★★★ان کے دیکھے سے .....★★★
سانس کی آمدورفت بحال ہوئی تو بے اختیار جوگی کے منہ سے نکلا...
اک بندے کو دیکھا تو ایسا لگا
جیسے کالا گلاب
جیسے چڑیلوں کا خواب
جیسے چلتا جلاب
جیسے قبر کا عذاب
جیسے.......
فہد جوکہ ڈرائیونگ کے فرائض سرانجام دے رہا تھا جوگی پر نظر پڑتے ہی بائک کو ایڑ لگاتا قریب آن پہنچا. اسے دیکھ کر جوگی نے خدا کی قدرت پر حمد پڑھی کہ واہ میرے مولا, تیری تخلیق کے کیا کہنے.....جاپانی پہلوانوں جیسے جسم پر پاکستانی چہرہ عجب بہار دکھلا رہا تھا. جوگی نے موصوف کے ڈیل ڈول سے ہی اندازہ لگا لیا کہ آپ پاکستان میں سومو کُشتی کے فروغ کیلئے تن , تن اور تن سے کوشاں ہیں. ان سے گلے ملنے کے بعد جوگی نے اپنی تمام تر دلیری اور حوصلہ مجتمع کر کے پیسنجر سیٹ پر بیٹھے منکر نکیر کے ہمشکل سے بغلگیر ہو کر حسنِ اخلاق کی انتہا کر دی.
چاند سا چہرہ گرہن لگا ہوا. (بلیک ہول بنتے ہوئے) ستاروں جیسی چنی منی آنکھیں , جن پہ مسٹر جیدی مارکہ عینک چڑھی ہوئی. عینک میں دور بین کے شیشے الٹے لگے ہوئے تاکہ آنکھیں اتنی بھی چنی نظر نہ آئیں. چہرے پہ بکھرا وہ نور جو چراغ بجھنے کے بعد پھیل جاتا ہے. اس پہ مستزاد رُخِ مدھم سے جھلکتی یہ سادگی ..... اگر میر تقی میر دیکھتے تو سادہ ہونے والے دعوے سے دستبردار ہو جاتے, مرزا غالب کہ عارفِ زماں تھے پیشگی چند شعر دیوانِ غالب میں درج فرما گئے....
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا کہ بھینس کے گوبر کو ساگ سمجھ کر بصد شوق تناول فرما لیتے ہیں. عرصہ دراز تک اس غلط فہمی پر قائم رہے.... برسوں پاکٹ منی جمع کر کے سونا یوریا کی چند بوریاں خرید لائے اور پھر ان میں سے سونا ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کے بعد کمشنر آفس کے سامنے دھرنا دیا. لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی.
ڈھٹائی ایسی کہ شیطان پناہ مانگے....نہایت فخر سے بتاتے ہیں کہ میں اللہ کی منفرد تخلیق ہوں وجہ پوچھی گئی تو جواباً دور کی کوڑی لائے کہ باقی سب انسانوں کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا جبکہ مجھے کاربن سے پیدا کیا ہے. اپنی چمک دمک برقرار رکھنے کو باقاعدگی سے چیری بلاسم لگاتے ہیں. بزبان خود روایت کرتے ہیں ایک بار آئینہ دیکھ کر تراہ نکل گیا تھا. تب سے کبھی آئینہ نہیں دیکھا
اس نابغے کی اپنے شہر میں عزت چاہے دھیلے کی نہیں , لیکن ہالی ووڈ کی فلم "Planet of the Apes" میں ولن کے کردار کیلئے آپ کو ہی چنا گیا. لڑکپن میں آپ کو شاعری کا شوق پیدا ہوا. اور آپ نے اپنا تخلص سوزاک رکھا. درجن بھر مشاعروں میں انڈوں اور ٹماٹروں سے عزت افزائی کروانے کے بعد شاعری سے توبہ تائب ہو گئے. اپنی بیاض کو طلاق دے دی. البتہ تخلص ترک کرنے کی بجائے اس کے آخری دو حرف حذف کر ڈالے.
کہنا تو نہیں چاہیے لیکن کہے بنا چارہ بھی نہیں کہ موصوف اول درجہ کے چول ہیں. معدہ بھی ماشاءاللہ لکڑ پتھر ہضم پایا ہے. دال سے لے کر دلئے تک اور چائے سے لے کر پائے تک سب کو اللہ توکل نبیڑ جاتے ہیں.
جوگی نے کہا :- حضرت منہ ہی دھو لیا ہوتا, فرمایا ریگ مال سے رگڑ رگڑ کر دھویا تھا. تاکہ دیکھ کر تمہارا تراہ نہ نکل جائے. جوگی کی حیرت دوچند ہوگئی:- سفید شرٹ , اور نیم سیاہ جینز پہننے , اور چیری بلاسم کی وڈی ڈبی تھوپنے کے بعد بھی روپ نہیں چڑھا یہ کیا چکر ہے؟
اطمینان سے گویا ہوئے
تھا زندگی میں ہی مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر , مرا رنگ زرد تھا
غالب کے شعر پہ جوگی وجد میں آنے ہی والا تھا کہ فہد چِلایا:- مجھے کام بتاؤ میں کیا کروں , میں کس کو کھاؤں...؟ شیراز ہنسا چل یار , کہیں یہ زکوٹا جن بھوک کے مارے ہمیں ہی نہ کھا جائے. شیراز کو اس دریدہ دہنی کی سزا دینے کیلئے فہد نے جوگی کو اشارہ کیا کہ اسے درمیان میں بٹھانا ہے. یہ جو ہم دونوں کو ریچھ ریچھ کہتا پھرتا ہے آج اس کو خبر ہونی چاہیے کہ دو ریچھوں میں سینڈوچ بننا کیا ہوتا ہے. شیراز نے بچنے کی بہت کوشش کی لیکن جوگی نے گھسیٹ ہی لیا.
دونوں کے سوار ہوتے ہی فہد میں نیل آرمسٹرانگ کی روح حلول کر گئی. اور اس نے بائک کو چاند گاڑی سمجھ کر راکٹ کی رفتار سے چاند کی طرف اڑانا شروع کر دیا. دو چار سپیڈ بریکر نما پار کرنے کے بعد شیراز نے اسے یقین دلانے کی کوشش کی کہ ہم خلا میں نہیں زمین پر ہیں. فہد نے سنی ان سنی کرکے بائک اور شیراز کی چیخیں نکلوانا جاری رکھا. ایک سوال کے جواب میں موصوف نے اقرار کیا کہ اگر وہ انجینئر نہ ہوتے تو نیوخان کے ڈرائیور ہوتے.
گھر پہنچ کر بھی شیراز سے سکون سے نہ بیٹھا گیا تو موصوف کو اڑھائی ایکڑ پہ پھیلے باتھ روم کی راہ دکھائی گئی. اور حیرت انگیز طور پر وہاں سے واپسی کے بعد موصوف سکون سے تشریف فرما رہے. شیراز حسین سوزاک صاحب تو ہمیشہ سے بے تکلف ہیں. اور اجنبیوں سے بے تکلف ہونے میں بھی دیر نہیں کرتے. البتہ فہد شیخ شاید جوگی کے ادبی امیج کے زیر اثر کچھ دیر آپ جناب تک محدود رہے. دونوں بے تکلفان نے کہا بھی کہ...
ہم سے کھل جاؤ بوقتِ گورمے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے , رکھ کے عذرِ مستی ایک دن
ان کے کھلنے تک شیراز حسین چوہان کا چور سوئچ دبا دیا گیا. موصوف ارنے بھینسے کی طرح ایک بار جو ڈکرانا (سوری) بولنا شروع ہوئے تو اپنی زندگی کے گوشے بے نقاب کرتے چلے گئے. ان کی روایت کے مطابق جہاں بھی گئے وہاں دھماکہ ہوا. سخی سرور (ڈیرہ غازیخاں) گیا تو لگاتار پانچ دھماکے ہوئے. دھماکے کی شدت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب مجھے محسوس ہوا کہ زندگی کا پیمانہ بس چھلکنے ہی والا ہے تو فوراً اس میں سے دو چار چُسکیاں لے کر چھلکنے سے بچا لیا. ثبوت میں اپنا ٹوٹا ہوا دانت دکھایا. پھر ملتان جیسے امن امان والے شہر میں تاریخ کا پہلا بم دھماکہ وہاڑی چوک میں ہوا. درپردہ شاید وہ اپنی اہمیت جتلا رہے تھے لیکن حاضرین نے اس سے ان کی ڈھٹائی کا اندازہ لگایا کہ چھ دھماکوں سے بچ نکلنے والا پتہ نہیں اور کتنوں کی جان لے گا.
فہد نے شاید ریچھ والے مذاق کا برا منایا تھا یا چار مکئی کے سٹے پیٹ پناہی کر رہے تھے. موصوف کچھ بھی کھانے یا پینے سے کھنچے رہے.
ڈرنک آئی تو بولے میں سادہ پانی پیوں گا. فروٹ آئے تو موصوف نے صرف ایک کیلا اور سیب کی ایک دو قاشیں لیں. کھانا آیا تو شیراز کو سیلفی یاد آ گئی. بولے سیلفی تک خبردار کوئی کھانے کو ہاتھ بھی نہ لگائے, ورنہ مجھ سے بھی زیادہ میری زبان کالی ہے. اس دھمکی کے بعد بھلا کس میں ہمت تھی کہ پیش دستی کرتا....
حکمِ ظالم مرگِ مفاجات... یہ قافلہ سیلفی لینے نکلا. سرسوں کے کھیت کنارے , مورنگا (سہانجڑاں) کے درخت کے نیچے سیلفی بازی ہوئی. موصوف نے سیلفی کے دو اینگل یاد کر رکھے ہیں. ان میں بوتھا چاہے جیسا آئے یہ کوئی نیا زاویہ آزمانے کو تیار نہیں. جوگی کا جی چاہا کہ فوٹو گرافی کی مبادیات پر ایک وسیع و فصیح لیکچر جھاڑے, لیکن اس بے زبان کھانے کا کیا قصور تھا جو ٹھنڈا ہو رہا تھا. پانچ سات الٹے سیدھے فوٹوز پر واہ وا کرکے دوبارہ طعام گاہ کی طرف دھکیل لایا.
کھانے کے دوران فہد کو پھر تکلف نے آلیا. موصوف ایک پلیٹ میں ذرا سے چاول نکال کر شروع ہو گئے. نتیجتاً یہ خلا پُر کرنے کو جوگی مہاراج بنفس نفیس میدان میں کودے اور کشتوں کے پشتے لگادئیے. ازاں بعد خاصی دیر ہانپا کیے. جوگی کو دُکھ تو اس وقت ہوا جب دونوں نے پوچھا استاد خیر تو ہے؟ اب ان کو کیا بتاتا....
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
غروب ہوتے سورج کو دیکھ کر فہد نے واپسی کا رولا ڈال دیا. جوگی نے اسے چپ کرایا کہ اس غزل کا مقطع ابھی باقی ہے. مقطع یعنی چائے حاضر ہوئی, سڑپ سڑپ کرتے ہی دونوں نے جوتوں کے تسمے باندھے اور واپسی کی راہ لی...
ختم شد
نوٹ:- بیماری کے اتارچڑھاؤ اورکچھ نازک مزاج قارئین کے واویلے کی وجہ سے موصوف کا تذکرہ ختم کیا گیا. ورنہ بقول غالب "چاہیے کچھ اور وسعت مرے بیاں کیلئے..."
فرہنگ:-
سومو :- سومو ریسلنگ جاپان کا قومی کھیل ہے. گوشت کے تھل تھل کرتے پہاڑ کو سومع پہلوان کہتے ہیں.
بلیک ہول:- کسی ستارے کی زندگی کے آخری عرصے کو بلیک ہول کہتے ہیں. اس حالت میں ستارے کے مرکز میں کششِ ثقل اس قدر زیادہ ہوجاتی ہے کہ روشنی بھی باہر نہیں آپاتی. اور پھر ایک سپرنووا (عظیم دھماکے) کے بعد بلیک ہول ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے.
مسٹر جیدی :- مشہور مزاحیہ شاعر اطہر شاہ خان جیدی , ان کی مخصوص فریم اور موٹے عدسوں والی عینک کا اشارہ تھا.