Pak Urdu Installer

Tuesday 28 January 2014

پیکرانِ اخلاص

4 آرا
اللہ  تعالیٰ کی  شاہکار  تخلیق  انسان ہے ۔
شاہکار  اس لیے قرار دے رہا ہوں  کہ  یہ اللہ کی  واحد  مخلوق ہے جو جبر  و قدر  کا مرقع  ہے ۔یہ  واحد مخلوق ہے جس  میں اللہ نے  بیک  وقت  دل  اور دماغ  لگا دئیے  ہیں۔   دماغ  پر  عقل و خرد  کی  حکومت ہے ۔  اس کی وسعت  لامحدود ہے  مگر  جہاں  عقل کے پر  جل  جاتے ہیں وہاں سے دل کی سلطنت  شروع ہوتی ہے جہاں یقین  کا سکہ  چلتا ہے ۔ بحث و دلیل سے بے نیاز اس  طلسم ہو شربا  میں عقل  کو  آج تک داخلے کا پروانہ  نصیب نہیں ہو سکا۔

یہ قصہ بھی دل و دماغ کا ہے ۔ تاریخی روایات کے انبار پہ بیٹھ  کر فدوی   اپنے  انداز  میں صرف   قصہ    سنائے گا ۔
سچ  ہے یا دروغ  ،  بر گردن ِ مورخین۔
واللہ اعلم

خلافتِ راشدہ  کے بعد  اقتدار بنو امیہ  میں آیا  پھر ان سے  بنو عباس  کو منتقل ہوا ۔ عباسی  خلافت کا ذکر آئے تو ذہن میں  خلیفہ ہارون  الرشید  کا نام  خود بخود آجاتا ہے ۔ خلیفہ ہارون الرشید  کی ایک   محبوب ملکہ   تھی جو تاریخ میں زبیدہ  خاتون کے نام سے مشہور ہے ۔
ایک دفعہ یہی ملکہ زبیدہ خاتون شام  کے وقت   سیر  و تفریح کی غرض سے شاہی باغ  کو  جا رہی تھی ۔  بغداد سے  باہر  ایک  ویرانے سے جب  سواری گزری تو ملکہ    ایک منظر دیکھ کر  حیران  رہ گئی ۔  پراگندہ بالوں ، بوسیدہ پیراہن  اور حیرت  زدہ چہرے  کے ساتھ ایک شخص پتھر کے ٹکڑوں  اور تنکوں کو  جمع  کر کے کچھ  بنا رہا تھا ۔ملکہ نے سواری  رکوائی  اور  خواصین کو وہیں  رکنے کا کہہ کر  ایک کنیز  کے ساتھ  ادھر کو چل پڑی  ۔ جہاں حضرت بہلول دانا ؒ پتھروں  اور تنکوں  سے گھروندہ  بنانے میں اس قدر منہمک تھے  کہ انہوں نے ملکہ کی  آمد  کی  طرف  کوئی توجہ نہ کی ۔
بادشاہِ وقت  کی ملکہ جس کے سامنے کھڑی تھی وہ خود ہفت اقلیم  کا  بادشاہ تھا  ۔  جس کی حکومت کا رقبہ اس جہانِ فانی سے عالمِ جاوید تک پھیلا ہوا تھا۔
ملکہ کچھ دیر  ان کے متوجہ ہونے کی امید میں کھڑی رہی ، آخر  ہمت کر کے سلام کیا۔ سلام کا   جواب ملا تو  ملکہ  نے ادب سے پوچھا :۔  "جناب ! یہ کیا بنا رہے ہیں۔؟" اسی  بے نیازی سے جواب آیا:۔ " جنت کا محل بنا رہا ہوں۔"

اور یہ وہ مقام ہے جہاں دل و دماغ  کاپانی پت سجتا ہے ۔  عقل  ماننے  کیلئے مشاہدہ  مانگتی ہے ، مگر  دل تو  آنکھیں بند  کر کے بے اختیار  "آمنا صدقنا " کہہ دیتا ہے ۔ پھر  ان  دونوں کے مان لینے میں بھی بہت بڑا فرق ہے ۔ عقل  مان  لینے کے بعد منکر ہو جاتی ہےلیکن دل منکر  نہیں ہوتا ۔  دانشوروں  کا قافلہ  ہمیشہ عقل کے مشورے پراپنی راہ بدل لیتا ہے ۔ لیکن میں نے آج تک کسی  دیوانے کو ہزار  افسوس کے باوجود بھی جادہ  ٔ حق  سے ہٹتے نہیں دیکھا۔

زبیدہ  خاتون کو  بھی اپنی آنکھ کے دیکھے سے زیادہ ایک عارف  کی  بات پر یقین تھا ۔ پس اسی یقین نے پوچھا  :۔  جنت کا  یہ  محل میرے ہاتھ پر  فروخت کریں گے۔؟" جواب ملا:۔ " ضرور فروخت کروں گا۔"

یہ ہے  نازِبندگی ۔۔۔۔۔  غور فرمائیے ۔۔۔۔  جنت کس کی  اور فروخت کون کر رہا ہے ۔۔۔۔  
ضروری ہے کہ اس مقام کی بھی مناسب تشریح کرتا چلوں تاکہ کوئی  ابہام  نہ رہے ۔  
حدیث شریف  کے مفہوم کے مطابق  ٭جو خدا کا ہوتا ہے خدا اس کا ہوتا ہے ۔٭پس  جس کا خدا ہو گیا تو  کائنات میں باقی رہ ہی کیا گیا ۔۔۔

ملکہ  نے  خوش ہو کر  قیمت دریافت کی  ۔  جواب ملا :۔  "ایک درہم۔"
جواب سنتے ہی زبیدہ خاتون نے فوراً قیمت پیش کر دی  ۔ اور  دنیا کا  سب سے انوکھا سودا  طے  ہو گیا ۔اشٹام پیپر  وغیرہ تو  اس زمانے  میں ہوتے نہیں تھےاور  پٹواری  ، تحصیلدار  بھی  نئے زمانے  کی بدعات  ہیں۔ اس  لیے    قیمت  ادا ہونے  کے بعد  حضرت بہلول داناؒ نے  ایک لکڑی اٹھائی اور  گھروندے  کے گرد  خط  کھینچتے ہوئے فرمایا :۔  میں  نے جنت کا یہ محل ایک درہم کے عوض زبیدہ  خاتون کے ہاتھ بیچ دیا ۔"یہ سنتے ہی زبیدہ خاتون  اس یقین کی خوشی  سے سرشار  ہو گئی کہ اسے جیتے جی جنت مل گئی ہے۔اور  واپس  اپنے محل میں آگئی ۔

رات ہوئی  اور ہمیشہ  کی  طرح گزرگئی ۔  لیکن جب صبح تہجد  کے وقت  خلیفہ  ہارون  الرشید  پریشانی  کے عالم  میں حرم سرا میں تشریف  لائے تو پہرے دار  کنیزیں اور ملکہ بھی خلیفہ کی خلاف ِ عادت اور بے وقت آمدپہ   حیران ہو گئیں۔   ملکہ  نے  خلیفہ سے پریشانی  اور تشریف  آوری کا سبب پوچھا تو خلیفہ نے بتایا :۔"میں نے  ایک عجیب و غریب  خواب دیکھا  ہے ۔کہ میں ایک نہایت حسین و دلکش چمن کی سیر کر رہا ہوں ۔ پھولوں کی رعنائی اور درختوں  کی زیبائی بیان سے باہر ہے ۔ہموار زمین اور شفاف نہریں  جن میں دودھ اور شہد  رواں ہے ۔خوش رنگ  و خوش گلو پرندوں کے نغمے جادو جگا  رہے ہیں۔رنگ و نور میں ڈوبے محلات تا حد نظر پھیلے ہیں۔ میں عالم  حیرت میں ڈوبا یہ سب دیکھ ہی رہا تھا کہ میرے  قریب سے جھلملاتا ہوا نور کا ایک پیکرِلطیف گزرا  ۔ میں نے اس سے دریافت کیا یہ کونسی جگہ ہے اس نے کہا "جنت الفردوس"۔اسی  حیرانی میں گھومتا  پھرتا،   میں  لعل و زمرد سے بنے ایک خوبصورت  محل کے سامنےجا پہنچا  اس  پر  بخطِ سبز  " زبیدہ خاتون " لکھا ہوا تھا ۔  اور پھر میری آنکھ کھل گئی ۔ بیدار ہونے کے بعد تعبیر کے تجسس نے مجھے اتنی مہلت نہیں دی کہ صبح ہونے کا انتظار کرتا ۔اگر  مناسب ہو تو  بتاؤ یہ کیا راز ہے ، جس نے جیتے جی تمہارا نام  جنت الفردوس میں پہنچا دیا ۔؟؟"ملکہ  نےکہا:۔  اپنے نامہ  اعمال  میں اور تو کوئی ایساعمل یاد نہیں ۔ البتہ گزشتہ شام مجذوب بہلول  داناؒ سے ملاقات ہوئی تھی ۔" اور سارا واقعہ  کہہ سنایا۔ خلیفہ کو بھی اس مجذوب سے ملاقات کا شوق پیدا ہوگیا۔  اس  نے کارندوں کو حضرت بہلول دانا ؒکی تلاش میں بھیجا ۔

   جذب و جنون والوں کا کوئی   مخصوص ٹھکانہ   نہیں ہوتا ۔ جہاں  بیٹھ گئے دنیا  بس گئی ، اٹھے تو شہر اجڑ گیا۔۔۔۔ہزاروں  کے بیچ بھی تنہا۔۔۔۔کہیں جو مل گئے تو عالم  ایسا کہ ملنا نہ ملنا دونوں برابر۔   نگاہوں سے اوجھل ہو گئے تو اب ڈھونڈ انہیں چراغِ رخِ زیبا لے کر  ۔۔۔۔۔۔

لگا تار کئی دن کی تلاش کے بعد  ایک ویرانے میں حضرت بہلول دانا ؒ مل  گئے ۔  آج بھی ان کا وہی عالم تھا۔  آنکھیں چڑھی ہوئی تھیں اور دونوں  جہان سے بے نیاز  پتھر  اور  تنکے جمع  کیے  گھروندہ  بنانے میں مشغول  تھے ۔خلیفہ کو  خبر کی گئی اور خلیفہ فوراً وہاں پہنچ گیا ۔

واہ ۔۔۔!!! کیا عجیب و غریب منظر تھا۔۔۔
سلطنت ِ اسلامیہ کا فرمانروا  خلیفہ  ہارون الرشید  جس  کے رعب و جلال سے دنیا کے تین حصے ہمیشہ متاثر رہے ۔ یورپ  و فارس کے  سلاطین جس کے باجگزار کہلاتے ہوئے  فخر محسوس کرتے تھے ۔ وہی ہارون الرشید  ایک فقیر  کے  سامنے مؤدب کھڑا تھا ۔

سلام کیا ۔۔۔۔ جواب ملا ۔۔۔۔
پوچھا :۔  حضور یہ کیا بنا رہے ہیں۔؟
جواب ملا:۔ جنت کا محل بنا رہا ہوں
پوچھا :۔ اسے فروخت کیجئے گا۔؟
جواب ملا:۔  ضرور
قیمت دریافت کی تو جواب  ملا:۔ تیری پوری سلطنت اس محل کی قیمت ہے ۔
یہ سن کر  خلیفہ  کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکلی یا نہیں، یہ تو اللہ جانے مگر کچھ دیر  اسے  جیسے سکتہ سا ہو گیا ۔کچھ وقفے کے بعد  پھر  عرض کیا :۔
 حضور ! ابھی چند دن پہلے آپ  نے زبیدہ خاتون کے  ہاتھ ایک درہم پر  جنت فروخت کی ہے ۔  یک بیک  سٹاک ایکسچینج  میں اتنی تیزی ۔۔۔۔ ؟؟؟ 
حضرت بہلول داناؒ نے جلال کے عالم میں خلیفہ کی طرف دیکھا اور فرمایا :۔ زبیدہ خاتون پر اپنا قیاس  مت کر  ۔  وہ جنت دیکھ کر نہیں آئی تھی  ۔ اس نے صرف میری زبان پر  ان دیکھی جنت کا یقین کر لیا ۔ تنکوں اور پتھروں  سے بنے گھروندے کو جنت کا محل سمجھنے کیلئے  اسے اپنے مشاہدے کا انکار کرنا پڑا  ۔ عقل کے فیصلے سے جنگ کرنا پڑی ،اور نظر کو جھٹلانا پڑا ۔ اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم جنت دیکھ کر  آ رہے ہو   ۔  جنت کے وہ سب نظارے اب تک  تمہاری نظر کے سامنے ہیں۔ اس لئے تمہارے ساتھ کوئی رعایت  نہیں کی جاسکتی ۔"

بقول  قرآن  مجید :۔  اس  میں عقل والوں کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں۔
اور بقول  چھوٹا غالب:۔  اس میں عقل کے اندھوں   کے لیے بہت سی خامیاں ہیں

قارئین اس قصے سے جو مرضی  نتیجہ  نکالیں لیکن فدوی  کا مقصد  صرف پیکران ِ اخلاص و یقین ،  اور مہر  ومحبت  کی  دیویوں  کو  ایک  چھوٹا سا  خراجِ تحسین  پیش کرنا تھا ۔اس  فقیر کی باتوں پہ واہ واہ کرنے والے تو بہت ہارون الرشید  بھی ہیں اور محمود الرشید  بھی ۔  دیکھا دیکھی اور شرما شرمی میں بہت سے لوگ فدوی کی  دوستی کا دم بھی بھرتے ہیں۔  مگر  جب  میں نے یقین کی پل صراط بچھائی  تو   سب  یار دوست  اپنی  عقل  کے دوزخ میں گرتے گئے ۔اور یہ پل پار کرنے والے    "کچھ  ہوئے  تو  رندانِ  قدح خوار  ہوئے۔" قصور ان بے چاروں کا بھی  نہیں کیونکہ  وہ بے چارے تو آنکھوں دیکھے  کے محتاج ہیں۔لیکن  ان  پیکرانِ یقین  کی  صدیقیت  کے صدقے  جنہوں نے  فدوی کو یقین  کے قابل  سمجھا۔
  یہ قصہ صرف زبیدہ خاتون کا نہ تھا ۔  بلکہ  یہ قصہ  ہر  خاتون  کا  ہے ۔ یہ قصہ عورت کا  ہے ۔  اس عورت کا ہے  جو حوا  کی  بیٹی ہے ۔  جنت سے نکلوانے والا موضوع  ایک  الگ داستان رکھتا ہے جس  کو غلط رنگ دینے والوں کو یہ یاد کرنا  چاہیے  کہ آدم  علیہ السلام کا  ساری  آراستہ  و پیراستہ  جنت میں دل  نہیں لگا تھا ۔ یعنی  حضرت حوا  کی  آمد سے پہلے جنت حضرت آدم علیہ السلام کی نظر میں جنت نہیں تھی ۔ تو  قارئین  یہ قصہ اسی  کا ہے جس  کے بغیر  جنت بھی جنت نہیں۔

 خوشبو صرف احسا س  ہے ۔۔۔ خوبصورتی بھی ایک احساس ہے ۔۔۔ خوشبو  کو فریگرینس  کہہ لیں یا مہک  یا کسی  بھی زبان  کا نام دے دیں، اس سے خوشبو  کے اصل پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ خوبصورتی کو بیوٹی کہنے سے کیا اس میں کوئی  فرق پڑتا ہے ۔۔۔؟؟؟ پس  پھر  اس جانِ احساس کو  بھی کوئی سا نام دے دیں،  کسی  بھی زبان  میں کہہ  کے دیکھ لیں۔۔۔  عورت کہیں، امراۃ کہیں، تریمت ، زنانی ،  استری کہیں یا وومن   ،کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔

ایسا کیوں۔۔۔۔؟؟؟

پھول فرق رکھتے ہیں۔  کیونکہ پھول  مجسم ہیں ۔۔۔ مگر  خوشبو مجسم نہیں بلکہ ایک احساس ہے ۔البتہ  ہر  خوشبو  کی  ایک انفرادیت ہے
خوبصورت وجود  فرق رکھتے ہیں ۔  کیونکہ وہ مجسم ہیں۔۔۔۔ مگر  خوبصورتی صرف ایک احساس ہے ۔البتہ  ہر  خوبصورتی کی  ایک انفرادیت ہے

بالکل اسی طرح عورت اپنی "اصل"کے لحاظ  سے  ایک ہے ۔  نام  اور رشتے بدلنے سے  اصل نہیں بدل جاتی ۔  وقت اور جسم  ہی بدلتے آ رہے ہیں۔  فطرت تو آج بھی وہی ہے ۔
اس لیے کوئی  فرق نہیں پڑتا کہ اگر   کسی زمانے میں اس  کا نام  زبیدہ  خاتون  تھا تو کسی زمانے میں مہ جبین۔
کسی علاقے  میں اس کا  نام عنبل وارثی ہو  ،  چاہے  غزل ناز غزل۔۔۔
بے شک  وہ  آئر لینڈ والی  ملکہ  ہو، یا انگلینڈ  کی  پرنسس  ہو۔
کوئی اسے مومنہ کہتا ہے ، کوئی اسے عشبہ  پکارتا ہے ، اور کوئی  یسریٰ۔۔۔۔
یہ توصرف  ناماگون  تھا۔  اب رشتے  بدل  کر دیکھ  لیں۔  رشتہ ہی بدلتا جائے  گا ، "اصل "تو  عورت ہی رہے گی ۔
ماں بھی عورت ، بیوی  بھی  عورت ۔  بہن کا رشتہ ہو یا بیٹی کا ۔  صرف دوست ہو چاہے محبوبہ ۔۔۔۔  اصل  تو اس کی عورت ہے ۔
    سلام ہو  اس  جانِ جنت پر 
سلام ہو اس  جانِ احساس پر

4 آرا:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آپ کی قیمتی آرا کا منتظر
فدوی چھوٹا غالب

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

کرم فرما