بانو آپا کے گرد پہلا حلقہ خواتین کا تھا، جن میں بانو آپا کے دائیں طرف سرخ شال میں لپٹی معروف ڈریس ڈیزائنرمحترمہ عشرت صاحبہ زلفِ سیاہ (اپنے ہی )شانوں پہ پریشاں کیے ہوئے بیٹھی تھیں، محاورتاً نہیں حقیقتاً کالی ناگن جیسی یہ زلفیں دیکھ کر مجھے اپنے ماضی قریب کے گھور سیاہ بال یاد آگئے جن میں اب بزرگی کی سفید لہریں دوڑتی پھرتی ہیں۔عشرت صاحبہ کی دوست سمیرا صاحبہ کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی شعبہ اردو کی چند طالبات چہرہ فروغ غازے سے گلستان کیے ہوئے بیٹھی تھیں۔ دعاتو بڑے غالب نے کی تھی ، لیکن دیوانی مقدمے کی طرح اس دعا کی قبولیت کا فیصلہ آنے تک بڑے غالب اس دنیا سے جا اور چھوٹا غالب آ چکا تھا۔ پس استاد ِ محترم کی یہ
چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمہ سے تیز دشنہ ء ِ مژگاں کیے ہوئے
والی آرزو جوگی کے جوگ کا متحان بنی رہی۔ اور
دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے
والا معاملہ درپیش رہا۔ اگر پہلوان لنگوٹ کے پکے ہونے پر فخر کرتے ہیں تو جوگی بھی جوگ کا پکا نکلا، یا شاید بزمِ بانو آپا کے آداب مانعِ رہے۔ بہرحال جو کچھ بھی ہو، اب میں ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتا ہوں کہ
اس بزم میں مجھے ، نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا ۔۔۔اگرچہ حملے ہوا کیے
(شعر کو اس کی اصلی صورت میں یعنی "حملے " کی جگہ "اشارے" بھی پڑھا جا سکتا ہے ، لیکن لفظ"حملے" صورتِ حال کی خوب وضاحت کرتا ہے)
اور ان کے بعد مردانہ حلقہ تھا ، جس میں طلباء سمیت چند ادیب حضرات (جن سے میں تا وقت ِ برخاستن ناواقف ہی رہا) شامل تھے۔ افی صاحب نے اسی دوران اپنی جگہ پہ بیٹھے بیٹھے میری تصویریں بنا لیں۔
سوالات کا سلسلہ چل رہا تھا ،اور نہایت ہی بچگانہ اورخواہ مخواہ قسم کے سوالات پوچھے جا رہے تھے ۔ ایک دو صاحبان تو سوال پوچھنے کے بہانے دراصل اپنی علمیت جھاڑنے میں مصروف تھے۔ اس کے علاوہ اشفاق احمد صاحب اور بانو آپا جی کی کتب میں لکھی ہوئی باتوں کو دوبارہ سوالیہ انداز میں پوچھا جا رہا تھا ۔ایسا لگا جیسے سوال پوچھنے والے دراصل بانو آپا کی یاداشت کا امتحان لینے آئے بیٹھے ہیں کہ آپا جی نے فلاں کتاب میں جو یہ بات لکھی ہے تو کیا اس عمر میں بھی ان کو وہ بات یاد ہے یا نہیں۔ جیسا کہ ایک صاحبہ نے پوچھا کہ بعض گداگر جو کہ مستحق بھی نہیں لگتے ، بلکہ ہٹے کٹے بھی ہوتے ہیں ، کیا انہیں خیرات دینی چاہیے۔؟ اور مجھے اچھی طرح یاد ہے اس کا تسلی بخش اور شافی جواب اشفاق احمد صاحب اپنے ایک مضمون "ہاتھ کا دیا" میں دے چکے ہیں۔ جس میں انہوں نے اپنے بابا جی کا ایک جملہ "دتے وچوں دتا ای ناں" کے حوالے سے اس بات کی بہت زبردست وضاحت فرمائی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان محترمہ نے "زاویہ" میں سے پڑھ کے ہی یہ سوال تیار کیا ہوگا کہ دیکھتے ہیں بانو آپا کا اس بارے میں کیا مؤقف ہے۔ اور بانو آپا کا عین وہی جواب تھا جو اشفاق احمد صاحب برسوں پہلے دے چکے ہیں۔
اس کے علاوہ بار بار گھما پھرا کے الفاظ کے معمولی ہیر پھیر کے ساتھ ایک ہی سوال ہو رہا تھا کہ "آپا جی محبت کیا ہے؟" دوسرا پوچھتا"آپا جی عشق کیا ہے؟" اب تیسرا پوچھتا"عشق کی انتہا کیا ہے" اب چوتھا پوچھتا کہ" محبت اور عشق میں فرق کیا ہے؟" جیسے لوہارچھری یا کلہاڑی کی دھارکو پتھر کی سل پہ بار بار گِھسا گِھسا کراس کے دھار تیز کررہے ہوتے ہیں ، بالکل اسی طرح حاضرین بھی شایدعشق و محبت کی تلوارکی دھار تیزکرنے کے درپے تھے۔
آپا جی کے صبر و تحمل اور اعلیٰ ظرفی کے صدقے جاؤں ، جن کے ماتھے پہ نہ تو کوئی شکن پڑی، نہ انہوں نے کسی سوال کا جواب اکتائے ہوئے انداز میں دیا، نہ ہی کسی کو یہ جتایا کہ بیٹا یہ سوال تو تمہارے سامنے کئی بار پوچھا اور جوابا جا چکا ہے ، پھر بھی اسی کو پوچھنے کا کیا مطلب ہے۔؟
ان فضول سوالوں سے قطع نظر آپا جی نے ایک بہت ہی زبردست بات بیان فرمائی ۔" زندہ رہنا چاہتے ہیں تو محبت کریں۔ جب بھی کریں محبت کریں ، عشق نہ کریں۔ کیونکہ محبت زندہ رکھتی ہے ۔ عشق جلا دیتا ہے۔"
میرے جی میں آیا کہ میں بھی ایک سوال پوچھوں ۔ مگر کیا پوچھوں ؟یہ معلوم نہیں تھا۔ جب آپا جی کی باتوں کا رخ انسان اور انسانیت کی جانب مڑا تو میرے دماغ میں فوراً سوال آیا اور میں نے کھڑے ہو کر سوال پوچھ بھی لیا۔
اس وقت سب لوگ اپنی اپنی جگہ بیٹھےبیٹھے ہی سوال پوچھ رہے تھے ۔ جبکہ میں نے کھڑۓے ہو کر سوال پوچھا ، تو کچھ لوگوں نے مجھے استہزائیہ انداز میں دیکھا جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ رہے ہوں"پینڈو ، پینڈو ہی رہتے ہیں" کوئی اور فورم ہوتا یا محفل ہوتی تو کھڑی ہوتی تھی میری بلا۔۔۔۔ اگر ہم کلاس میں ایک عام سے ٹیچر کے سامنے کھڑے ہو کر سوال اور جواب پوچھ سکتے ہیں تو کیا بانو آپا جیسی عظیم ہستی کے احترام کھڑے ہونے سے گوڈے گٹے گھِس جاتے۔
میرا سوال تھا کہ " غالب فرماتے ہیں:۔ آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا۔ آپ کے خیال میں انسان اور آدمی میں کیا فرق ہو سکتا ہے ، جو غالب نے انسان اور آدمی میں ایک حدِ فاصل قائم کر دی ہے۔؟"
اور جواب میں بانو آپا نے چند لفظوں میں یہ گتھی سلجھا کے مجھے سر دھننے پہ مجبور کر دیا۔ آپ نے فرمایا :۔ " بیٹا!! انسان وہ ہے جو اللہ کی مانتا ہے ۔ آدمی وہ ہے جو اللہ کی بجائے اپنی مانتا ہے۔"
اس دوران اشفاق احمد صاحب کے صاحبزادے اثیر احمد خان اندر تشریف لے آئے ۔ آپ اشفاق احمد صاحب کے ہمشکل بھی ہیں۔ یوں لگا جیسے اشفاق صاحب کو جوانی میں دیکھ رہا ہوں۔ افی صاحب نے ان سے میرا تعارف کروایا اور انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا ۔ پھر میرے ساتھ ہی بیٹھ گئے ۔ کچھ دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ"شور برپا ہے "میری جیکٹ کی جیب میں ۔ جیب میں ہاتھ ڈالا تو پتا چلا کہ "گھنٹی بج رہی ہے ابھی"۔ محفل سے اٹھ کے ڈائننگ روم میں چلا گیا اور کال اٹنڈ کی۔ پتا چلا کہ میرے داستان سرائے آنے کی خبر ملتان تک بھی پہنچ چکی ہے ۔ ان سے جان چھڑائی کہ آپ کو واپسی پر ساری روداد سنا دوں گا۔اور یہ موبائل بھی بند کر کے جیب میں ڈال لیا ، مبادا کوئی اور مخل ہو۔
تھوڑی دیر بعد میں نے افی صاحب کوبھی موبائل کان سے لگائے باہر نکلتے دیکھا۔ لیکن اس وقت چونکہ میری توجہ بانو آپا کی طرف تھی اس لیے زیادہ غور نہ کیا۔ اور ایک سوال جس کو بہت چچوڑ چچوڑ کےبار بار الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ پوچھا جا رہا تھا "صبر کیا ہے؟"
آپا جی نے نہایت تسلی بخش اور سادہ سا جواب دیا:۔ " اللہ کی رضا پہ دل سے راضی ہو جانا صبر ہے۔" اس جواب میں نہ کوئی ابہام ہے نہ کوئی پیچیدگی، لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں پطرس کے مشہورِ زمانہ مضمون "کتے" کے ایک منظر "اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جو غصہ آیا، ایک حلوائی کے چولہے میں سے باہر لپکے اور بھنا کے پوری غزل مقطع تک کہہ گئے۔ " کی طرح کچھ صاحبان کے اندرونی چولہے سےکچھ کہنہ مشق۔۔۔۔۔ برآمد ہوئے اور آپا جی کے جواب میں نیبو نچوڑ کے عالمانہ جواب گھڑنے لگے۔
جب دو تین "کہنہ مشق استاد" صبر کا بیان کر چکے تو ایک اور صاحب جوشاید سب کے تھکنے کے انتظار میں بیٹھے تھے ، گویا ہوئے "آپا جی!! ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے میری والدہ محترمہ کی وفات ہوئی۔ میرے والد صاحب کو تو میں نے نہیں دیکھا کیونکہ میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی وہ وفات پا چکے تھے، اس لیے آپ سمجھ سکتی ہیں کہ میں والدہ سے کتنا قریب تھا۔ میرے لیے دنیا میں بس وہی ایک سہارا تھیں۔ ان کی وفات پر آنے والےسب رشتے دار اور میرے دوست احباب مجھے ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ "صبر کرو۔" ، "صبر سے کام لو۔" وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ سب صبر کرنے کا تو کہہ رہے تھے مگر مجھے یہ کوئی یہ نہیں سمجھا رہا تھا کہ صبر ہے کیا؟ اور میں کیسے صبر کروں۔؟"
اندازہ فرمائیے !
آپا جی اس سے پہلے ہی جواب دے چکی ہیں کہ"اللہ کی رضا پہ دل سے راضی ہو جانا صبر ہے" اس کے بعد بھی ایسا سوال آجائے ۔ وہ بھی ایک اچھی خاصی عمر کے بظاہر مہذب اور سوٹڈ بوٹڈ معقول نظر آنے والے ایک صاحب کی طرف سے ۔۔۔
حیراں ہوں گال کو پیٹوں کہ کُوٹوں سر کو میں
اس پرایک بار پھر صبر پر بھانت بھانت کی وضاحتیں آنے لگیں ، اور مجھے گلستان سعدی کی وہ حکایت یاد آ گئی ۔ جس میں ایک گمنام درویش مسافر ،قاضی کی مجلس میں آیا جہاں کسی مسئلے پر بحث ہو رہی تھی اور علما ء کرام علم کے دریا بہا، زمین پہ مکے برسااور منہ سے جھاگ اڑا رہے تھے لیکن مسئلہ تھا کہ کسی طور بھی حل ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔
اس وقت بھی میرے سامنے قریب قریب ویسی ہی صورت حال تھی ۔ آپا جی کا ادب مانع تھا ورنہ کچھ بعید نہ تھا کہ زمین پہ مکے برسنے اور منہ سے جھاگ اڑنے والی کسر بھی باقی نہ رہ گئی ہوتی۔اس بار بھی جب سب بولنے والے بول چکے تھے تو سائل صاحب خود ہی بڑے عالمانہ انداز میں آپا جی سے مخاطب ہوئے:۔"آپا جی !! جہاں تک میں سمجھا ہوں ۔ صبر یہ ہے کہ بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی معاف کر دینا صبر ہے ۔"توکئی طرف سے صبر کی اس تعریف کے حق میں تائیدی بیان داغے گئے۔ یہ تعریف جزوی طور پر تو ٹھیک کہی جا سکتی ہے مگر اسے صبر کی یونیورسل تعریف ہر گز نہیں کہا جا سکتا ۔ اور آپا جی والی صبر کی تعریف سے تو اس بچگانہ تعریف کا موازنہ قطعاً مناسب نہیں۔ لیکن جو تائیدی بیان اس کے حق میں آ رہے تھے اُنہیں سن کر تو ناطقہ سر بگریباں تھا کہ اِنہیں کیا کہیے۔؟
آخر کار میں نے بھی میدان میں کود کر ان صاحب کو دھوبی پٹڑے مارنے کا ارادہ کیا اور ان سے مخاطب ہوا:۔ "معاف کیجئے سر!! آپ کی وضع کردہ تعریف میں نہ صرف ابہامیہ سقم ہیں بلکہ اچھی خاصی کنفیوژن ہے۔" موصوف نے اس تنقیدی توپ کے داغے جانے پر چیں بجبیں ہو کر پہلو بدلا اور دوبارہ وہی بین بجانے ہی لگےتھے کہ میں نے ٹوک دیا:۔"سر ! آپ کی تعریف کے مطابق مدعی نے مدعا علیہ سے بدلہ لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود مدعا علیہ کو معاف کر دیا تو آپ نے اس صبر کرنا کہا۔ اس صورت میں فریقین انسان ہیں یعنی مدعی بھی اور مدعا علیہ بھی ۔اس لیے آپ کی وضع کردہ تعریف سے گزارہ ہو گیا۔ لیکن جو پس منظر آپ نے سنایا یعنی اپنی والدہ کی وفات والا ۔ اس کی روشنی میں آپ اپنی وضع کردہ تعریف کے مطابق کیسے صبر کریں گے یعنی کسے صبر کہیں گے؟؟
وہ میرا سوال سمجھے بغیربولے :۔ آپ غلط سمجھے، میں موت کی بات نہیں کر رہا۔"
میں نے اگلی پٹخنی دی:۔ یہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ موت کو تو میں نے ایک مثال کے طور پر کہا، موت کے علاوہ کسی بھی ناگہانی آفت کی صورت میں آپ کسے صبر کہیں گے؟ کیونکہ اس صورت میں فریقین میں سے مدعی انسان اور مدعا علیہ قدرت ہوگی ۔اب آپ اس صورت میں اس تعریف سے کیسے کام چلائیں گے ؟
اس وقت وہاں موجود حاضرین میں حلیے کے لحاظ سے یہ خاکسارنہ صرف اول درجے کا جاہل اور پینڈو نظر آ رہا تھا ۔ بلکہ کسی کو مجھ سے ایسی منطقی پخ کی امید بھی نہیں تھی ۔ اس لیے کچھ ثانیوں کیلئے توحاضرین کو میرے حلیے اور میرے سوال کی نامطابقتی پر حیرانی کے مارے سکتہ سا رہا۔
ان صاحب کو تو اندازہ بھی نہیں تھا کہ آگے میں انہیں کون کون سی پٹخنیاں دینے والا ہوں، اس لیے آئیں بائیں شائیں کرنے ہی لگے تھے کہ جناب اثیر احمد خان صاحب جو میرا سوال اور اعتراض اچھی طرح سمجھ چکے تھے ، ان صاحب کو پیش آمدہ خفت سے بچانے یا کسی ممکنہ بدمزگی سے بچنے کیلئے بیچ میں بولے باقی سب باتیں کھانے کے بعد کریں گے۔ ابھی کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے ۔ چل کے کھانا کھا لیتے ہیں۔
(ان کی تعریف کے مطابق وہ اپنی والدہ کی وفات پر صبر کیسے کرتے ؟ کیونکہ نہ تو ان میں عزرائیل علیہ السلام یا اللہ تعالی سے بدلہ لینے کی طاقت تھی ، نہ ہی اتنی حیثیت یا اوقات تھی بلکہ ان ہی کی کیا کسی بھی انسان کی کیا اوقات کہ وہ کہے کہ میں نےاللہ تعالیٰ کو فلاں آفت آنے یا کسی عزیز کے وفات پانے پر نعوذ باللہ معاف کیا۔۔
سب سے بہترین اور یونیورسل تعریف آپا جی نے فرمائی تھی کہ "اللہ تعالیٰ کی رضا پہ دل سے راضی ہوجانا صبر ہے۔")
bohat nice....bano Aapa ki sabar k mutalaq sirf aik baat...kamyabi ka rasta ....aur admi aur insan ka farq bohat hee khob...