں حلوہ کھاتا ہی نہیں۔"اور ارسل کا دیکھنے والا منہ بن گیا۔ کچھ دیر  بعد پھر  مجھے سالن اور لانے کی آفر کی، مگر میں نے انکار کر دیا۔  پھر روٹی اور لانے سے انکار کے بعد  آخر کار  پانی لانے کی آفر پر  مجھے ترس آگیا۔  حالانکہ کھانے کے دوران یا کھانے کے فوراً بعد میں پانی بھی نہیں پیتا۔پھر بھی ارسل  کو  ڈائننگ ہال جانے کا ایک بہانہ فراہم کرنے کیلئے  میں  نے پانی کے  گلاس  پر حامی بھر لی۔  کہ بقول ناصر کاظمی
وہ "ٹھرکی" سہی ، پھر بھی یار اپنا ہے
 ارسل  تیر  کی طرح  ڈائننگ ہال میں گیا اور شاید چار پانچ گلاس پانی پی  کر ایک گلاس میرے لیے  لے کر  کافی دیر بعد  واپس آیا۔ ہمارے  کھانا کھانے  کے منظر کو بھی افی صاحب نے کیمرے میں  قید کر لیا۔  کھانے کے بعد  ہم دونوں کو اشفاق  صاحب کے کمرے کی راہ دکھائی گئی۔  یہ وہ سیڑھیاں  ہیں جہاں سے  اشفاق صاحب اوپر اپنے کمرے میں جاتے تھے۔  اور یہ  وہ  کمرہ  ہے  جس میں قدرت اللہ  شہاب صاحب  کا قیام رہا کرتا تھا۔  اس کے بعد  وہ جگہ دیکھی  جہاں  اردو  ادب کے  درخشندہ  ستارے  یعنی  جناب  ممتاز مفتی  صاحب ، ابن انشا ء  صاحب  ، قدرت اللہ  شہاب صاحب  اور اشفاق احمد  صاحب   محفل جمتی تھی۔اس  وقت  بے طرح غالب کی یاد  آئی کہ کس عالم  میں اس  عارف  نے  کہا ہوگا:۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گرانمایہ کیا کیے؟؟

ہم جب  داستان سرائے  کے تاریخی گوشوں  کی سیر کے بعد  واپس   چوپال میں پہنچے  تو  بانو آپا  کے پاس   رش لگا ہوا دیکھا۔  سب ان کے ساتھ تصویریں  بنوانے اور ان سے آٹو گراف  لینے  میں  مصروف تھے۔  بانو آپا سب سے فرداً فرداً پوچھ رہی تھیں کہ کھانا اچھے سے کھایاہے ناں؟اور  اسی  مسکراتے  صبیح چہرے  اور خندہ پیشانی  سے  سب کو آٹو گراف دیتی رہیں ۔جبکہ میں نے اس دوران   اشفاق احمد  صاحب  کے بتائے  ہوئے طریقےسے   ایک  کونے میں بیٹھا  بابا ڈھونڈ لیا۔ وہ  فنکار  بابا  ایک طرف اداس بلبل  کی طرح سکڑا سمٹا  بیٹھا تھا کہ میں نے جا لیا۔  استاد ِمحترم خان بہادر  مرزا اسد اللہ  بیگ غالب کا  بھی یہی شیوہ تھاکہ  جب کوئی شعر  پسند آتا تو  چاہے وہ کسی کا  بھی ہو اس قدر تعریف کرتے  کہ مبالغے  کی حد کو پہنچا  دیتے۔ اس کے علاوہ   بھی لوگوں  کی حوصلہ افزائی  کرنا  وہ  جیسے فرض سمجھتے تھے۔  تذکرہ غوثیہ  میں غوث علی  قلندرؒ صاحب  نے ان کا جو آنکھوں دیکھا  واقعہ نقل کیا ہے ، وہ میرے جیسے دیوانگانِ غالب  کیلئے  مشعلِ راہ ہے۔
میں نے بابے کی  تعریف کی تو  اس نے  رسمی سی تعریف سمجھ کر  وہی  کہا جو  عموماً ایسی  باتوں کے جواب میں کہا جاتا ہے۔  مگر میں تو جیسے لسوڑا  ہو گیا۔  کچھ دیر تو اسے یقین نہ آیا  کہ  ایک پینڈو  سے نوجوان کو  بھی موسیقی  کی ایسی سمجھ ہو سکتی ہے ۔ میں گھِستا  رہا گھِستا رہا  یہاں تک  کہ بابا کھلنے لگا۔  اور پھر ہم دونوں  کے  درمیان جو بے تکلفانہ  گفتگو شروع ہوئی  تو  اس چند منٹ کی گفتگو میں ، خاکسار نے اس سے اتناکچھ  سیکھ لیا  کہ جتنا ادھر بیٹھے سوٹڈ بوٹڈ "کہنہ مشق استاد" ساری  زندگی  بھی  نہ سیکھ  پائیں۔ کیونکہ  وہ  اپنی وضع داری  اور     رکھ رکھاؤ  کی  بیڑیوں  میں جکڑے  تکبر  کی جس  جیل  کے قیدی ہیں ،وہاں  سے ایسی انمول پوربی  ہوائیں نہیں گزرتیں ۔  یہ ہوائیں تو زمین  پہ اگے چھوٹے  چھوٹےپودوں کے  پھول کھلاتی ہیں۔ 
الحمد اللہ  جوگی  تو ویسے بھی خاک نشین  ہے اور  استادِ محترم  کا  بھی یہی نعرہ تھا 
رواج صومعہ ، ہستی ست ، زینہار مرو
متاع میکدہ  مستی ست ، ہوشیار بیا
حصار عافیتے  گر ہوس کنی  غالب
چو ما بہ  حلقہ رندانِ خاکسار  بیا
(اس کے اردو ترجمے کی بجائے بہتر ہے  کہ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم  جو کہ اشفاق احمد صاحب کے اساتذہ میں سے ہیں ، کے قلم سے کیا گیا  لازوال  ترجمہ  درج کر دوں  تاکہ فارسی سے نابلد قارئین  بھی اس سے کماحقہ  لطف اندوز ہو سکیں)
اے رواج اے مسجداں مندراں دا، اوتھے ہستیاں  تے خود پرستیاں نیں
مے خانے وچ مستیاں ای مستیاں نیں  ، ہوش کر بن کے ہوشیار آجا
سکھی وسنا جے توں چاہنا ایں ، میرے  غالبا! ایس  جہاں اندر
آجا  رنداں دی بزم وچ بہہ جا ،  ایتھے بیٹھدے نیں خاکسار آجا
اتنے میں مجھے قدوسی  صاحب  بلانے  آ گئے ،  تو میں  نے بابے کی جان چھوڑی  اور ادھر  ڈرائنگ روم میں آ گیا۔  کمرہ چند خاص  مہمانوں کے علاوہ  خالی ہو چکا تھا ۔ ارسل مبشر آگے بڑھا  اور آپا جی کی  قدم بوسی کی۔ اور ان سے  حال چال پوچھنے لگا۔  اور میں نے  پھریہ موقع  غنیمت جانا  اوراس  فرصت  کو  تصورِ جاناں  میں ضائع کرنے کی بجائے  قدوسی صاحب  پر غور کرنا شروع کر دیا۔  
پہلی نظر میں  دیکھتے ہی ایسے لگتا ہے  جیسے آپ کے سامنے اشفاق احمد صاحب  آ گئے ہوں ، کافی حد تک  ان جیسے لگتے ہیں۔  چھوٹی چھوٹی سفید داڑھی بھی بالکل اشفاق احمد صاحب جیسی ہے ۔ جی میں آیاان سے کہوں  کہ قدوسی صاحب!!آپ تو ابھی زندہ ہیں جبکہ ٹی وی پر  آپ کی  بیوہ کے  نام سے ڈرامہ آتا  ہے۔    پھر اس  خیال پر  دل میں ہنس کر میرؔ کی  طرح خود  کو تنبیہہ کی کہ  "پگڑی  سنبھالیے میرؔ ،یہ دلی ہے"افی صاحب نے بتایا  کہ یہ تقریباً چالیس سال سے  اشفاق  احمد صاحب اور داستان سرائے کی خدمت میں ہیں۔  مجھے بہت  رشک آیا۔ جن کو اتنا عرصہ  اشفاق احمد صاحب  کی  صحبت نصیب ہوئی تو  ظاہر ہے ان کے  تو ہر  انداز سے  بابا جی کے افکار  ظاہر ہونے ہی  ہیں ،  بے  حد  سادہ  اور سیدھے  سبھاؤ  کے  متین بزرگ  ہیں۔
مجھے پھر شیخ سعدی  یاد آ گئے 
گلے خوشبوئے در حمام روزے
رسید از دستِ محبوبے بدستم
بدو گفتم کہ مشکے یا عبیرے
کہ از بوئے دلآویز تو مستم
بگفتا من گلے نا چیز بودم
و لیکن مدتے با گل نشستم
جمالِ ہمنشیں بر من اثر کرد
وگرنہ اینہمہ خاکم کہ ہستم
ترجمہ:۔  ایک روز حمام میں نہاتے ہوئے  ، ایک عزیز دوست کے ہاتھ سے مجھ تک خوشبودار مٹی پہنچی۔ میں نے کہا : تو مشک ہے یا عبیر ہے؟ کہ تیری دلآویز خوشبو سے میں مست ہوا جا رہا ہوں۔وہ بولی : میں تو ناچیز مٹی تھی، لیکن ایک مدت تک پھول کے ساتھ  صحبت رہی۔  ہمنشیں کے حسن کا مجھ پر اثر ہواہے ورنہ  میں تو وہی خاک ہوں ۔

  میں ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔اور یہی وجہ ہے  کہ واپسی  پر  میں نے  قدوسی  صاحب سے بھی اپنے ساتھ ایک عدد تصویر  کی درخواست  کی،  جس  پر انہوں  نے حیرانی سے مجھے دیکھا اور پوچھا کہ "میرے ساتھ کس لیے" میں نے کہا:۔ "مدتے با گُل  نشستی و از  بوئے  دلآویز  ِ تو  مستم" اس کے جواب  میں انہوں  نے ایک دلآویز  تبسم  سے نوازا  اور ارسل اور  میرے درمیان کھڑے  ہو گئے اور افی صاحب  نے  اس لمحے  کو تصویر  کی صورت  محفوظ  کر لیا۔   قدوسی  صاحب  نے  مجھ سے نام اور فون نمبرپوچھا تاکہ  وٹس ایپ پر  پوسٹ کرنے  کیلئے  تصویر  کو کیپشن دے سکیں۔ 

Thursday 7 May 2015

چلتے ہو تو لاہور کو چلیے (قسط ہشتم)۔

1 آرا
بانو آپا   کے گرد پہلا حلقہ  خواتین  کا تھا، جن میں بانو  آپا کے دائیں طرف  سرخ شال میں لپٹی  معروف ڈریس ڈیزائنرمحترمہ عشرت  صاحبہ  زلفِ سیاہ (اپنے ہی )شانوں  پہ  پریشاں کیے ہوئے  بیٹھی تھیں، محاورتاً نہیں حقیقتاً  کالی ناگن جیسی یہ زلفیں دیکھ کر  مجھے اپنے  ماضی قریب کے  گھور سیاہ  بال یاد آگئے  جن میں اب بزرگی کی  سفید لہریں  دوڑتی  پھرتی ہیں۔عشرت صاحبہ  کی دوست  سمیرا صاحبہ کے علاوہ   پنجاب یونیورسٹی  شعبہ اردو  کی چند طالبات چہرہ  فروغ غازے سے گلستان کیے ہوئے  بیٹھی تھیں۔  دعاتو بڑے غالب  نے  کی تھی ، لیکن دیوانی مقدمے  کی طرح اس دعا کی قبولیت  کا فیصلہ آنے تک  بڑے غالب اس دنیا سے جا اور چھوٹا غالب  آ چکا تھا۔ پس استاد ِ محترم کی یہ
چاہے ہے  پھر کسی کو مقابل  میں آرزو 
 سرمہ سے  تیز  دشنہ ء ِ مژگاں کیے ہوئے
والی  آرزو  جوگی کے جوگ کا متحان  بنی رہی۔ اور  
دوڑے ہے  پھر  ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں  نگاہ کا ساماں کیے ہوئے
والا معاملہ  درپیش رہا۔  اگر پہلوان لنگوٹ کے پکے ہونے پر  فخر کرتے ہیں تو جوگی  بھی جوگ کا  پکا نکلا، یا شاید بزمِ بانو آپا  کے آداب  مانعِ  رہے۔  بہرحال جو کچھ بھی ہو، اب میں ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتا ہوں  کہ 
اس بزم میں مجھے ، نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا  ۔۔۔اگرچہ حملے  ہوا کیے
(شعر کو اس کی اصلی صورت میں یعنی "حملے " کی جگہ "اشارے"  بھی پڑھا جا سکتا ہے ،  لیکن  لفظ"حملے" صورتِ حال کی  خوب وضاحت کرتا ہے)
 اور ان کے  بعد  مردانہ  حلقہ تھا ، جس میں  طلباء  سمیت  چند ادیب حضرات  (جن سے میں تا وقت ِ برخاستن ناواقف ہی رہا) شامل تھے۔ افی صاحب  نے اسی دوران اپنی جگہ  پہ  بیٹھے  بیٹھے میری تصویریں بنا لیں۔
سوالات  کا سلسلہ  چل رہا تھا ،اور  نہایت ہی بچگانہ اورخواہ مخواہ  قسم کے سوالات  پوچھے جا رہے تھے ۔   ایک دو صاحبان  تو سوال پوچھنے کے بہانے دراصل اپنی علمیت جھاڑنے  میں مصروف تھے۔  اس کے علاوہ  اشفاق احمد صاحب  اور بانو آپا جی  کی کتب میں لکھی ہوئی باتوں کو دوبارہ  سوالیہ انداز میں پوچھا جا رہا تھا ۔ایسا لگا  جیسے  سوال پوچھنے والے  دراصل بانو آپا کی یاداشت کا امتحان لینے آئے بیٹھے ہیں کہ آپا  جی نے  فلاں کتاب میں جو یہ بات لکھی ہے تو  کیا   اس عمر میں بھی ان کو وہ بات یاد ہے یا نہیں۔ جیسا کہ  ایک  صاحبہ  نے  پوچھا کہ  بعض گداگر   جو کہ مستحق  بھی نہیں لگتے ، بلکہ ہٹے کٹے بھی ہوتے ہیں ، کیا انہیں خیرات دینی چاہیے۔؟ اور مجھے اچھی طرح یاد ہے  اس  کا تسلی بخش  اور شافی جواب  اشفاق احمد  صاحب اپنے ایک مضمون "ہاتھ کا دیا" میں دے چکے ہیں۔  جس میں  انہوں نے اپنے بابا جی کا  ایک جملہ "دتے وچوں  دتا  ای ناں" کے حوالے سے  اس بات کی  بہت زبردست وضاحت  فرمائی  ہے۔  مجھے یقین ہے کہ ان محترمہ  نے "زاویہ"  میں سے پڑھ کے ہی  یہ سوال تیار کیا ہوگا کہ دیکھتے ہیں بانو آپا کا  اس  بارے میں کیا مؤقف ہے۔  اور بانو آپا  کا عین وہی جواب تھا جو اشفاق  احمد صاحب برسوں پہلے دے چکے ہیں۔
اس  کے علاوہ  بار بار گھما پھرا  کے الفاظ کے معمولی ہیر پھیر کے  ساتھ ایک ہی سوال  ہو رہا تھا  کہ "آپا جی محبت کیا ہے؟" دوسرا پوچھتا"آپا جی عشق کیا  ہے؟" اب تیسرا  پوچھتا"عشق کی انتہا کیا ہے" اب چوتھا پوچھتا کہ" محبت اور عشق میں  فرق کیا ہے؟" جیسے  لوہارچھری  یا  کلہاڑی  کی دھارکو  پتھر  کی سل پہ بار بار  گِھسا گِھسا کراس کے دھار تیز  کررہے ہوتے ہیں ، بالکل اسی طرح حاضرین  بھی شایدعشق و محبت  کی  تلوارکی  دھار تیزکرنے  کے درپے تھے۔
آپا جی  کے  صبر و تحمل اور اعلیٰ ظرفی  کے صدقے  جاؤں  ، جن کے ماتھے پہ نہ تو کوئی شکن پڑی، نہ انہوں نے کسی سوال کا جواب اکتائے ہوئے انداز میں دیا، نہ ہی  کسی کو یہ جتایا کہ  بیٹا  یہ سوال تو تمہارے  سامنے  کئی بار  پوچھا اور  جوابا جا چکا ہے ، پھر بھی اسی کو پوچھنے کا کیا مطلب ہے۔؟
ان فضول سوالوں  سے قطع نظر آپا جی نے ایک بہت ہی زبردست  بات بیان فرمائی ۔"  زندہ رہنا چاہتے ہیں تو محبت کریں۔ جب بھی کریں  محبت کریں ، عشق نہ کریں۔  کیونکہ محبت  زندہ  رکھتی ہے ۔ عشق جلا دیتا ہے۔"
میرے جی میں  آیا کہ میں بھی ایک  سوال پوچھوں ۔ مگر کیا پوچھوں ؟یہ معلوم نہیں تھا۔  جب آپا جی کی  باتوں کا  رخ   انسان اور انسانیت  کی  جانب مڑا  تو  میرے دماغ میں فوراً سوال  آیا اور میں نے کھڑے ہو کر  سوال پوچھ بھی لیا۔ 
اس وقت سب لوگ اپنی اپنی جگہ بیٹھےبیٹھے ہی سوال پوچھ رہے تھے ۔  جبکہ میں نے کھڑۓے ہو کر سوال  پوچھا  ،  تو  کچھ لوگوں نے  مجھے  استہزائیہ  انداز میں دیکھا جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ رہے ہوں"پینڈو  ، پینڈو ہی رہتے ہیں" کوئی اور فورم ہوتا یا محفل ہوتی تو  کھڑی ہوتی تھی میری بلا۔۔۔۔  اگر ہم کلاس میں ایک عام سے ٹیچر کے  سامنے کھڑے ہو کر  سوال  اور جواب پوچھ سکتے ہیں  تو  کیا بانو آپا  جیسی عظیم ہستی کے احترام  کھڑے ہونے سے گوڈے گٹے گھِس  جاتے۔ 
میرا سوال  تھا  کہ " غالب  فرماتے ہیں:۔ آدمی کو بھی میسر  نہیں انساں ہونا۔  آپ کے خیال  میں انسان اور آدمی میں کیا فرق ہو سکتا ہے ، جو غالب نے انسان اور آدمی  میں ایک حدِ فاصل قائم کر دی ہے۔؟"
اور جواب  میں بانو  آپا نے چند لفظوں میں یہ گتھی  سلجھا کے مجھے سر دھننے  پہ مجبور کر دیا۔  آپ نے فرمایا :۔ " بیٹا!! انسان وہ ہے  جو اللہ کی مانتا ہے ۔ آدمی وہ ہے  جو اللہ کی بجائے اپنی  مانتا ہے۔"
 اس دوران  اشفاق  احمد  صاحب کے صاحبزادے  اثیر  احمد خان  اندر تشریف لے آئے ۔ آپ  اشفاق احمد صاحب  کے  ہمشکل بھی ہیں۔ یوں لگا جیسے  اشفاق صاحب کو جوانی میں  دیکھ رہا ہوں۔  افی صاحب نے ان سے میرا تعارف کروایا  اور انہوں نے  مجھ سے مصافحہ کیا ۔ پھر میرے ساتھ ہی بیٹھ گئے ۔  کچھ دیر  بعد مجھے محسوس  ہوا کہ"شور برپا ہے "میری  جیکٹ کی جیب میں ۔ جیب میں ہاتھ ڈالا  تو پتا  چلا کہ "گھنٹی بج رہی  ہے ابھی"۔ محفل سے اٹھ کے  ڈائننگ  روم میں چلا گیا  اور  کال اٹنڈ  کی۔ پتا چلا کہ میرے  داستان  سرائے آنے کی خبر  ملتان تک  بھی پہنچ چکی ہے ۔ ان سے جان چھڑائی کہ  آپ کو واپسی پر  ساری روداد سنا دوں گا۔اور یہ موبائل بھی  بند کر کے جیب میں ڈال  لیا ، مبادا  کوئی اور مخل ہو۔ 

تھوڑی  دیر بعد میں نے افی صاحب کوبھی موبائل  کان سے لگائے باہر نکلتے دیکھا۔ لیکن اس وقت چونکہ  میری توجہ بانو آپا کی طرف تھی  اس  لیے  زیادہ غور نہ کیا۔  اور ایک سوال  جس کو بہت چچوڑ  چچوڑ کےبار بار  الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ  پوچھا جا رہا تھا "صبر کیا ہے؟"
آپا جی نے  نہایت  تسلی بخش  اور سادہ سا جواب دیا:۔ " اللہ کی رضا پہ دل سے راضی ہو جانا صبر ہے۔" اس جواب میں نہ کوئی ابہام ہے نہ  کوئی  پیچیدگی، لیکن  پھر بھی نہ جانے  کیوں  پطرس کے  مشہورِ زمانہ مضمون "کتے" کے ایک  منظر "اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جو غصہ آیا، ایک حلوائی کے چولہے میں سے باہر لپکے اور بھنا کے پوری غزل مقطع تک کہہ گئے۔  " کی  طرح  کچھ صاحبان  کے اندرونی چولہے   سےکچھ کہنہ مشق۔۔۔۔۔ برآمد ہوئے  اور  آپا  جی کے  جواب میں نیبو نچوڑ  کے  عالمانہ  جواب  گھڑنے لگے۔ 
جب دو تین  "کہنہ مشق استاد" صبر کا  بیان کر چکے  تو  ایک  اور صاحب  جوشاید  سب کے تھکنے کے انتظار میں بیٹھے تھے ، گویا ہوئے "آپا جی!! ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے میری  والدہ محترمہ کی وفات ہوئی۔ میرے والد صاحب کو تو  میں  نے نہیں دیکھا کیونکہ  میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے  ہی وہ وفات پا چکے تھے، اس لیے آپ سمجھ سکتی ہیں  کہ  میں والدہ  سے کتنا قریب تھا۔ میرے لیے دنیا میں بس وہی ایک سہارا تھیں۔   ان کی وفات پر  آنے والےسب رشتے دار اور میرے دوست احباب مجھے ایک ہی بات کہہ رہے تھے  کہ "صبر کرو۔" ، "صبر سے کام لو۔" وغیرہ  وغیرہ ۔۔۔ سب صبر کرنے کا تو کہہ رہے تھے مگر مجھے یہ کوئی یہ نہیں سمجھا رہا تھا کہ صبر ہے کیا؟ اور میں کیسے صبر کروں۔؟"
اندازہ فرمائیے !
آپا جی اس سے پہلے ہی جواب دے  چکی ہیں کہ"اللہ کی رضا پہ  دل سے راضی ہو جانا  صبر ہے" اس کے بعد  بھی ایسا سوال  آجائے ۔ وہ بھی ایک اچھی خاصی عمر کے  بظاہر مہذب اور سوٹڈ بوٹڈ  معقول نظر آنے  والے  ایک  صاحب کی طرف سے ۔۔۔
حیراں  ہوں  گال  کو پیٹوں  کہ  کُوٹوں  سر کو میں
اس پرایک بار پھر  صبر پر بھانت بھانت کی وضاحتیں آنے لگیں ، اور مجھے    گلستان سعدی  کی وہ حکایت  یاد آ گئی ۔ جس میں  ایک گمنام   درویش مسافر  ،قاضی کی مجلس میں آیا جہاں  کسی مسئلے پر  بحث ہو رہی تھی  اور علما ء کرام علم کے دریا بہا،   زمین پہ مکے برسااور  منہ سے جھاگ اڑا رہے تھے  لیکن مسئلہ  تھا  کہ کسی طور بھی حل ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔
اس وقت  بھی  میرے سامنے  قریب قریب ویسی ہی صورت حال تھی ۔  آپا جی  کا  ادب  مانع تھا  ورنہ  کچھ بعید  نہ تھا  کہ زمین پہ مکے برسنے  اور  منہ سے جھاگ اڑنے والی کسر بھی باقی   نہ رہ گئی   ہوتی۔اس  بار  بھی جب  سب بولنے والے بول چکے تھے  تو  سائل  صاحب خود ہی   بڑے عالمانہ انداز میں آپا جی سے مخاطب ہوئے:۔"آپا جی !! جہاں تک میں سمجھا  ہوں  ۔ صبر یہ ہے کہ  بدلہ  لینے کی طاقت  رکھتے ہوئے بھی  معاف کر دینا صبر ہے ۔"توکئی طرف سے  صبر کی اس  تعریف  کے حق میں   تائیدی بیان  داغے  گئے۔  یہ تعریف  جزوی طور  پر  تو  ٹھیک کہی  جا سکتی  ہے مگر   اسے صبر  کی  یونیورسل  تعریف ہر گز نہیں کہا جا سکتا ۔ اور آپا  جی والی صبر کی تعریف سے  تو اس بچگانہ  تعریف  کا  موازنہ قطعاً مناسب نہیں۔ لیکن جو تائیدی  بیان اس کے حق میں  آ رہے تھے اُنہیں سن کر  تو ناطقہ سر بگریباں  تھا کہ اِنہیں  کیا کہیے۔؟
آخر کار  میں نے  بھی میدان میں کود کر  ان صاحب کو  دھوبی پٹڑے  مارنے   کا  ارادہ کیا  اور ان سے مخاطب ہوا:۔ "معاف کیجئے سر!! آپ کی وضع کردہ  تعریف  میں نہ صرف ابہامیہ  سقم ہیں بلکہ اچھی خاصی کنفیوژن ہے۔" موصوف  نے اس تنقیدی  توپ  کے داغے جانے پر  چیں بجبیں ہو کر پہلو  بدلا  اور دوبارہ وہی بین بجانے ہی لگےتھے  کہ  میں نے ٹوک دیا:۔"سر ! آپ کی تعریف کے مطابق  مدعی  نے  مدعا علیہ  سے بدلہ لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود مدعا علیہ  کو معاف کر دیا  تو  آپ  نے اس صبر کرنا کہا۔ اس صورت میں فریقین  انسان  ہیں یعنی مدعی بھی  اور مدعا علیہ بھی  ۔اس  لیے  آپ کی وضع کردہ تعریف سے گزارہ  ہو گیا۔  لیکن جو پس منظر آپ نے سنایا  یعنی اپنی والدہ کی وفات والا ۔ اس کی  روشنی میں آپ اپنی  وضع کردہ تعریف  کے مطابق کیسے صبر کریں گے یعنی کسے صبر کہیں گے؟؟
وہ میرا سوال سمجھے بغیربولے :۔  آپ غلط سمجھے، میں  موت کی بات نہیں کر رہا۔"
میں نے اگلی پٹخنی دی:۔  یہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ موت کو  تو  میں نے ایک مثال کے طور پر کہا، موت کے علاوہ کسی بھی ناگہانی  آفت  کی صورت میں آپ کسے صبر کہیں گے؟  کیونکہ  اس  صورت میں فریقین میں سے مدعی انسان اور مدعا علیہ قدرت ہوگی ۔اب آپ اس صورت  میں اس تعریف سے  کیسے کام چلائیں  گے ؟ 
اس وقت وہاں موجود  حاضرین میں  حلیے کے لحاظ سے یہ خاکسارنہ صرف اول درجے کا جاہل اور پینڈو  نظر آ رہا تھا ۔  بلکہ  کسی کو مجھ سے ایسی منطقی  پخ  کی امید  بھی نہیں تھی ۔ اس لیے  کچھ ثانیوں  کیلئے توحاضرین کو  میرے  حلیے اور میرے سوال  کی نامطابقتی  پر  حیرانی کے مارے  سکتہ سا رہا۔ 
ان صاحب کو  تو  اندازہ بھی نہیں تھا کہ  آگے میں انہیں کون کون سی  پٹخنیاں دینے والا ہوں، اس  لیے آئیں بائیں شائیں کرنے ہی لگے تھے  کہ  جناب اثیر  احمد خان  صاحب جو میرا سوال اور اعتراض اچھی طرح سمجھ چکے تھے ، ان صاحب کو  پیش آمدہ خفت سے  بچانے  یا کسی ممکنہ بدمزگی سے  بچنے کیلئے  بیچ میں   بولے  باقی سب  باتیں کھانے کے بعد  کریں گے۔  ابھی کھانا ٹھنڈا  ہو رہا ہے ۔  چل کے کھانا کھا لیتے ہیں۔  

(ان کی تعریف  کے مطابق  وہ اپنی  والدہ کی  وفات پر  صبر کیسے کرتے ؟ کیونکہ نہ تو  ان میں عزرائیل علیہ السلام  یا اللہ  تعالی  سے بدلہ لینے کی  طاقت تھی  ،  نہ ہی اتنی حیثیت  یا اوقات تھی  بلکہ ان ہی کی کیا کسی بھی انسان کی کیا اوقات  کہ وہ کہے کہ  میں نےاللہ تعالیٰ کو  فلاں آفت  آنے یا کسی عزیز کے  وفات پانے پر  نعوذ باللہ  معاف کیا۔۔
سب سے بہترین اور یونیورسل  تعریف  آپا  جی نے فرمائی تھی کہ "اللہ  تعالیٰ کی  رضا پہ دل سے راضی ہوجانا صبر ہے۔")

کرم فرما