تو شاہین ہے ، بسیرا کر۔۔۔۔۔۔
ہمارے ملک میں بہت سی چیزوں کا رواج ہے اور بہت سی "چیزوں "کا راج ہے ۔ایک رواج تو یہ ہے کہ جو شاعر نہیں ہیں وہ بھی شاعری کرتے ہیں ۔یہاں اتنی چیونٹیاں نہیں ہیں جتنے شاعر ہیں اور اوپر سے قیامت یہ کہ محبوب کو تشبیہات دیتے دیتے جانور بنا دیتے ہیں ۔ مثلا ً تمہارے ناک طوطے جیسی ، تمہاری آواز کوئل جیسی ، تمہاری چال مور جیسی وغیرہ وغیرہ۔ گویا اب محبوب کی تلاش میں چڑیا گھر کی سیر کرنی پڑے گی ۔۔۔ شاعر لوگ خود چاہے 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ سہتے رہیں ، مگر محبوب کی آنکھوں سے یوں بجلیاں گرواتے ہیں جیسے ہمارے ملک کی سب سے زیادہ بجلی محبوب کی آنکھوں سے حاصل ہو تی ہے ۔
ایک دن اپنے وارث مرزا بے غم کے سامنے شیخی بگھار رہے تھےکہ میں اپنی شاعری کے ذریعے دنیا میں آگ لگا سکتا ہوں ۔ آپا جی شاید پہلے ہی ان کی باتوں سے جلی بھنی بیٹھی تھیں، بولیں :۔ اچھا تو دو چار غزلیں چولہے میں بھی پھینک دیں ، گھنٹا ہونے کو آیا ہے مگر آگ نہیں جل رہی۔۔۔۔
میرےایک دوست بھی شاعر ہیں ۔ نہ صرف میٹرک پاس ہیں بلکہ بقول کرنل محمد خان:۔"اس کے علاوہ کچھ فالتو تعلیم بھی حاصل کر رکھی ہے" ۔ شاعری کا شوق پیدا ہوا تو کچھ گوگل کی مدد لی اورکچھ ادھر ادھر سے کتابیں حاصل کر کے بادل نخواستہ مطالعہ بھی کرنا پڑا تاکہ الفاظ کا ذخیرہ اکٹھا کر سکیں ۔ ایک دن جو میں نے دیکھاتو موصوف کچھ کا غذات کو ترازو میں رکھ کر تول رہے تھے ۔ میں بہت حیران ہوا اور سمجھا کہ شاید وہ یہ کاغذات ردی میں بیچنے کا ارادہ رکھتے ہوں گے مگر پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ اپنی شاعری کو وزن میں لا رہے ہیں ۔جب میں نے پوچھا کہ کتنا وزن ہے آپ کی شاعری کا ؟ تو بولے دو اعشاریہ آٹھ گرام ۔ اور ان کی اسی بات سے متاثر ہو کر انہیں علامہ اقبال ؒ کی نسبت سے" شاعرِ شمال مشرق" کا خطاب دے ڈالا۔
ایک دن اخبار میں اشتہار پڑھا کہ ملی نغموں کی شاعری کا مقابلہ ہو رہا ہے تو موصوف جو پہلے ہی موقعے کی تلاش میں تھے ، فوراً کاغذ قلم سنبھال کر ملی نغمہ لکھنے کیلئے تیار ہو گئے ، ذخیرہ الفاظ کی کمی کے پیش ِ نظر احتیاطاً اردو لغت بھی لائبریری سے لا کر اپنے پاس رکھ لی ۔ اردو لغت کے ذخیرہ الفاظ اور اپنی خداداد شاعرانہ صلاحیتوں کی مدد سے اپنے وطن کی شان میں پہلا مصرعہ کہا :۔
اے وطن تجھے نومی ہم بنائیں گے
میں نے نومی کا مطلب پوچھا تو فیروز اللغات میرے آگے کرتے ہوئے بولے کہ یہ دیکھو۔ اس کا مطلب ہے سونے والا ، اور میں اپنے وطن کو سونے چاندی سے لاد دینا چاہتا ہوں ۔ میں نے سمجھایا کہ نومی کا مطلب زیورات والا سونانہیں بلکہ آنکھیں بند کر کے سونے والا سونا ہے ۔ جیسے تم کمبل میں کچھوے کی طرح گردن چھپا کر سوئے رہتے ہو ۔ اس بات پر ذرا کھسیانے ہوئے اور مقابلے میں ملی نغمہ بھیجنے سے باز آئے ۔
ایک دن ان کے جی میں نجانے کیاسمائی کہ "شوہر کی شان" نامی ایک مزاحیہ نظم لکھی اور میرے سامنے ملاحظے اور داد کیلئے رکھی ، اور خود سینہ چوڑا کر کے یوں بیٹھ گئے جیسے نظم لکھ کر انہوں نے دنیا بھر کے شوہروں پر احسانِ عظیم کر دیا ہو ۔ میں نے حواس مجتمع کر کے ، جی کڑا کرکے نظم کا پہلا مصرعہ پڑھا:۔
چوپائیوں سے بھی بڑھ کے وفادار ہیں شوہر
میں نے پوچھا چوپائیوں سے تمہاری مرادکیا ہے؟ فرمانے لگے چوپایہ نامی ایک قوم تھی جس کی وفاداری ضرب المثل بن گئی ہے ۔ میرے دماغ میں ایک شرارت آئی ، میں نے کہا کہ اگر برا نہ مانو تو تمہیں ایک مشورہ دوں اگر چوپایہ کا مطلب وفادار ہے تو تم اپنا تخلص چوپایہ رکھ لو میری یہ تجویزاس وقت تو موصوف کو بہت پسند آئی مگر اگلے دن منہ بنایا ہوا تھا ، جو مجھے دیکھتے ہی اور بھی زیادہ بن گیا
یہ تو حسبِ عادت گپ بازی تھی ، جس کے بغیر میں رہ ہی نہیں سکتا، مگر سچ تو یہ ہے کہ بندہ بڑا باذوق ہے ۔
ہماری پہلی ملاقات شہزاد احمد کے تھریڈ پر ہوئی تھی ، اوراب ان کا کہنا ہے کہ "میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑتا ۔"
ایک دن نیٹ گردی کرنے کے دوران ان کے بلاگ پر بھی جا پہنچا ، دل خوش ہو گیا ، بہت زبردست بلاگ بنایا ہوا ہے ، صرف احمد فراز کی شاعری ہی نہیں بلکہ غالبؔ ، اقبالؔ کے علاوہ دیگر کلاسیکی اساتذہ کا کلام بھی زینتِ بلاگ ہے ۔ انہی جیسے لوگوں کیلئے شاید یہ محاورہ بنا تھا " ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات"
موصوف کم عمر ترین مگر فعال محفلین ہونے کے بھی دعویدار ہیں ۔ اس عمر میں جب لڑکے لڑاکیوں کے پیچھے کائیں کائیں کرتے پھرتے ہیں، علامہ اقبال کے یہ شاہین صاحب الف چاچو کے مدرسے میں فاعلاتن، فاعلات کرتےہوئے ملتے ہیں۔ ایک دن بکھرے بالوں کے ساتھ مل گئے، حا ل پوچھا تو بیزاری سے بولے :۔ تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں اور ہم بیزار بیٹھے ہیں۔میں بھلا کہاں ادھار رکھنے والا تھا، کہہ دیا :۔ ایسا تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
ایک دن خبر آئی کہ موصوف ونڈوز 8 کا بیڑہ غرق کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔یعنی کہ انسٹال کرنے کے چکر میں ہیں
اس کے بعد سے کوئی خبر نہیں
اللہ خیر کرے
بہت خوب۔ طنز کی کاٹ تیز ہے۔ جن چیونٹیوں کا ذکر ہوا، ان میں سے میں بھی ایک ہوں۔ مگر شکر ہے میرے پر نہیں نکلے۔ سو ابھی اڑنے کی کوشش نہیں کی۔
عجیب اتفاق ہے، مجھے بھی ایک ہونہار بروا نے اپنے بزرگ، شجرِ سایہ دارِفراز کے چکنے چکنے پات کھلانے کی کوشش کی تھی۔ مگر میں یہ کہہ کر بچ نکلا کہ چیونٹی ہوں، علم عروض کے خالق، اخفش مرحوم کی بکری نہیں، جو ساگ پات پر ہاتھ صاف کرے۔ (کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں، کہ عروض کا علم، اخفش نے نہیں، دراصل اس بکری نے ہی، وزن اور بحر میں جگالی کرتے ہوئے، ایجاد کیا تھا۔ اسی سے اخفش نے سرقہ کیا۔ واللہ اعلم باالصواب)۔