Pak Urdu Installer

Monday 31 December 2012

ماسٹر ٹوپی

1 آرا




چپٹی ناک، بڑی بڑی آنکھیں ، کالے کالے ہونٹ ،  پچکے گال ، بڑھتا ہوا پیٹ اور سب سے خاص بات بالوں سے فارغ  یعنی فارغ البال ۔ اس ٹنڈ نما تماشے کو شہر کے سبھی لوگ ماسٹر ٹوپی  کے نام سے جانتے ہیں ۔۔۔۔۔حالانکہ ان کا اصل نام نادرا میں بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا ۔ ان کے آباو اجداد نے بھی بہت کوشش کی اور سخت محنت کے بعد ان موصوف کو ماسٹر  شوقی کا نام دیا گیا ، لیکن لوگ بے وفا ہیں  ، انہیں ماضی اور مستقبل سے کیا غرض ؟ وہ تو حال کے دیوانے ہیں ، اور حال کے قرائن یہی بتاتے ہیں  کہ ماسٹر شوقی اب لوگوں کیلئے صرف اور صرف ماسٹر ٹوپی رہ گئے ہیں ۔
 ان کے سر پر ہر وقت ٹوپی دیکھی جا سکتی ہے ۔ دیکھنے میں تو ایسا لگتا ہے کہ ماسٹر نے ٹوپی کو نہیں ٹوپی نے ماسٹر کو پہن رکھا ہے ۔ ماسٹر ٹوپی کو غصہ بہت آتا ہے اور غصے میں ان کی ٹوپی لال قلعے کی طرح لال ہو جاتی ہے اس لیے یہ اندازہ غلط نہیں کہ کہ ماسٹر کا دماغ ٹوپی کے نیچے ہے۔ٹوپی کی تو یہ ہی خوبی ہے کہ یہ ایجاد ہی گنجوں کیلئے کی گئی ہے ۔ زیادہ تر استعمال دولہا حضرات کرتے ہیں لیکن پہنتے اسے سب سے زیادہ ماسٹر ہی ہیں ، اسی لیے ماسٹر ٹوپی کا کہنا ہے کہ ٹوپی گنجوں  کیلئے اطمینان ، دولہوں کیلئے بہترین اور ماسٹروں کیلئے مونو گرام ہے ۔ ماسٹر ٹوپی سخت گرمی میں  بھی ٹوپی نہیں اتارتے  البتہ   دوسروں کی ٹوپی اتارنے میں ماہر ہیں ۔ گرمیوں میں بس ذرا پنکھا تیز کر دیتے ہیں اور اگر پنکھا پہلے سے سے ہی تیز ہو تو بس صرف  منہ اوپر چھت کی طرف کر دیتے ہیں ۔ اگر کوئی محلے والا  کبھی کبھار کچھ گھنٹوں کیلئے ٹوپی   مانگے تو اس کو ایسے دیکھنے لگتے ہیں جیسے اس نے گردے مانگ لیے ہوں ، اس لیے ماسٹر ٹوپی کو پیپسی ایڈ پسند نہیں تھا  کیونکہ ماڈل اس میں  ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ "دل مانگے اور۔۔۔"
محلے والے بتاتے ہیں کہ ماسٹر ٹوپی تجربےکار ماسٹر ہیں ۔ ماسٹری انہیں اس وقت ملی جب ان کی جوانی "دیوانی" تھی ۔ اس وقت ان کے اباجان وزیر ِ تعلیم کو اخبار پڑھ کر سنایا کرتے تھے ۔ وزیر نے خوش ہو کر ان کے ابا جان کو تین نوکریاں گفٹ میں دے دیں ۔ ماسٹر ٹوپی اس وقت کو یاد کر کے کہتے ہیں کہ اس زمانے میں  محکمہ تعلیم  "گفٹ سینٹر"  بنا ہوا تھا۔     
عشق کے معاملے میں ایسے خود کفیل ہیں  جیسے تیل کے معاملے میں سعودی عرب  خود کفیل ہے ۔کہتے ہیں  کہ عشق ہوتا نہیں  بلکہ کیا جاتا ہے اس لیے  ماسٹر ٹوپی نے تین شادیاں  کی ہیں ۔ اس معاملے میں بہت ہو شیار ہیں ۔ شادی ہی ایسی عورت سے کرتے ہیں  جسے باآسانی چھوڑ سکیں ۔ اس لیے آج کل ایک درجن  بچوں سمیت  ایک بیوی کے ساتھ  زندگی گزار رہے ہیں ۔
ماسٹر ٹوپی  ہر لحاظ سے ایک مکمل ماسٹر ہیں ۔ ان میں وہ سب  خوبیاں ہیں جو کسی  بھی ماسٹر  میں اگر نہیں ہیں  تو وہ ماسٹر ہی نہیں ہے۔۔شروع دن سے ہی بھلکڑ ہیں ، جبکہ اونچی آواز میں سننا ، یعنی بہرہ پہن  ایک اضافی خوبی ہے  جو کہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے قرض لیتے نہیں  اور نہ ہی قرض دیتے ہیں ۔ اس بارے میں  ان کا موقف یہ ہے کہ  کہ قرض ایک مرض ہے  اور مرض وہ نہیں چاہتے البتہ  سود لینے اور دینے کے بارے میں ان کا فیصلہ "ملکی مفاد" میں ہوتا ہے ۔محنت ان کا پیشہ ہے اس لیے  آج تک کچے مکان اور جھونپڑے میں رہتے ہیں ۔ ان کی زندگی میں سے اگر عشق اور شادیوں کو نکال دیا جائے  تو یہ بہت کچھ بچا سکتے تھے ۔

ایک دفعہ برسات کے موسم میں  پاکستانی معیشت کی طرح  ماسٹر ٹوپی کا کچا گھر بھی  تباہ ہوگیا ۔ اتفاق سے  ماسٹر ٹوپی  برسات کا مزہ لینے کیلئے  باہر صحن میں  بیٹھے ہوئے تھے ۔ جب جھونپڑی  کی لکڑیوں کو اپنے اوپر ڈرون  کی طرح آتے دیکھا تو فوراً اٹھ کر وہاں سے بھاگنے لگے ۔ اس افراتفری میں  ان کی ٹوپی اور دھوتی نے ان کے ساتھ باہر جانے سے انکار کر دیا ۔ اسی دوران  ماسٹر کا جھونپڑا کسی سیاستدان کی طرح بیٹھ  گیا اور دوسرے لمحے  ماسٹر ٹوپی  باہر برسات میں  اہل محلہ کو  بغیر ٹکٹ  ہالی وڈ  فلم  دکھانے پر تلے ہوئے تھے ۔ شریف محلے داروں نے تو کھڑکیاں  دروازے بند کر کے گھر میں بیٹھ جانا مناسب سمجھا  مگر شرارتی لڑکے  تالیاں بجا رہے تھے ۔ پیشہ ور لوگوں نے اپنے پیشے سے وابستگی  کا  ثبوت دیتے ہوئے  اس ایڈوانس ماحول  کو اپنے کیمروں میں ہمیشہ کیلئے محفوظ  کر لیا ۔ اس دوران  ماسٹر حسبِ معمول  انجان بنے کھڑے رہے ۔ وہ تو بس  اپنی جان بچ جانے پر  بے حد خوش تھے ۔ اپنی  بیوی اور بچوں  کا ان کو خیال ہی نہ آیا ۔ ان کو معاملے کی سنگینی کا احساس تب ہوا جب کچھ منچلوں بلند آواز سے مخاطب ہو کر کہا :۔ "ماسٹر ٹوپی!! شریعت بل منظور ہونے والا ہے ۔"
محلے کے ایک شرارتی لڑکے نادر نے تو ماسٹر کی ناک ہی کاٹ کے رکھ دی ۔ وہ بلند آواز میں  اہلِ محلہ کو بتا رہا تھا :۔  "واہ بھئی واہ!ایچ بی او  کے سگنلز کلیئر آ رہے ہیں ۔"
موقع کی نزاکت کو بھانپ کر  ماسٹر ٹوپی نے سیکنڈ  کے 24ویں  حصے میں  کسی ماہر ایتھلیٹ کی طرح پھرتی دکھائی اور بغیر گولڈ میڈل جیتے  تباہ شدہ  جھونپڑے سے ہوتے ہوئے  کچھ مکان میں داخل ہو گئے ۔ دروازے کو کنڈی لگا کر ماسٹر کو ایسے لگا جیسے  تپتی دھوپ اور ریگستان  میں کسی نے ان کو ٹھنڈا ٹھار روح افزا کا گلاس پلا دیاہو۔ گھر میں داخل ہوتے ہی  ماسٹر نے سب سے پہلے بیوی بچوں کے سامنے  ٹوپی پہننے کو ترجیح دی ۔ ہر بات کی طرح بعد میں احساس  ہونے پر  ماسٹر نے ادھر ادھر  ہاتھ پیر مارے  اور ایک دوپٹہ نامی چیز کو گھسیٹ کر  اپنے اوپر اوڑھ  لیا تب جا کر بیوی  بچوں  کی جان میں جان آئی ۔
تباہ شدہ جھونپڑے کو تعمیر کرنے کیلئے ماسٹر نے  اپنے بچوں  سمیت سکول کے بچوں کو بھی "خوشحال پروگرام  برائے مرمت جھونپڑا "  میں زبردستی شامل کر لیا ۔کسی پاکستانی فلم کی طرح خوشحال پروگرام  برائے مرمت جھونپڑاکا آغاز ہوگیا ۔ اس سارے کام کی نگرانی ماسٹر ٹوپی خود کر رہے تھے ۔ اس خطرناک اور حساس کام  کی نگرانی  کرتے ہوئے  ماسٹر ٹوپی  نے ٹوپی کی بجائے ہیلمٹ کو ترجیح دی ۔ طالبان بٹالین  یعنی شاگردوں نے سب سے پہلے لکڑیاں جمع کیں  اور سپیشل بٹالین (ماسٹر ٹوپی کے ذاتی ایک درجن بچے) نے چھت کیلئے ایندھن  کی فراہمی یعنی  گھاس پھونس  وغیرہ کا بندوبست کیا ۔ یہ کام توقع کے برعکس  جلدی مکمل نہ ہو سکا، جس کی وجہ سے ماسٹر ٹوپی کو غصہ آیا ہوا تھا ۔ چھت کے لیے جب سپیشل بٹالین نے  گھاس پھونس اوپر بھیجنے کی کوشش کی  تو  ماسٹر ٹوپی نے خود اوپر منڈیر پر چڑھ کر  یہ کام اپنے ہاتھوں  میں لے لیا ۔ چھت کو جمہوریت کی طرح مضبوط بنانے کیلئے  مصنوعی سہاروں کی بجائے مضبوط رسیوں  سے باندھنے کا پروگرام  بنایا گیا ۔۔۔
 ماسٹر کی بیوی  چھت کے نیچے سے  رسی کو نوکدار کیل  کے ذریعے   اوپرپہنچانے کی ذمہ داری بخوبی انجام دے رہی تھی ۔ ہر بار کیل کو  اوپر پہنچانے سے پہلے وہ شوہر سے "اوکے" کا سگنل ایسے لیتی تھی جیسے  "کون بنے گا کروڑ پتی"  پروگرام میں  امیتابھ بچن  سامنے بیٹھے  شخص  سے پوچھتے ہیں  کہ فریز کیا  جائے یا۔۔۔ اس کشمکش میں  ایک بار کیل ماسٹر ٹوپی کے ممنوعہ علاقہ جات  سے ٹچ ہو گیا ۔ بیوی نے جب  "اوکے" سگنل کیلئے  کہا تو ماسٹر کے بھلکڑ پن ، بہرہ پن ، اور جذباتی پن  یکجا ہوگئے ۔ اوپر گرمی ، تھکاوٹ  اور کام کی وجہ سے پریشان  ماسٹر ٹوپی نے غصہ میں "اوکے" کا سگنل دےد یا ۔ سگنل ملتے ہی  ماسٹر کی بیوی کو  جیسے میکے جانے کی اجازت  مل گئی  ہو  سو اس نے جھٹ سے کیل کو زور سے اوپر کی طرف دھکیلا ۔ سیکنڈ کے 20 ویں حصے میں ماسٹر کی چیخیں  علاقے کو سر  پر اٹھائے ہوئے تھیں ۔علاقے کے لوگ سمجھے کہ خدانخواستہ انڈین آرمی نےحملہ کر دیا ہے ۔ ماسٹر کو جلد از جلد حکیم سلطان پوری کے دواخانے کے ایڈریس پر پوسٹ کر دیا گیا ۔ وہاں سے افاقہ نہ ہونے پر ماسٹر نے اپنی بیوی پر گالیوں کی ہوائی فائرنگ  اور جوتوں سے گولہ باری کی ۔ اس کے بعد ماسٹر ٹوپی نے  اپنی بیوی  سے رابطہ  و ترسیلِ زر اور مواصلاتی نظام منقطع  کر دئیے ۔ لیکن جب ماسٹر ٹوپی کے بچوں نے اپوزیشن چھوڑ کر حکومت(ماں)  کی طرف داری کی تو اپوزیشن(ماسٹر ٹوپی)  کے غبارے سے ہوا نکل گئی  البتہ کنٹرول لائن  کی طرح  جھڑپیں جاری تھیں۔

1 آرا:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آپ کی قیمتی آرا کا منتظر
فدوی چھوٹا غالب

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

کرم فرما