لوگ اتراتے ہیں ۔
کچھ اپنے علم پر، کچھ اپنے حسب نسب پر کہ پدرم سلطان بود ۔
اس کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات لوگوں کے پاس ہوتی ہیں اترانے کیلئے ۔
لیکن جیسا کہ حضرت شاہ حسین ؒ نے فرمایا :۔
کوئی میری ، کوئی دولی ، شاہ حسین پھسڈی
(کوئی اول، کوئی دوم، شاہ حسین ؒ سب سے آخری )
میں توپھسڈیوں سے بھی پھسڈی ہوں ، کس علم پر میں اتراؤں؟ جبکہ میں ابھی تک خود اپنے آپ کو بھی نہیں جانتا ۔ حسب نسب پر اترانا اوروں کو مبارک ہو ، ہمیں تو اپنا آپ آزمانا ہے ۔ لوگ بہت حیران ہوتے ہیں جب میں یہ بتاتے ہوئے شرماتا ہوں کہ میں بخاری سید ہوں۔ مجھے شرم آتی ہے جب کوئی میری عزت اس لیے کرے کہ میں فلاں فلاں کا پوتا ، اور فلاں کا نواسا ہوں ۔ مجھے چڑ ہوتی ہے کوفت ہوتی ہے جب کوئی مجھے شاہ صاحب کہے ۔ لیکن کیا خوب کہا ہے کسی نے کہ تدبیر کند بندہ اور تقدیر اس پر ہنستی ہے ۔ یہی کچھ میرے ساتھ ہوا ۔ میں چلا تھا فخر و غرور کے سب اسباب سے جان چھڑانے ، مگر سچ یہ ہے کہ میں بھی اترانے پر مجبور کر دیا گیا آخر۔ میں اب اتراتا ہوں اپنے عظیم اساتذہ پر، میں اتراتا ہوں اپنے دوستوں کی دوستی پر ۔
میں اس بات پر جتنا بھی شکر کروں کم ہے کہ مجھے مرزا غالبؔ جیسے عظیم استاد کی شاگردی عطا ہوئی ۔ حیران نہ ہوں کہ یہ میں کیا لکھ گیا ۔صاحبو !!شاگردی دو قسم کی ہوتی ہے ۔ ایک وہ جو اختیاری ہوتی ہے ، جسے لوگ اپنی مرضی سے اختیار کرتے ہیں ۔ ایک شاگردی وہ ہوتی ہے جو گفٹ کی جاتی ہے ۔ غالبؔ وہ نام ہے جسے سن کر کچھ لوگ ناک پہ رومال رکھ لیتے ہیں ،اور غالبؔ ہی وہ نام ہے جسے سن کر کچھ خوش قسمتوں کو پھر "کچھ اپنی خبر نہیں آتی" ۔ اللہ کا بہت ہی احسان ہوا مجھ پر کہ مجھے غالبؔ کی شاگردی عطا کی گئی ورنہ میں بھی ان نام نہاد پڑھے لکھوں کی صف میں ہوتا اور غالبؔ کا نام سنتے ہی لاحول پڑھ کے ناک پہ رومال رکھ لیتا ۔اس کے علاوہ بھی اب تک کی گزری زندگی میں بہت سے عظیم اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنے اور ان کے سامنے بیٹھ کر ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ۔ ایک مرتبہ استاد محترم جناب محمد حنیف صاحب (وہ اس وقت جہاں بھی ہوں اللہ کی رحمت کا سایہ ان پر رہے) نے ایک سبق آموز واقعہ سنایا تھا :۔
ایک بار حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں قلفہ (فالودہ ) پیش کیا گیا ۔ آپ نے اسے کھایا مگر معدے نے قبول نہ کیا اور وہ سب بذریعہ قے باہر پیالے میں آگیا ۔ آپ نے وہ پیالہ ایک طرف رکھ دیا ۔ کچھ مریدین نے وہ پیالہ مانگا بھی مگر حضرت صاحب نے کہا نہیں یہ تمہارے لیے نہیں ۔ پیالہ رکھے انتظار کرتے رہے ، حتیٰ کہ حضرت امیر خسرو ؒ تشریف لے آئے ۔ حضرت خواجہ صاحب نے ان سے فرمایا ۔ کہ میں نے فالودہ کھایا تھا مگر معدے نے قبول نہیں کیا اور میں اسے تمہارے لیے رکھ کے بیٹھا تھا ، یہ لو پیالہ اور کھا لو۔ حضرت امیر خسرو ؒ نے کہا سرکار اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے میرے لیے ۔ مگر مجبوری یہ ہے کہ میں ابھی گھر سے سیر ہو کر آ رہا ہوں ۔ اس وقت بالکل بھی طلب نہیں ہے ۔ خواجہ صاحب نے کہا اچھا حجرے سے باہر دیکھو ۔ کوئی ہو تو اسے ہی بلا لاؤ ۔ حضرت امیر خسرو ؒ باہر نکلے ، اور ادھر ادھر دیکھا ، مگر ایک ملنگ کے سوا کوئی بھی موجود نہیں تھا ۔ اس ملنگ کی کہانی یہ تھی کہ وہ کئی سالوں سے حضرت خواجہ صاحب کی خانقاہ پر موجود تھا ، لیکن نہ تو وہ کسی کی طرف دیکھتا تھا ، نہ ہی اتنے عرصے سے آج تک اس نے کوئی ایک لفظ منہ سے نکالا تھا ۔ وہ خواجہ صاحب کے حجرے کے باہر ہی بیٹھا رہتا تھا ہمیشہ ۔ تو حضرت امیر خسرو ؒ اندر آئے اور بتایا کہ اس ملنگ کے علاوہ تو کوئی بھی موجود نہیں ہے ۔ خواجہ صاحب نے فرمایا اچھا جیسے خدا کو منظور ، ٹھیک ہے اسی کو ہی بلا لاؤ ۔امیر خسرو اسے اندر بلا لائے ۔ملنگ اندر آیا تو خواجہ صاحب پیالہ اٹھا کر ابھی وضاحت کرنے ہی لگے کہ اس ملنگ نے پیالہ ان کے ہاتھ سے کر کہا :۔" حضرت ! اتنے برسوں سے اسی انتظار میں تو بیٹھا تھا ۔" اور ایک نعرہ مستانہ لگا کر پیالہ منہ سے لگایا ، ایک ہی سانس میں اپنے اندر انڈیل لیا ۔ خواجہ صاحب نے حضرت امیر خسرو ؒ سے فرمایا کہ میں تو چاہتا تھا کہ خرقہ خلافت تمہیں دوں ، مگر اللہ کی مرضی ، کہ تم نے یہ موقع گنوا دیا اور ملنگ نے پا لیا ۔
اسے اپنے ذہن کی ہارڈ ڈسک پر محفوظ کر لیں ، جیسے یہ سبق ہر موقع ہر موڑ پر میرے کا م آتا رہا ہے ، ویسے ہی آپ کے بھی کام آئے گا ، اگر آپ سیانے ہیں تو بے شک آپ اسے ہمیشہ کیلئے یاد نہ رکھیں ، بس اس تحریر کے ختم ہونے تک تو کم ا زکم ذہن کی ریم میں محفوظ رہنے دیں ۔
کسی میرے جیسے پھسڈی نے ایک سیانے سے پوچھا کہ جب انسان کے پاس اتنے سارے رشتے موجود ہیں ، ماں کا رشتہ ، باپ کا ، بھائی ، بہنیں ، چچا ، ماموں ، پھوپھیاں ، اور ان کی اولادیں ، وغیرہ وغیرہ تو پھر اتنے سارے رشتوں کی موجودگی میں دوست کی یا دوستی کی کیا ضرورت ۔؟ سیانے نے جواب دیا :۔ ہوا میں اتنی ساری گیسیں ہیں ، مگر پھر بھی ہر کسی کو آکسیجن کی ضرورت بہرحال رہتی ہے ۔
ہر بندہ کہتا پھرتا ہے کہ میں تو دوست بنانا چاہتا ہوں لیکن کوئی میرا دوست نہیں بنتا۔ جی ہاں ہم سب خود کو بڑے دوست دار سمجھتے ہیں ، ہم سب کو دوست بنانا بھی چاہتے ہیں ۔ مگر ایک کڑوا سچ یہ ہے کہ ہم دوست بننا نہیں چاہتے ۔ ہماری شعوری اور لاشعور ی کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے بہت سے دوست ہوں، لیکن ہم کسی کے دوست ہوں یہ ضروری نہیں سمجھا ہم نے ۔یہ دوغلا پن ہمارے اندر ہے ، لیکن ہم بجائے اپنے اندر کا جائزہ لینے اور اندر کی صفائی کے، اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے ہیں ، لوگوں کے خون سفید ہونے اور دوستی عنقا ہو جانے کی تقریریں کرتے پھرتے ہیں ۔
اچھا جی ! ایک منٹ ۔ یہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم دوست بنانا بھی چاہتے ہیں اور دوست بننا بھی چاہتے ہیں ۔ تو میں ان سے پوچھتا چلوں کہ کیا آپ کی دوستی میک اپ، گیٹ اپ، اور تکلفات سے عاری ہے ؟؟ آپ اپنی اداکاری کو دوستی کا نام دیتے ہیں ؟ جی ہاں بد قسمتی سے ہم نے دوستی کیلئے الگ سے کاسٹیوم بنا رکھے ہیں ، ہماری ایک میک اپ کٹ ہے ۔ دوست سے سامنا ہوتے ہی فریقین پھرتی سے وہ دوستی کا کاسٹیوم پہن کر چہرے پر دوستی کا میک اپ تھوپ لیتے ہیں ، اور پھر دوستی کی اداکاری کرتے ہیں ۔ اس بال کی کھال انشاءاللہ کسی اور تحریر میں اتاروں گا ، ابھی تو میں آپ کو ایک دوست سے ملوانے لگا ہوں ۔ میک اپ ، گیٹ اپ ، اداکاری اور تکلفات سے عاری ایک سچا ، کھرا اور پر خلوص دوست ۔جس کی دوستی پر نہ اترانا کفرانِ نعمت ہے۔
نہ وہ کسی انجان سیارے کا ہے ، نہ ہی وہ ماورائی مخلوق ہے ۔
وہ اسی دھرتی کا انسان ہے۔
نہ وہ اقبال کا بندہ مومن ہے ، نہ غالبؔ کا مردِ آزاد ہے۔
نہ وہ میرے چاچے کا بیٹا ہے ، نہ خالہ زاد ہے ۔
پھوپھی تو میری کوئی ہے نہیں ، نہ ہی وہ میرے ماموں کی اولاد ہے ۔
اس کے سر پہ حاجیوں والا لال رومال ہے ، نہ ماتھے پہ محراب ہے ۔
ہے تو وہ عام سا مگر خاص الخاص ہے ۔
نہ تو ہم بچپن سے لنگوٹیا یار ہیں ، نہ ہی اردو محفل سے پہلے ہم کہیں ملے تھے۔
وہ لوگ با برکت خیال کیے جاتے ہیں جو رمضان شریف کے مقدس مہینے میں پیدا ہوں ، اور وہ تو اللہ کے پیارے سمجھے جاتے ہیں جو رمضان شریف میں ملک الموت کا شکار ہوجائیں ۔ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی اولاد کا نکاح رمضان شریف میں ہو ، تاکہ اس بندھن پر خدا کی رحمت سدا رہے ۔ تو پھر اس کو کیا نام دیا جائے کہ ہماری پہلی ملاقات اور پھر دوستی رمضان شریف کے با برکت مہینے میں ہوئی۔
سچ پوچھیں تو ہم دونوں کے وہم و گماں کے کسی کونے کھدرے میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ہم دوست بھی بن سکتے ہیں۔ میں دودھ کا جلا تھا اور چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا تھا ، اور ان کا دعویٰ تھا کہ سو پشت سے ہے پیشہ آباء سپہ گری۔ وہ تو اللہ بھلا کرے میری پیاری سی دوست پلس بہنا عشبہ کا ۔ جس کی تصویر انہوں نے اپنے اوتار کے طور پر سجا رکھی تھی ۔ اور وہ گپلو سا گل گوتھنا کاکا میرے متوجہ ہونے کا باعث بنا ۔(میں تعارف سے پہلے تک عشبہ کو لڑکا ہی سمجھتا رہا)۔ یوں بہانہ بنا ہماری ہیلو ہائے کا ۔ پتا چلا جناب اپنے ہی وسیب کے گبھرو جوان ہیں۔ مانو گویا پردیس میں گرائیں مل گیا ۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے دوستی کا تب تک بھی ہمارا کوئی ارادہ نہ تھا ۔ اور اللہ جانتا ہے مجھے واقعی نہیں معلوم کہ کب اور کیسے ہماری دوستی ہو گئی۔
ایک دن آن لائن ہوا تو سامنے کیفیت نامہ تھا ۔ حضرت الٹی گنتی گن رہے تھے ۔ مجھے بے حد ہنسی آئی ۔ میں سمجھا کہ روزہ لگ رہا ہے ۔ اور یوں(بقول اما نت چن) ہم ہنستے ہنستے کافی دور نکل آئے۔ حد تو یہ ہوئی کہ چھوٹے غالب نے اپنا پرسنل نمبر بھیج دیا اور اگلے ہی دن ایک بھاری بھرکم آواز سننا پڑی ۔ جیسی عمرو عیار کی کہانیوں میں دیوؤں کی ہوتی ہے۔ بس پھر کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے جاں ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر جانِ جاں ۔۔۔۔۔۔پھر۔۔۔۔۔ جانِ جاناں ہوگئے ۔
غالب کی طرح میرا بھی یہی خیال تھا کہ اب چھوٹے غالب کے علاوہ تخلیقیت کہیں رہ نہیں گئی ۔ مگر ایک دن جناب نے اپنے ایک مکالماتی کالم کا لنک بھیجا تو مجھے بے اختیار کہنا پڑا :۔ "دیا ہے خلق کو ، تا اسے نظر نہ لگے٭٭٭بنا ہے عیش تجمل حسین خان کیلئے"
اللہ جھوٹ نہ بلوائے اس کی معرکہ آرا تحریریں پڑھ کر مجھے جلن ہوتی ہی تھی ۔مگر جب ان کی زیارت ہوئی تو ان کی وجاہت بھی میرے سڑنے کا ایک اور سبب بن گئی۔ ظالم ہنستا ہے تو دل سے ایک آہ بذریعہ ٹھنڈی سانس نکلتی ہے کہ کاش اگر یہ لڑکی ہوتا تو میں ساری دنیا سے ڈوئل لڑ کر اسے اپنی جوگن بنا لیتا ۔ مگر ہائے ری پھوٹی قسمت ، موصوف ایک ہٹے کٹے مذکر ہیں اور(بقول انہی کے)"ایک خوش و خرم فیملی کے سربراہ ہیں"۔ سچ مچ مجھے اس کی ہنسی بہت پسند ہے ۔دنیا کا ایک پوشیدہ سچ یہ بھی ہے کہ علی عظمت کے بعد یہ دنیا کا دوسرا بندہ ہے جس کی آواز سن کر میرا ہائی سے ہائی بلڈ پریشر بھی خود بخود نارمل ہو جاتا ہے ۔ جب یہ ہنستا ہے تو پھر مجھے اپنا بخاریوں والا جلال بھول جاتا ہے ۔
اس کی اگر مختصر الفاظ میں تعریف کرنی ہو تو یہی ہوگی کہ " یہ دوست ہے(حقیقی معنوں میں)"
یہ دنیا کا سب سے پیارا دوست ہے ۔
میک اپ ، کاسٹیوم ، اداکاری ، اور ہر قسم کے مصنوعی پن سے عاری دوست۔
میں بہت سے لوگوں سے متاثر ہو جاتا ہوں ، میں بہت سے لوگوں کو پسند کرتا ہوں ، اور میں ان سے دوستی بھی کرنا چاہتا ہوں ۔ مگر حضرت امیر خسرو کی طرح میری دوستی ان کی قسمت میں نہیں لکھی تھی ۔ یا پھر میں ان کی دوستی کے لائق نہیں تھا ۔ اردو محفل پر یہ گمنام ملنگ بیٹھا تھا ، شاید اسی انتظار میں (اتنی سی خوش فہمی تو میرا حق ہے نا)اس نے بنا ہچکچائے میری دوستی کا پیالہ ایک ہی سانس میں اندر انڈیل لیا ۔ اور میں اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے ، جس نے مجھے اتنا پیارا دوست دیا ۔ دیر آید درست آید
میری جگہ اگر آنسہ محترمہ شبنم صاحبہ ہوتیں تو یقیناً کہتیں
میرا بابو چھیل چھبیلا میں تو ناچوں گی
میرا بلما رنگ رنگیلا ، میں تو ناچوں گی
اللہ تجھے پوچھے گا۔۔۔ یہ گنجفہ باز سے عنوان یہ کیسے ہوا۔۔۔ :(