چچا ڈھکن قسط 2
چچا ڈھکن عجیب وغریب قسم پہلوان تھے۔ڈنٹر پیلنے اور بیٹھک نکالنے میں ان کا دور دور تک کوئی ثانی نہیں تھا۔ وہ کھڑے
کھڑے ہزار پانچ سو بیٹھک نکال لیتے تھےاور ذرا بھی نہیں تھکتے تھے۔ انہیں ورزش کرنے کے سینکڑوں طریقے معلوم تھے۔ وہ درخت کے ساتھ بندر کی طرح الٹا لٹک جاتے اور اس وقت تک لٹکے رہتے جب تک کہ شاخ ٹوٹ کر انہیں نیچے نہیں گرا دیتی ۔ نزدیک و دور کوئی درخت نہ ہوتا تو گھر کی چوکھٹ کے ساتھ لٹک جاتے ۔ چونکہ پرلے درجے کے بھلکڑ تھےاس لیے اکثر نیچے اترنا بھول جاتے تھےاور اس وقت تک لٹکے رہتے جب تک کہ ان کی بیگم ان کی پیٹھ پر جھاڑو مار کر انہیں نیچے اترنے کا حکم صادر نہیں کرتی۔
ایک بار جب انہیں لٹکےہوئے کافی دیر ہو گئی تو ان کے اہلِ خانہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ وہ یہ سمجھے کہ خدانخواستہ انتقال فرما رہے ہیں مگر چند ہی لمحات کے بعد وہ دھڑام سے نیچے آگئے ، ان کے ساتھ چوکھٹ بھی چرچرا کر ٹوٹ گئی ۔ اس حادثے میں ایک مرغی نیچے آ کر جاں بحق ہو گئی جب کہ دو چوزے اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھے۔
کبھی زیادہ جوش میں آجاتے تو گھنتوں تک مرغا بنے رہتے ۔ اس دوران وہ اپنے بچوں کو پیٹھ پر سوار کرادیتے اور انہیں زور زور سے اچھلنے کی تلقین کرتے ۔ اس طرح وہ اپنی طاقت اور حوصلے کی آزمائش کرتے ۔ جب اکھاڑے میں مصروفِ ورزش ہوتے تو پیٹھ پر چکی کا پاٹ رکھوا دیتے اور اس پر دو شاگرد بٹھا دیتے ۔ یہ عمل کافی دیر تک جاری رہتا حتیٰ کہ ان کی پیٹھ پر انٹار کٹکا کا نقشہ ابھر آتا ۔
انہیں اکھاڑہ کھودنے کا بھی بے حد شوق تھا۔ وہ صبح سویرے جسم کو تیل سے چپڑ کر تیار ہوجاتے اور کسی لے کر اکھاڑے میں گھس جاتےاور لگڑ بگڑکی طرح زمین کھودنا شروع کر دیتے۔ دیکھنے والےیہ سمجھتے کہ شاید ان کی انگوٹھی گم ہو گئی ہےجسے وہ مٹی میں تلاش کر رہے ہیں ۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ وہ اکھاڑے میں اوندھے لیٹ جاتے اور دو تین شاگردوں کو حکم دیتے کہ وہ انہیں سیدھا کر کے دکھائیں اور مٹھائی کے حقدار بن جائیں ۔ شاگرد بے چارے جلیبیوں کے لالچ میں اپنی پوری طاقت صرف کر دیتےمگر انہیں سیدھا کرنے میں ناکام رہتے۔
دراصل یہ ان کا خاص داؤ تھا جس کا وہ اکثر مظاہرہ کرتے رہتے تھےتاکہ دوسروں پر اپنی پہلوانی کا رعب جمایا جا سکے۔ ان کی ایک اور خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اسقدر ورزش اور جان ماری کے بعد نہ تو مرغ یا بکرے کی یخنی پیتے تھے، نہ ہی مکھن بادام کا استعمال کرتے تھےبلکہ قریبی ہوٹل سے کڑک چائے کی ایک چینک منگوا کر پی لیتے تھے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ دودھ ، مکھن اور بادام وغیرہ انسان کو سست بنا دیتے ہیں جبکہ چائے پی کر انسان کی بیٹری چارج ہو جاتی ہے اور اس کی رگ رگ میں کرنٹ دوڑ جاتا ہے ۔ انہوں نےچائے کے بارے میں ایک شعر بھی گھڑ رکھا تھا:۔
ہر مرض کی دوا ہے، ہر درد کو بھگائے
وہ صف شکن بنیں گےپیتے رہے جو چائے
چچاڈھکن یاروں کے یار تھے۔ ان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتےتھے۔ ایک بار ان کو اپنے ایک غریب محلے دار کی طرف سے شادی میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا ۔ چونکہ بارات کو ایک گاؤں میں جانا تھا۔ اس لیے بارتیوں کے لیے تانگوں کا انتظام کیا گیا تھا جب کہ عام افراد کیلئے گدھا گاڑیوں کا بندوبست کیا گیا ۔ اس موقع پر انہیں ایک سجے سجائے تانگے کی فرنٹ سیٹ پر بٹھایا گیا اس وقت انہوں نے سرگودھا کا لاچہ باندھ رکھا تھا جب کہ تن پر ڈھاکہ کی ململ کا کرتہ موجود تھا ، علاوہ ازیں انہوں نے اپنی پہلوانی شان کو برقرار رکھتے ہوئے سر پر ستاروں کی جھلمل کرتا ہوا صافہ باندھ رکھا تھا۔
جب یہ بارات گاؤں کے بارڈر پر پہنچی تو آوارہ کتوں کے جھرمٹ نے بھونک بھونک کر ان کا ولہانہ استقبال کیا ۔ یہ خیر مقدم اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ بارات دلہن کے دروازے پر نہیں پہنچ گئی ۔ یہ صورت حالات دیکھ کرگاؤں والوں نے ان پر لاٹھی چارج شروع کردیا جس سے ٹیڑھی دم والوں میں کھلبلی مچ گئی اور وہ الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس موقع پر چچا ڈھکن نے بھی اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔انہوں نے ایک کتے کو جو بھونکنے میں پیش پیش تھا اور اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا تھا دم سے پکڑا اور اسے یوں اوپر اٹھا لیا کہ جیسے ویٹ لفٹر وزن کو اوپر اٹھا تےہیں ، انہوں نےاسے بجلی کے پنکھے کی طرح گھمایا اور زور سے زمین پر دے مارا ۔ اس پر کتوں کا گروہ خوفزدہ ہو گیا اور وہ دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ تمام ناظرین جنہوں نے یہ خوبصورت منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تالیاں بجا کر انہیں داد دی
جب دلہن کی رخصتی کا وقت آیا تو ایک نئی افتاد کھڑی ہو گئی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جب تک بارات کا کوئی آدمی ان کےگاؤں کے پہلوان سے کشتی نہیں لڑے گا ، دلہن ڈولی پر سوار نہیں ہوگی کیونکہ یہاں کا یہی دستور ہے۔یہ نامعقول شرط سن کر لڑکے والوں کے منہ لٹک گئےاور گھٹنوں کے ساتھ جا لگے۔ انہوں نے فوراً سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا تاکہ اس نئی صورتِ حال پر غور کیا جاسکے ۔ بچت کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھیکہ اچانک امید کی ایک کرن چمک اٹھی۔ حسنِ اتفاق سے بارات میں ایک شوخا پہلوان بھی موجود تھا جو کہ ذات کا موچی تھا مگر آج کل تانگہ چلا رہا تھا۔ اس نے سینے پر چابک مار کر کہا کہ وہ دیہاتی پہلوان کا مقابلہ رے گا اور اسے شکستِ فاش دے گا۔ یہ بڑھک سن کر بڑوں کے تھوبڑوں پر ہریالی آگئی ۔ چنانچہ میدان فوراً سجا دیا گیا۔ رستمِ پنڈ ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالتا ہوا نمودار ہوا اور اسپین کے لڑاکا بیل کی طرح میدان میں اچھلنے کودنے لگا ، ادھر باراتی پہلوان بھی خم ٹھونک کر میدان میں آگیا اور زور وشور سے بھنگرہ ڈالنے لگا ۔ جب دونوں پہلوانوں کی بیٹریاں گرم ہو گئیں تو دو توندوں والے منصف نے دونوں پہلوانوں کا ہاتھ پکڑا اور انہین ایک دوسرے کے ساتھ بھڑا دیا اور خود مینڈک کی طرح پھدک کر ایک طرف ہو گیا ۔ دیہاتی پہلواننےشہری پہلوان کو جپھہ ڈالا اور اسے یوں اوپر اٹھا لیا جیسے الو چوہے کو اٹھا تا ہے، اور اسے زور سے زمین پر دے مارا۔ وہ زمین پر گرااور ڈھیر ہو گیا ۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کہ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
ریفری نے ایک دس تک گنتی گنی کیونکہ اسے اس سے آگے گنتی نہیں آتی تھی مگر اس مردود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے اسے زمین کے ساتھ ملا دیا ہو ، چنانچہ اس نےمدمقابل کی فتح کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ۔ اس اعلان کے ساتھ ہی گاؤں والوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئیاور وہ زور زور سے سیٹیاں بجانے لگے۔ اس شرمناک ہار نے باراتیوں کے سر شرم سے جھکا دئیےاور وہ بغلیں جھانکنے لگے، خاص طور پر دولہا کی حالت تو دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے منہ پرسوا بارہ بج رہے تھے۔یہ منظر دیکھ کر چچا ڈھکن کا خون جوش میں آگیا ، انہوں نے دولہا اینڈ کمپنی کو تسلی دی کہ وہ فکر نہ کریں ، سب ٹھیک ہو جائے گا کہ ہم ہیں تو کیا غم ہے۔انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ وہ اس پہلوان سے مقابلہ کریں گے اور اسے پچھاڑ کر نہ صرف اپنے شہر کا نام روشن کریں گے بلکہ ان کی پگ کا شملہ ، شملہ پہاڑی سے بھی اونچا کر دیں گے۔یہ بات سن کر سب نہال ہو گئے اور ہاتھ اٹھا کر ان کی کامیابی کی دعائیں کرنے لگے۔
چنانچہ فوراً مقابلے کاا علان کر دیا گیا ۔ چچا ڈھکن نےمقابلے سے پہلے پکرے کی بھنی ہوئی ران لانے کا حکم دیا ، کچھ دیر میں ان کی یہ فرمائش پوری کر دی گئی ۔ وہ ران کو کندھے پر رکھ کر میدان میں اترے اور کوہ قاف کے جن کی طرح زور زور سے قہقہے لگانے لگے ۔ اس کے ساتھ ہی وہ ران کو بھی بھنبھوڑتے جاتے ۔ مد مقابل نے جب ان کا یہ وحشیانہ انداز دیکھاتو وہ کچھ گھبرا سا گیا اور سوچنے لگا کہ اس کا پالا کس بلا سے پڑ گیا ہے۔ دریں اثنا منصف نے کالے انجن کی طرح منہ سے سیٹی بجائی اور دونوں پہلوانوں کو قائم ہونے کا اشارہ کیا ۔ ب یہ عمل مکمل ہو گیا تو اس نے جیب سے ہرا رومال نکال کر ہوا میں لہرا دیا ، یہ گویا مقابلے کے آغاز کا سگنل تھا ۔
دونوں پہلوان گتھم گتھا ہوگئے، دیہاتی پہلوان نے ایک بار پھر وہی داؤ آزمانے کی کوشش کی جو کہ ناکام پہلوان پر آزمایا جا چکا تھامگر چچا نے اسے ایسا کرنے کی مہلت ہی نہ دی ۔ انہوں نے اسے کمر سے پکڑا اور اس پر مچھلی غوطہ کا داؤ آزمایا جس سے وہ لڑکھڑا کر نیچے گر پڑا ۔ چچا پھدک کر اس کے سینے پر سوار ہو گئے، اس پر پہلوان کو تاؤ آ گیا ، اس نے کتے کی طرح ان کے ہاتھ اپنے دانت گاڑ دئیے ۔ اس سے پہلے کہ وہ ان کی انگلیان چبا ڈالتا ، انہوں نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ آزاد کرا لیا۔ ان کی دو انگلیاں کافی زخمی ہو گئی تھیں کیونکہ اس آدم خور نے انہیں کاٹ کھایا تھا ۔ ادھر چچا ڈھکن اپنی انگلیاں چیک کرنے میں مصروف تھے کہ وہ گینڈے کی طرح دوڑتا ہوا آیا اور اپنی کہنی سے ان کے سر پر ضرب لگانے کی کوشش کی مگر وہ بھی افیون کھا کر نہیں آئے ہوئے تھے، وہ ارنے بھینسے کی طرح ڈکرائے اور اسے ایسی زوردار فلائنگ کک ماری کہ وہ منہ کے بل گرا اور زمین کے اندر دھنس گیا ۔ بس پھر کیا تھا ، وہ کود کر اس کی چھاتی پر سوار ہو گئے ۔ ان کا ارادہ وہاں پر مونگ دلنے کا تھا مگر دال بروقت میسر نہ آنے کی وجہ سے وہ اپنے ارادے سے باز آگئے ۔انہوں ے اس کی گردن کواپنی آہنی گرفت میں لیا اور اس کا ناپ لینے لگے س عمل سے وہ بے بس ہو گیا ۔ اس نے مزید ذلالت سے بچنے کیلئے اپنا ہاتھ فضا میں بلند کر دیا اور اس طرح اپنی شکست تسلیم کر لی۔ چنانچہ منصف نے ان کے نام کا ڈنکا بجا دیا اور اس عظیم الشان فتح پر مبارکباد دی ۔
(جاری ہے)
0 آرا:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔آپ کی قیمتی آرا کا منتظر
فدوی چھوٹا غالب
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔