Pak Urdu Installer

Monday, 25 March 2013

چچا ڈھکن قسط 3

3 آرا



چچا ڈھکن قسط 3



چچا ڈھکن جہاں ایک مستند اور معتبر پہلوان تھے، وہاں وہ ایک ناکام و نامراد شوہر بھی تھے۔ ان کی ازدواجی زندگی ہمیشہ اٹھک بیٹھک کا شکار رہی ۔ ان کی بیگم ان کیلئے مسلسل دردِ سر بنی رہیں ۔ وہ خود تو مست ملنگ قسم کے انسان تھےمگر وہ پرلے درجے کی خرانٹ تھیں ، بات بات پر انہیں روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیتیں ۔ چچا سے ان کے چھ بلونگڑے پیدا ہوئےجن میں تین نر اور تین مادہ تھے۔ جب دوونں کے مابین لڑائی ہوتی تو بچوں کی پوری ٹیم ماں کی طرفدار بن جاتی جب کہ وہ اکھاڑے میں اکیلے کھڑے ہوئے نظر آتے ، حالانکہ وہ بچہ پارٹی کا بے حد خیال رکھتے تھےاور انہین کسی قسم کی تکلیف نہین ہونے دیتے تھے۔ دراصل ان کی  بیگم لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی پر کاربند تھیں ۔ وہ ان کے خلاف بچوں کے کان بھرتی رہتی تھیں جس کے نتیجے میں وہ بے ادب ، گستاخ اور منہ پھٹ ہو گئے تھے۔ چچا اس صورتِ حال سے بہت پریشان رہتے تھےمگر بے اختیار حکمران کی طرح کچھ کر نہیں پاتے تھےاور اپنی قسمت پر آٹھ دونی سولہ آنسو بہاتے تھے کہ قدرت نے انہیں اولاد  دی تو سب کی سب چھان بورہ نکلی، اس سے تو بہتر تھا کہ وہ اینٹ پیدا کر دیتے و کم از کم دیوار بنانے کے کام تو آ جاتی۔
کہا جاتا ہے کہ "جب گھوڑے کو تھان پر گھاس نہ ملےتو وہ مجبور ہو کر ادھر ادھر منہ مارنے لگتا ہے۔" چچا ڈھکن نے بھی یہی لائن اختیار کی۔ انہوں نے اندر خانے ایک بیوہ عورت سے آشنائی پیدا کر لی جو کہ ترقی کر کے عشق و محبت میں تبدیل ہو گئی۔ اس ریٹائرڈ حسینہ کا نام نوراں تھا ۔ یہ اپنے کھیتوں کا مال ایک ٹوکرے میں سجا کر لاتی تھی اور محلے کے ایک چوک پر بیٹھ کر فروخت کرتی تھی۔ اس عورت کے متعلق یہ بات مشہور تھی کہ مرد مار عورت ہےاور اب تک شوہروں کو مارنےکی ہیٹرک کر چکی ہے۔ اس کا ایک شوہر پانی کی باری کے تنازعے پر مارا گیا تھا جبکہ دوسرا ایک بس کا لقمہ بن گیا  تھا اور آخری شوہر دریا میں ڈوب مرا تھا جس کا کوئی جنازہ اٹھا تھا نہ مزار بنا تھا ۔چچا سبزی لینے اکثر اس کے پاس جاتے رہتے ، آہستہ آہستہ یہ آمد ورفت قربت میں تبدیل ہو گئی۔
کہا تو یہ بھیجاتا ہے کہ "عشق ، مشک ، اور چھینک  چھپائے نہیں چھپتے۔" اڑتے اڑتے یہ خبر ان کی زوجہ کے کانوں تک بھی جا پہنچی۔ ان کی حرکات و سکنات تو پہلے ہی مشکوک تھین ، اس خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ ایک دن بیگم نے چھاپہ مار کر انہیں عین اس وقت دھر لیا جب وہ اپنی محبوبہ کو چوڑیوں کا تحفہ دے رہے تھے۔ زوجہ کو اچانک سامنے پا کر وہ کم و بیش بد حواس ہو گئے، مگر مار کھانے والے پہلوان کی طرح جلد ہی سنبھل گئے  اور فورا ً بہانہ گھڑ لیا کہ وہ تو یہاں گاجریں لینے آئے تھےمگر ان کی بیگم بھی کچی گولیاں نہ کھیلی ہوئی تھی بلکہ اخروٹ کھیلی ہوئی تھی، وہ ان کی اداکاری سے بالکل متاثر نہیں ہوئیں اور مارچ پاسٹ کرتی ہوئی وہاں سے رخصت ہوئیں اور میکے جا کر گوشہ نشین ہو گئیں ۔ چچا دو چار دن تو ان کی راہ تکتے رہے کہ شاید صبح کے بھولے ہوئے کی طرح شام کو واپس آجائیں مگر وہ بھی گدھی کی طرح ضد کی پختہ تھیں ، لوٹ کر نہیں آئیں ۔ انہوں نے بذریعہ موبائل متعدد پیغامات  بھجوائے کہ مہاریں موڑ لیں اور پویلین واپس آ جائیں مگر اس اللہ کی بندی پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ اس کشمکش اور ادھیڑبن میں  ایک ماہ گزر گیا ۔ نصف بہتر کے بغیر وہ پورے بدتر ہوگئےانہیں اپنا کھانا خود پکانا پڑتا تھا اور دھوبی کا کردار بھی ادا کرنا پڑتا تھا ، گھر کی صفائی ستھرائی اس کے علاوہ تھی ۔ چنانچہ وہ بیک وقت باورچی ،دھوبی، اور خاکروب بن کر رہ گئے ، اتنی ذلت و خواری تو انہوں نےکبھی کشتی لڑتےوقت بھی نہیں اٹھائی تھیجتنی کہ انہیں بیگم کے باغی ہوجانے پر اٹھانی پڑی تھی۔
ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے، جبکہ بیگم بچوں کی ماں ہوتی ہے، آخر کار انہوں نےہارنے والے پہلوان کی طرح ہتھیار ڈال دئیے ۔شریکِ حیات کو دوبارہ حیات میں شریک کرنے کیلئے وہ اچانک سسرال پہنچ گئے۔ لیلیٰ نے جب یہ دیکھا کہ مجنوں خود چل کر اس کے در پر آ گیا ہے تو وہ مزید مغرور ہو گئیں اور واپسی کا ٹکٹ کٹانے سے صاف انکار کر دیا ۔ اس صاف وشفاف جواب سے ان کی شکل یتیموں جیسی بن گئی ۔ دال نہ گلتی دیکھ کر منت سماجت پر اتر آئے۔ آخر بے غم کو ان کی بے بسی اور لاچارگی پر رحم آ گیا مگر انہوں نے چند کڑی شرائط پیش کر دیں۔پہلی شرط یہ تھیہ وہ اس لال سرمے والی عورت سے کبھی اور کسی قیمت پر نہیں ملیں گے۔چچا چونکہ پل صراط پر سے گزر رہے تھےاس لیے وہ یہ کڑوی پونسٹان نگلنے پر تیار ہو گئے۔ انہوں نے کاغذ پر یہ تحریر لکھ کر دے دی، چنانچہ بیگم نے فوری طور پر بائیکاٹ ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور ان کے ساتھ سائیکل پر بیٹھ کر اپنے گھر روانہ ہو گئیں جبکہ بچے ان کی سائیکل کے ساتھ ساتھ دوڑتے رہے۔

جاری ہے

چچا ڈھکن قسط 4 ملاحظہ کرنے کیلئے یہاں کلک کریں

3 آرا:

  • 27 March 2013 at 08:42
  • 27 March 2013 at 19:28

    بہت شکریہ حسیب
    میں تو سمجھا تھا کہ لوگ مجھے بھول بھال گئے

    اچھا لگا کہ کسی نہ کسی کو تو یاد ہوں

    ویسے ایک ادھ تبصرہ نیرنگ خیال کے خاکے "گڈ لکنگ الو دا پٹھا" پر بھی ہو جائے تو جزاک اللہ

  • 27 March 2013 at 21:40

    اچھا ہے۔ پوٹنشل معلوم ہو رہا ہے اس کردار میں۔ مگر کچھ چیزوں کی کمی بھی محسوس ہو رہی ہے۔

    ایک تو ناک کی سیدھ میں تیزی سے بغیر سانس لیے آگے بڑھنے والا ماحول ہے۔ 'بے غم' جیسی پیش پا افتادہ اور اوور یوزڈ اصطلاحات کا استعمال بھی کھب نہیں رہا۔

    رفتار کم کرنے کے لیے ذیلی قصوں اور آس پاس کی باتوں کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔

    چچا 'ڈھکن' نام تبدیل نہیں ہو سکتا؟

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آپ کی قیمتی آرا کا منتظر
فدوی چھوٹا غالب

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

کرم فرما