Pak Urdu Installer

Monday 15 December 2014

چلتے ہو تو لاہور کو چلیے (قسط چہارم)۔

3 آرا
بورے والا کے بعد چیچہ وطنی کے باہر سےیوں گزرےجیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک جاتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو وادی ثمود میں سے گزرنے کا حکم فرمایا تھا ۔ میں منزل بہ منزل ارسل اور افی صاحب کو برابر خبر دیتا رہا، مبادا یہ نہ کہیں کہ بے خبری میں آ لیا ہے ۔ بورے والا سے لاہور تک کوئی قابل ذکر واقعہ پیش نہ آیا ، سوائے اس کےکہ موٹر وے پر بس کے سامنے جاتے ٹرک کو اچانک بریک لگی تو بس اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ کمزور دل مسافروں نے کلمے پڑھے جبکہ میں نے غالب کا شعر :۔
ہم تھے تیار مرنے کو ، پاس نہ آیا نہ سہی
آخر اس شوخے ٹرک میں کوئی بریک بھی تھا​
جیسے باقی شہر گزر گئے تھے ویسے ہی ساہیوال اور اوکاڑہ بھی یکے بعد دیگرے گزرتے گئے ، یہاں تک کہ لاہور کا بیرونی بس ٹرمینل ٹھوکر نیاز بیگ آ گیا ۔ اس وقت سہ پہر کے تین بجے تھے ۔ کھڑکی سے باہر دیکھا تو ہر طرف جماعتِ اسلامی کے بینر اور پینا فلیکس لگے نظر آئے ، جن میں بنفس ِ نفیس محترم سراج الحق صاحب کھلے بازو میرا ستقبال کرتے اور خوش آمدید کہتے صاف نظر آ رہے تھے ۔ 
مجھ پر تو شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی ۔ واہ میرے مولا ، سبحان تیری قدرت ۔ جس نمانے کو اپنے علاقے میں بندہ بھی کوئی نہیں سمجھتا ، اس کا لاہور میں داخلے پر اس قدر پر شکوہ استقبال ۔۔۔۔آخر ان لوگوں کو خبر کیسے ہوئی کہ چھوٹے غالب کی آج لاہور تشریف آوری ہے۔ ۔۔۔اس کا مطلب ہے کہ مجھ ناچیز پر بھی ایجنسیزکی گہری نظر ہے ۔ 
اس قدر پذیرائی پر پھولا نہ سمایا ، اور آنکھیں بھیگ گئیں ۔ چشمہ اتار کے آنکھیں صاف کیں اور چوڑا ہو کے بیٹھ گیا۔ بس ٹرمینل میں داخل ہوئی تو ایک اور روح افزا منظر دیکھا۔ایک طرف استبالیہ کیمپ لگا ہوا تھا ، جہاں لوگوں کا ہجوم تھا۔ اتنے سار ےلوگ اپنے گھر بار ، کام دھندے چھوڑ کر بیرونِ شہر خاکسار کا استبال کرنے کو اکٹھے ہوئے ہیں ، یہ خیال مجھے مجبور کر رہا تھا اس پاکستانی ہیروئن کی طرح جنہوں نے ایک فلم میں سرسوں کا کھیت روندتے ہوئے رقص کے نام پہ چند قلابازیاں لگا کر سہیلیوں سے فرمایا :۔ 
من میں اٹھی نئی ترنگ
ناچے مورا انگ انگ
پنچھی تیرے سنگ سنگ
من چاہے اڑ جاؤں
کسی کے ہاتھ نہ آؤں ​
اور ساتھ کھڑا خوشامدی سہیلیوں کا ٹولہ بیک آواز چلایا :۔ 
اے سکھی ناں ، ناں ، ناں ۔۔۔۔۔​
پس سہیلیوں کی اس عدم موجودگی کو جواز بنا کر مابدولت نے اس نیم بے ہودہ خیال کو سنگلی ڈالنے کی کوشش کی تو خیال نے مینڈک کی طرح زقند لگائی اور "مرید پور" کے ریلوے سٹیشن پر جا پہنچا ، جہاں میرے آنجہانی کزن محترم پطرس بخاری کے ساتھ کوفیوں والا سلوک کیا گیا تھا ۔ اس عبرت انگیز خیال نے الٹا فدوی کو سنگلی ڈال دی اورمیں نے ایک جھرجھری لے کر اب کے بغور باہر کا جائزہ لیا ، جس کے نتیجے میں باقی ماندہ خوش فہمی بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ کیونکہ یہ سارا تام جھام اور استقبال تو جماعت اسلامی کے اجتماع میں شریک ہونے والوں کیلئے تھا ، جبکہ میرا تو دور دور تک جماعتِ اسلامی سے کوئی تعلق کجا کسی رکن سے علیک سلیک تک نہ تھی ۔ پس خاکسار جی بھر کے کھسیانا ہوا اور نوچنے کیلئے کوئی کھمبا میسر نہ آنے کی وجہ سے چپکا ہی بیٹھا رہا ۔تاآنکہ بس ٹرمینل سے نکلی اور آگے چل پڑی۔

وہ تو بھلا ہو ارسل مبشر کا جس کا عین اسی وقت فون آ گیااور مجھے حالیہ خفت مٹانے اور غم غلط کرنے کا غنیمت موقع ہاتھ لگ گیا۔ اب صورت ِ حال یہ تھی کہ کال ملتے ہی میں السلام علیکم کیے جا رہا ہوں اورجواب میں شاں شاں سن رہا ہوں۔ اپنی آواز بلند کی اور پوچھا کہ کہاں پہنچے ہو ؟ جواباً کی بورڈ پہ ٹائپنگ جیسی آواز سنائی دی۔ تنگ آمد بہ بند آمد(نظریہ ضرورت کے تحت محاورے میں تحریف کی گئی ،لہذا اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں)۔ چند ثانیے بعد پھر موبائل بجا ، گھورنے پہ معلوم ہوا کہ پھر ارسل کی کال ہے ۔ کال ملنے پر وہی سوال دہرایا کہ کہاں پہنچے ہو ؟ کتنی دیر ہے لاہور پہنچنے میں؟ اور اس اللہ کے بندے نے سنی ان سنی کر کے میرا سوال مجھی پوچھ لیا ۔ دوسرے لفظوں میری آنتیں میرے گلے ڈال دیں۔
شرافت سے بتایا کہ حضور ! ابھی 3 منٹ پہلے باقاعدہ ایک تفصیلی پیغام بھیج چکا ہوں کہ میں ٹھوکر ٹرمینل تک پہنچ چکا ہوں ۔ اگر وہ سمجھ نہیں آیا تو اب بزبانِ خود آپ کے گوش گزارکرتا ہوں کہ بس ٹھوکر ٹرمینل سے نکل آئی ہے اور ساڑھے تین بجے تک انشاءاللہ لاہور پہنچنے والا ہوں۔ اب اگر طبع نازک پہ گراں بار نہ ہو تو مطلع فرمائیے کہ جناب کب لاہور میں قدم رنجہ فرمانے والے ہیں۔؟
جواب ملا کہ یار چھوٹے آفس میں اتنا بزی تھا کہ بلا ۔۔ بلا۔۔ ۔ بلا ۔۔ ۔ بلا۔ الغرض اس طویل تقریر کا لُبِ لباب صرف اتنا تھا کہ میں ابھی فیصل آباد سے نکلنے لگا ہوں ۔ چھ بجے تک پہنچ جاؤں گا۔
دل کے جلنے کا ایک اور سبب میسر آیا تو دل خوب بھڑ بھڑ جلنے لگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پھٹکار زدہ چہرے پہ مزید بارانِ پھٹکار ہوئی ، اور ایسا اندھیر چھایا کہ مجھ میں آئینہ دیکھنے جوگا حوصلہ بھی باقی نہ رہا۔ گویا بقول ِ غالب :۔
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا ، جل گیا​
بس میری نفسیاتی اکھاڑ پچھاڑ اور اندرونی خلفشار سے بے نیاز دوڑی دوڑی لاہور میں داخل ہو گئی ، اور سیدھی جا کے سٹی ٹرمینل پہ فرو کش ہو ئی ۔ میں نے جیکٹ اٹھائی ، سست روی سے بس سے خارج ہوا۔ ابھی میں ٹرمینل کے ویٹنگ روم کی طرف بڑھا ہی تھا کہ ایکا ایکی خود کودو تین کنڈکٹرحضرات کے نرغے میں پایا ۔ دل کو تسلی دی کہ نیوز چینلز کے رپورٹرز اور کیمرے نہ سہی کم از کنڈکٹرز نے تو ہمارے گرد گھیرا ڈالاہے۔ میں اپنے خیالوں میں گم تھا اور ان میں سے ہر ایک کا اصرار تھا کہ میں ان کی کمپنی کی بس میں سفر کروں ۔ کوئی مجھے بہاولپور لے جانے کیلئے کھینچ رہا تھا اور کوئی مجھے ملتان دکھانے پر تُلا تھا۔کوئی اور موقع ہوتا تو یقیناً میں اچھا خاصا شغل لگاتا ان کے ساتھ بھاؤ تاؤ کرتا ، ناک بھوں چڑھاتا ، اور بعد میں بتاتا کہ لاہور جانا ہے ۔ مگر چونکہ اس وقت سات گھنٹے کے طویل سفر سے آیا تھا اور کچھ گزشتہ واقعات پہ دل جلا ہوا تھا اس لیے میں نے ہاتھ اٹھا کر سب کا شکریہ ادا کیا اور معذرت کی کہ ابھی ابھی توبس سے اترا ہوں ،اور میری یہ گھنی زلفیں اصلی ہیں کوئی امپورٹڈ وگ نہیں ۔ پس یہ حقائق ثابت کرتے ہیں کہ میں" گنجا "نہیں اور نہ ہی یہ پرویز مشرف کی حکومت ہے کہ ائیر پورٹ پر اترتے ہی ڈی پورٹ کر دیا جاؤں ۔جہاں آپ کی بس جانے والی ہےمیں وہاں سے ہی ابھی آیا ہوں۔ اس لیے مجھ پر وقت ضائع کرنے کی بجائے کوئی اور سواری ڈھونڈ لو۔یہ سنتےہی سب تتر بتر ہو گئے اور میں اطمینان سےانتظار گاہ میں جا کر بیٹھ گیا۔ 

Saturday 13 December 2014

چلتے ہو تو لاہور کو چلیے (قسط سوم)۔

0 آرا
ڈرائیور نے وہاڑی شہر کو بائی پاس کیا ، اور بس کو سوئے لاہور رواں دواں رکھا۔ اب مجھے خیال آیا کہ یہ واقعی ڈائیوو ہے یا محض مونو گرام  چپکا کر شیر کی کھال میں گدھے والا معاملہ کیا ہوا ہے۔ اگرواقعی ڈائیوو ہےتو اب تک اس غیرتِ ِناہید کے درشن کیوں نہیں ہوئے جسے عرفِ عام میں بس ہوسٹس کہا جاتا ہے۔ اصولاً تو میرے سوار ہوتے وقت انہیں استقبال کیلئےکھڑا ہونا چاہیے تھا ،بے شک اہلاً و سہلاً مرحبا نہ بھی کہتی۔   مانا کہ ہماری نظراچھی خاصی کمزور ہے مگر چشمے پہ خواہ مخواہ تو پیسے خرچ نہیں کیے ناں......چشمے کا خیال آتے ہی فوراً چشمہ اتارا  اور بس کے لہراتے پردے سے صاف کیا، مبادا مطلوبہ منظر گردو غبارکی دھندلاہٹ کی بھینٹ چڑھ گیا ہو۔

نصف ایمان کے حصول کے بعد بھی ہنوزدلی دور بود۔ رہا نہ گیا توشتر مرغ کی طرح اچک اچک کے  ادھر ادھر نظر دوڑائی، لیکن گُل بکاؤلی نظر نہ آیا۔ بھلا ہودربان(گارڈ )کاجو "مجھے گدا سمجھ کے  چپ" نہ رہا۔ بلکہ پیاسا سمجھ کے اس بھلے مانس نے "مطلوب و مقصودِ مومن" کو بذریعہ کانا پھوسی اطلا ع بہم پہنچائی۔ حالانکہ ماضی بعید  میں اسی کے ایک  پیٹی  بھائی نے بڑے غالب کے ساتھ اس کے الٹ سلوک کیا تھا۔ پس نیوٹن  کے  تیسرے قانونِ حرکت کی پیروی میں اک پیرِمغاں  بلکہ "لیرِ مغاں" کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا، کی آمد ہوئی۔

نیم مردانہ نیم زنانہ صفات کی حامل ایک ہستی  ڈرائیور کے عین پچھلی سیٹ سے طلوع ہوئی۔ صورت گری تو بے شک اللہ تعالیٰ کی ہے مگراسے بگاڑنے کا کریڈٹ انسان کوجاتا ہے۔ ہرچندکہ محترمہ میک اپ کی بھرپور مدد سے 60 فیصد  خاتون نظر آ نے میں کامیاب تھیں اور زیرو نمبر کا چشمہ لگا کر اپنے تئیں پروفیسربھی سمجھ رہی تھیں۔ نسوانیت کااس قدر فقدان تھا کہ غالب کےمصرعہ "ہر چند کہیں کہ ہے ، نہیں ہے" کی ہوبہو تصویر تھیں۔ دوپٹے جیسی کوئی چیز آدھے سر پہ تھی توسہی لیکن اتنی مہین کہ"صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں" کی عملی تشریح سمجھ لیں۔ بادی النظر میں محسوس کیا جا سکتا تھا کہ مجبوراً دوپٹہ گوارہ کیاہوا ہے۔ جونہی ہاتھ میں ایکوافینا اور گلاس پکڑے آگے بڑھیں تو یکایک مجھ سے آگے 25 سیٹوں پر بیٹھے ہوئے نفوسِ ٹھرکیہ کو احساس ہوا کہ انہیں تو بہت پیاس لگی ہوئی ہے۔

اورمجھے اس وقت سمجھ آئی کہ غالب کے اس مصرعے "جی کس قدر افسردگی دل پہ جلا ہے"  میں کیا سائنس  ہے۔ جی جلنا ، دل جلنا ، رونگٹے کھڑے ہونا قبیل کے محاوروں سے اردو زبان کا دامن لبریز ہے البتہ ایک ضروری محاورے "رونگٹے  بیٹھ جانا" سے عاری ہے۔ فدوی  نے فی البدیہہ یہ محاورہ گھڑ کے اردو کو دان کیا۔ دل جلنے کا اثر یہ ہواکہ صبیح چہرہ دھواں دھواں ہو گیا ، اور  شکل پہ پھٹکار برسنے لگی۔ میر تقی میر سےاس وقت بے حسد محسوس ہوا ، کہ سارے "پنکھڑی  اک گلاب کی سی" نازکی کے حامل اور "چراغوں میں روشنی" دھندلا دینے والےحسین انہی کے زمانے میں کیوں تھے۔۔۔؟؟؟

میری یہ جھنجھلاہٹ بے وجہ نہ تھی۔ ایسا میرے ساتھ پہلی بار نہیں ہو رہا۔ اس کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہے۔
اکثر بس ٹرمینل پہ بڑے بڑے سائن بورڈز  پہ تابڑتوڑ خوبصورت حسینہ کے فوٹو کے ساتھ، آپ کی ہمسفر لکھا دیکھ کر  ہمارا کنوارا دل مچل  مچل کر جوگ سے مرتد ہو جاتا۔ عاجز آ کر جب پوچھتا کہ 
دلِ ناداں تجھے  ہوا کیا ہے؟ 
جانتا ہے جیب میں پڑا کیا ہے؟

روٹھا روٹھا جواب آتا

 مانا  کہ ایکسٹرا  ہے ان کا کرایہ  غالب
دو ، تین سو زیادہ دینے میں برا کیا ہے؟

       اور یوں جب بھی دل کے کہنے میں آ کر   فیصل موورز یا ڈائیوو  پہ سفر کیا ، تو سارے  سفر کے دوران لالچی کتے والی کہانی پر سر دھنتا رہااور ہاتھ مسلتا رہا۔ اور انہی سفروں کے دوران ہی "قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہمسفر  غالب" سمجھ میں آیا۔ سند باد جہازی کی طرح ہر سفر سے بخیر  واپسی کے بعد میں بھی سچے دل سے توبہ کرتا کہ اب فیصل موورز اور ڈائیوو کے  جھانسے میں نہیں آؤں گا۔ مگر اگلی باراسی امید  پہ کہ شاید اس بار............

اس اثنا میں بس بان محترمہ ہم تک پہنچ آئیں۔ چند شرارتی زلفیں دوپٹے کی آنکھ بچا کر پف کی صورت میں ماتھے پہ لہرا لہرا کر "لٹ الجھی سلجھا جا رے بالم " گنگنا رہی تھیں۔ لیکن "میں نہ لگاؤں گا ہاتھ رے" پر ڈٹا رہا۔خواتین میں شاید  بندہ تاڑنےکی حس ہوتی ہے ، ایک نظر میں جان لیتی ہیں کہ کنوارہ ہے یا  بیوی زدہ.....لہذا  محترمہ نے فدوی کو قابلِ التفات سمجھا ، اور سیٹ کے ساتھ کمر ٹکا کےکھڑی ہو گئیں۔ حالیہ ساقی گری کے دوران یہ ان کا واحد وقوف تھا  حالانکہ میں عرفات نہ تھا۔ مگر میں تو ایسے انجان بن گیاجیسے مجھے ڈاکٹر نے پانی سے پرہیز  تجویز کیا ہو۔ آخر انہوں نے باقاعدہ پانی  آفرکیا۔ جسے میں نے شائستگی سے ٹھکرا دیا۔  میک اپ زدہ چہرے پہ حیرت کے تاثرات ابھر ے اوراپنا سا منہ لے کے آگے بڑھ گئیں۔ جلد ہی واپس آ گئیں، ایک بار پھر مجھے سےپانی  کیلئے پوچھا ، اور اس بار بھی میں نے پینے سے انکار کر دیا۔ شاید خاتون نے مجھے کوئی وہمی قسم کا بندہ سمجھا کہ جا کے دوسرا  گلاس لے آئیں ، پھر بھی میری ناں ہاں میں نہ بدلی۔

میری بے نیازی کو محترمہ نے ناک کا مسئلہ بنا لیا  یا پھر کوئی اور چکر تھا ، وہ جو پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے سیٹ سے اٹھنے کا نام نہ لے رہی تھی اب 15 منٹ میں ان کا تیسرا چکر  لگا اورمجھ سے پھر پوچھا ، میری تو جیسے پیاس ہی مر گئی  جیسے پطرس کی موسیقیت لالہ جی کی بات سنتے ہی مر گئی تھی۔ بس بورے والا پہنچ کر   رکی، اور سب مسافروں کو آدھے گھنٹے کی چھٹی دی گئی، کہ کھایا پیا ٹھکانے لگا سکیں ، اور اکڑی ہوئی ٹانگیں سیدھی کر سکیں۔
   
 اسی وقت ذوالقرنین کو بھی لمحاتِ فرصت میسر آئے اور اس کاجوابی ایس ایم ایس آیا ۔  تازہ ترین واردات کا دکھڑا اسے سنا کر میں نے دل کا بوجھ ہلکا کیا، اور ساتھ ہی داستاں سرائے میں ڈنر کی اطلاع دے کر جلانے کی کوشش کی، مگر  وہ چکنا گھڑا نکلا۔ اور میری کوشش بے کار گئی. وقت گزرتے پتا ہی نہ چلا۔ بس بورے والا سے بھی چل پڑی۔ مسافروں کی وقت گزاری کیلئے فلم باغبان چلا دی گئی۔ جبکہ میں ہیما مالنی والے مناظر کے علاوہ  باقی فلم دیکھنےکی بجائے کھڑکی سے باہر دیکھتا رہا۔ 

(جاری ہے)    

Friday 12 December 2014

چلتے ہو تو لاہور کو چلیے (قسط دوم)۔

0 آرا
گھر سے نکلتے وقت ارادہ تھا کہ بہاولپورسےجا کے بس پکڑتا ہوں، مگر راستے میں خیال آیا کہ  بس گزرنی تو یہیں سے ہے ، اس لیے فون کر کے  سیٹ بک کروا لی ، معلوم ہواکہ پونے نوبجے ڈائیوو دھنوٹ سے گزرے گی ۔

مانعِ وحشت خرامی ہائے جوگی کوئی نہ تھا، اس لیے آٹھ بجے دھنوٹ شہر پہنچ کرانتظارکو "وخت" میں ڈال دیا۔ ساڑھے آٹھ بجے تک غالب  کی غزل "زِ من گرت بود باور نہ انتظار بیا" کے پنجابی ورژن "میرے شوق دا نئیں اتبار تینوں ، آ جا ویکھ میرا انتظار، آجا" کا زیر لب ریاض کرتا  رہا۔ اور داد کےطور پہ خندہ پیشانی سے غبارِراہ پھانکتا رہا۔ اور جو بس پونے نو بجے پہنچنی تھی ، ساڑھےآٹھ بجےہی میرا انتظاردیکھنے آ گئی۔ بس کو خلافِ توقع وقت سے 15 منٹ پہلے آتا دیکھ  کر دل میں خیال آیا تھا کہ :۔
یہ فیضانِ غزل تھا، یا چھوٹے غالب کی کرامت
سکھائےکس نے ڈرائیور کو، انداز ِ برق رفتاری

دروازہ کھلا اور بس میں داخل ہوتے ہی کنڈکٹرصاحب نے مجھے 28 نمبر سیٹ کا راستہ دکھا دیا۔ سیٹ پر بیٹھ کرجب اطمینان میسر آیا  تو دوبارہ اسی نکتے پرغورو فکر میں ڈوب گیا کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ کئی ممکنہ وجوہات سوچنے اور رد کرنے کے بعد  فدوی اس نتیجے پر پہنچاکہ اگرتان سین کا دیپک راگ گا کردئیے  جلانےاور اس کی بیٹی کاراگ ملہارگا کربارش  برسانےوالاواقعہ سچ ہے، تو پھریہ بھی کوئی نظر بندی یا شعبدہ نہیں۔ جیسے مہدی حسن صاحب  راگ گا کر شیشے کا گلاس چکنا چور کر دیتے  تھے، ویسے ہی چھوٹے غالب نے (اتفاقی طور پر ہی سہی) ایک نیا راگ ایجادکر کےنہ صرف موسیقی  پہ احسان کیابلکہ اس راگ کی بدولت بس کو  بہاولپور سے دھنوٹ 15منٹ پہلے بلانے کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔ ہر چند کہ حاسدین میرے لحنِ داؤدی کو پھٹے بانس کی آواز قرار دینے سے نہیں چوکتے۔ مگر حقیقت تو اپنی جگہ حقیقت ہے۔  پس اپنی اس باکرامت ایجاد پر فدوی پھولانہ سمایااور فوراً سے پیشتر  نومولود راگ کو "راگ انتظاری"  کا نام  دے کر اس کے جملہ حقوق بحق  ِ خود محفوظ کر لیے ۔

اسی اثنا میں بس کہروڑپکا پارکرچکی تھی۔ فارغ بیٹھے بیٹھے جب کچھ اور نہ سوجھاتوموبائل نکال کر افی صاحب اور ارسل کو بذریعہ ایس ایم ایس اطلاع پہنچائی۔ پھرذوالقرنین کا نیرنگِ خیال آیامگرساتھ ہی یہ بھی یاد آیا کہ گزشتہ رات میری کال کے جواب میں ٹیلی نار کی ناری  نےکس رکھائی سے کہا تھا "آپ کے مطلوبہ نمبر سے فی الحال جواب موصول نہیں ہو رہا "۔ اسی  ادھیڑ  بن میں میلسی آ گیا۔  یہ شہردیکھنے کا اتفاق تو کبھی نہیں ہوا البتہ اس کا نام ہمیشہ  سے فدوی کی ضیافتِ طبع کا باعث رہا۔ نجانے اس پر وہ کون سی "میل ۔ سی" چپکی ہے جس کی وجہ سے اس کا نام میلسی پڑ گیا۔

میلسی میں بس دو منٹ کے نام پرپانچ منٹ رکی رہی۔ میں نے پردہ ہٹاکر کھڑکی سےباہر دیکھا تو  نظرملا کی دوڑ کی طرح سیدھی گیریژن  سینماپرجا پہنچی۔ گیٹ پر موجود بڑے سے بورڈ پر ایک ٹکٹ میں تین مزے کا مژدہ جلی حروف میں درج تھا۔ شان کی فلم  "غنڈہ ٹیکس" کے علاوہ بھارتی فلم "کِل دِل" کے پوسٹرز کے ساتھ "ہمراہ گیت مالا" کی نویدِ ٹھرک بھی نظر آئی۔

بھارتی فلموں میں تو مجھے کبھی دلچسپی نہیں رہی، البتہ پاکستانی فلمیں میری کمزوری رہی ہیں ۔  ایک زمانہ تھا جب میں فلاپ ترین اور فضول ترین فلم  بھی بڑے انہماک سے سینما پر دیکھا  کرتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ڈسپرین ٹیبلٹس کا ایک  پتہ جیب میں رکھ کےجاتاتھا۔ اسی زمانے میں "غنڈہ ٹیکس" نیو پیلس سینماکمالیہ میں پہلی بار دیکھی اور پھریہ تب سے میری پسندیدہ فلم ہو گئی۔ اس فلم کے اکثر مکالمے برسوں تک میرا  تکیہ کلام رہے۔ بس نجانے کب میلسی سے نکلی  اور وہاڑی پہنچ  گئی جبکہ میں اس دوران  ماضی کا موئنجوداڑو کھودتا رہا

Tuesday 9 December 2014

چلتے ہو تو لاہور کو چلیے (قسط اول)۔

2 آرا
حسب سابق یہ قصہ بھی غالب  سے شروع ہوتا ہے۔
جذبہ ویلفیئر  فاؤنڈیشن  کی  تقریبِ  حلف برداری  میں        میری  مسلسل  جملہ بازیوں سے تنگ آکر  ایک دوست  نے   "کَسِنور مغلوب علی الکلب" کے مصداق  مجھے  غالب کا طعنہ دے مارا ۔  جس  کا  خلاصہ  یہ  تھا "غالب  سے تمہیں  آج تک ملا ہی کیا  ہے ؟  " جواب میں  کہنے کوتو   بہت کچھ تھا ، لیکن وہ سب باطنی تھا۔   دنیاوی  دستور  اور دنیاوی  معیارات  کی  کسوٹی  پر  پورا اترنے  کیلئے میرے  پاس کوئی ظاہری   ثبوت نہیں  تھا۔ 
علامہ اقبال  کی طرح میری بھی شدید خواہش رہی ہے  کہ  "دیکھا ہے جو   میں نے اوروں کو بھی دکھا دے" مگر افسوس کہ زمانے کے انداز ہی نہیں معیار بھی  بدلے گئے۔ افسوس  کہ ظاہر پرست زمانے کو مرعوب  کرنے کیلئے  میرے پاس کوئی  ید بیضا نہیں  تھا۔  

جیسے تیسے  دن گزرا  اور وہ  رات  اسی پیچ و تاب میں گزری  کہ  میرا استاد  بھی کامل ۔  میری اپنے  عظیم   استاد سے محبت بھی سچی ۔ میرا غالب کی غالبیت  اور ان کے فضل و کمال  پہ  آنکھوں دیکھا یقین ۔ مگر ہائے یہ  بے بسی ۔۔۔۔کاش ۔۔۔!!!  میرے بس میں  ہو تو  ہر  انسان کی  وہ آنکھ میں وہ نور بھر دوں  جس سے وہ جہل کے  اندھیرے  چیر کر   عظمتِ  غالب کا اپنی  آنکھوں سے مشاہدہ   کرے اور  کہے  کہ "فبای  آلا ربکما تکذبن"۔

غالب کی غیرت تیموریہ جوش میں  آئی ۔۔۔
اور پھر کمال  ہو گیا۔۔۔۔
الحمد اللہ  اب میرے  پاس  واضح  ثبوت ہے  کہ  غالب سے مجھے نہ صرف  باطنی  بلکہ ظاہری طور بھی  بہت کچھ ملا ہے۔

افتخار افی  صاحب  کے اس  جملے کی  گونج تازندگی  میرے کانوں سےنہ جائے گی  جب انہوں نے کہا  کہ کل  ڈنر  داستان  سرائے  میں  کرنا ۔  اب اتنا بتاؤ کہ  لاہور  آ رہے ہو یا نہیں؟میرا  دل تو چاہا  کہ  چھلانگیں  لگاؤں  ، مگر  اس خیال  سے  باز رہا کہ کہیں  ڈارون  کی تھیوری کو  لوگ سچ نہ سمجھنے لگیں۔
اویس قرنی  ہمیشہ سے  اشفاق احمد صاحب  اور عالی جنابہ  محترمہ  آپا  بانو قدسیہ  صاحب   کا  مداح و پرستار تھا ،  مگر  اس جیسے  بے شمار گمنام   مداحین تصور میں  ہی   ان عظیم ہستیوں    کے سامنے  زانوئے  ادب تہہ  کر کے  دلِ ناداں  کو  بہلا لیتے ہیں جیسے ایک غربت  کی ماری مجبور ماں    ہنڈیا میں پانی ڈال کر بھوکے بچوں کو  بہلا رہی تھی۔اور  بانو  آپا  جی  کی خدمت میں حاضری کا موقع  نصیب ہوا تو  "چھوٹے غالب " کو۔

سمجھدار  وں کیلئے  یقیناً یہ اشارہ کافی تھا۔   جن کو سمجھ نہیں آئی  ان کیلئے مزید وضاحت کر دوں  کہ  نہ تو چھوٹا  غالب  ایک دو ہفتے  پہلے    بانو قدسیہ آپا  جی  کا پرستار ہوا  تھا اور  نہ ہی  افتخار  افی صاحب  سے نئی نئی دوستی ہوئی تھی۔  لیکن ذرا  ٹائمنگ دیکھئے ۔۔۔۔

جمعہ  21  نومبر  2014  کو 5 بجے لاہور پہنچنا تھا ۔ اور  جمعرات تھی  کہ گزرنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔  فیصل آباد  سے ارسل کے فون پہ فون آنے لگے۔  شانی ابو ظہبی میں  ہاتھ مل رہا تھا ،  اور  چھوٹا غالب  گھڑیاں گن رہا تھا۔
 سوچا  ذوالقرنین  کوبھی اطلاع دے دوں  ، اور اسے بھی  لاہور آنے کی دعوت دوں ۔  فون کیا تو  "جواب موصول نہیں ہو رہا " سن کے اپنا سا منہ لے کے رہ گیا۔ 

ساری رات  انہی سوچوں میں گزری کہ کیسا منظر ہو گا جب  یہ آنکھیں اس  ہستی کی  زیارت  سے مشرف ہو ں  گی جنہیں  ہمیشہ سے  آئیڈلائز  کرتا رہا۔   کیسے  انہوں بتاؤں  گا کہ کتنی عقیدت ہے مجھے  آپ سے۔ بہت سارے سوال  سوچے کہ  پوچھوں گا  یہ پوچھوں گا ،  یہ پوچھوں گا۔۔۔۔  اور صبح کی اذانیں ہونے لگیں ۔غسل  کے بعد  پتا چلا  کہ واقعی سردیاں  آ چکی ہیں ۔ ٹھٹھرتے کانپتے  رخت سفر باندھا۔  اماں کی دعائیں لیں اور  چل پڑا۔ 
ویسی ہی   صبح ہےجیسی کہ روز ہوتی تھی ۔ وہی مناظر ہیں جو  ہمیشہ  سے دیکھتا چلا آیا  ہوں ۔  مگر آج ان کے رنگ کچھ اور ہی ہیں ۔  مشرق سے ابھرتا سورج  آج کچھ زیادہ ہی چمکدار  اور خوبصورت لگ رہا ہے۔یہی کھیت   یہی سبزہ  چوبیس گھنٹے  پیش نظر رہتا ہے ، لیکن  آج ان کی ہریالی ہی نرالی  ہے۔  طبیعت  پہ عجب خمار سا چھایا  ہوا  ہے۔  جی چاہتا ہے  عادی  شرابیوں کی طرح  غل  غپاڑہ  کرنے لگوں ،  اتنا  ۔۔۔۔۔کہ  سب  کو خبر ہو جائے  کہ  آج  چھوٹا  غالب  بانو  آپا کے  حضور جا رہا ہے۔
  میں تیز چل رہا ہوں   یا میرے شوقِ  ملاقات  کے احترام میں زمین سمٹی جا رہی ہے  ،  پگڈنڈی  پہ اترا  تو  ارد گرد  پودے قطار باندھے  جیسے مجھے گارڈ آف آنر دے رہے  ہیں ۔  شبنم کے  قطرے  میرے  پیروں پہ نچھاور  ہو رہے ہیں،  میرے  غلیظ پاؤں  دھو رہے  ہیں کہ  آج چھوٹا  غالب  بانو آپا کے  
حضور  جا رہا ہے ۔

(جاری ہے)

Sunday 7 December 2014

منکہ مسمی چھوٹا غالب

5 آرا


مرزا نوشہ اسد اللہ بیگ غالب کے نادر خطوط جو انہوں نے اپنی وفات تک اپنے شاگردوں ، دوستوں کو لکھے ، اور انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے خطوط کے مجموعے کتابی صورت میں شائع کیے۔
 کیا کہنے غالب کی عالم گیر شہرت  و مقبولیت کے، زمین پر تو چرچا تھا ہی عالم بالا اور عالمِ ارواح میں بھی جناب قبلہ غالب کےڈنکے بجتے تھے، یہ تب کی بات ہے جب میں ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا، اور عالمِ ارواح میں رہتا تھا، مجھے جنابِ غالب سے ایک گونہ عقیدت اور اس سے بڑھ کر محبت سی ہو گئی،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے  3 جنوری  1869 ء  کو   شاگرد ہونے کی درخواست بھیجی ، جو کہ صد شکر غالب نےقبول فرما لی، اور مجھے اپنی شاگردی میں لے لیا، یوں خاکسار کو بھی غالب سے روحانی خط و کتابت کا شرف حاصل ہوا۔ لیکن اس وقت تک چونکہ  (بقول غالب)ان کی عالمِ خاکی سے رہائی کا وقت قریب تھا، اس لیے وہ جلد ہی عالمِ بالا تشریف لے آئے، اور مجھے قدموں میں رہنے کا موقع ملا۔ 
پھر 1984 ء  کا سال شروع ہوا۔ معلوم ہوا کہ اب کے جنت سے بے آبرو ہو کر نکلنے کی میری باری ہے، بس صاحبو!! حکمِ حاکم مرگِ مفاجات، داغِ جدائی دل پر لیے، روتا ہوا عالمِ خاکی میں آن وارد ہوا، آتے ہی میں نے  صدا لگائی  کہ"ایک کاغذ قلم کا سوال ہے بابا "تاکہ میں ایک خیریت سے پہنچنے کی اطلاع کا خط ہی لکھ کر بھیج سکوں، مگربجائے کہ کوئی ہماری بات پر کان دھرتا  ایک  صاحب نے ہمیں اٹھایا اور اپنا منہ میرے کان کے پاس لائے۔
 میں سمجھا کہ  "کن کُرررررررر" کرنے والے ہیں ، لیکن اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدا سن کر دل کو تسلی ہوئی کہ شکر ہے مسلمانوں والی بیرک میں ڈالا گیا ہوں ،اذان کے بعد میرا منہ میٹھا کرایا گیا، مگر میری بات پر کسی کی توجہ نہ تھی میں نے پھر ہاتھ پیر چلا چلا کر اپنے غصے کا اظہار کیا کہ اللہ کے بندو کوئی تو مجھے موبائل دے دے یا اگر ابھی موبائل فون کا رواج نہیں ہو ا تو  کم از کم ایک قلم اور سادہ کاغذ ہی دے دے۔  
اللہ بخشے ایک نورانی صورت بی بی ، ہمیں دیکھ دیکھ کر مسکراتیں اور فرماتیں کہ حرکتیں تو دیکھو، یہ تو بڑا ہو کر شیطان کے بھی کان کاٹے گا، بعد میں معلوم پڑا کہ موصوفہ ہماری والدہ محترمہ ہیں ۔ ناچار تھک ہار کر کسی کو اپنا ہم زباں نہ پا کر صبر کے کڑوے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ اور آخرکار وہ وقت آ ہی گیا کہ جب فدوی نے قلم پکڑنا سیکھ ہی لیا، میں ناصر کاظمی کی طرح یہ تو ہر گز نہیں کہوں گا کہ  "میں نےجب لکھنا سیکھا تھا، تیراہی نام  لکھا تھا" مگر یہ سچ ہے کہ جب میں پہلی بار کسی شعر پر وجد میں آیا تھا وہ قبلہ استادِ محترم کا ہی شعر تھا، یوں  میں نے عالمِ خاکی میں دیوانے دل کو بہلانے کی سبیل نکالی ،  غالب  کوپڑھ پڑھ کر میں آدمی سے انسان بنا، میں نے زندگی کا مطلب غالب سے سیکھا، اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ مجھے میری ہر الجھن کا جواب دیوانِ غالب سے ملا ، اگر میں چھوٹا غالب نہ ہوتا تو یقیناً کچھ نہ ہوتا، سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، کہ اس نے میرے دل میں غالب کی محبت ڈالی ، ورنہ ایسے کتنے ہی نام نہاد پڑھے لکھے ، ڈاکٹرز ، پروفیسرز کو جانتا ہوں جو  غالب کے غین میں گم ہو کر رہ جاتے ہیں ، اور سارا کا سارا علم دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کا کروڑ ہا شکر ہے کہ اس نے مجھ ناچیز کو غالب کو سمجھنے کی ہمت اور توفیق دی، ورنہ  بقول کسے "غالب ادب کے سمندر کا برمودا ٹرائی اینگل ہیں ، جس میں علم کے جہاز صرف محبت کے قطب نما کی مدد سے منزل تک پہنچتے پاتے ہیں ، ورنہ استاد ذوق  سے لیکر قیامت تک نجانے کتنےادب کے "جہاز" ڈوب مرتے رہیں  گے" اور اس عمر  میں جب کہ لڑکے لڑکیوں کو پرفیوم وغیرہ لگا کر خون سے خط  لکھتے ہیں میں نے پہلا خط قبلہ استادِ محترم کو لکھا، اور وہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے، اور انشاء اللہ میری عالمِ ارواح کو واپسی تک جاری رہے گا
میں جانتا بس تم کو ہوں ٭٭ میں مانتا بس تم کو ہوں
تم ہی میرا گیان ہو٭٭٭تم ہی میرا دھیان ہو
کیسے بتاؤں میں تمہیں ٭٭ تم ہی تو میری جان ہو
اسی سلسلے میں غالب کے وہ خطوط جو اب تک کہیں نہ شائع ہوئے، نہ کسی نے پڑھے، عوام الناس کی بھلائی کیلئےپیش خدمت ہیں
گر قبول افتد زہے عزو شرف

Thursday 4 December 2014

بچھڑا کچھ اس ادا سے۔۔۔ (تدفین)۔ (11)

2 آرا

گزشتہ سے پیوستہ


زمین  سے تقریباً    پانچ فٹ  نیچے   قبر  کے اندر  داخلے  کیلئے ایک  فٹ چوڑا  اور دو فٹ لمبا روشن دان  نما راستہ تھا۔   اس  سے قبر  کے فرش تک  مزید پانچ  فٹ گہرائی تھی۔  قبر  کے فرش  پہ   ابا  جی کی ہدایت کے  مطابق  ریت بچھائی گئی تھی ۔   اندر  سے  قبر تقریباً سات فٹ  لمبی   اور  اڑھائی  فٹ چوڑی  تھی۔  حالانکہ  اس  وقت  ہم سطح  زمین  سے   تقریباً دس فٹ  نیچے  بیٹھے  تھے اور قبر  صرف ایک  دو فٹ  کے روشن دان  جو کہ قبر کی چھت کے قریب  یعنی زمین کی سطح سے پانچ فٹ نیچے تھا، کے علاوہ  چاروں طرف سے مکمل طور پر بند تھی ۔ اس  کے باوجود  اس  خاکسار  نے  حیرت انگیز  طور پر  قبر  کو  آخری کونے تک   یکساں طور پر  روشن پایا ۔  باہر  چار بجے  کا  مغرب کی طرف ڈھلتا سورج اپنی  گرمی کا زور دکھا رہا تھا ۔  لیکن اندر اترتے  ہی حیرت انگیز  طور پر  ایک ٹھنڈک کا احساس ہوا اور پسینہ خشک ہو گیا۔ 
اس  سب خوشنمائی کے باجود  فدوی  کو اعتراف  ہے  کہ  قبر  کی ہیبت    نے میری فطری  بےخوفی  اور  نڈر   پن کو  ایسا  پچھاڑا کہ بیان سے باہر  ہے۔  ظاہر میں نہ کوئی  کپکپاہٹ تھی ، نہ ہی  میں ڈرا ہوا لگ رہا تھا۔ لیکن  اندر سے  یوں محسوس  ہو رہا تھا کہ  دل جیسے جکڑن  کے  مارے  پسلیوں سے  سر ٹکرا  رہا  ہے۔ اور     جب  سرہانے  والی سائیڈ سے  مٹھی بھر  ریت اٹھا کر   سورۃ  القدر  کی تلاوت شروع کی ۔     انا انزلنا فی لیلۃ  القدر  ۔  لیلۃ  القدر  خیرمن  الف  شہر۔تک  پہنچتے  پہنچتے  سانس پھول گیا۔   اور  ایسا محسوس  ہوا کہ  گلے  تک  ریت  ہی ریت بھر گئی ہو۔  سورۃ  القدر جو  بچپن سے  ہی حفظ تھی  آج یہ  چھوٹی سی سورۃ  پڑھنا  جوئے  شیر ثابت  ہو رہا تھا ۔  میں زور  لگا کے پڑھنا  چاہتا ہوں  لیکن الفاظ جیسے  گلے سے  اوپر آنے  سے  انکاری ہیں۔  ذہن  کی سلیٹیں  خالی خالی  نظر آ رہی  ہیں۔  جلدی  سے  دوبارہ  پہلی آیت  سے پڑھنا  شروع کی   ۔   اور  حیرت  انگیز  طور  پر    دوسری  آیت  پہ پھر اٹک گیا۔  
تھوڑا اوپر  ہو کر  ہاتھ باہر  نکالا ۔ قریب  ہی جنید کھڑا  تھا۔  میرے ہاتھ میں اس کا پائنچہ  آیا ۔ میں نے کھینچ  کے اسے متوجہ کیا  اور کہا  کہ سورۃ القدر  کی تلاوت کرنا ۔  اس نے حیرانی سے  جھک کر  میری طرف دیکھا  اور  پوچھا تمہیں نہیں آتی کیا۔؟ میں اب کیا کہتا کہ  قبر کی ہیبت  سے  سب  پڑھا پڑھایا  بھول  بھال گیا ہے ۔  میں نے کہا  کہ  آپ پڑھ  دیں ایک بار   اندر میں بھی پڑھتا جاتا ہوں۔  خیر اس نے  سورۃ  القدر  پڑھنی شروع  کی اور میں ساتھ ساتھ  دہراتا  گیا۔  تلاوت  کے بعد  مٹھی  میں بھری  ریت پر  پھونک مار کے  قبر کے  فرش پر  سرہانے کی طرف  بکھیر دی۔    پائنتی  کی جانب  بیٹھا  کزن   جس کی عمر  تقریباً 47  سال تو ہو گی ۔ مجھ سے بولا  کہ   :۔ "آج  73ویں بار قبر میں اترا ہوں  میت اتارنے  کیلئے  لیکن   قبر کی  ہیبت   آج بھی دل دہلا دیتی  ہے۔ تم  تو  سرہانے   کی جانب سے  بیٹھے ہو  ،  لیکن یہاں سے  قبر   (اس نے اشارہ  کر کے بتایا) ہلتی ہوئی   اور بھیانک  محسوس  ہوتی ہے۔   میں نے آج  تک اتنی  سپیشل  قبر نہیں دیکھی۔  واقعی  ایسی  قبر چاچاجی (میرے والد مرحوم) کی ہی ہو سکتی ہے  اور  دیکھنے سے صاف معلوم ہو رہا  ہے کہ انہی  کی ہدایات  میں ایسی قبر بن سکتی ہے۔  بعض قبریں  تو ایسی  بھی دیکھی ہیں کہ  میت  لٹانے کیلئے  جگہ  تنگ پڑ جاتی ہے۔" شاید  ہم دونوں ہی اپنے  دلوں پہ چھائی  ہیبت  کم کرنے  کیلئے  باتوں  کا سہارا  لے رہے  تھے۔  اچانک  میرے ذہن میں اس یادگار موقع  کی تصویر لینے کا خیال  کوندا۔  میں نے  جیب میں ہاتھ  ڈالا  تو  جیب خالی تھی ۔   باہر  گرمی سے بے حال  ہوتے  بھائی کہہ رہے  تھے  کہ اب ہم  اتارنے  لگے  ہیں۔  میں نے جلدی  سے باہر  کھڑے  جنید سے  موبائل مانگا۔  اس نے  وجہ پوچھی  اور موبائل نکال کے دے دیا۔ میں نے  جلدی سے دو تصویریں بنا کے موبائل  باہر دے دیا۔

 اب  قبر کے باہر  کھڑے دونوں  بھائیوں نے  اباجی  کو  اندر  اتارنا شروع  کر دیا۔ سب  سے پہلے  پاؤں  اندر آئے  اور  میں نے پیر والا  بند تھام کے  ہاتھ بڑھایا  اور دوسرا  بند بھی تھام لیا۔   
بہت ہی عجیب اور      ناقابل بیان منظر تھا۔   اندر  باہر  سے ایک ہی آواز  آ رہی  تھی کہ  دھیرے ، دھیرے ۔۔۔  لیکن اندر اور  باہر والوں  کو یکساں  محسوس  ہو رہا تھا  کہ  جتنا  ہم   دھیرے  دھیرے  اتار رہے ہیں اس سے  کئی گنا زیادہ تیزی سے      ابا جی  اندر  آ رہے تھے ۔  باہر  والے  بھائی مجھے  بلند آواز میں نہ کھینچو ، نہ کھینچو   کہہ رہے تھے  اور میں اندر سے  انہیں "دھیرے دھیرے  ارے بھئی آہستہ آہستہ" کہہ رہا تھا۔  
اسی  افراتفری میں ابا جی  اندر اتر آئے ۔  اور  ایک اور حیرت  انگیز       منظر سامنے آیا۔  وہ  ابا جی  جنہیں فدوی اپنے  ہٹے کٹے جثے کے باوجود   اکیلا اٹھا  کے بٹھا بھی نہ سکتا تھا  آج  سارے کے سارے  ابا جی کو  اپنے  دونوں بازوؤں میں اٹھا کے  بیٹھا تھا ۔ اس سے بھی زیادہ  حیرت انگیز بات یہ  کہ  ابا جی  کا  وزن  ایک تولہ بھی  محسوس  نہ ہو رہا  تھا ۔ یوں لگ رہا  تھا کہ  میں نے صرف  بازوؤں کا اشارہ  کیا ہوا  ہو ، جبکہ اٹھا  کسی اور نے رکھا  ہو۔   پاؤں  میں کزن کی جانب بڑھائے اور ابا جی  اب ہم دونوں کے ہاتھوں  پر لیٹے تھے۔  آہستہ  آہستہ  ہم نے  بیٹھے  بیٹھے  ایک ٹانگ   سائیڈ پہ کی  اور انہیں نیچے  لٹاتے  ہوئے   دوسری  ٹانگ  بھی  دھیرے سے نکال  لی۔ 
اب ابا جی  فرش پر لیٹے تھے ۔  میں نے  تھوڑ ا ساآ گے بڑھ  کے  کفن  کے سرہانے  بندھی ہوئی پٹی کھول  دی۔  اور پھر کفن کا  پہلا بند کھول  کر  ابا  جی کا چہر ہ دیکھا۔  یہ ایک  اور حیرت  ناک ترین منظر تھا ۔  کل  وفات کے  وقت سے  آج  چار  بجے تک  میں نے بلا شبہ  لاتعداد مرتبہ  یہ  چہرہ دیکھا  تھا۔  لیکن  اب  جو میں قبر کے اندر  دیکھ  رہا  تھا  یہ منظر کچھ اور تھا۔   صرف میں ہی نہیں کزن  نے بھی  آگے جھک  کر چہرہ  دیکھا  اور  بے اختیار سبحان  اللہ کہہ اٹھا ۔ ایسی  پیاری  مسکراہٹ  بالکل  واضح  تھی  کہ   سچ  مچ رشک آ گیا۔   یہ مسکراہٹ ابھی  تقریباً آدھا گھنٹہ  پہلے  جب مسجد  کے سامنے  آخری دیدار  ہو رہا  تھا  ، تب چہرے پر نہیں تھی۔ اور  نہ ہی یہ  میری نظر کا دھوکا تھا ۔   مسکراہٹ  اتنی صاف اور  واضح تھی   کہ  کزن دیکھ کر بولا:۔" واہ او یار  واہ ۔  ساری زندگی  ٹُھک  نال گزاری اے ۔ اج  وی اوہا ٹُھک  اے"ترجمہ( واہ رے  یار واہ۔  ساری زندگی جس  دبدبے  سے گزاری  آج  بھی وہی دبدبہ  ہے)۔  یہ وہ اطمینان بھری مسکراہٹ  تھی  جو ماں  کی گود میں سوتے بچے  کے لبوں  پر ہوتی ہے ۔ اور  آج ابا  جی بھی  اپنی اماں  جان  کے عین پہلو میں  ہمیشہ  کیلئے  آ کر  بہت  خوش لگ رہے تھے ۔   چہرہ ایسا  پر نور  اور نورانی  کہ  کفن  تک  روشن روشن لگ رہا تھا۔ میں نے چادر سے چہر ڈھانپ دیا۔
اب  ابا جی کے  دونوں سائیڈوں سے  ہاتھ رکھ  کے دیکھا  تو  آدھا آدھا  ہاتھ  قبر  دونوں طرف سے  کھلی تھی ۔  اور سرہانے  کی  طر ف  سے  پورا  ایک ہاتھ کھلی تھی ۔ پائنتی  کی جانب  سے  کزن نے  بھی تصدیق  کیا کہ  یہاں  سے  بھی قبر  کی دیوار  ایک ہاتھ  دور  ہے۔ 
اب  ہم نے  اپنے  قدموں کے نشان مٹا کر  نکلنا  تھا۔ سب سے آگے میں بیٹھا  تھا  سو میں جھکے  جھکے  اٹھا  اور   ایک  پیر  دوسری  طرف  خالی  جگہ  احتیاط  سے رکھا  اور  آہستہ  آہستہ  کھسکتا  قبر  کے داخلی سوراخ  تک پہنچ گیا۔  وہاں  ہاتھوں  کے  زور  سے  اوپر  چڑھا  اور  باہر  نکل گیا۔  میرے  بعد  کزن بھی  اسی طرح  5 منٹ   بعد  کھسکتا  کھسکتا  نکل آیا۔  باہر لوگ دم بخود کھڑے تھے۔ 
اب  مستری  محمد رمضان صاحب نے  دو فٹ کا  روشن دان  کچی  اینٹوں  سے  بند کرنا شروع کر دیا۔ اور  میں نے  کھجور  کی ایک  لمبی سی ہری  چھڑی  سرہانے  کی جگہ  کے  تعین کے  طور پر  وہاں  گاڑ  دی۔   اب  سب بھائی اور ماموں وغیرہ  آگے بڑھے  اور کلہ شہادت  با آوازِ بلند  پڑھتے ہوئے  مٹی ڈالی جانے لگی ۔  سب تھوڑی  تھوڑی  ڈال کر  ایک طرف ہٹ گئے اور پھر  حافظ محمد  رشید اور  فدوی نے  قبر  پر  مٹی ڈال کے اسے  کو زمین سے  بلند کر دیا۔  تعویز کا نشان  بنانے کے  بعد  پیلو  کے درخت  کی  ہری  ٹہنیاں  قبر پہ بکھیر دی گئیں۔
اس  کے بعد  ابا  جی  کی  زندگی کی  آخری  گیارہویں شریف  ان  کی آخری  آرام گاہ  پر  منعقد  کی گئی اور ابا جی کے پسندیدہ  نعت خوان  اور  ان کے عقیدت  مند  جناب  حاجی  عطا محمد صاحب آگے  بڑھے  اور قبر کے  سرہانے  کھڑے  ہو کر  ایک نعت  شریف اور  ایک منقبت  حضرت غوث الاعظم  سرکار  ؒ کی سنائی ۔  اس  کے بعد جنید  حسنین بخاری  نے  ختم  پڑھا ۔ دعا  مانگی گئی۔اور حاضرین میں برفی بانٹی گئی۔   اسی دوران  روشن پاکستان  پبلک سکول  کے پرنسپل  میاں محمد شریف کے استفسار  پر   حسنین  بھائی   نے انہیں ابا جی  کا ذکر  کرنے کا  مخصوص طریقہ   اور اس کا  راز بتایا۔ بہت سے لوگوں  نے  کہا کہ سبحان اللہ  یہ بہت ہی دلچسپ  حقیقت  معلوم ہوئی  ہے آج۔  حافظ محمد ذیشان بخاری  اور حافظ محمد  رشید  قبر  کے پاس بیٹھ کر تلاوت  قرآن مجید میں مصروف ہو گئے ۔ اور  آہستہ آہستہ  لوگ واپس  ہونے لگے۔  سب  سے آخر میں فدوی بھی  آنے لگا تو  قبر کی پائنتی  سے لپٹ  کر زارو قطار روتا  محمد اسلم  نظر آیا ۔  مجھے  ایسا  محسوس ہوا کہ  جیسے  ابا جی کہہ  رہے ہوں  کہ اسے لے جاؤ یہاں سے۔  میں واپس  آیا اور اسلم  کو دلاسادے کر اٹھا  یا اور  کہا کہ   اس  طرح روؤ گے تو  انہیں تکلیف ہو گی ۔  بس یہ  یقین رکھو  کہ ہم نے ان کا  ظاہری  جسم دفنایا ہے  ہے ۔  ہمارے دلوں  میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور پھر  عرفان کے ساتھ موٹر  سائیکل  پہ بیٹھ کے چل پڑا۔     

Tuesday 2 December 2014

بچھڑا کچھ اس ادا سے۔۔۔۔ (10)۔

0 آرا

گزشتہ سے پیوستہ



ہجوم میں ہلچل مچ گئی ۔  اس ہلچل میں ایک شناسا نے مجھے  دیکھا تو میرے گلے  لگ گئے اور اظہارِ افسوس کیا۔ بس اس کا گلے لگنا تھا کہ لوگ مکھیوں  کی طرح مجھ پر ٹوٹ پڑے ۔ اس  سے پہلے بھی انہی لوگوں  کے درمیان کھڑا تھا ، لیکن مجھے  شکل سے کوئی نہ جانتاتھا۔ اب  سب  کی کامن سینس  نے بتا دیا شاید  کہ  یہ  ضرور پیر صاحب کے  صاحبزادوں  میں سے چھوٹا ہے ۔  اور پھر ایک کے بعد  ایک  کا سلسلہ  شروع ہو گیا۔  لوگ  بے تابی سے  مجھے  گلے ملنے اور اظہارِ افسوس کیلئے ٹوٹے پڑ رہے تھے ۔   کئی  بڑے بوڑھے بزرگ میرے گلے لگ کے دھاڑیں مار مار کے روتے رہے ۔ اور کئی بے چارے مجھے  بتا تے رہے کہ  ہم آپ کے مرید  ہیں ۔  اب پیر صاحب کے بعد آپ ہی  ہمارے لیے ہیں۔ سب کو صبر کی تلقین کرتے  اور "اللہ دی مرضی دے کم" کے جواب میں "ہاں جی ،  اس کی رضا میں ہم راضی" کہتے کہتے میرا  گلا  سوکھ گیا۔  مگر لوگ تھے کہ  تینوں  اطراف سے  امڈے پڑتے تھے ۔  میں نے  بازو کھول کر ایک ساتھ دو دو  کو  گلے ملنا شروع کر دیا۔ اور  لوگ بجائے ہمیں دلاسا  دینے کے میرے کندھے پہ سر رکھ کے روتے رہے۔   اچانک  عرفان  میرے قریب آیا  اور کہا  کہ  جنازہ  تو گیا۔  اب کیا کوٹ  والا  نہیں جانا کیا۔  یہیں  کھڑے رہے تو  یہ ہجوم نہیں کم ہونے والا۔  اس وقت مجھے  یاد آیا  ارے  ہاں۔  ہمیں تو حسب  الحکم  جنازہ اٹھا  کے جانا  تھا۔  بڑی مشکل سے منت  ترلہ کر کے  جان چھڑائی کہ اب مجھے دربار  شریف جانا  ہے تدفین کیلئے ۔
جونہی  نماز کے بعد جنازہ  اٹھایا  گیا۔  ابا  جی کے ارشاد  کے مطابق  ایک بکرے  کو  ذبح کر دیا  گیا تھا۔    اور اب جو دیکھا  تو اس کا گوشت  بھی کاٹا جا رہا تھا ۔   دریاں  بچھا دی گئیں تھیں اور لنگر جاری ہو چکا تھا۔ یہ سب  دیکھ کے اطمینان  کا سانس  لیتا  اندر  گیا تاکہ اماں جی کو بتا دوں  ۔ اندر جاتے ہی  خواتین مجھ سے  اظہار ِ افسوس  کیلئے امڈ پڑیں ۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر  معذرت کی کہ  ابھی مجھے تدفین کیلئے جانا ہے ۔ یہ سب ہوتا رہے گا، ابھی مجھے اجازت دیجئے ۔  
 اماں  جی   نے کہا  کہ  عہد  نامہ  لیتے جاؤ  اور ان کے ہاتھوں  میں تھما کے رکھ دینا۔  اور  حسنین  سے کہنا کہ  تدفین کے بعد   کوئی  چیز منگوا کے بانٹ دے۔  یہ تاکید پلے باندھتا ،  باہر لپکا ، عرفان  موٹر سائیکل  پر تیار کھڑا  تھا۔  میں بیٹھا اور یہ جا وہ جا۔ ہمارا خیال  تھا کہ  ہم راستے میں  ہی جنازے  کے ساتھ  شامل ہو جائیں گے۔  لیکن حیرت انگیز طور  پر  ہم موٹر سائیکل  پر  بھی پیدل جانے والوں  کے قریب نہ  پہنچ پائے ۔  یہاں تک  کہ  جنازہ  کوٹ والا  گاؤں  میں ہماری  قدیمی آبائی مسجد کے  سامنے پہنچ کے رک چکا تھا۔ 
اس قدر  تیز رفتاری  پر  صرف مجھے ہی حیرت نہیں ہوئی ۔ بلکہ  کئی عینی شاہدین جنہوں نے  جنازہ  جاتے ہوئے دیکھا  تھا ان کے بیان کے مطابق  جنازہ  ایسا  محسوس  ہو رہا تھا  کہ  ہوا میں دوڑتا ہوا جا رہا ہو۔  اس  قدر تیز رفتاری  کے  ساتھ کہ   حیرت  ہوتی ہے۔
مسجد  کے سامنے  رکنے  کی ایک  وجہ تو یہ تھی  کہ  ہمارے ایک رشتہ دار  جو کہ شوگر  کے مریض ہیں انہوں  نے درخواست  بھجوائی تھی  کہ  مجھے آخری دیدار  سے محروم  نہ رکھا جائے ۔ دوسری وجہ یہ  تھی  کہ  جیسا کہ ابا جی  کا حکم تھا کہ  میرا جنازہ  میرے بیٹے اٹھا کے لے جائیں۔  اب یہاں  سے آگے  چند  میٹر  کے فاصلے  پر دربار  شریف تک   ہم بیٹے ہی لے جاتے ۔
سید ظفر  شاہ صاحب کو ان کا بڑا بیٹا  اٹھا  کر  لایا اور  انہیں آخری  دیدار کروایا  گیا۔   اس کے بعد   سرہانے  سید  حسنین بخاری  اور جنید بخاری  اور پائنتی کی جانب سے  فدوی  اور سید  شاہد  حسنین  نے  جنازہ اٹھایا  اور باآواز بلند  کلمہ شہادت  پڑھتے  دربار شریف کی جانب لے چلے ۔  دربار عالیہ کوٹ  والا  کے سامنے پہنچ کر    کچھ صاحبان  نے جنازہ  ہمارے کندھوں سے اپنے کندھوں پر لے لیا  اور  عین  دربار عالیہ کے سامنے  رکھ دیا۔     
دربار کے بائیں جانب  اپنی والدہ   کے پہلو  میں ان کی آخری آرامگاہ ان کی  زندگی میں ہی تیار ہو  چکی تھی ۔  ہم جس وقت پہنچے  اس وقت  حافظ صاحبان  اندر بیٹھے  تلاوت میں مصروف تھے ، اور سورۃ  دہر کی تلاوت   ہو رہی  تھی۔ (یعنی پارہ  29 کی ایک سورۃ اور تیسواں پارہ باقی  تھا ) کچھ ہی دیر میں قرآن مجید کا  ختم کر کے  حافظ رشید اور   حافظ سید ذیشان بخاری  باہر نکلے ۔
اس  کے بعد  یہ سوال  کھڑا ہوا کہ ابا  جی کو قبر میں کون اتارے  گا۔  سب سے پہلےبڑے بھائی  صاحب قبر میں اترے ،  لیکن  کچھ ہی دیر بعد  پسینہ پسینہ ہو کر باہر نکل آئے ۔  ان کا چہر ہ دیکھ کر  میں نے  جنید کے کان میں سرگوشی کی  کہ  حضرت  قبر دیکھ کر  حوصلہ  ہار بیٹھے  ہیں۔  حسنین بھائی قبر  سے نکل کر  پاس کھڑے بھی نہ ہوئے  ۔ بلکہ وہاں سے  دور جا کے  بیٹھ گئے۔  ہمارے  ایک چچا زاد  بھائی   جن کا  قبر میں میت اتارنے کا  وسیع تجربہ  ہے ۔ آگے بڑھے ۔  ہمیں ان کا  نام لے کر ابا  جی روکا تھا  کہ  اسے  میری قبر میں نہ اترنے دینا۔ (کیونکہ ہمارے خاندان  میں بزرگوں  کے  زمانے سے ہر قسم کی منشیات  اور تمباکو نوشی  سختی سے منع  ہے۔  جبکہ یہ صاحب عادی سگریٹ نوش تھے) جنید  نے روکا  تو  داڑھی  کو چھو کر منت  کرنے لگے کہ  میرے بھی چچا لگتے  ہیں،  خدا کا واسطہ  وغیرہ وغیرہ ، میں  نے پیچھے سے  بازو  پکڑ  کے  روک  لیا اور حسب عادت  سختی سے  کچھ کہنے ہی والا  تھا کہ  بڑے بھائی (جو کہ میری  عادت سے خوب واقف تھے) لپک کر آگے آئے  اور مجھے خاموش رہنے کا  اشارہ کیا ۔   قبر  کا داخلی  راستہ  جنید  کے  قوی ہیکل  جثے کے مقابلے میں بہت چھوٹا تھا۔  اس لیے  کزن صاحب قبر میں اترے  اور ان  کے بعد میں اترا۔ 

زمین  سے تقریباً    پانچ فٹ  نیچے   قبر  کے اندر  داخلے  کیلئے ایک  فٹ چوڑا  اور دو فٹ لمبا روشن دان  نما راستہ تھا۔   اس  سے قبر  کے فرش تک  مزید پانچ  فٹ گہرائی تھی۔ 

Friday 28 November 2014

بچھڑا کچھ اس ادا سے۔۔۔ (جنازہ) ۔(9)۔

2 آرا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارہ


۔71  سال  پہلے جو جسم اس دنیا میں آیا تھا ،  آج  وہ  اس دنیا سے جا رہا تھا۔  71  سال کا  یہ عرصہ  بہت ہنگامہ خیز گزرا۔ بچپن  اور جوانی کا ابتدائی  حصہ  آبائی گاؤں  کوٹ والا میں گزرا ۔ اس کے بعد  دادا جی  اپنی اولاد کو  ادھر لے آئے اور اپنی زمینوں  پر ہی گھر بنا لیا۔  تقریباً ایک ایکڑ  کے رقبے پر  ہمارا سادہ سا دیہاتی طرز کا گھر  پھیلا ہوا تھا۔ ہوش  سنبھالنے سے  لے کر  تیس سال کے  اس عرصے کے دوران   ابا جی کے شوقِ تعمیر  کے سبب   میں نے اس گھر کو کئی شکلیں بدلتے دیکھا۔ اس  ایک ایکڑ  کی حویلی  کو دور اندیش ابا جی  نے کبھی  ایک  مرکزی  حویلی نہیں بنایا ۔ بلکہ  جیسے  جیسے  بیٹوں کی شادیاں کرتے آئے  سب کا دو دو کنال کا  الگ الگ   پورشن بنتا  گیا۔اور اب یہ میرا  پورشن زیر تعمیر تھا کہ ان کا وقت پورا ہو گیا۔ کم از کم  45 سال سے  وہ  جس گھر  کی تعمیر  در تعمیر میں لگے رہے  ۔ آج اسی گھر سے  ان کی رخصتی کا وقت آ گیا  تھا۔ 
اور پھر وہ  وقت بھی  آیا  کہ جن بیٹوں کو انہوں نے  اپنے کندھوں پہ بٹھا کے  ایمانیات  اور کلمے سکھائے تھے  وہی بیٹے  انہیں اپنے کندھوں  پر اٹھا کے  اس  گھر سے  رخصت  کرنے  کیلئے   چاروں طرف سے  تیار  کھڑے تھے۔  آخری دیدار  ہو گیا۔  اور کلمہ شہادت  کی گونج  میں چار بیٹوں  نے  ان کا جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔  سرہانے  کی طرف سے  حسنین  بھائی  اور ماموں  تھے۔ پائنتی  کی طرف  جنید حسنین  اور  اویس  تھے۔  جنازہ  کو  کندھا دینے  والوں (رشتہ داروں) کی اس قدر کثرت تھی  کہ  جنازے کے نیچے  بندے  سے بندہ جڑا تھا۔  میرے لیے  اگلا قدم  اٹھانا مشکل ہوتا تھا  کیوں کہ  آگے پیر رکھنے  کی  جگہ سامنے والے کے پیر ہوتے تھے ۔  کلمہ شہادت  کے ورد  کے ساتھ جنازہ  آہستہ آہستہ  آگے بڑھتے بڑھتے  ڈیوڑھی تک آن پہنچا۔ اس دوران  کئی بیچارے  بھیڑ  کے سبب  گرے  ، کچھ لتاڑے  گئے ، لیکن  چارپائی  کے دونوں  طرف سے  یہی عالم رہا  کہ  حقیقتاً تل دھرنے کو  بھی جگہ نہ تھی۔

جونہی  ہم نے مین گیٹ پار کیا۔  اس  کے بعد  تو حد ہی ہو گئی۔  باہر  عوام کا اس قدر ہجوم تھا  ، اور سب اسی کوشش میں کہ کسی طرح جنازے کو کندھا دے سکیں۔  جتنے  بھی سید برادران  اب تک جنازہ اٹھا کے اندر سے آئے تھے  ، ان بے چاروں  کو  مکھن میں سے بال کی طرح الگ کر لیا گیا۔  اس کے بعد  جنازہ  جیسے  انسانی  ہاتھوں پہ تیرتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔  سڑک پہ  پارک کیے  موٹر سائیکلز  ایک طرف اور دوسری طرف  کھال۔دیوانگی  کا یہ عالم  تھا کہ    لوگ ہیں  پاؤں  کچلے جا نے کی  ، موٹر سائیکلز  کے ہینڈلز پیٹ میں لگنے ،  فٹ پیڈ  پنڈلیوں ، گٹوں پہ لگنے  کی پرواہ کیے بغیر    بس جنازہ  کو کندھا  دینے کے شوق چوٹیں  کھاتے جا رہے پھر بھی چلے جا رہے ہیں۔   یقین کیجئے  کہ  جب کھال کو پار کرنے لگے  تو  اس وقت یہ حال  تھا کہ  میرے ہاتھ چارپائی پر تھے  اور میرے دونوں  پیر ہوا  میں۔  لوگ تھے کہ بس اٹھا کے کوئی  جھٹکا لگے بغیر چند سیکنڈ میں کھال پار کر کے جنازہ  کیلئے مختص  کیے گئے  خالی ایکڑ  میں داخل ہو گئے ۔ 
میں تھا کہ گلا پھاڑ پھاڑ  کے سب کو  جنازہ کو راستہ دینے کا کہتا جا رہا تھا  ، اور لوگ تھے  کہ نہ  انہیں جوتوں  کی پرواہ تھی  ، نہ  ہی  دھول مٹی  کی۔  کئی بے چارے  اسی  دھکم پیل میں بری طرح گرے لیکن فوراً اٹھ کر  دیوانہ  وار جنازے کو ہاتھ لگانے کیلئے آگے بڑھے ۔ایسے مناظر  صرف سنے تھے ، پڑھے تھے  ۔ لیکن اپنی آنکھوں  سے دیکھنے کا  پہلی بار اتفاق ہوا  تھا۔  
آخر کار  جا کے جنازہ رکھ دیا گیا ۔   اور  رکھنے کے بعد معلوم ہوا  کہ باقی  تین بھائی  ، کزن  اور ماموں  وغیرہ  اس دھکم پیل میں کہیں پیچھے ہی رہ گئے ہیں۔  صرف میں اکیلا تھا  اور  دھاڑیں مار مار  کے بے قابو ہوتا ہجوم ۔   سابق وفاقی  پالیمانی سیکرٹری  نواب  امان اللہ  خان، نواب احسان  اللہ خان ، نواب سیف  اللہ خان ، نواب انعام  اللہ  خان  ،  اور  سید رضا شاہ گیلانی جیسی  سیاسی شخصیات  اور دبنگ  وڈیرے  کہ عام حالات  میں لوگ جن کے سامنے  سر نہیں اٹھاتے ، آج  انہی کو عام لوگوں کی طرح دھکے کھاتے دیکھا۔ لوگوں کو جیسے  آج  صرف  جنازے کو   ہاتھ لگانے  اور ابا جی کے  آخری دیدار  کے علاوہ  کسی چیز کی پرواہ نہیں۔  میرا گلا بیٹھ  گیا  چلاتے چلاتے ۔ ارے خدا کے بندو  ! دھکے  کھانے کی بجائے  ایک قطار میں سب لوگ  دیکھتے جائیں اور گزرتے جائیں۔  لیکن  کچھ  سمجھ دار لوگوں  کے علاوہ  کسی نے  اس التجا کی پرواہ نہ کی۔ حتیٰ کہ جب ایک صاحب کو جب میں نے کہا کہ دھکم پیل کی بجائے  قطار میں شامل ہو جاؤ  تو وہ مجھ سے ہاتھا پائی پر اتر آیا  کہ  تم کون ہوتے ہو ہمیں اپنے پیر کے  قریب آنے سے روکنے والے ۔  کوئی عام موقع ہوتا  تو یقیناً میں اس کا سر کھول دیتا ، لیکن   اس وقت  سب کی ایک ہی حالت تھی ۔  سبھی جذبات سے مغلوب ہو  چکے تھے ۔  اسی وقت کسی نے اسے  شاید میرا تعارف کرا دیا کہ  یہی  ان کا چھوٹا  بیٹا  ہے ، تو  وہ بھلا مانس  مارے شرمندگی کے   منہ لپیٹ کر  ہجوم میں غائب ہو گیا۔  بعد میں   مجھے سمجھ  آیا کہ  اس کا مقصد  صرف آخری دیدار ہی نہ تھا ، بلکہ  وہ چارپائی کی  اس پوزیشن پر آکر  جنازے کو کندھا دینا کا موقع  ڈھونڈ رہا تھا۔

پورا  ایک ایکڑ جسے لیزر لیولر  کے ذریعے  دو دن پہلے ابا جی کے کہنے پر جنازے کیلئے  خالی  چھوڑ  دیا گیا تھا۔  اب یہ سارا رقبہ  ایک سر ے سے دوسرے سرے تک  کندھے سے کندھا ملا کر  کھڑے  غمزدگان کی  15  صفوں   سے  بھر چکا تھا۔   سید سجاد  سعید  کاظمی شاہ  صاحب جتوئی سے دھنوٹ پہنچ چکے تھے ، اور ان  کے دھنوٹ  سے   یہاں پہنچنے میں بمشکل  پانچ منٹ  ہی لگے ہوں  گے۔  اور  ان پانچ منٹ سے پہلے جو فدوی نے خود  پہلی صف میں کھڑے ہو کر  15  صفیں گنی تھیں،  اب  امام صاحب کی آمد  تک  پیچھے دو  اور ہمارے آگے  ایک اور  صف  کا  اضافہ  ہو گیا تھا۔  پیچھے سر گھما کے دیکھا  ، تو سید رضا شاہ گیلانی  سابقہ  ایم پی اے (مستقل) کو   چوتھی  صف میں کھڑے دیکھا      ۔ نواب میرے والی صف یعنی دوسری صف میں تھے  ۔   اور  پیچھے  جہاں تک نظر جاتی  تھی سر ہی سر  تھے ۔ساڑھے  اٹھارہ  صفیں ،  اور کندھے سے  کندھا  ملا کر  کھڑے لوگ۔  ہجوم کا یہ عالم تھا  کہ بڑے بھائی  سید حسنین بخاری کو  بمشکل پہلی صف میں جگہ نصیب  ہوئی۔اگر  کم از کم    ، اور محتاط  ترین اندازے  سے  ایک صف میں700  بندے فرض کریں  تو کل تعداد  کا تخمینہ 13000 تک جا پہنچتا ہے ۔
دھنوٹ کی تاریخ  میں کئی پر ہجوم  جنازے  ہوئے ہوں گے۔ میں نے اپنی  زندگی میں دو  پر ہجوم جنازے دیکھے  جن کے بارے میں میرا خیال تھا کہ یہ  سب  سے  زیادہ پر ہجوم ہیں۔ ایک  تب  جب 2005 میں میری  نانی  اماں  کا انتقال ہوا اور سارا دھنوٹ  جنازے میں امڈ  آیا۔  دوسرا  جنازہ  بڑے ماموں جان کا دیکھا  تھا  کہ  جگہ  کی  کمی کے باعث جنازہ ہائی سکول  کے  گراؤنڈ  میں لایا  گیا۔  تب    تقریبا  ً  12 صفیں  ہوئی تھیں ، اور  جنازے  سے  تدفین  تک  دھنوٹ کا  مین روڈ   کئی گھنٹے  ٹریفک  گزرنے کے قابل نہیں رہا۔  پولیس نے    شہر کے باہر  ہی ٹریفک  روک رکھا تھا  ، تا وقتیکہ  تدفین  نہ ہوگئی۔ اور اب یہ تیسرا  بڑا  اور سب سے  بڑا جنازہ تھا۔  یہ  صرف میرا  ہی نہیں کہنا ، بلکہ  اسی دن اور  بعد  میں  کئی دنوں تک نہ صرف  دھنوٹ اور نواحات   میں یہی موضوع سخن  رہا کہ  پیر صاحب نے تو  بڑے  پیر صاحب کا بھی ریکارڈ توڑ دیا۔
13  مارچ  2014  کا  سہ پہر 3 بجے  کا سورج ، عین سامنے ، تپتی  زمین پر  پسینہ  پسینہ لوگ جنہیں  اپنا بھی ہوش  نہ تھاپتھرائی  آنکھوں سے  دم سادھے  کھڑے تھے  ۔  امام صاحب نے جنازے کی نیت اور تکبیروں کی ترتیب کی وضاحت  کی اور  سب  نے امام صاحب کے تکبیر کہتے ہی  اقتدا میں ہاتھ باندھ لیے۔ سلام  پھیرتے ہی  صفیں  توڑ دی  گئیں  اور دعا مانگی  گئی۔   اس کے بعد  امام   صاحب  نے کپڑا ہٹا کر  ابا جی  کا چہرہ دیکھا ۔   اپنا  ہاتھ ان کے ماتھے پر رکھ کر  آنکھ بند کر کے کچھ پڑھتے رہے ۔ اور کچھ دیر  بعد  ویسے ہی کپڑے سے ڈھانک دیا۔  بڑے بھائی  آگے بڑھے  اور  دست بوسی کے  بعد  صاحبزادہ  صاحب کے ہاتھ میں آمد کے شکریے کے طور  پر  ہزار  والے  کچھ نوٹ  دینے لگے  تو انہوں نے   ہاتھ سے روک دیا۔  اور فرمایا:۔ "ارے نہیں بھئی! مجھے  تو شاہ  صاحب کے جنازے میں شریک ہونے کی  سعادت نصیب ہوئی ہے " (اللہ  اللہ  اللہ۔۔۔۔  یہ غزالی  زماں رازی دوراں  حضرت  علامہ  سید احمد سعید کاظمی شاہ  رحمۃ اللہ  علیہ  کے صاحبزادے  کا  اپنے والد محترم  کے مرید  کے بارے  میں کہنا۔۔۔ ہم پر  اپنے  ابا جی  کے   نئے نئے  کمالات  منکشف ہو رہے تھے ) اس کے بعد  اپنی  جیب سے  کچھ نوٹ نکال کر  بڑے بھائی  کے ہاتھ میں تھما دئیے ۔ اور پھر وہ اپنی گاڑی  میں سوار  کر  تشریف لے گئے  ، اور  ہجوم میں ایک بار پھر ہلچل مچ گئی ۔ 

Monday 24 November 2014

بچھڑا کچھ اس ادا سے۔۔۔۔ (8)۔

2 آرا
سات بجے  بجلی  آئی  تو  صحن میں بڑے بھائی نے چھڑکاؤکر دیا۔  باہر  شامیانے  اور دریاں  آ چکی تھیں۔ وہ  اندر لگوا دئیے اور دریاں خود بچھاتے رہے ۔  اس کے بعد  اباجی    کو  باہر صحن میں  لایا گیا۔  اماں جی نے کہا  کہ   14  مرتبہ سورۃ  بقرہ  کی  تلاوت کرنی  ہے۔ مدرسے سے حفاظ بلا لیتے  ، میں نے کہا  ابا جی نے ہمیں کیا اس لیے پڑھایا تھا  کہ جب وقت آئے تو ہم ان کیلئے  اتنی سی تلاوت بھی نہ کر سکیں۔  ہم خود بھی تو  انہی کے شاگرد  ہیں ، لہذا ہم سب بھائی  خود پڑھیں گے۔    اور  وضو کرکے  میں اور بڑے بھائی اباجی کے دائیں طرف کھڑے ہو کر سورۃ بقرہ کی  تلاوت کرنے لگے۔  آہستہ آہستہ  دوسرے  شاگرد   سید احسن عطا  ، سید توقیر مصطفےٰ ، سید محمد  عرفان  ، سید  ذیشان  ، سید عدنان  شاہ وغیرہ  بھی آتے گئے اور قطار لمبی ہوتی گئی ۔   یہاں تک کہ  گیارہ  مرتبہ سورۃ بقرہ  پڑھ لی گئی ۔ سوا دوپاروں پر مشتمل ہونے  کے سبب   سب  ایک ہی بار  پڑھ کے تھک گئے ۔ اور باقی  تین مرتبہ میں  نے اور ذیشان  نے  اپنے ذمے  لے لی۔   
اندر خواتین اور  باہر مرد حضرات  کی آمد  جاری ہو چکی تھی۔   ایک  عجیب سا  رواج  ہو گیا ہے  تعزیت کا   کہ خواتین آتے  ہی   خاتون خانہ  کے گلے لگ کر  چند  مصنوعی  قسم کی کوکیں مار  کے  افسوس کا اظہار کرتی  ہیں۔   ہمارے خاندان میں الحمد اللہ  بین  کرنے کا رواج نہیں ، لیکن  یہ کوکیں مارنا  بزرگوں کے  بعد  سے  جاری رہا۔  
مجھے بے حد غصہ آیا کہ  ایک تو ہماری  تلاوت میں خلل پڑ رہا تھا ۔  دوسرا یہ کہ  خواتین کی مسلسل  آمد جاری تھی اور ہر ایک  بنفس نفیس  اماں جی  کے گلے لگ کے  خود تو بے شک  مصنوعی  کوکیں ماری رہی تھی  ،  لیکن اماں جی کی صحت اور عمر  ایسی  نہیں کہ  چار پانچ سو  خواتین کا  ساتھ دینے کو سہی  رو  سکیں۔  میں نے سختی سے منع کر دیا کہ خبردار  !میری اماں کو  کسی نے اس عجیب سی حرکت سے  افسوس کے بہانے رلایا تو  میں بے عز ت کر کے  نکال دوں گا۔  وفات ہمارے ابا جی کی ہوئی ہے ۔ ہم صبر کر کے بیٹھے ہیں اور آپ سب  جو ان کی زندگی میں ان سے خائف رہے ، آج اپنا غم دکھانے  آ گئے ۔  غم ہمیں بھی ہوا  ہے ،  لیکن صبر افضل ہے۔  آپ سب کے رونے دھونے  سے اباجی کو نہ کوئی فرق پڑنے والا  ہے نہ ہی انہیں کوئی فائدہ ہونے والا ہے ۔ جنہیں ان کی خیر خواہی  مقصود ہے  یہ قرآن مجید پڑے ہیں، اور سورۃ یٰسین وغیرہ بھی کافی تعداد میں موجود ہے، بیٹھ کے تلاوت کریں ۔  جس کیلئے  ہم آپ کے شکر گزار ہوں گے۔  تلاوت کی توفیق نہیں تو کم از کم ہم پڑھنے والوں کی  تلاوت میں اپنی مصنوعی کوکوں سے  خلل اندازی نہ کریں۔
اس بات پر  خالہ جی  سمیت کچھ  خواتین نے کھا جانے  والی  نظروں سے گھورا۔  اور  مجھے اپنی  بڑائی جتانے کی کوشش کی مگر میرے  تیور  دیکھ کے کچھ کہنے کی ہمت نہ کر سکیں ۔   البتہ  ایک غالب اکثریت  جن میں ہماری آپی محترمہ بھی شامل تھیں ، نے  میری اس بات کو سراہا ۔  اور  دوسروں کو بھی تلاوت کی تلقین کی۔  
کل سے  میں جتنا ضبط کر کے   بیٹھا تھا اب اس ضبط میں دراڑیں پڑنے لگیں تھیں۔   اباجی  نے  اپنی زندگی میں  ہی میرے متعلق  فرمایا تھا کہ یہ  جتنا بھی سخت دل سہی  میری چارپائی کا پایہ پکڑ کے روئے گا ضرور۔  جس بات کو سن کے میں نے چٹکی میں اڑا دیا تھا آج  وہی بات سچ ہوگئی ۔  میں ضبط کرنے کیلئے  اور ساری توجہ تلاوت پر رکھنے  کی پوری کوشش  کرتے کرتے  اباجی کی چارپائی کا پایہ  پکڑ    کے  اپنے آپ کو کنٹرول کرنے  لگا۔  اس  وقت کی منظر نگاری میرے لیے مشکل ہے ۔  دل میں تہیہ  کیا ہوا تھا  کہ  میں بالکل نہیں روؤں گا۔ لیکن چار پانچ  سو  خواتین کے مجمعے میں  ان کی ہلکی ہلکی رونے آواز اور  اماں  جی کو  دیکھ کر  ضبط مشکل سا ہو گیا۔   اسی کوشش میں چار پائی  کا  پایہ پکڑ لیا ۔ یہ دیکھ کر  باجی اور  دیگر  واقفان حال  کی چیخیں نکل گئیں۔   جنہوں نے وہ پیش گوئی خود  سنی تھی اور  اب خود دیکھ لیا ۔ یہ  میں جانتا ہوں یا میرا خدا  کہ اس وقت  میں کس قدر مشکل میں تھا۔  میں اپنا رونا  روکنے کی بھرپور کوشش  میں  دھندلائی آنکھوں سے  سورۃ بقرہ کا آخری   رکوع  کی  بلند آواز  میں تلاوت کرنے لگا تو حاضرین سے بھی ضبط مشکل ہو گیا۔ یہ آخری رکوع تین بار  تلاوت کیا  ۔  ابا جی کا کفن کھولا  اور ان کے سینے پر  پھونک  مار کے  اماں جی کی  گود میں سر رکھ دیا۔  اور  ایسا محسوس ہوا  کہ ایک دم سے  سارا  غم کنٹرول  ہو گیا۔  ساری شدت تھم سی گئی ۔  
خواتین کی مسلسل آمد جاری تھی ، ہم نے اپنے  اندازے سے  کچھ فاضل  دریاں بھی بچھائی تھیں ، لیکن تعداد اتنی زیادہ ہو گئی  کہ وہ دریاں بھی کم پڑ گئیں۔  باہر  مردوں کی نشست کیلئے  بچھائی گئی  دریوں سے چھ دریاں اندر لا کر بچھا دیں۔               اماں جی نے  زبردستی مجھے نہانے کیلئے  بھیجا  کہ  باہر  جو پرسے کیلئے آ رہے  ہیں وہ  چھوٹے  بیٹے کا بھی پوچھ رہے تھے ۔ غسل کے بعد  باہر مردوں میں  آن بیٹھا۔ یہاں  بھی وہی تماشا  تھا۔
کہنے کو  سب تعزیت کیلئے  آئے بیٹھے تھے ۔ اپنے درمیان سے ایک انسان کا  دنیا  سے  چلے جانا  بھی ان  کو غفلت سے  جگانے کیلئے کافی نہ تھا۔ درود شریف کیلئے  سامنے شمارپڑے تھے  لیکن حضرات  غیبتوں اور  حالاتِ حاضرہ  پہ سیر حاصل تبصروں میں مصروف تھے۔  سوائے چند گنے چنے  حضرات کے سب اسی مشغلے میں مصروف تھے۔  اس  کے علاوہ ہر نیا آنے والا   ایک  سکہ بند  جملہ دہراتا "پیر سائیں! اللہ دی مرضی دے کم"(اللہ کی مرضی)،  آنے والے اکثر  مجھے شکل سے نہیں جانتے تھے ۔   اس لیے  میری تو کافی حد تک  بچت رہی لیکن باقی  بھائیوں کے تو  کان پک گئے ہوں گے۔  ویسے تعزیت  کیلئے اتنا ہی کافی ہے  ، لیکن یہ کیا  کہ  ایک ایک بندے کو مخاطب کر کے  وہی گھسا پٹا سکہ بند جملہ کہا جائے ۔  پیر سائیں! اللہ دی مرضی دے کم، جنید  سائیں اللہ دی مرضی دےکم، شاہد  شاہ صاحب اللہ  دی مرضی دے کم ۔  ایک ہی سانس میں تین چار بندوں سے  تعزیت کا فرض ادا ہو گیا۔  

دریاں کم پڑتی جا رہی تھیں۔  اور دریاں منگوا کے  میں نے   وہاں سے  ہٹ کے جنازے  کیلئے  خالی  رکھی گئی جگہ پر پندرہ بیس  دریاں بچھا دیں۔ اور خود  وہاں آ کے  بیٹھ گیا۔  دھیرے دھیرے   بزرگوں کے ستائے  اکثر  وہیں آ کے  بیٹھنے لگے ۔  اور  وہاں پہ  باقاعدہ درود شریف  پڑھا جانے لگا۔ جب کہ بزرگ حضرات  کی وہی بدگوئیاں جاری رہیں۔ 
قبرستان سے  مستری  صاحب نے  کچھ کچی اینٹیں  منگوائی تھیں، وہ  ریڑھی پر لوڈ  کروا  کے بھیجیں۔ اور اب  ذیشان  کو  سید مظہر  شاہ صاحب  کے ساتھ قبرستان  روانہ کیا ۔ کہ  جو حفاظ صبح سے قبر کے اندر  تلاوت  قرآن مجید میں مصروف ہیں ، ان کی جگہ لے لیں۔ اور انہیں آرام کا کہیں۔  نیز  ان کیلئے دوپہر کا  کھانا بھی بھجوا دیا۔     
اندر  آیا  تو  اندر  محفل  میلاد  سی  جاری تھی ۔    سب  خوش  آواز  خواتین کورس میں نعتیہ کلام پڑھنے میں مصروف  تھیں۔  رونا دھونا  الحمد اللہ   نہ ہونے  کے برابر تھا۔  ایک  بجے کے  قریب   باجی نے کہا کہ چار مرتبہ  میت پر  سورۃ ملک پڑھنی ہے ۔ فدوی  ، جنید ، عرفان  اور اس  کی اہلیہ نے  چارپائی کے چاروں کونوں پر کھڑے ہو کر  ایک ایک بار  سورۃ ملک  کی تلاوت کی ۔  محفل نعت  پھر جاری ہو گئی ۔ اور قصیدہ بردہ شریف پڑھا جانے  لگا۔

بڑے  بھائی کو  یہ پریشانی تھی کہ  کل سے  رات سے  صاحبزادہ سید سجاد سعید کاظمی  شاہ صاحب قدس سرہ سے رابطہ  کیا گیا تو  انہوں نے فرمایا  کہ  میرا تو   جتوئی  مظفر گڑھ  میں ایک قل خوانی  کا پروگرام فکس ہے۔   انہوں  نے اپنے بڑے بھائی مرکزی امیر  اہلسنت  پروفیسر  سید مظہر سعید  کاظمی شاہ صاحب قدس  سرہ العزیز   کو  جنازہ  پڑھانے کیلئے بلانے کا مشورہ دیا۔   لیکن  جناب پی ٹی ممتاز  صاحب (جن کے ذمہ جنازے  کیلئے  صاحبزادہ صاحب کو  بلانا  تھا) نے  انہیں بتایا کہ مرحوم کی وصیت نما فرمائش تھی کہ میرا جنازہ سید  سجاد  سعید  کاظمی شاہ صاحب پڑھائیں ۔  تو انہوں نے تین بجے پہنچنے کا  عندیہ دے دیا تھا۔  اب جتوئی سے دھنوٹ کا  سفر  کم از کم  بھی  5  گھنٹوں کا تو  ضرور ہے۔  جنازہ کیسے وقت پہ پڑھایا  جا سکے گا۔ 
دو بجے کے بعد  میں اندر آیا اور سب کو اطلاع دی کہ  جنازے  کاوقت قریب ہے ۔ جنہوں  نے آخری  زیارت کرنی کر لیں ۔ تاکہ یہ نہ ہو کہ  جب ہم اٹھانے کیلئے  آئیں تو  سب کو آخری دیدار یاد آ جائے ۔    تین بجنے میں  ابھی بیس  منٹ باقی تھے  اور میں وضو کر کے  نکلا  تو سب  رشتہ دار مرد حضرات  آخری دیدار  کیلئے اندر   آگئے ۔                 

Friday 21 November 2014

بچھڑا کچھ اس ادا سے۔۔۔۔ (7)۔

6 آرا
ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے

آدھی رات  ہوتے ہوتے  میں نے کمرہ خواتین سے خالی  کرا لیا کہ اب ہم خود تلاوت کریں گے۔اماں  نے کہا  بھی کہ بیٹا  دو  دن اور دو راتوں سے مسلسل  جا گ رہے ہو۔  تھوڑا سا آرام کر لو ، کیونکہ کل سے  قل خوانی تک  سب انتظامات آپ نے ہی  تو سنبھالنے ہیں۔  لیکن میں نے کہاکہ اماں  قرآن مجید  ساری اولاد کو ابا  جی نے  خود  پڑھایا تھا۔  اب اتنا تو ان کا  حق بنتا ہے کہ  ہم بھی  ان کیلئے تلاوت  کر لیں جبکہ ہمارے ساتھ ان کی یہ آخری رات  ہے۔  ہم تو پھر بھی سوہی لیں گے ۔  
وضو کر کے میں آیا  تو  میرے سوتیلے بھائی  (سید شاہد حسنین) تلاوت میں مصروف تھے ۔ میں نے بھی تلاوت شروع کر دی۔  جنید بھائی بھی تشریف لے آئے  اور رضائی اوڑھ کے زبانی ہی  تلاوت کرنے لگے۔کچھ دیر  بعد  سید  محمد  رضا بھی   آ گیا۔  اور ایک بجے تک تلاوت میں مصروف رہا۔پھر وہ بھی چلا گیا،  اور جنید  بھائی بھی تلاوت کرتے کرتے دیوار سے ٹیک لگائے سو گئے۔ اڑھائی  بجنے تک  شاہد بھائی کی  ہمت بھی جواب دے گئی ۔  دس پاروں کی تلاوت کے بعد بولے یار میری تو آنکھیں دھندلا رہی ہیں۔  میں نے کہا ذرا دیر  آرام کر لیں،  اور وہ کمبل میں گھستے ہی فراٹے  سے خراٹے مارنے لگے۔
اب میں تھا اور ابا  جی۔۔۔۔
گھڑی  کی سوئیاں  چلتی رہیں اور  میری تلاوت جاری رہی۔  تین بجے کے قریب مجھے عجیب  سا  محسوس  ہونے لگا۔  دروازہ  حالانکہ  بند تھا پھر بھی  دروازے سے  ایک کے بعد ایک  ٹھنڈے  جھونکے  آتے ہوئے محسوس ہوئے ۔  اور چند منٹ بعد  ایسا محسوس  ہوا  کہ  کمرہ لوگوں سے بھر گیا ہے ۔ حالانکہ  کمرے میں ہم چار  اجسام کے سوا کوئی نہ تھا۔ جن میں سے اباجی سمیت دونوں بھائی سوئے تھے، اور چوتھا میں۔  خالی  کمرہ جس میں صرف ایک  چارپائی پر ابا جی  لیٹے تھے کے سوا کوئی سامان  نہ تھا۔  فرشی نشست  تھی بیٹھنے کیلئے ۔ اور  کمرہ ایسے محسوس  ہو رہا تھا  کہ کافی تعداد میں لوگ اندر بیٹھے ہوں۔  پہلے تو مجھے اپنا وہم لگا،  لیکن جب  واضح طور پر  محسوس  ہونے لگا کہ ہمارے علاوہ بھی  اس کمرے میں کافی لوگ موجود ہیں، تو  سردی  کے  باوجود  بھی  مجھے پسینہ آ  گیا۔ پہنی ہوئی جرسی اتار  دی۔   حلق  میں   خشکی محسوس  ہوئی  تو گلاس  کی طرف  ہاتھ بڑھایا ۔  گلاس  کے علاوہ ڈیڑھ  لیٹر  کی پانی سے بھری بوتل  جو ساتھ  ر     کھ کے تلاوت کرنے بیٹھا  ،   خالی  تھی۔  
میں تلاوت  روک کے اٹھا  اور  ایک نظر ابا جی  کی طرف ڈالی ،  ان پہ رضائی  اور چہرے  پر  سفید کفن کی چادر  پڑی تھی ۔  میں باہر نکلا   کہ ایک چھوٹا  سا  وقفہ ہو جائے  اور اسی دوران خیال  بھی بدل جائے  گا۔  لیکن  باہرآکر  تو  یہ احساس  اور بھی قوی ہو گیا۔ ساڑھے تین کا وقت  تھا  ، چاروں طرف خاموشی کا عالم تھا ، سارا  صحن  خالی  تھا ، لیکن اس کے باوجود ایسا محسوس ہوا  کہ صحن لوگوں  سے بھرا ہوا  ہے۔  واش روم کی  طرف جانے کو قدم بڑھایا  تو  ایسا  لگا جیسے بہت بڑے ہجوم میں سے گزرنا پڑ رہا  ہو۔ دونوں کندھوں  سے  کچھ ٹکراتا  محسوس ہوتا  رہا۔   
دوبارہ  وضو کے  بعد  جب میں واپس آنے لگا تو  اس احساس  میں اور بھی اضافہ  ہو گیا۔  نہایت واضح  طور پر    کچھ لوگوں  کی نہ صرف  موجودگی  محسوس ہوئی  بلکہ  ہلکی ہلکی  سرگوشی نما آوازیں   بھی  محسوس ہوئیں۔  کمرے میں واپس آیا تو  کمرے کے  ماحول  میں ایک غیر محسوس  سی تبدیلی محسوس ہوئی ۔  آنکھیں دیکھنے سے قاصر تھیں لیکن چھٹی حس کا   مسلسل  بجتا الارم  کہہ رہا تھا کہ  یہ محض ایک وہم نہیں۔   دوبارہ  تلاوت کرنے کیلئے آلتی پالتی  مار کے بیٹھا تو  محسوس  ہوا  کہ بیٹھنے کو  جگہ تنگ  ہے۔  دونوں گھٹنوں اور کندھوں پہ  انتہائی  واضح طور پر  لمس  محسوس  ہونے لگا۔   جو لوگ  مجھ سے  ذاتی  طور پر  واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ  میں نہ تو اعصابی کمزوری کا مریض  ہوں  ، نہ  ہی کوئی  ڈرپوک  ۔  الحمد اللہ  بے خوفی  اور نڈر ہونے  میں فدوی  اپنے  والد صاحب  پر گیا ہے ،  لیکن  مجھے یہ اقرار  کرنے میں کوئی باک نہیں کہ  اس  وقت میں سچ مچ ڈر گیا تھا۔یہ اس قسم کا ڈر نہیں تھا، جیسا کہ  عمومی طور  پر لوگوں کو محسوس ہوتا ہے۔ اتنا  تو مجھے معلوم تھا  کہ کچھ  لوگ آئے  ہیں،  اور جس اعلیٰ مقام و مرتبے  کے لوگ تشریف لائے ہیں ،  یہ  اسی  دبدبے  کا  اثر تھا  ۔  نہ معلوم میں کن کن ہستیوں  کے ساتھ بیٹھا تھا۔  مزید  شدت سے میں نے  اپنی توجہ تلاوت کی طرف کر دی۔  چار بجے بجلی  چلی گئی اور اندھیرا ہوا  تو  معلوم ہوا  کہ  سارا کمرہ اندھیرا ہے سوائے  اباجی چار پائی  سے چھت تک کہ ایک  واضح سفید روشنی تھی ، اتنی واضح  کہ کفن کی چادر کے نیچے  سے پھوٹتی صاف  دکھائی دیتی تھی۔     میں نے سر جھٹکا  اور  ساتھ  پڑی ٹارچ روشن کر کے  تلاوت کا  سلسلہ  جاری رکھا۔  
تقریبا ً آدھے گھنٹےبعد باہر  سے آتی  آوازوں سے محسوس  ہوا کہ  اماں  جی وغیرہ اٹھ گئے  ہیں۔  اور کچھ دیر بعد  اماں  جی ، باجی ،  خالہ جی    وغیرہ   کی آمد ہوئی اور  کمرہ  پہلے کی طرح خالی  ہوگیا۔ اب وہ  احساس بھی  ختم ہو گیا۔لیکن  ابا جی  کی چارپائی  کو گھیرے ہوئے  روشنی کو سب نے دیکھا  ، اور  دم سادھ کے بیٹھ گئے۔ پھر آہستہ آہستہ  اور لوگ بھی اٹھ کے آنے لگے ، اور بجلی نہ ہونے کی وجہ  سے بیٹھے درود شریف کا  ورد کرتے رہے ۔ اور کچھ صرف میری تلاوت  ہی سنتے رہے۔  باجی اور اماں  نے  بہت کہا کہ  اب تم کچھ دیر وقفہ کر لو  اور اتنی دیر تک  آگےہم  پڑھ  لیتے ہیں ۔  لیکن  میں نے تلاوت جاری رکھی۔ چھ بجے حافظ ذیشان بھی  آگیا   اس نے  کہا ماموں  اب آگے  میں پڑھتا ہوں ۔  میں نے کہا  سورۃ یوسف تک پڑھ کے  میں اٹھتا ہوں۔  سوا  چھ بجے  میں نے  قرآن مجید  اور ٹارچ  ذیشان کے حوالے کیا  اور   پیچھے ہٹ کے دیوار سے  ٹیک لگا کے کمبل اوڑھ لیا۔ اتنی دیر میں سوئے ہوئے دونوں بھائی بھی جاگ گئے  ، اٹھے اور جا کے اپنے اپنے  گھر سو گئے۔ کچھ دیر بعد  خیال آیا  کہ  یہاں  آرام کرتا رہا تو                باہر  کے کام کون دیکھے گا۔ 
باہر نکلا  تو دانی آیا ہوا  تھا ، چاچو  چاول   بھگونے  کیلئے رکھ دیں ۔ دیگوں کے حساب سے  12 ، 12 سیر  چاول  بوریوں  میں ڈال کے ٹیوب ویل کے حوض میں جا کے رکھ دئیے  ۔ ابا جی  کاشاگرد  حافظ محمد رشید ،  اور کچھ اور حفاظ  کو بھیجا  کہ  وہ  ابا جی کی قبر کے  اندر  بیٹھ کر تلاوت  کرتے رہیں۔  

مشرق  سے  سورج طلوع ہو رہا  تھا ۔  اور ہماری یتیمی کی پہلی رات گزر چکی تھی۔ 

Monday 17 November 2014

بچھڑا کچھ اس ادا سے ۔۔۔ (6)

2 آرا
جو آتا  ہے
وہ جاتا ہے
دنیا  آنی جانی ہے
فقط ایک  کہانی ہے
جانے  والے  کو  کوئی کب روک سکا ہے ۔ وعدہ  پورا ہوا اور کم و بیش  71  سال  اس  دار ِ فانی میں گزار کر  ابا  جی  بھی    دارالقرار  کو چلے گئے ۔ میں کمرے  سے نکلا تو  دیکھا کہ رات کا ندھیرا  پھیل رہا تھا ،  اور  ایسا  ہی اندھیرا  ہم سب پسماندگان  کی   زندگی میں بھی پھیل چکا تھا۔سرائیکی محاورہ "کنڈ خالی تھی  گئی" اپنے اصل مطلب  کے ساتھ  اس  وقت مجھ پر واضح ہوا۔  لکھنے کو یہاں  بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے ، حزن بیانی  کے جوہر دکھائے جا سکتے ہیں۔ لیکن بقول غالب  "کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ  کی عادت نہیں مجھے"حقیقت  یہ ہے کہ  ایک  عجیب سی بے حسی  نے گھیر  لیا۔  صحن خلاف ِ توقع  رشتہ داروں سے بھر چکا تھا۔  ایک  تو چشمہ نہیں تھا ، اور پھر عشاء  کے وقت  کا اندھیرا، کچھ اندازہ  نہ ہوا  کہ  کون کہاں ہے۔  سب کے رونے کی آوازیں  آ رہی تھیں  ۔ لیکن نجانے  کیوں میری آنکھیں خشک تھیں ۔ اماں کی تلاش میں آگے بڑھا  تو حاضرین  مجھ سے بغلگیر ہو ہو کر اظہار افسوس کرنے لگے ۔ کچھ  بڑے بھائی کے گلے لگ کے رو رہے تھے ، کچھ میرے گلے لگ گئے ۔  اور عجیب بات یہ کہ  بجائے اس کے کہ کوئی ہمیں صبر کا کہتا الٹا  ہم ہی دوسروں کو صبر صبر کہہ رہے تھے ۔حسنین  بھائی  بھرائی آواز میں سب کو  اونچی آواز میں رونے سے  منع کر رہے  تھے۔  میں کھسکتا  کھسکتا  اماں تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔  اماں  میرے  گلے لگ گئیں ، اور  کہا"پتر آپاں  رُل گیوسے" میں نے  کہا" اماں  موت  تو سب کو آنی ہے ، اور  جس نے  ہمیں پیدا کیا  وہ  تو ازل سے  زندہ و جاوید ہے ۔  وہ  حی و قیوم ہے۔  جب اللہ  ہے تو پھر کاہے کا غم ؟" اس بات پہ اماں نے مجھے  ماتھے پہ بوسہ دیا اور  "شیر پتر" کا خطاب دیا۔ 
بے شک خوشی  ہو یا غم اللہ کی  طرف سے  ہے۔  میں  خاندان میں دوسروں  کے  ماں باپ کی وفات پر انہیں روتے کرلاتے  دیکھ کر ہمیشہ یہ سوچتا تھا کہ  ایک نہ ایک دن یہ وقت مجھے بھی  دیکھنا ہے۔  اور جب مجھ پر ایسا  وقت آیا تو  اس وقت میرا  کیا رد عمل ہو گا۔  اور  پاک ہے وہ ذات  جس نے  یہ وقت آنے پر  مجھےصبر کی  توفیق دی۔یقیناً یہ اس  کی دی ہوئی توفیق ہی تھی  کہ  نہ صرف میں اور  حسنین بھائی  بلکہ  اماں اور باجی  نے  بھی  صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیا۔
 رشتے دار  تو  مہمانوں  کی طرح  آ گئے ، اب یہ ہماری ذمہ داری  تھی کہ  ان  سب کیلئے بیٹھنے  اور سونے کے انتظامات کے ساتھ  ساتھ ابا جی کے غسل اور  تکفین کا بھی  انتظام کریں۔  گھر  چونکہ  ابھی زیر تعمیر  ہی تھا  اور ابا جی کے آپریشن اور  پھر وفات  کی وجہ سے  تعمیر  ابھی نامکمل تھی ۔ اس وجہ سے  جن کمروں میں ابھی تک  وائرنگ  نہیں ہوئی تھی وہاں  عارضی طور پر تاریں  لگا کر بلب لگا دئیے ، اور  باہر جو  مرد  حضرات  آ رہے تھے ان کی نشست کیلئے   دریاں بچھادیں ، تایا  جی وہاں بیٹھ کے سب کے سامنے  اپنے رونے رونا  شروع ہو گئے ، اور میری غیبتیں ہوتی رہیں۔ساڑھے  آٹھ بجے  تک  حسنین  بھائی نے  جنازے  کے وقت  کا بتا دیا کہ  کل  بروز جمعرات  سہ پہر تین بجے  نماز ِ جنازہ ہو گی ۔ اب  ہم دونوں بھائیوں نے موبائل کے ذریعے  فرداً فرداً  سب  رشتہ داروں اور ابا جی کے مریدین تک  ابا جی کی  وفات اور  جنازے  کے وقت کی اطلاع پہنچائی ۔ 
غسل  کیلئے  پانی   میں بیری کے پتے  بھی  ابالے  جاتے ہیں۔  رات کے اندھیرے میں بیری کے درخت  سے پتے توڑ  لایا ۔اور  پانی ابلنے کیلئے تنور  پر رکھ دیا۔  جنید  حسنین(منجھلے بھائی ) نے میرے  مشورے سے  غسل   دینے کی جگہ کا تعین کر کے  گڑھا کھودنا شروع کر دیا۔ اور  میں ان کا   تیار کروایا  ہوا سرخ رنگ کا تختہ  غسل  اٹھا لایا۔ رشتہ دار  شاید اس امید میں تھے  اور جیسا کہ اکثر ہوتا  ہے کہ  آل اولاد تو رونے پیٹنے اور  غم کا بہانہ بنا کر چارپائی  کی پٹی سے چپک کر بیٹھ جاتی ہے ۔  لیکن یہاں تو صورت  ہی نئی تھی۔  ہم نے نہ تو کسی سے کوئی کام کہا اور نہ کسی  کو کرنے دیا۔  سب کام اپنے ہاتھوں سے انجام دئیے۔ساڑھے  نو بجے  کے قریب  جب کہ پانی  اور  غسل  کیلئے گڑھا تیار  ہو گیا تو  میں پہلے سے تیار شدہ کفن لے آیا ۔ ابا جی اور  اماں  جی کے چچا زاد  بھائی جنہیں  ہم ماموں  کہتے ہیں،  اس موقعے پر آگے بڑھے اور  بولے کہ یہ کام  بچوں کا نہیں ،  میں  نے کہا لیجئے  آپ ہی مجھے سکھا  دیں کہ کفن کیسے پہنایا جاتا ہے ۔   اور  انہوں نے   کفن کو ترتیب سے  چارپائی پر بچھا دیا۔
اس کفن کی بھی ایک کہانی ہے۔  یہ  کفن  اور اماں جی کا کفن  انہوں نے  اپنی وفات سے تقریباً  11  سال پہلے  ہی  تیار  کر کے رکھا ہوا تھا۔  اماں  جی نے اپنے ہاتھوں سے  دونوں کفن سیے تھے ۔ پھر یہ  دونوں کفن  عرب  بھجوائے  گئے جہاں  سے یہ  آبِ زم زم  میں بھگو کر  اور کعبہ کا طواف کر واکے  واپس لائے گئے۔   بجلی  تو حسب معمول اس موقع پر تھی ہی  نہیں، موبائلز اور ٹارچ کی روشنی میں دیکھا کہ  ابا  جی نے بدست خود بیری  کے پتوں کے رس سے  سینے  والی  جگہ پر کلمہ طیبہ ، کلمہ شہادت  اور  درود  تاج مکمل  لکھا  تھا۔  اور  اس کے حصار  کے طور پر مستطیل  شکل میں آیت الکرسی  لکھی ہوئی تھی۔
چاند  نکل آیا تھا اور چاندنی خوب چٹکی ہوئی تھی۔  اندر سے  ابا جی کو  ہم سب بھائی  غسل کیلئے   مقررہ مقام پر لے آئے ۔  اورتختے پر لٹا دیا۔  موقع پرموجود بزرگوں  نےجنہیں اس بات کا یقیناً بہت غصہ تھا کہ ہم کسی کام میں مدد مانگنا تو درکنار  کسی بات پہ مشورہ  بھی نہیں مانگ رہے تھے ۔پھر بھی وقتاً فوقتاً اپنی بزرگی  کے ذکر کے ساتھ  مشوروں سے نوازنا   جاری رکھا ۔  ایک بولے  کہ اب قمیض  اتارنا مشکل ہوگا۔  بہتر ہے کہ  قینچی  سے کاٹ  کر علیحدہ  کی جائے ۔  حسنین بھائی  نے   با آوازِ بلند دیگر بزرگوں  کو بھی پاس بلایا  اور کہا  میں آپ کی غلط فہمی آپ  کی آنکھوں کے سامنے ہی دور کر دوں ، کہیں کوئی  یہ کہے کہ  باپ کی کرامات گھڑلی ہیں۔  اور  اس  کے ساتھ ہی   ان کی قمیض اتارنا  شروع کر دی۔  اور گردن و بازو تک پہنچے تو  دونوں  بازو  کھڑے ہی نہیں پیچھے کر  اتنے آرام سے  قمیض اتار کے  دونوں  بازو  چھوڑے تو  ایسا محسوس ہوا  کہ جیسے ابا جی فوت نہیں ہوئے بلکہ بے ہوش پڑے ہیں۔بازو  آرام سے خود بخود  اپنی جگہ  پر واپس آ گئے۔ وفات کے تین گھنٹے بعد بھی  جسم اس طرح تازہ اور نرم  تھا  کہ لگتا ہی نہ  تھا کہ میت  ہے۔ موقع  پر موجود  جن جن لوگوں نے یہ منظر دیکھا  انہیں بے اختیار خدا یاد  آ گیا۔ ماموں نے  رشک  کے مارے آگے بڑھ کر بازو  اٹھا کے  دیکھا  اور  اللہ اکبر اللہ اکبر  کہنے لگے۔ایک چادر  ابا جی  کے  جسم پر گردن تک  ڈال دی گئی اور  ہم انہیں غسل دینے لگے۔   غسل کے بعد  انہیں کافور  اور عطر  لگایا  گیا ۔ 
اس موقع  پر  ماموں کے مشوروں  میں شدت آئی تو حسنین بھائی  نے  کہا آئیے  آپ ہی پہنا ئیے۔ آپ آگے بڑھے اور کفنی  پہنا کر   کفن کی پہلی چادر باندھنے ہی لگے  کہ  جنید  حسنین  نے  کہا مجھے لگتا ہے  کہ آپ نے کفنی الٹی پہنائی ہے ۔ سخت چراغ پا ہوئے  اور حاضرین کو مطلع  فرمایا کہ  جتنی ان کی عمر ہے اتنا میرا تجربہ ہے تجہیز و تکفین میں۔   یہ  ہے وہ ہے ۔۔۔۔میں نے ماما جی حوصلہ  رکھیں! ایک بار دیکھ لینے سے آپ کی بزرگی میں کوئی فرق نہیں آ جائے  گا۔ موبائل ٹارچ آگے کی تو واضح ہوا  کہ کفنی واقعی  الٹی پہنائی تھی ۔  ماما جی  کو ان کی بزرگی نے قطعاً شرمندہ نہ ہونے دیا ، خیر کفنی  میں کلمے اور درود شریف  والی سائیڈ  سیدھی کر کے  دوبارہ پہنائی گئی ۔ دونوں  چادریں  پہنا  کہ  کفن کے بند باندھ  دئیے  گئے ۔  اور  اباجی  کو اندر  کمرے میں لٹا دیا گیا۔اس دوران دس بج گئے اور  بجلی بھی تشریف لے آئی ۔  اندر موجود  بہوئیں  اور دیگر خواتین  تلاوت کرنے لگیں۔
اس کے  بعد ایک اور لطیفہ سامنے آیا ماما جی  کہ مطابق غسل  کا پانی جس گڑھے  میں جاتا ہے ، پلیتے (کپڑے کے بنے دستانے) اور بیری کے ابلے ہوئے ہتے وغیرہ  بھی اسی گڑھے میں دفن کیے جانے  ضروری ہیں۔ چونکہ کھودا جنید  نے تھا اس لیے اب  گڑھا  دوبارہ پر  کرنے کیلئے میں آگے بڑھا  تو ماما  جی نے ایک اور شگوفہ چھوڑا کہ  یہ  غلط ہے ۔ لازم ہے کہ  جس نے گڑھا کھودا  ہو پر بھی  وہی کرے۔  غصہ تو مجھے  بہت  آیا کہ فقہ  کی کسی کتاب  میں مجھے تو  یہ اہم مسئلہ کبھی نظر نہ آیا تھا اور  آج یہ  اہم اسلامی  مسئلہ  سننے  کو مل رہا تھا۔ سنی ان سنی کر کے  میں نے ہی آدھا گڑھا  بھرا اور مزید  آدھا   بھرنے کیلئے جنید نے میرے ہاتھ سے  کسی  لے لی۔

رات گیارہ ساڑھے گیارہ  تک  دھنوٹ شہر  اور آس پاس کے گاؤں  سے  آئے رشتہ دار واپس چلے گئے اور  جو دور سے آئے تھے  ان کےلیے آرام  کا انتظام  کر دیا  گیا۔          

Wednesday 28 May 2014

بچھڑا کچھ اس ادا سے۔۔۔۔۔(وفات)۔۔۔(5)۔

6 آرا
گزشتہ سے پیوستہ


ظہر کا وقت  ہو چکا تھا ۔  کچھ نماز کے بہانے کھسک گئے  اور کوئی کسی بہانے ۔   مہمانوں کی آمد  ہنوز جاری تھی ۔   لیکن   گھر کی  خواتین کے  علاوہ کسی کو    اندر آنے کی اجازت نہیں تھی۔ اور جو بھی اندر آتے انہیں   ایک منٹ سے زیادہ میں بیٹھنے نہیں دے رہا تھا ۔ اسی وجہ سے اس دن  کئی خواتین اور کئی حضرات  مجھ سے اچھے خاصے    ناراض ہو گئے (اپنے دل میں) منہ سے کہنے کی کسی کو جرات نہ ہوئی۔اماں باہر خواتین کو  بھی حال احوال سنا رہی تھیں ، اور  ساتھ  ہی آنے والے وقت  کیلئے  انتظامات کروا رہی تھیں ۔  چاول  پکا کر  بانٹے  گئے لیکن ہم گھر والوں  میں سے شاید کسی کے منہ میں ایک چمچ چاول بھی نہیں گئے۔ 
بہوؤں نے میدان خالی  دیکھا تو  اندر  آ کے بیٹھ گئیں ۔  اسی وقت  طٰہ  بلال (میرا بھتیجا  ۔ جنید بخاری کا  بیٹا) سکول سے  واپس آیا تو  سیدھا  ابا جی  کے پاس آ گیا ۔  ابا جی نے  خوش ہو کر اسے  اپنے پاس بٹھا لیا  ۔ یہ دیکھ کر  باقی  بہوؤں کو  بھی اپنی اپنی اولاد یاد آ گئی ۔  ایک نے  عمیر کو بلا  لیا  کہ دادا  ابو کا حال کیوں  نہیں پوچھا ۔ دوسری نے  عزیر کو  بلا لیا کہ  آؤ ادھر دادا ابو کو دباؤ۔ 
ابا جی  نے انتہائی تکلیف  کے باوجود  بھی پوتوں کو  خود سے لپٹا کر پیار کیا اور  ان کا حال چال پوچھا ۔ عمیر سے  کہا کہ  اب بھی تمہارا  ابو تمہیں مارتا تو  نہیں ۔؟  عزیر  سے پوچھا کہ  تمہارے پیپر  کیسے ہو رہے ہیں ۔ یہ  ان کی  انتہائی محبت تھی ، ورنہ جو ان کی حالت تھی اس میں  انہیں  کمرے میں  بھیڑ بھاڑ  سے بھی  بے چینی  ہورہی تھی ۔  اور انہی کی اسی حالت کے پیش نظر  میں اندر تو کیا باہر  بھی کسی کھانسنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا ۔ لیکن اس کے باوجود  وہ اپنے پوتوں کو  آخری بار خود سے لپٹا کر پیار کرتے رہے ۔
آخر میں نے  بھابھیوں سے  سے بھی باہر جانے کو کہا ۔  ایک تو بجلی نہیں  تھی ۔ دوپہر کا وقت ، اور  اس پہ ان کی روح کی بے چینی ۔  ایک  بھانجے کو  ان کے سرہانے کھڑا  کے  ہاتھ والے پنکھے سے ہوا کرنے پہ لگا دیا۔ لیکن  اس کے باوجود  ان کے چہرے  پہ پسینہ ہی پسینہ تھا ۔ ماتھے پہ ہاتھ رکھنے سے یوں محسوس ہوتا تھا  جیسے برف کی سل پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔
دوبجے کے  قریب  مجھ سے فرمایا  کہ مستری  کا  نمبر  ملاؤ ۔ میں  نے کہا  کہ آپ بڑی مشکل  سے بول رہے ہیں  ، اس لیے فون پر شاید ٹھیک سے بات نہ کر سکیں ۔  فرمایا نہیں میں خود اس سے بات کرنا چاہتا ہوں ابھی۔  میں نے ان  کے موبائل  کی کنٹیکٹ  لسٹ میں دیکھا  مستری  حاجی محمد رمضان صاحب کا نمبر نہیں ملا ۔  میں نے  اس خیال سے کہ بڑے بھائی خود قبرستان میں  موجود ہیں  ان کا نمبر ملایا اور  کہا کہ ابا جی حاجی صاحب سے بات کرنا چاہتے  ہیں ۔انہوں نے  کہا میں اس وقت  ہوٹل سے  مزدوروں کیلئے دوپہر کا کھانا لینے آیا  ہوا ہوں ۔ ابھی کچھ دیر میں  وہاں پہنچ کر بات کرواتا ہوں ۔ابا  جی کا اصرار جاری تھا کہ  ابھی بات کرائی جائے ۔   میں  نے   ان کی جیبی ڈائری جس پر  نمبر زمحفوظ تھے  حاجی صاحب کا نمبر ڈھونڈا ، مگر نہیں ملا ۔ میں نے جنید  بھائی سے کہا کہ مستری کا نمبر ڈھونڈیں ، ان کے موبائل میں حاجی صاحب کا نمبر محفوظ تھا ۔ نمبر ملایا تو  ابا جی نے موبائل اپنے کان سے لگانے کو کہا ۔  سلام دعا کے بعد  اباجی نے کہا  کہ  حاجی  صاحب آپ غلطی کر رہے ہیں۔  ایک قبر زنانہ  ہے اور ایک مردانہ ۔ آپ درمیانی قبر(میری اماں جان کی ) کیلئے  شگاف   پائنتی کی جانب  سے رکھیے  اور  دوسری قبر کا ویسے ہی ٹھیک ہے  جیسے آپ نے  رکھ لیا ہے ۔ 
(تدفین کے وقت  عورت کی میت  کو پائنتی کی جانب سے قبر میں اتارا جاتا ہے  اور مرد کی میت کو  سرہانے کی جانب سے ۔ حاجی  صاحب کو معلوم نہیں تھا کہ ایک قبر  اماں جان کیلئے اور ایک اباجی کی اپنی  ہے ۔  اس وقت  وہ قبر تعمیر کرتے کرتے  شگاف  کی جگہ مختص کرنے ہی والے تھے ۔ اگر ایسا ہو جاتا  تو اماں جی کی قبر  دوبار ہ تعمیر  کرنی پڑتی ۔)۔
کچھ دیر بعد  جب بڑے بھائی کھانا لے کر قبرستان پہنچے  تو انہوں نے  مجھے فون کیا ۔ میں نے بتایا  کہ ابا جی بات کر چکے ہیں مستری صاحب سے اور  جو سمجھانا تھا وہ سمجھا دیا ہے ۔وہاں بڑے بھائی اور مستری مزدور حیران یہاں میں اور  دیگر حاضرین حیران۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد  طبیعت  پھر سے بگڑنے لگی ۔ اور  اب تک  صرف  دائیں   ٹانگ میں شدید ترین درد ہوتا تھا اب بائیں کندھے میں بھی درد  شروع ہو گیا ۔  سورۃ یسین  کی تلاوت صبح سے ہنوز جاری تھی ۔  ایک بھائی  اور بھانجا (حافظ محمد ذیشان ) مسلسل  تلاوت میں مصروف تھے ۔ جبکہ میں ادھر ادھر سے فارغ ہوتے ہی  پھر کھڑے کھڑے تلاوت کرنے لگتا ۔ 
چچا  اور آل اولاد  کو  نہ تو تلاوت کی توفیق ہوئی  اور نہ کندھا یا ٹانگ دبانے  کی ۔  وہ جیسے صرف کچر کچر  باتیں کرنے اور طنزیہ جملے کسنے کیلئے بیٹھے تھے ۔ ابا جی  نے منگل کے دن ہی کہہ دیا تھا  کہ جب میرا وقت آئے  اس فیملی میں  سے تو  کیا کوشش کرنا کوئی  بھی موجود نہ ہو ۔ نہیں معلوم میرا  وہ وقت کیسا ہو ،  اور  ان کی عادت ہے  بعد میں  نقلیں کرنے اور مذاق بنانے  کی ۔ 
اب  جب کہ  تلاوت کرنے  کرنے والوں کیلئے بیٹھنے کی  خاطر خواہ جگہ نہ تھی ۔   چار لوگ بے چارے  ایک ہی چارپائی  پر دبکے بیٹھے  پڑھ رہے تھے  ، جبکہ یہ  حضرات  بائیں  طرف  سے  اپنی سٹھیائی  ہوئی بزرگی کا پھن پھیلائے  تماشائی  تھے ۔  ابا  جی   بائیں طرف کو کروٹ  بدلوانے کا کہتے لیکن جلد ہی دائیں طرف بدلنے کو  کہتے ۔  آخر  انہوں نے  ایک بازو اوپر کیا  اور   شہادت کی  انگلی  سے میری طرف اشارہ کیا ۔  میں ان کی چارپائی  کی پائنتی کی طرف  تھوڑا سا فاصلے پر  کھڑا سورۃ یسین پڑھ رہا تھا ۔  سب نے حیرانی سے نہ سمجھنے والے انداز میں  میری طرف دیکھا ۔ میں شہادت  کی انگلی کے اشارے  سے سمجھا کہ  کلمہ پڑھنے  کا کہہ رہے ہیں ۔ میں نے کہا کہ کلمہ طیبہ کا ورد شروع کیجئے ۔ لیکن ابا جی نے اس بار  اسی انگلی سے ایک بار نیچے  اور ایک بار  میری طرف سے گھما کر اپنی دائیں طرف اشارہ کیا ۔ عطاحسین شاہ صاحب   (میرے سب سے بڑے چچا زاد بھائی) نے  پوچھا کہ آپ نے کیا کہا ہے  ہمیں سمجھ نہیں آیا ۔لیکن ابا جی نے پھر وہی اشارہ کیا ۔  اب میں سمجھ گیا ۔ ان کا کہنا تھا  کہ سورۃ یسین  رکھ دو اور میری  بائیں طرف سے آ جاؤ ۔  میں  اس وقت  ابھی سورۃ کے درمیان میں تھا ، اشارہ پاتے ہی میں سورۃ میزپر  رکھی  اور  چچا اینڈ  آل اولاد سے مطلع صاف  کرنے کو کہا۔   انہوں نے برا سا منہ تو بنایا لیکن مجھ سے کچھ کہنے کی  ہمت نہ پڑی ۔ اسی وقت  کمرے سے  فریج بھی اٹھوا کر  ایک اور کمرے میں رکھوا دیا ۔ اور اس کی جگہ ایک اور چارپائی رکھوا دی ۔  اب دائیں طرف سے صرف میں کھڑا تھا ۔  تین بجے کے قریب  بڑے بھائی قبرستان  سے  گھر  میں دیکھنے کیلئے آئے تو  ابا جی  نے ان  سے پوچھا کہ"اب  کتنی دیر  ہے۔۔۔؟؟؟" انہوں نے کہا  :۔ "سائیں ڈاٹ  مریندی پئی  اے" (محراب بنائی جا رہی ہے )۔  ابا جی نے  کہا  آپ لوگ دیر کر رہے  ہیں ۔ جتنی جلدی ہو سکے  اب کام نمٹانے کی کوشش کی جائے ۔ یہ تاکید کر کے  انہیں دوبارہ قبرستان بھیج دیا ۔  اس کے بعد اماں جان کو بلوایا ۔   میں نے سہارا دے کر  بٹھایا ۔  اماں نے کان قریب کیا ۔ بولے :۔" کفن اور متعلقات  تیار ہیں  ناں۔۔۔؟؟" اماں نے اثبات میں جواب دیا  تو پھر  پوچھا :۔  "پلیتے بنائے نی یا  کوئینہ ۔۔۔۔ ہر چیز سنبھل گھن ۔ اوں ویلے تھتھوی نہ تھی ونجیں ۔"(پلیتے بنالیے گئے یا نہیں ؟ ہر چیز  سنبھال لیں ، اس وقت  بدحواس نہ ہو جانا)(وضاحت :۔  پلیتا  دراصل  کپڑے کا ایک سادہ سا  دستانہ ہوتا ہے ۔  اسے ہاتھوں پر چڑھا کر  میت کا  استنجا وغیرہ  کروایا جاتا ہے ۔  کفن  تو جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے  کہ سالوں پہلے سیے  جا چکے تھے   ۔ لیکن  پلیتے  نہیں بنے تھے ۔ یہ اسی بارے استفسار کیا گیا تھا)۔
آواز  آہستہ آہستہ  دھیمی سے دھیمی ہوتی جا رہی  تھی ۔  مجھے ٹائم  کی فکر تھی کہ  ان کا تو وقت بالکل قریب آ چکا ہے  جبکہ میں نے تو سب کو مغرب تک  کی گارنٹی دی تھی ۔  آواز  آہستہ آہستہ  دھیمی  سے بالکل بند ہوتی گئی ۔  چار بجے کے قریب  مجھ  سے فرمایا  کہ میری یہ ٹوپی بدلواؤ ۔ میں  نے  وضاحت سے پوچھا  تو آہستہ سے بولے  :۔" یہ اتار لو  اورنئی ٹوپی لے آؤ  ۔ جلدی ۔" میں باہر لپکا  اور اماں سے نئی ٹوپی دینے کو کہا ۔  نئی ٹوپی لا کر پہنا دی گئی ۔  اس  کے بعد    اٹھا کے بٹھانے کا اشارہ  کیا ۔  میں نے سب کو  دروازے کے سامنے سے  ہٹ جانے  کا اشارہ کیا ۔  اور انہیں اٹھا کے بٹھا دیا ۔  حسب معمول  ہاتھ باندھ  کے سر جھا کے بیٹھ  گئے ۔ اس بار معمول سے زیادہ دیر تک بیٹھے رہے ۔  چار  بجے  تک  ان کی  آواز بالکل بند ہو گئی ۔ اب میری  آنکھیں ان کی  کی آنکھوں پر جمی  تھیں ۔ کیونکہ  اب وہ آنکھ کا اشارہ  ہی کرتے  تھے  کہ کروٹ ادھر بدلنی ہے ، ادھر بدلنی ہے  یا  اٹھا کے بٹھانا ہے ۔  اور  یہ زندگی  میں پہلی بار تھا  جب  خاکسار نے اپنے والد صاحب کی آنکھوں کا رنگ دیکھا ۔ پہلی بار ان کی آنکھوں میں جھانکنے کا موقع ملا ۔  اتنی مقناطیسیت  تھی ، اتنی کشش تھی ۔کہ  الفاظ  میں بیان نہیں ہو سکتی ۔  ہلکے نیلے  رنگ کی شفاف آنکھیں ، جیسے اندر تک اتری جا رہی ہوں۔  تین بجے سے  پانچ  بجے تک  مجھے  کمر سیدھی کرنے  یا سر اٹھا کے ادھر ادھر دیکھنے  کا ہوش نہیں تھا۔  کمر ایسا  لگتا تھا کہ اکڑ گئی  ہو  اور اب کبھی سیدھی نہ  ہو سکے گی۔  پانچ بجے تک کروٹیں   بدلنے  میں کمی آئی ، اور اب  بالکل سیدھے لیٹے  تھے ۔  میں  پیروں کے بل  ان کی چارپائی  کی سائیڈ  پر بیٹھ گیا اور  ان کے ماتھے سے پسینہ پونچھا ۔   پانی کا  اشارہ  کیا تو  میں نے آب زم زم والی بوتل اٹھا کے  منہ سے لگا ئی  اور اتنا پانی  اندر گیا کہ  صرف حلق ہی تر ہوا  ہوگا۔  دوسری طرف سرہانے  حافظ  محمد ذیشان  سورۃ یسین  کی تلاوت کر رہا تھا ۔   اس کی طرف دیکھا  اور   ہاتھ اٹھا کے    لکیر کھینچنے  کی طرح  کا اشارہ کیا ۔ اسے سمجھ نہ آئی تو  انگلی اٹھا کہ  پہلے ہوا  میں علامتی  مد  بنائی  اور پھر اسی انگلی کے اشارے سے  سیدھا کھینچنے جیسا  اشارہ کیا ۔   وہ دراصل  ایک مد کو کھینچنا  بھول گیا تھا ۔ اس کی درستگی کی  کہ درست طور پر  مد کو کھینچ کے پڑھو۔(خو د قرآن مجید کے حافظ نہیں تھے  لیکن ساری زندگی قرآن مجید پڑھتے اور پڑھاتے گزری ۔ ہم سب بھائی  بھی انہی کے شاگرد ہیں۔ اور ہمارے علاوہ  کم و بیش  دو سو  ان کے شاگرد  اسے قرآن مجید ناظرہ پڑھ چکے ہیں۔  منزل اس قدر پختہ تھی  کہ  اچھے اچھے حفاظ کی بھی غلطیاں پکڑ  لیتے تھے ۔  تراویح  میں   بہت کم حافظ  ان کے سامنے پڑھنے کی جرات کر پاتے تھے )۔

آہستہ آہستہ  یہ ہاتھوں کی حرکت  بھی تھمتی گئی ۔  سواپانچ  بجے کے قریب  ان کے ہونٹ  ہلے ۔ میں نے  جھک کر کان قریب کیے  تو  انتہائی مدہم سی آواز آئی :۔"کلمے"۔۔۔۔
میں نے  کلمہ پڑھنا شروع کر دیا ۔  آہستہ آہستہ ۔۔۔۔  لاالہ  ۔۔۔ الا  اللہ ۔۔۔ محمد الرسول  اللہ ۔۔۔۔ ان کے ہونٹ میرے  بعد ویسے ہی  ہلتے گئے ۔جب میں  اسم مبارک "محمد " پڑھتا تو  ابا جی  دونوں ہاتھ اٹھا کے  انگوٹھے چومنے  کی کوشش  کرتے ، کانپتے ہاتھ  بمشکل  ہونتوں تک لا پاتے ،   میں نے  ان کے ہاتھ جوڑ کر انگوٹھے  دونوں ہاتھوں سے تھام لیے  اور جب ہم دونوں اسم مبارک "محمد " پڑھتے تو  میں ان کو  ہاتھ ہونٹوں تک لے جا کر چومنے اور پھر آنکھوں پر پھیر نے میں  مدد دیتا رہا ۔چند منٹ تک کلمہ طیبہ کا ورد  کرنے  کے بعد میں نے دوسرا کلمہ پڑھنا شروع کیا ۔ وہ بھی میرے ساتھ ساتھ  پڑھتے گئے ۔  اسی طرح بالترتیب چھ کلمے  اور پھر ایمانیات  میں  نے پڑھے اور وہ ساتھ ساتھ دہراتے گئے ۔
اس دوران  کلمے پڑھے جانے آواز سن کر باہر بھی ہلچل  سی مچ گئی ۔ اور  چچا جان اپنی آل اولاد کے ساتھ  اور ان کے علاوہ  میرے ماموں سید بشیر احمد شاہ بخاری  اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ  اندر داخل ہوئے ۔   اس  کے بعد  جونہی یہ  خبر پھیلی  تو رشتے داروں کی آمد  شروع ہو گئی ۔ بہاولپور  سے خالہ اپنے بیٹے کے ساتھ   اور ملتان والی  خالہ خالو  بھی مغرب سے پہلے پہلے پہنچ  آئے ۔کلموں کا ورد  مسلسل  جاری تھا ۔   مجھے کلمے پڑھتا دیکھ کر  تایا جی  جی نے ایسی نظروں سے مجھے دیکھا جیسے انہیں میری دماغی توازن پر شک ہو ۔  ماموں  جی آتے ہی دوسروں کو سورۃ یسین پڑھتا دیکھ کرخود  بھی   پڑھنے بیٹھ گئے ۔  کچھ دیر بعد  ان کے موبائل کی رنگ ٹون بجی ۔ قصیدہ بردہ شریف   پڑھا جا رہا تھا ۔ ابا جی    سن کراتنے  مزے سے  جھومنے لگے کہ ماموں جی کال اٹینڈ ہی نہیں کی اور بیل بجنے دی ۔  اس کے بعد  میں نے  کلمے پڑھنا روک کر  ذیشان کو  کہا کہ ابا جی کو  نعت شریف سناؤ ۔ ذیشان نے نعت شریف پڑھنا  شروع کر دی۔  ابا جی کی آنکھوں کے دونوں گوشے بھیگے  اور دونوں  طر ف سے ایک ایک آنسو  یاد رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم میں لڑھک گیا۔    
چھ  سے  سات بجے کے دوران مجھے کوئی ہوش نہیں  تھا ۔   میں چاہ کر بھی اپنی آنکھیں ان کی آنکھوں سے ہٹا نہیں پا رہا تھا ۔  اس ایک گھنٹے کے دوران  مجھے نہیں معلوم کون اندر آیا کون باہر گیا ۔ میں  بس   ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے  بلند آواز میں  کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت کا  مسلسل ورد کیے جا رہا  تھا ۔   حاضرین بھی آہستہ آہستہ شامل ہوتے گئے ۔ اور پورا کمرہ  کلمہ طیبہ سے  گونجنے لگا ۔  مغرب  کی  نماز  ادا کر کے  اماں جان بھی آ گئیں اور ان  کے بائیں طرف چارپائی پر بیٹھ گئیں ۔  دائیں طرف  جنید حسنین بخاری  اور دائیں طرف سرہانے  سے ہماری  محترم  بہنا  (مومنہ کی امی )ان کا ہاتھ پکڑ کے بیٹھ  گئیں ۔ اماں جان والی سائیڈ پر  ابا جی کے سرہانے میں    بیٹھا تھا ۔ کلمہ طیبہ کا  ورد جاری تھا  کہ  بڑے بھائی  بھی قبرستان سے  کام ختم کر کے  لوٹ آئے ۔ ابھی تک انہوں نے ہاتھ منہ بھی نہیں دھوئے تھے ، سیدھا ادھر ہی آ گئے ۔  
اباجی نے ایک نظر ہم سب کی طرف دیکھا ۔    ایک ہچکی آئی ۔ جسم نے ایک ہلکا سا جھٹکا کھایا  ۔  اور آنکھیں  سیدھا  آسمان کی جانب  دیکھنے لگیں۔ تایا جی   لپک  کرسرہانے  آئے  اور آتے ہی  کمرے میں موجود خواتین (صرف میری  بہن اور اماں جان ہی  تھیں) کو باہر جانے کو کہا ۔ (اس کی  ایک مجہول  سی وجہ انہوں نے یہ گھڑ رکھی تھی  کہ عورتوں کی موجودگی میں  رحمت کے فرشتے نہیں آتے )۔  آپا جی  نے باہر جانے سے سختی سے انکار کر دیا ۔میرا بھی  پارہ ہائی ہو گیا۔    اب کی بار  تایا  صاحب  نے بازو آگے کر کے  سختی  سے  کچھ کہنا ہی چاہا  کہ   میں نے  ان کا آگے بڑھا ہوا بازو  نہایت سختی  سے پکڑ  لیا ۔  اور  ایک زور دار جھٹکے سے  دور دھکیل دیا۔  تایا جی نے ایک کھا جانے  والی  نظر سے مجھے گھورا  اور خفت مٹانے کو  ابا کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ  دیا۔  میرا  دماغ مسلسل  دو دن  دو راتوں سے  جاگتے  اور  4 گھنٹے  مسلسل  ایک ہی پوزیشن کھڑے  رہ رہ کر  گھوماہوا تھا  اب بالکل ہی  پھر گیا۔   اول تو ابھی روح قبض نہیں ہوئی تھی ۔ دوم  یہ کہ  جب آنکھ  کا تار بندھا ہو تو  اس وقت روح  کو اس کا مقام دکھایا جاتا ہے ۔  اور یہ حضرت اپنی  بدحواس بزرگی کے زعم میں  جہالت کا مظاہرہ فرما رہے تھے۔  سوم یہ کہ  ہاتھ میں تسبیح بھی تھام رکھی تھی ۔  جو کہ ابا جی آنکھوں میں چبھی ہوگی ۔  میں نے  ہاتھ پکڑ  کر جھٹکا اور انتہائی ضبط  سے دانت پیس کرصرف اتنا  کہا:۔ "ساری زندگی  کی منافقت سے  دل نہیں بھرا ؟ اب کیا  مارنے کی بھی آپ کو جلدی ہے ۔" تایا جی  جن کی بدزبانی مشہور ہے ، اور ان کی عمر کی وجہ سے  بھی کوئی  ان کے سامنے نہیں بولتا ۔  لیکن  کم مشہور میں بھی نہیں تھا ۔  اس لیے میرے سامنے  ان کی زبان تو نہ ہل سکی ۔ البتہ منہ بنا کر باہر  کو چل دئیے ۔
پیچھے سے ماموں اور خالو  کی آوازیں  آئیں  انہیں روکنے کی کوشش کی  جا رہی تھی ۔  میں نے بلند آواز سے کہا  اب اگر یہ شخص میرے سامنے  اپنی بزرگی دکھانے آیا  تو اس کے ساتھ ساتھ  اس کے ہمدردوں کی بھی  عزت کی دھجیاں بکھیر دوں گا۔  سب کو سانپ سونگھ گیا۔میری موجودگی  میں کسی کو قریب آنے کی  ہمت نہ ہوئی ۔  اماں نے کہا  کہ چہرہ  قبلہ رخ کر دو۔   میں نے ابا جی کا چہرہ قبلہ رخ کر دیا            ۔ اور  کلمہ طیبہ کا ورد جاری ہو گیا ۔ سب پڑھنے لگے ۔  اتنی دیر میں ایک اور ہچکی آئی ۔  ہونٹ ہلے ۔ الا اللہ ۔۔۔۔۔آخری  سانس نکلا۔  اور  آنکھیں بے نور   گئیں ۔

انا للہ  و انا الیہ راجعون 

اب  ایک پٹی دی گئی  کہ ابا  جی کا منہ باندھ دیں ۔  اماں نے  ماموں سے کہا ، لیکن تازہ  ترین واقعہ  کے پیش نظر انہوں نے کہا پہلے اویس کو  سرہانے سے  ہٹا لیں  ۔  اماں نے مجھے کہا بیٹا  آپ پائنتی کی طرف ہو جاؤ ، اور اب تجربہ کار لوگوں کا کام ہے ۔ میں  کلمہ پڑھتے ہوئے ہٹ گیا ۔اور ماموں  نے آگے بڑھ کر  سر اور  منہ پر پٹی باندھ دی ۔  اس دوران بلند آواز سے کلمہ شہادت کا ورد جاری رہا ۔

(جاری ہے)

کرم فرما