آسماں سے اتارا گیا
پاکستان میں فی کس آمدنی یا زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو یا نہ ہو, آبادی میں اضافہ تو پہلے دن سے ہو رہا ہے اور حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہاجا سکتا ہے کہ ہوتا رہے گا۔اس لیے پاکستان کے ایک دور افتادہ ضلع کے دور افتادہ گاؤں میں ہونے والی , جوگی کی پیدائش کو بھی کوئی انہونا واقعہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔
البتہ جوگی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ایک دھاندلی تھی ، جس کے تحت اچانک اسے دارلقرار سے دار الخجالت میں دھکا دے دیا گیا تھا۔اوراس دھاندلی کی شانِ نزول کے طور پر ماضی بعید میں کی جانے والی جوگی کے جد ِ امجد کی ایک چھوٹی سی حکم عدولی سنا کر "زخم پر نمک چھڑکا" گیا۔
روایت ہے کہ جوگی نے دنیا میں آمد کا اعلان ایک دردناک چیخ سے کیا، جس میں بیک وقت بے بسی،ناراضگی اور استاد جی سے جدائی کادرد جھلک رہا تھا۔مگر جس دنیا سے نجم الدولہ ، دبیر الملک ، نظام جنگ خان بہادر اسد اللہ بیگ جیسے پھنے خان "قدرِ سنگِ سرِ راہ رکھتا ہوں"کا شکوہ اور "دے مجھ کو زباں اور" کا ورد کرتے رخصت ہو گئے اس نقار خانے میں اس چھوٹے موٹے جوگی کی بھلا کیا حیثیت ہوتی۔یوں دنیا کا فرسٹ امپریشن ہی جوگی پر کچھ ایسا الٹا پڑا کہ اس نے دنیا کو مبلغ ایک عدد طلاق دے ڈالی... صرف یہی نہیں بلکہ احتجاج کے طور پر بولنے چالنے کا بھی بائیکاٹ کر دیا۔ چند ثقہ راویوں کے مطابق جب جوگی کے اس احتجاج نے طول پکڑا اور 3 سال کا ہو جانے کے بعد بھی اس نے منہ سے ایک لفظ بول کے نہیں دیا تو متعلقین میں تشویش ناک لہروں کی میراتھن دوڑ شروع ہو گئی۔ کچھ عجلت پسند بزرگوں نے جوگی کے گونگے ہونے کے امکان پر بھی اچھی خاصی روشنی پھینکی۔آخر کار پتا نہیں کس کس جتن سے "کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے"
جوگی کی پچھلی سات چھوڑ جتنی بھی پشتوں پر نظر دوڑائی جائے تو یہ ظاہر ہوگا کہ اس قبیلے میں تصوف، فقیری اور حکمت کا دور دورہ تھا، یہاں علم سے مراد علمِ باطن ، علم الانسان اور علم دین سمجھا جائے، جدید تعلیم (اس زمانے کے مطابق) کو شجرِ ممنوعہ قرار دیا جا چکا تھا۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ اس بات کی خوب وضاحت کرے گا۔یہ تب کی بات ہےجب پاکستان کا بھی بچپن تھا اور جوگی کے والد صاحب کا بھی..یاد رہے کہ اس زمانے میں اس علاقے کا عمومی لباس دھوتی اور کُرتا ہوتاتھا. انہیں سکول داخل کرایا گیا،پرائمری تک تو سب ٹھیک چلتا رہا مگر جب چھٹی جماعت میں پہنچے تو اس زمانے میں شلوار قمیص کو لازمی وردی قرار دیا گیا اور بچوں پردھوتی (تہبند) کی بجائے شلوار قمیص پہن کر آنے پر زور دیا گیا ، اس سلسلے میں ابا جان سے روایت ہے کہ " ایک دن جب ہم کچھ بچے بدستور دھوتی میں ملبوس سکول اسمبلی میں پائے گئے تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے سکول سے واپس گھر بھیج دیا. کہ وردی کے بغیر سکول نہ آنا.جب ہم سکول سے گھر پہنچے تو والد صاحب دربار شریف کے سامنے ٹہل رہے تھے ۔ ہمیں جو یوں بے وقت آتا دیکھا تو غضب ناک ہو گئے ، مگر جب صورتِ حال واضح کی گئی کہ ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا ہے کہ شلوار پہن کر آؤ ورنہ نہ آنا ۔ تو اباجان نے اسی وقت ہمیں ساتھ لیا اور سکول جا پہنچے ۔ سادات کا جلال سب جانتے تھے ، اس لیے ہیڈ ماسٹرصاحب کو ابا جان کی آمد کی اطلاع ہوئی تو چپکے سے دفتر سے نکلے اور کہیں غائب ہو گئے ۔ اباجان اساتذہ پر خوب گرجے برسے ، اور وہ سر جھکائے سنتے ناں تو بھلا کیا کرتے ۔ بعد میں ہیڈ ماسٹر صاحب نے گھر آ کر معافی مانگی اور اپنی مجبوری بتائی ۔ مگر ابا جان نے اپنے بچوں کو سکول بھیجنے سے انکار کر دیا۔"
خیر جوگی کا بچپن آنے تک زمانہ کافی آگےبڑھ چکا تھا اور پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔
ہمہ از قبیلہ من عالمان بودند
یوں تو فی زمانہ سید ہونا کوئی بڑی بات نہیں ۔ تقسیم ہند کے بعد برصغیر کا ہر ایرا غیرا نتھو خیراسید اور راجپوت ہو گیا ۔ایسے میں بھلا میں کیا اپنی نجابت کے قصے سنا سنا کے قارئین کا وقت ضائع کروں ۔ کسی کو مرعوب کرنا یا اپنی نجابت کا ڈھنڈورا پیٹنا ہر گز مقصود نہیں ۔ مقصد صرف ایک مختصر تعارف ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ "وہ کیا گردوں تھا جس کا ہوں میں اک ٹوٹا ہوا تارا۔" اور پڑھنے والوں پر بھی واضح ہو جائے کہ صرف سید ہونے کا دعویٰ کر نے یا سید ہونے کی اداکاری سے کوئی سید نہیں ہو جاتا ۔
جوگی کو جس خاندان میں پیدائش کا لائسنس جاری ہوا تھا۔ اس پر شیخ سعدیؒ کا یہ مصرعہ اس بری طرح فٹ آتا ہے کہ ذیل میں مذکور چند مثالوں سے یہ سمجھنا مشکل نہ ہوگا کہ اس خاندان میں جلال اور کمال کی کوئی کمی نہیں ، اور جمال تو ویسے بھی سادات کی ایک عام نشانی ہے ۔ بخاریوں میں پیدا ہونے والےجوگی کا سلسلہ نسب اچ شریف میں حضرت سید بدرالدین بخاریؒ سے جا ملتا ہے ۔اس طرح حضرت شیر شاہ سید جلال الدین بخاری ؒ(سرخ پوش) اور حضرت جلال الدین بخاری ؒ (مخدوم جہانیاں جہانگشت )جیسے جلالی بزرگوں کی اس شجرہ میں موجودگی اس خاندان کی جلالیت کا عالم واضح کرنے کیلئے کافی ہے ۔
روایات کے مطابق ہمارے جد امجد حضرت سید باغ علی شاہ بخاری ؒ (اول) مشیت ایزدی سے اس علاقہ میں تشریف لائے ۔ جو کہ اس زمانے میں ہندومت کا گڑھ تھا ۔ انہوں نے نواحی جنگل میں ڈیرہ ڈالا اور انسانوں اور جنوں کو مشرف بہ اسلام کیا ۔ ان کے سجادہ نشیں سید محمد نواز شاہ بخاری ؒ (اول) کی ایک مشہورِ زمانہ حکایت جو بڑے بوڑھوں کے ذریعے سینہ بسینہ چلی آتی ہے ۔ ایک دن انہیں کسی نے کھال پھاندتے دیکھا ۔ حیرانی کی بات کھال پھاندنا نہ تھی ، مگر وہ ایک طرف پھاند کے پھر دوبارہ واپس پھاندتے ۔ کچھ دیر جب یہی شغل جاری رہا تو دیکھنے والوں کی حیرت فطری تھی ۔ پوچھنے پر جواب ملا کہ :۔" کہنے والے کہتے ہیں یہ دنیا ڈھائی قدم ہے ، مگر میرا تو ایک قدم ہو رہا ہے ۔" یہ کہہ کر انہوں نے پھر دوسری طرف چھلانگ لگائی
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
دشت امکاں کو ہم نے نقش پا پایا
ان کے زمانے کا آنکھوں دیکھا واقعہ بھی شاید ہی کسی کو بھولا ہو ۔ کوٹ بنایا جا رہا تھا (سرائیکی میں گاؤں کے ارد گرد حفاظتی دیوار کو کوٹ کہتے ہیں ) دوپہر کے وقت مزدور سستانے کیلئے بیٹھے تو ان کی شامت آئی کہ پیر صاحب سے کہا :۔ " پیر سائیں ! حقہ پینے کیلئے تھوڑی سی آگ تو منگوا دیں (واضح رہے کہ ہمارے خاندان میں کسی بھی قسم کی تمباکو نوشی ، یا منشیات کا استعمال تو انتہائی سختی سے ممنوع ہے ہی ، دربار شریف اور اس گاؤں کی حدود میں بھی سگریٹ حقہ وغیرہ قسم کی کسی بھی چیز کا استعمال ممنوع ہے ۔ خلاف ورزی کرنے والا اپنے انجام کا خود ذمہ دار ہوتا ہے)انہیں شاید معلوم نہیں تھا اس لیے بے خبری میں فرمائش کر دی ۔ دادا جان کے دادا جان نے جلال کے عالم میں قریب ہی کھیلتے بچے سے کہا :۔ " ونج خدا بخش شاہ بھا چاوا" (جاؤ خدا بخش آگ لے آؤ ) وہ بھاگتے ہوئےگئے اوراپنی جھولی انگاروں سے بھر کے لے آئے ۔ مزدوروں کیلئے اتنا نظارہ ہی کافی ہو گیا ۔ فوراً حقہ توڑ کے توبہ تائب ہو گئے ۔
(شاہ خدا بخش شاہ ؒ صاحب پیدائشی مجذوب تھے ، اور میری دادی جان کے والد گرامی تھے۔ )
ہمارے اجدا د کے وہاں آباد ہونے سے پہلے وہ ویرانہ جنات کا مسکن تھا ۔ پھر وہ اسلام قبول کر کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے۔ ان کے بچے ہمارے بزرگوں سے ہی قرآن مجید کی تعلیم پاتے رہے ۔ پھر ہمارے پردادا سید عبدالقادر شاہ بخاری ؒ(دوم ) کا زمانہ آیا ۔ دو بیگمات سےان کے سات بیٹے تھے ۔ اس زمانے تک دربار عالیہ کوٹ والا پر ہر سال بہت بڑا میلہ لگتا تھا. ایک بار میلے کے موقع پر کسی نے ان سے کسی بیٹے کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا :۔ " اگلے سال نہ فقیر ہوسی ، نہ میلہ (اگلے سال نہ فقیر زندہ ہوگا ، نہ ہی میلہ لگے گا)۔" ان کے یہ الفاظ جیسے پتھر پہ لکیر ہو گئے ۔ ان کی وفات کے بعدباوجود کوششوں کے میلہ پھر نہ لگ سکا ۔ اماں جان سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ان کی دادی اور میری پردادی جان نے پردادا جان سے کہا کہ گھر میں لکڑیاں ختم ہو گئی ہیں ۔ کچھ انتظام کیجئے . انہوں نے جنات خادمین سے لکڑیوں کا انتظام کرنے کہہ دیا۔ اور انہوں نے ساتھ والے گاؤں سے ہر خشک لکڑی کےڈھیر سمیت رہٹ کی لکڑیا ں بھی اکھاڑ کر حاضر کر دیں ۔ جب اس گاؤں کے لوگوں کی شکایت پر راز کھلا توپردادا جان نے جنوں کی اچھی خاصی کلاس لی ۔ مگر جب جال(پیلو) کے درخت سے ایک شخص الٹالٹکا پایا گیا ، اور چھان بین پر معلوم ہوا کہ کسی صاحبزادے کے حکم کی خلاف ورزی کی سزابھگت رہا تھا تو یہ واقعہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا ۔ پردادا جان نے جنوں کے قائدین کو بلایا اور کہا کہ میرے بعد میری اولاد تمہیں اپنے مفادات کیلئے استعمال کرے گی اس لیے آپ سب کو رخصت دی جاتی ہے ۔ان کی وفات کے بعد اکثر قبائل چلے گئے اور باقیات کی موجودگی ہمارے نانا جان کے زمانے تک ثابت ہے ۔
عینی شاہدین سے روایت ہے جب اچ شریف سے پیر صاحب تشریف لائے تھے ، دربار شریف میں حاضری اور کشف قبور کے بعد جب وہ باہر آئے تو باوجود سرد موسم کے پسینہ پسینہ ہو رہے تھے ، اور چہرہ لال سرخ تھا ۔ باہر آتے ہی انہوں نے پینے کیلئے پانی منگوایا اور فرمایا :۔ " اس قدر جلال ۔۔۔۔ ! ہم نے کبھی نہ دیکھا تھا ۔ میں نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ؒ کے مزار پر بھی ان سے ملاقات کی ہے ۔ اور انہوں نے اپنے مزار سے باہر آ کر میرا استقبال کیا تھا ۔ مگر یہاں تو عالم ہی اور ہے ۔ "دراصل وہ اجازت لینے آئے تھے کہ سید باغ علی شاہ بخاری ؒ (دوم ) کو اپنے ساتھ اچ شریف لے جائیں ۔ مگر ان کے بقول جواب ملا:۔" ہماری اولاد میں یہ ڈیوا (چراغ ) جلتاہے اور اس چراغ کی روشنی کا حقدار یہ علاقہ ہے ۔ " اس شرط پر اجازت ملی تھی کہ تعلیم کے بعد وہ واپس لوٹا دئیے جائیں گے ۔ پرنانا جان نے تعلیم کے ساتھ ساتھ اکلوتی صاحبزادی بھی شاگرد کے نکاح میں دی۔ یوں ہمارا رشتہ دوبارہ اچ شریف سے جڑ گیا ۔
مذکورہ بالا مثالوں سے واضح ہو گیا ہوگا ۔ کہ جلال اس خاندان کے ناک پر دھرا رہتا ہے ، اور رگوں میں خون کی بجائے گندھک کا تیزاب دوڑتا ہے ۔ جلال اور صرف تصوف ہی ہمارا طرہ امتیاز نہیں ۔ اسے ایک اتفاق کہیں یا کچھ اور (ہمارے خاندان کی نشانی بھی کہہ سکتے ہیں ) کہ نرینہ اولاد کی تعداد تین ہوتی ہے ۔ ان میں سے ایک عالم ِ دین ، ایک طبیب و حکیم اور ایک مجذوب ہوتا ہے ۔ مثلا ً ہمارے جد امجد کے بھی دو بھائی تھے ۔ ان کے تین بیٹے تھے ۔ جن میں سید محمد نواز شاہ بخاری ؒ کے تین بیٹے تھے۔ آگے سید عبدالقادر شاہ بخاری ؒ کے سات بیٹے تھے (حیران نہ ہوں تین بیٹے ایک بیگم صاحبہ سے تھے ، اور چار بیٹے دوسری بیوی سے تھے ) ان تین بیٹوں میں سے سید شرف حسین شاہ بخاریؒ(دادا جان )نے طب میں کمال حاصل کیا ۔ اور سید باغ علی شاہ بخاری ؒ (نانا جان ) علم دین کی روایت کو آگے بڑھانے والے ہوئے ۔ حکیم صاحب کےحسبِ معمول تین بیٹے ہوئے ۔ منجھلے چچا نے علم دین کا علم پکڑا ۔ اور طبابت میرے والد گرامی کے حصے میں آئی ۔ میرے والد صاحب کے (حسبِ معمول) تین بیٹے ہوئے ۔جن میں سے سب سے چھوٹے کو آپ چھوٹا غالب ؔ کے نام سے جانتے ہیں۔
باقی سب قصے تو سنالیے چلتے چلتے طبابت میں کمال کی بھی ایک دو مثالیں سن لیجئے۔ تاکہ الجلال والکمال کے پوری طرح وضاحت ہو سکے ۔
ایک بندہ اس حال میں لایا گیا کہ استسقا میں مبتلا تھا ۔ پانی پی پی کر اس کا پیٹ پھٹنے کو آ گیا مگر پیاس نہ بجھتی تھی ۔ یہ بڑے حکیم صاحب (پرداد اجان ) کا زمانہ تھا ۔ انہوں نے نبض دیکھ کر کہا کہ مریض کو الٹا لٹکا دیا جائے ۔ اور مریض کے سر کے عین نیچے ایک بڑی سی کنالی (پانی بھرنے کیلئے مٹی سے بنا بہت بڑا برتن) پانی سے بھر کے رکھ دیا جائے ۔ سننے والے حیران رہ گئے اور مریض سمیت اس کے لواحقین بہت چیں بجبیں ہوئے کہ آپ حکیم ہیں یا قصائی ۔ مگر جب حکم کی تعمیل کی گئی تو تین منٹ کے اندر مریض کے حلق سے کچھوے کے چھوٹے چھوٹےبچے پانی کی کنالی میں آ گرے ۔
اور یہ واقعہ ہمارے دادا جان کا ہے ۔ اس زمانے میں آمد ورفت کا واحد ذریعہ ریل ہوا کرتی تھی ۔ ایک سفر سے واپسی پر انہوں نے ریل میں ایک نوجوان لڑکی کو دیکھا ۔ جس کی حالت انتہائی نازک تھی ، اور رنگ زرد ی کی زیادتی سے سرسوں جیسا پیلا پڑا ہوا تھا ۔ اس کا یرقان آخری سٹیج پر تھا ، ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا کہ بقول غالب :۔ "کس سے ہو جز مرگ علاج۔" اس کی قسمت کہ بہاولپور سے دادا جان ریل کے اس ڈبے میں سوار ہوئے ۔ انہوں نے اس لڑکی کے والد سے کہا کہ اسے گدھی کا دودھ پلائیں یہ انشاءاللہ شفا یاب ہو گی ۔ لڑکی کا والد تو (حسبِ سابق) حیران ہوا جبکہ لڑکی نے غصے کے مارے دادا جان کو گالیاں دینا شروع کر دیں ۔ دادا جان نے اس کے والد سے کہا کہ اس کی بے خبری میں سہی اسے کسی طرح گدھی کا دودھ استعمال کرائیں ۔ اگر آپ اسے زندہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ۔ سنا ہے تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ لڑکی خود اپنے پیروں پر چل کر آئی . مکمل صحت یاب ہو چکی تھی۔ اور اپنے سابقہ رویے کی معافی مانگی ۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں.
لیکن ہر عروج کو زوال ہے ۔ اب ہمارے پاس بھی باپ دادا کے یہ قصے ہی رہ گئے ہیں سنانے کو ۔ بقول اقبال
تھے وہ تو آباء تمہارے ، تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو