محبت وہ موضوع ہے جس پر بلا تکان بولا اور لکھا جا سکتا ہے ۔ لمبی لمبی چھوڑنے کیلئے اس سے زیادہ بہتر کوئی موضوع شاید ہی دنیا میں ہو ۔فارسی کی ایک کہاوت ہے :۔ چوں کفر از کعبہ برخیزد ۔ کجا ماندمسلمانی"(جب کفر کعبہ سے ہی نکلنے لگے تو مسلمانی کہاں رہ گئی)اس لیے گھبرائیے مت ! کیونکہ چھوٹا غالب ہی اگر لمبی لمبی چھوڑنے لگ گیا تو "اندازِ بیاں اور"اس زمانے میں اور کہاں رہ جائے گا۔
محبت وہ کام ہے جو اللہ تعالیٰ بھی کرتا ہے اور انسانوں نے تو خیر ٹھیکہ لے رکھا ہے۔لیکن اللہ اور انسانوں کی محبت میں ہی نہیں محبت کے انداز میں بھی فرق ہے ۔اول تو انسانوں کو محبت نہیں بلکہ محبت کا وہم ہو تا ہے ۔بالفرض اگر کسی شیر پتر کو سچ مچ محبت ہو بھی جائے تو وہ سیپ کی طرح محبت کا یہ موتی اپنے اندر چھپائےرکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے ۔ محبت کا راز پردہ نشین کنواری کی طرح دل کی چار دیواری میں چھپائے رکھتا ہے ۔یہ مقدس راز شعور کے تہہ خانوں میں لپیٹ کر رکھتا ہے ۔صرف یہی نہیں بلکہ وہ محبوب کو بھی دنیا کی نظروں سے اوجھل کر دینا چاہتا ہے تاکہ اس کے علاوہ کوئی اور نہ اسے دیکھے ۔نہ ہی اس کی غیرت کو یہ گوارہ ہوتاہے کہ اس کے محبوب سے کوئی اور محبت کا دعویٰ کرے ۔
اس کے برعکس جب اللہ تعالیٰ کسی سے محبت کرتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ ساری دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں فلاں سے محبت کرتا ہوں ۔ نیز وہ چاہتا ہے کہ جس سے میں محبت کرتاہوں ساری دنیا کو چاہیے کہ اس سے محبت کرے۔مجھے اللہ کایہ انداز بہت پسند ہے ۔ لہذا سنتِ الہی کے اتباع میں ، میں اپنی کچھ محبوب ہستیوں کا ذکر کرنے لگا ہوں ۔ میں انہیں دوست رکھتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ ہر کوئی انہیں دوست رکھے ۔
سیانے کہا کرتے ہیں کہ آدمی کی پہچان کرنی ہو تو اس کے دوست دیکھو ۔ وہ کن لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا ہے ، کن لوگوں سے اس کی دوستی ہے اور وہ لوگ کیسے ہیں جو اسے دوست رکھتے ہیں۔میں سیانا تو نہیں مگر یہی بات اکثر استادِ محترم قبلہ غالب ِ اعظم کے مقام و مرتبے سے ناواقف لوگوں سے کہتا ہوں ۔ کہ بے شک غالب ؔ نے اپنی حقیقت پر خود ہی اتنے پردے ڈالے ہیں کہ ظاہر پرست بے چارے تو انہیں ایک مسلمان ماننے سے بھی ہچکچا جاتے ہیں۔ لیکن اگر ذرا سی عقل استعمال کرکے خان بہادر مرزا اسد اللہ بیگ غالب کے دوستوں کو دیکھ لیا جائے تو ان کا مقام و مرتبہ خود بخود سمجھ آ جاتا ہے ۔ جس انسان کے دوست شیخ نصیر الدین عرف کالے میاں ، مولا نا فضل حق خیر آبادی ،نواب مصطفے ٰ خان شیفتہ اور مفتی صدر الدین آزردہ وغیرہ جیسی شخصیات ہوں اور جس کے معتقدوں میں مولانا الطاف حسین حالی ، سر سید احمد خان اور سر علامہ محمد اقبال جیسی ہستیاں شامل ہوں ۔ تو صرف عقل کے اندھے ہی اس کی عظمت میں شک رکھیں گے۔
اسے خوش قسمتی کہیئے یا نسبت کا فیضان کہ فدوی کو بھی کچھ ایسے پُر خلوص اور قابل قدر دوست میسر آئے جن کی دوستی فدوی کی پہچان اور چھوٹے غالب کا طرہ امتیاز ہے۔محبوب اور دوستوں کے قصیدے پڑھنا کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن میرے دوستوں میں ایک ایسی انفرادی خصوصیت ہے جو کہ کم ہی کسی کے دوستوں میں ہو گی ۔یہ دوست مجھے انٹر نیٹ سے ملے ۔ فیس بک جسے اکثر دل جلے فیک بک کہتے ہیں، پر ہماری دوستی ہوئی۔ کمال یہ ہے ہم آج تک بالمشافہ نہیں ملے ۔ لیکن ان کے خلوص اور محبت کا یہ عالم ہے کہ جیسے ہم بچپن کے لنگوٹیے یار ہوں۔ اپنے ان پیارے دوستوں کی نذرشیخ سعدی کا ایک قطعہ جس کاایک ایک لفظ میرا ترجمان ہے ۔
گلے خوشبوئے در حمام روزے
رسید از دستِ محبوبے بدستم
بدو گفتم کہ مشکے یا عبیرے
کہ از بوئے دلآویز تو مستم
بگفتا من گلے نا چیز بودم
و لیکن مدتے با گل نشستم
جمالِ ہمنشیں بر من اثر کرد
وگرنہ اینہمہ خاکم کہ ہستم
شانی
شانی کا نام آتے ہی مجھے نظامی کا شعر یاد آ جاتا ہے
من عشق کافرم،او حسن کافر
چہ گبراں کافرے را می پرستند
پہلی بار جب میں موصوف پر متوجہ ہوا تب یہ "عشق بھلے شاہ شانی " ہوا کرتے تھے۔ایسے اوٹ پٹانگ نام والے لوگوں سے میں دور ہی رہتا ہوں ۔ لیکن ان کی فرینڈ ریکوئسٹ اس لیے قبول کی کیونکہ ان کی پروفائل پکچر پر اشفا ق احمد صاحب کی وہ خوبصورت تصویر آویزاں تھی جب آتش جواں تھا۔میری دلچسپی کا سبب یہ تھا کہ اشفاق احمد صاحب کی آخر عمرکی تصاویر تو ان کے اکثر پرستار لگاتے ہیں ، لیکن یہ کون ہے جو ان کو اتنا دورتک جانتا اور پسند کرتا ہے ۔خیر اس کے بعد کافی عرصہ تک ہم ایک دوسرے کی فرینڈ لسٹ میں پائے جانے کے علاوہ کچھ نہ تھے ۔
میں اس پنڈ کا پینڈو تھا ۔ جہاں انٹر نیٹ جیسی عیاشی کیلئے پی ٹی سی ایل وائرلیس کے منت ترلے کرنے پڑتے تھے ۔ جس کا قریبی ٹاور بھی مجھ سے کم ازکم14 کلومیٹر دور تھا ۔ مریل ٹٹو جیسی اس سپیڈ میں فیس بک کھولنے اور نوٹیفیکشن لسٹ دیکھتے دیکھتے بجلی کی رخصتی کا وقت ہو جاتا ۔ایک رات جب انٹر نیٹ کی سپیڈ 75کے بی فی سیکنڈ پائی تو بغلیں بجاتے ہوئے فیس بک پر کچھ تفصیلی دورہ کیا۔ معلوم ہوا کہ میں ایک گروپ "محفل ِ قلندر" میں شامل ہوں۔ محض تماشہ دیکھنے کیلئے میں نے گروپ کی وال کھولی ۔ دو چار پوسٹس سکرول کرنے کے بعد ایک پوسٹ پر میری بریکیں لگ گئیں۔سعادت حسن منٹو صاحب کی مدح میں ایک مضمون تھا ، چونکنا تو بنتا تھا ۔حیران ہو کرنام دیکھا کہ ایسا اعلیٰ ذوق کس ببر شیر کا ہے۔ تو مزید حیران ہونا پڑا کہ وہ پوسٹ کسی "عشق بھلے شاہ شانی " نے کی تھی ۔کچھ دیر خود کو بھی کوسا کہ اتنے اعلیٰ ذوق کا بندہ میری فرینڈ لسٹ میں ہے اور میں اس سے بے خبر رہا۔ اب تو علیک سلیک کرنی ہی پڑے گی ۔
یوں ہم بجا طور پر شکر اور فخر کر سکتے ہیں کہ ہماری دوستی کی گاڑی کو منٹو جیسی عظیم شخصیت نے دھکا لگا کر چلایا ۔یہ غالبؔ کی وجہ سے میرے قریب آئے میں اشفاق احمد صاحب کی وجہ سے ان کے قریب آیا اور منٹو کی وجہ سے ہماری دوستی شروع ہوئی ۔
دوستی کیا شروع ہوئی یوں سمجھیں مجھے شانی کا کینسر ہو گیا ۔ پہلے جاں ۔۔۔۔ پھر جانِ جاں۔۔۔۔ پھر جانِ جاناں ہوگئے ۔جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سرورِ کائنات ، فخرِ موجودات حضور نبی کریم ﷺ کی شان میں فرمایا ہے کہ " قسم ہے مجھے اس شہر کی کیونکہ اے پیارے رسول ﷺ آپ اس شہر میں موجود ہیں۔ "وہ جو میں نے رواروی میں فیس بک پر اپنا اکاؤنٹ کھول لیا تھا ۔ اب فیس بک پر ایسے کھنچا چلا آتا جیسے فیس بک پر آنا ثواب کا کام ہو۔ فیس بک پر اور غریب کا تھا ہی کون اک شانی کے سوا۔ رفتہ رفتہ چیٹ سے ہم فون پر آ گئے ۔ اس سے زیادہ کیا خلوص کی مثال ہو گی کہ یہ فون کالز بھی سراسر یک طرفہ تھیں۔ مجھے کنجوس نہیں معذور سمجھیے ، موصوف کا ڈیرہ ہی ابو ظہبی میں ہے اور یو فون کے سگنل کٹر پاکستانی کی طرح باہر نہیں جاتے ۔ موصوف ابو ظہبی میں بیٹھ کر گھنٹوں کال کیا کرتے ، اتنے تواتر سے کہ میری پیاری اماں جان کو شک ہو گیا کہ کوئی کلموہی میرے بچے کے پیچھے پڑی ہے ۔ صفائی کے سلسلے میں جب اماں جان کے گوش گزار کیا کہ شانی کوئی کلموہی نہیں بلکہ آپ کا ابو ظہبی والابیٹا ہے ، البتہ اس کی وجاہت کے سامنے آپ کا یہ بیٹا کلموہا نظر آتا ہے ۔ اماں کو یقین تو آ گیا مگر ان کو حیرانی اس بات پر تھی کہ آخر اس سلجھے ہوئے نیک بخت پوت کو تم جیسے نکمے سے بات کرکے کیا ملتا ہے ۔
چھوڑئیے اماں جان تو خیر پرانے وقتوں کی ہیں، مگر حد تو جانی (جہانگیر بدر عرف جانی) نے کر دی ۔ ایک دن اس کے ساتھ بیٹھا تھا کہ شانی کی کال آ گئی ، 24 منٹ کی کال کے بعد جب اسے مرعوب کرنے کیلئے بتایا کہ دیکھ لو بے قدر لوگو! مابدولت کو لوگ ابو ظہبی سے فون کرتے ہیں۔ اور ایک تم جیسے بھی دوست ہیں جنہیں پاکستان میں رہتے ہوئے بھی اللہ نے کبھی ایس ایم ایس کی توفیق نہیں دی۔ بجائے مرعوب ہونے کے اس نے کہا :۔ یار شانی کی شرافت اور بڑے پن کو سلام ہے جو تم جیسے لعنتی سے بات کیلئے اتنا وقت اور پیسے حرام کرتا ہے ۔ دل تو جل گیا مگر نواب سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کے ساتھ ہونے والی غداریوں کو یاد کر کے خود کو تسلی دے لی ۔
عشق سے مجھے نہیں معلوم ان کی کیا مراد ہے ۔ اور اس عشق سے ان کا کیا لینا دینا ہے جسے انہوں نے پرائس ٹیگ کی طرح اپنے ماتھے سے چپکا رکھا ہے ۔ کئی بار سمجھایا ارے اللہ کے بندے اگر اپنا نام لکھتے شرم آتی ہے تو کم از کم کوئی ڈیسنٹ اور اپنے حلیے جیسا باوقار قلمی نام رکھو۔ یہ کیساچھچھور پن لٹکا رکھا ہے ۔ ہمارے سرائیکی وسیب میں پرانے خیالات کے لوگ جب کوئی نئی ماڑی ( دو منزلہ یا اس سے بڑی عمارت ) بنواتے ہیں تو اچھی خاصی سجاوٹ ، زیب و زینت ، رنگ روغن کروانے کے بعد عمارت کی چھت کے ایک کونے میں کُنی (کالی ہنڈیا) رکھ دیتے ہیں۔ جو کہ اچھی خاصی خوبصورت عمارت کے ماتھے پر ایک عجیب سا داغ محسوس ہوتی رہتی ہے ۔ لیکن رکھنے والوں کا وہم ہے اس عمل سے ان کی نئی نویلی عمارت نظرِ بد سے محفوظ رہے گی ۔
صرف عمارتیں ہی کیا ۔ ایک ملک صاحب نے نیا ٹریکٹر لیا ۔ ایک دن کھیتوں میں ہل چلاتے مل گئے ۔ مجھے سلام کیا تو میں نے بھی لگے ہاتھوں نئے ٹریکٹر کی مبارک باد دی ۔ لشکارے مارتے ٹریکٹر کے سامنے ایک کھلا( جوتا) الٹا لٹک رہا تھا ۔ میں نے حیرانی سے پوچھا ملک صاحب یہ کیا تماشا ہے ۔؟ ہنس کے بولے بس سائیں نظر کیلئے باندھ رکھا ہے ۔ مائیں بھی اپنے بچوں کو نہلا کر یا جب بھی کوئی نئے کپڑے پہنائیں۔ سرمے کا ایک بڑا سا ٹیکہ ضرور لگا دیتی ہیں کہ میرے لعل کو کسی کی نظر نہ لگ جائے ۔ اسی سے مجھے شک ہوا کہ ہو نہ ہو اپنے نام(احسان الحق)اور خوبصورت شخصیت کو بدنظروں سے محفوظ رکھنے کیلئے شانی بابا نے عشق کو بطور ٹیکہ چپکا رکھا ہے ۔ ایک بار میں ہاتھ دھو کے ان کے پیچھے پڑ گیا کہ نام تبدیل کرو ۔ حضرت نے بہتیرے رسے تڑانے کی کوشش کی مگر میں نے ایک نہ چلنے دی ۔ آخر کار مان گئے کہ نام تبدیل کرنے لگا ہوں ۔ میں نے شکر ادا کیا اور جو منت مانی تھی وہ پوری کرنے دربار پہ گیا اور جب واپس آیا تو نام بدل چکا تھا ۔ مگر عشق کمینہ اب بھی ان سے نتھی تھا۔ میں نے ٹھنڈی آہ بھری اور مان لیا کہ اس عشق کا میں کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
آج تک شانی سے کبھی ملاقات تو نہیں ہو پائی اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اپنی ذاتی زندگی میں موصوف کیسے ہیں ۔؟ البتہ اتنے عرصے کی قربت اور دوستی کے حوالے سے یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ شانی سے زیادہ بیبا بندہ شاید ہی کوئی اور ہو۔ باقی سارے انسان تو مٹی سے بنے ہیں لیکن موصوف لگتا ہے محبت سے بنے ہیں ۔ اگر واقعی یہ انسان ہے اور بنا بھی مٹی سے ہے تب بھی اللہ نے شانی کا پتلا بناتے وقت اس مٹی میں برابر کے تناسب سے محبت بھی شامل کی ہوگی ۔ موصوف نہ صرف وجیہہ ہیں بلکہ مردانہ وجاہت کا شاہکار اور مجھ جیسے نظر وٹو لوگوں کے لیے احساسِ کمتری کا باعث ہیں۔ ان کی تصویر دیکھ کر یا ان کا ظاہری حلیہ دیکھ کر کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ یہ بندہ جتناخوبصورت نظر آ رہا ہے اندر سے یہ اس سے بھی کروڑوں گنا زیادہ پیارا ہو سکتا ہے۔
اگر شانی ایک پھل ہوتا تو یقیناً اخروٹ ہوتا۔اخروٹ باہر سے جتنا سخت ہوتا ہے اس سے کوئی انجان آدمی جس نے پہلے اخروٹ نہ دیکھا نہ سنا ہو ، سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس سخت روڑے کے اندر اتنا مزے دار مغز بھی ہو سکتا ہے ۔ لیکن اسی سخت نظر آنے والے اخروٹ کو جب توڑا جائے تو اندر سے اتنا نرم اور مزے دار گودا نکلتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔ اور جو یہ گودا کھا لے اس کی دماغی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ لیکن مزے کی بات یہ کہ اخروٹ توڑ کر اس کا سارا گودا نکالنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔اخروٹ کھانے کیلئے مناسب حکمت عملی ، اور صبر کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ جس کی جتنی ہمت اور جتنی استقامت ہوتی ہے وہ اخروٹ سے اتنا ہی گودا نکلنے کے بعد باقی کو چھلکا سمجھ کر پھینک دیتا ہے ۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اخروٹ کی افادیت بھی سمجھتے ہیں اور اخروٹ توڑ کر سارا گودا نکالنے کے فن سے آشنا ہوتے ہیں۔میرا یہ پیارا دوست بھی ایک اخروٹ ہے۔اس کے ظاہر پہ نہ جائیں۔ اس کے اندر اتنا نرم اور مزے دار مغز ہے کہ کم عقلوں کو عقلمند بنانے میں اکسیر ہے۔