Pak Urdu Installer

Monday, 31 December 2012

ماسٹر ٹوپی

1 آرا




چپٹی ناک، بڑی بڑی آنکھیں ، کالے کالے ہونٹ ،  پچکے گال ، بڑھتا ہوا پیٹ اور سب سے خاص بات بالوں سے فارغ  یعنی فارغ البال ۔ اس ٹنڈ نما تماشے کو شہر کے سبھی لوگ ماسٹر ٹوپی  کے نام سے جانتے ہیں ۔۔۔۔۔حالانکہ ان کا اصل نام نادرا میں بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا ۔ ان کے آباو اجداد نے بھی بہت کوشش کی اور سخت محنت کے بعد ان موصوف کو ماسٹر  شوقی کا نام دیا گیا ، لیکن لوگ بے وفا ہیں  ، انہیں ماضی اور مستقبل سے کیا غرض ؟ وہ تو حال کے دیوانے ہیں ، اور حال کے قرائن یہی بتاتے ہیں  کہ ماسٹر شوقی اب لوگوں کیلئے صرف اور صرف ماسٹر ٹوپی رہ گئے ہیں ۔
 ان کے سر پر ہر وقت ٹوپی دیکھی جا سکتی ہے ۔ دیکھنے میں تو ایسا لگتا ہے کہ ماسٹر نے ٹوپی کو نہیں ٹوپی نے ماسٹر کو پہن رکھا ہے ۔ ماسٹر ٹوپی کو غصہ بہت آتا ہے اور غصے میں ان کی ٹوپی لال قلعے کی طرح لال ہو جاتی ہے اس لیے یہ اندازہ غلط نہیں کہ کہ ماسٹر کا دماغ ٹوپی کے نیچے ہے۔ٹوپی کی تو یہ ہی خوبی ہے کہ یہ ایجاد ہی گنجوں کیلئے کی گئی ہے ۔ زیادہ تر استعمال دولہا حضرات کرتے ہیں لیکن پہنتے اسے سب سے زیادہ ماسٹر ہی ہیں ، اسی لیے ماسٹر ٹوپی کا کہنا ہے کہ ٹوپی گنجوں  کیلئے اطمینان ، دولہوں کیلئے بہترین اور ماسٹروں کیلئے مونو گرام ہے ۔ ماسٹر ٹوپی سخت گرمی میں  بھی ٹوپی نہیں اتارتے  البتہ   دوسروں کی ٹوپی اتارنے میں ماہر ہیں ۔ گرمیوں میں بس ذرا پنکھا تیز کر دیتے ہیں اور اگر پنکھا پہلے سے سے ہی تیز ہو تو بس صرف  منہ اوپر چھت کی طرف کر دیتے ہیں ۔ اگر کوئی محلے والا  کبھی کبھار کچھ گھنٹوں کیلئے ٹوپی   مانگے تو اس کو ایسے دیکھنے لگتے ہیں جیسے اس نے گردے مانگ لیے ہوں ، اس لیے ماسٹر ٹوپی کو پیپسی ایڈ پسند نہیں تھا  کیونکہ ماڈل اس میں  ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ "دل مانگے اور۔۔۔"
محلے والے بتاتے ہیں کہ ماسٹر ٹوپی تجربےکار ماسٹر ہیں ۔ ماسٹری انہیں اس وقت ملی جب ان کی جوانی "دیوانی" تھی ۔ اس وقت ان کے اباجان وزیر ِ تعلیم کو اخبار پڑھ کر سنایا کرتے تھے ۔ وزیر نے خوش ہو کر ان کے ابا جان کو تین نوکریاں گفٹ میں دے دیں ۔ ماسٹر ٹوپی اس وقت کو یاد کر کے کہتے ہیں کہ اس زمانے میں  محکمہ تعلیم  "گفٹ سینٹر"  بنا ہوا تھا۔     
عشق کے معاملے میں ایسے خود کفیل ہیں  جیسے تیل کے معاملے میں سعودی عرب  خود کفیل ہے ۔کہتے ہیں  کہ عشق ہوتا نہیں  بلکہ کیا جاتا ہے اس لیے  ماسٹر ٹوپی نے تین شادیاں  کی ہیں ۔ اس معاملے میں بہت ہو شیار ہیں ۔ شادی ہی ایسی عورت سے کرتے ہیں  جسے باآسانی چھوڑ سکیں ۔ اس لیے آج کل ایک درجن  بچوں سمیت  ایک بیوی کے ساتھ  زندگی گزار رہے ہیں ۔
ماسٹر ٹوپی  ہر لحاظ سے ایک مکمل ماسٹر ہیں ۔ ان میں وہ سب  خوبیاں ہیں جو کسی  بھی ماسٹر  میں اگر نہیں ہیں  تو وہ ماسٹر ہی نہیں ہے۔۔شروع دن سے ہی بھلکڑ ہیں ، جبکہ اونچی آواز میں سننا ، یعنی بہرہ پہن  ایک اضافی خوبی ہے  جو کہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے قرض لیتے نہیں  اور نہ ہی قرض دیتے ہیں ۔ اس بارے میں  ان کا موقف یہ ہے کہ  کہ قرض ایک مرض ہے  اور مرض وہ نہیں چاہتے البتہ  سود لینے اور دینے کے بارے میں ان کا فیصلہ "ملکی مفاد" میں ہوتا ہے ۔محنت ان کا پیشہ ہے اس لیے  آج تک کچے مکان اور جھونپڑے میں رہتے ہیں ۔ ان کی زندگی میں سے اگر عشق اور شادیوں کو نکال دیا جائے  تو یہ بہت کچھ بچا سکتے تھے ۔

ایک دفعہ برسات کے موسم میں  پاکستانی معیشت کی طرح  ماسٹر ٹوپی کا کچا گھر بھی  تباہ ہوگیا ۔ اتفاق سے  ماسٹر ٹوپی  برسات کا مزہ لینے کیلئے  باہر صحن میں  بیٹھے ہوئے تھے ۔ جب جھونپڑی  کی لکڑیوں کو اپنے اوپر ڈرون  کی طرح آتے دیکھا تو فوراً اٹھ کر وہاں سے بھاگنے لگے ۔ اس افراتفری میں  ان کی ٹوپی اور دھوتی نے ان کے ساتھ باہر جانے سے انکار کر دیا ۔ اسی دوران  ماسٹر کا جھونپڑا کسی سیاستدان کی طرح بیٹھ  گیا اور دوسرے لمحے  ماسٹر ٹوپی  باہر برسات میں  اہل محلہ کو  بغیر ٹکٹ  ہالی وڈ  فلم  دکھانے پر تلے ہوئے تھے ۔ شریف محلے داروں نے تو کھڑکیاں  دروازے بند کر کے گھر میں بیٹھ جانا مناسب سمجھا  مگر شرارتی لڑکے  تالیاں بجا رہے تھے ۔ پیشہ ور لوگوں نے اپنے پیشے سے وابستگی  کا  ثبوت دیتے ہوئے  اس ایڈوانس ماحول  کو اپنے کیمروں میں ہمیشہ کیلئے محفوظ  کر لیا ۔ اس دوران  ماسٹر حسبِ معمول  انجان بنے کھڑے رہے ۔ وہ تو بس  اپنی جان بچ جانے پر  بے حد خوش تھے ۔ اپنی  بیوی اور بچوں  کا ان کو خیال ہی نہ آیا ۔ ان کو معاملے کی سنگینی کا احساس تب ہوا جب کچھ منچلوں بلند آواز سے مخاطب ہو کر کہا :۔ "ماسٹر ٹوپی!! شریعت بل منظور ہونے والا ہے ۔"
محلے کے ایک شرارتی لڑکے نادر نے تو ماسٹر کی ناک ہی کاٹ کے رکھ دی ۔ وہ بلند آواز میں  اہلِ محلہ کو بتا رہا تھا :۔  "واہ بھئی واہ!ایچ بی او  کے سگنلز کلیئر آ رہے ہیں ۔"
موقع کی نزاکت کو بھانپ کر  ماسٹر ٹوپی نے سیکنڈ  کے 24ویں  حصے میں  کسی ماہر ایتھلیٹ کی طرح پھرتی دکھائی اور بغیر گولڈ میڈل جیتے  تباہ شدہ  جھونپڑے سے ہوتے ہوئے  کچھ مکان میں داخل ہو گئے ۔ دروازے کو کنڈی لگا کر ماسٹر کو ایسے لگا جیسے  تپتی دھوپ اور ریگستان  میں کسی نے ان کو ٹھنڈا ٹھار روح افزا کا گلاس پلا دیاہو۔ گھر میں داخل ہوتے ہی  ماسٹر نے سب سے پہلے بیوی بچوں کے سامنے  ٹوپی پہننے کو ترجیح دی ۔ ہر بات کی طرح بعد میں احساس  ہونے پر  ماسٹر نے ادھر ادھر  ہاتھ پیر مارے  اور ایک دوپٹہ نامی چیز کو گھسیٹ کر  اپنے اوپر اوڑھ  لیا تب جا کر بیوی  بچوں  کی جان میں جان آئی ۔
تباہ شدہ جھونپڑے کو تعمیر کرنے کیلئے ماسٹر نے  اپنے بچوں  سمیت سکول کے بچوں کو بھی "خوشحال پروگرام  برائے مرمت جھونپڑا "  میں زبردستی شامل کر لیا ۔کسی پاکستانی فلم کی طرح خوشحال پروگرام  برائے مرمت جھونپڑاکا آغاز ہوگیا ۔ اس سارے کام کی نگرانی ماسٹر ٹوپی خود کر رہے تھے ۔ اس خطرناک اور حساس کام  کی نگرانی  کرتے ہوئے  ماسٹر ٹوپی  نے ٹوپی کی بجائے ہیلمٹ کو ترجیح دی ۔ طالبان بٹالین  یعنی شاگردوں نے سب سے پہلے لکڑیاں جمع کیں  اور سپیشل بٹالین (ماسٹر ٹوپی کے ذاتی ایک درجن بچے) نے چھت کیلئے ایندھن  کی فراہمی یعنی  گھاس پھونس  وغیرہ کا بندوبست کیا ۔ یہ کام توقع کے برعکس  جلدی مکمل نہ ہو سکا، جس کی وجہ سے ماسٹر ٹوپی کو غصہ آیا ہوا تھا ۔ چھت کے لیے جب سپیشل بٹالین نے  گھاس پھونس اوپر بھیجنے کی کوشش کی  تو  ماسٹر ٹوپی نے خود اوپر منڈیر پر چڑھ کر  یہ کام اپنے ہاتھوں  میں لے لیا ۔ چھت کو جمہوریت کی طرح مضبوط بنانے کیلئے  مصنوعی سہاروں کی بجائے مضبوط رسیوں  سے باندھنے کا پروگرام  بنایا گیا ۔۔۔
 ماسٹر کی بیوی  چھت کے نیچے سے  رسی کو نوکدار کیل  کے ذریعے   اوپرپہنچانے کی ذمہ داری بخوبی انجام دے رہی تھی ۔ ہر بار کیل کو  اوپر پہنچانے سے پہلے وہ شوہر سے "اوکے" کا سگنل ایسے لیتی تھی جیسے  "کون بنے گا کروڑ پتی"  پروگرام میں  امیتابھ بچن  سامنے بیٹھے  شخص  سے پوچھتے ہیں  کہ فریز کیا  جائے یا۔۔۔ اس کشمکش میں  ایک بار کیل ماسٹر ٹوپی کے ممنوعہ علاقہ جات  سے ٹچ ہو گیا ۔ بیوی نے جب  "اوکے" سگنل کیلئے  کہا تو ماسٹر کے بھلکڑ پن ، بہرہ پن ، اور جذباتی پن  یکجا ہوگئے ۔ اوپر گرمی ، تھکاوٹ  اور کام کی وجہ سے پریشان  ماسٹر ٹوپی نے غصہ میں "اوکے" کا سگنل دےد یا ۔ سگنل ملتے ہی  ماسٹر کی بیوی کو  جیسے میکے جانے کی اجازت  مل گئی  ہو  سو اس نے جھٹ سے کیل کو زور سے اوپر کی طرف دھکیلا ۔ سیکنڈ کے 20 ویں حصے میں ماسٹر کی چیخیں  علاقے کو سر  پر اٹھائے ہوئے تھیں ۔علاقے کے لوگ سمجھے کہ خدانخواستہ انڈین آرمی نےحملہ کر دیا ہے ۔ ماسٹر کو جلد از جلد حکیم سلطان پوری کے دواخانے کے ایڈریس پر پوسٹ کر دیا گیا ۔ وہاں سے افاقہ نہ ہونے پر ماسٹر نے اپنی بیوی پر گالیوں کی ہوائی فائرنگ  اور جوتوں سے گولہ باری کی ۔ اس کے بعد ماسٹر ٹوپی نے  اپنی بیوی  سے رابطہ  و ترسیلِ زر اور مواصلاتی نظام منقطع  کر دئیے ۔ لیکن جب ماسٹر ٹوپی کے بچوں نے اپوزیشن چھوڑ کر حکومت(ماں)  کی طرف داری کی تو اپوزیشن(ماسٹر ٹوپی)  کے غبارے سے ہوا نکل گئی  البتہ کنٹرول لائن  کی طرح  جھڑپیں جاری تھیں۔

Sunday, 30 December 2012

سچ تو یہ ہے

0 آرا





سچ تو یہ ہے قصور اپنا ہے

چاند کو چھونے کی تمنا کی

آسمان کو زمین پر مانگا

پھول چاہا کہ پتھروں پہ کھلیں

کانٹوں میں کی تلاش خوشبو کی

آرزو کی کہ آگ ٹھنڈک دے

برف میں ڈھونڈتے رہے گرمی

خواب جو دیکھا

 چاہا سچ ہو جائے

اس کی ہم کو سزا تو ملنی تھی

سچ تو یہ ہے

 قصور اپنا ہے


Friday, 28 December 2012

جانے کس واسطے

0 آرا



جانے کس واسطے 




جانے کس کی تلاش ان کی آنکھوں  میں تھی

آرزو کے مسافر بھٹکتے رہے

جتنے بھی وہ چلے

 اتنے ہی بچھ گئے راہ میں فاصلے

خواب منزل تھے اور منزلیں خواب تھیں

 راستوں سے نکلتے رہے راستے

جانے کس واسطے

 آرزو کے مسافر بھٹکتے رہے


گڈ لکنگ الو دا پٹھا

1 آرا

لوگ اتراتے ہیں ۔
 کچھ اپنے علم پر، کچھ اپنے حسب نسب پر  کہ پدرم سلطان بود ۔
 اس کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات لوگوں کے پاس ہوتی ہیں  اترانے کیلئے  ۔
لیکن جیسا کہ حضرت شاہ حسین ؒ نے فرمایا :۔
کوئی میری ، کوئی دولی ، شاہ حسین پھسڈی
(کوئی اول، کوئی دوم، شاہ حسین ؒ سب سے آخری )
میں  توپھسڈیوں سے بھی پھسڈی ہوں ، کس علم پر میں اتراؤں؟   جبکہ میں ابھی تک خود اپنے آپ کو بھی نہیں جانتا ۔ حسب نسب پر اترانا اوروں کو مبارک ہو ، ہمیں تو اپنا آپ آزمانا ہے ۔ لوگ بہت حیران ہوتے ہیں جب میں یہ بتاتے ہوئے شرماتا ہوں کہ میں بخاری سید  ہوں۔ مجھے شرم آتی ہے جب کوئی میری عزت اس لیے کرے کہ میں فلاں فلاں کا پوتا ، اور فلاں کا نواسا ہوں ۔ مجھے چڑ ہوتی ہے کوفت ہوتی ہے جب کوئی مجھے شاہ صاحب کہے ۔ لیکن کیا خوب کہا ہے کسی نے کہ تدبیر کند بندہ اور تقدیر اس پر ہنستی ہے ۔ یہی کچھ میرے ساتھ ہوا ۔ میں چلا تھا فخر و غرور کے سب اسباب سے جان چھڑانے ، مگر سچ یہ ہے کہ میں بھی اترانے پر مجبور کر دیا گیا  آخر۔ میں اب اتراتا ہوں اپنے عظیم اساتذہ پر، میں اتراتا ہوں اپنے دوستوں کی دوستی پر ۔ 
میں اس بات پر جتنا بھی شکر کروں کم ہے کہ مجھے مرزا غالبؔ جیسے عظیم استاد کی شاگردی عطا ہوئی ۔ حیران نہ ہوں  کہ یہ میں کیا لکھ گیا ۔صاحبو !!شاگردی دو قسم کی ہوتی ہے ۔ ایک وہ جو اختیاری ہوتی ہے ، جسے لوگ اپنی مرضی سے اختیار کرتے ہیں ۔  ایک شاگردی وہ ہوتی ہے جو گفٹ کی جاتی ہے ۔ غالبؔ  وہ نام ہے جسے سن کر کچھ لوگ ناک پہ رومال رکھ لیتے ہیں ،اور غالبؔ ہی وہ نام ہے جسے سن کر کچھ خوش قسمتوں کو پھر "کچھ اپنی خبر نہیں آتی" ۔ اللہ کا بہت ہی احسان ہوا مجھ پر کہ مجھے غالبؔ کی شاگردی عطا کی گئی ورنہ میں بھی ان نام نہاد پڑھے لکھوں کی صف میں ہوتا اور غالبؔ کا نام سنتے ہی لاحول پڑھ کے ناک پہ رومال رکھ لیتا ۔اس کے علاوہ بھی اب تک کی گزری زندگی میں بہت سے عظیم اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنے اور ان کے سامنے بیٹھ کر ان سے بہت کچھ سیکھنے  کا موقع ملا ۔ ایک مرتبہ  استاد محترم جناب محمد حنیف  صاحب  (وہ اس وقت جہاں بھی ہوں اللہ کی رحمت کا سایہ ان پر رہے) نے ایک سبق آموز واقعہ سنایا تھا  :۔
ایک بار حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ  کی خدمت میں قلفہ (فالودہ ) پیش کیا گیا ۔ آپ نے اسے کھایا مگر معدے نے قبول نہ کیا اور وہ سب بذریعہ قے باہر پیالے میں آگیا ۔ آپ نے وہ پیالہ ایک طرف رکھ دیا ۔ کچھ مریدین نے وہ پیالہ مانگا بھی  مگر حضرت صاحب نے کہا نہیں  یہ تمہارے لیے نہیں ۔ پیالہ رکھے انتظار کرتے رہے ، حتیٰ کہ حضرت امیر خسرو ؒ  تشریف لے آئے ۔ حضرت خواجہ صاحب نے ان سے فرمایا ۔ کہ میں نے فالودہ کھایا  تھا مگر معدے نے قبول نہیں کیا اور میں اسے تمہارے لیے رکھ کے بیٹھا تھا ، یہ لو پیالہ اور کھا لو۔ حضرت امیر خسرو ؒ نے کہا سرکار اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے میرے لیے ۔ مگر مجبوری یہ ہے کہ میں ابھی گھر سے سیر ہو کر آ رہا ہوں ۔ اس وقت بالکل بھی طلب نہیں ہے ۔ خواجہ صاحب نے کہا اچھا حجرے سے باہر دیکھو ۔ کوئی ہو تو اسے ہی بلا لاؤ ۔ حضرت امیر خسرو ؒ  باہر نکلے ، اور ادھر ادھر دیکھا ، مگر ایک ملنگ کے سوا کوئی بھی موجود نہیں تھا ۔ اس ملنگ کی کہانی یہ تھی کہ وہ کئی سالوں سے حضرت خواجہ صاحب کی خانقاہ پر موجود تھا ، لیکن نہ تو وہ کسی کی طرف دیکھتا تھا ، نہ ہی اتنے عرصے سے آج تک اس نے کوئی ایک لفظ  منہ سے نکالا تھا ۔ وہ خواجہ صاحب کے حجرے کے باہر ہی بیٹھا رہتا تھا ہمیشہ ۔ تو حضرت امیر خسرو ؒ اندر آئے اور بتایا کہ اس ملنگ کے علاوہ تو کوئی بھی موجود نہیں ہے ۔ خواجہ صاحب نے فرمایا  اچھا جیسے خدا کو منظور ، ٹھیک ہے اسی کو ہی بلا لاؤ ۔امیر خسرو اسے اندر بلا لائے ۔ملنگ اندر آیا تو خواجہ صاحب پیالہ اٹھا کر ابھی وضاحت کرنے ہی لگے کہ اس ملنگ نے پیالہ ان کے ہاتھ سے کر کہا :۔" حضرت ! اتنے برسوں سے اسی انتظار میں تو بیٹھا تھا ۔"  اور ایک نعرہ مستانہ لگا کر پیالہ منہ سے لگایا ، ایک ہی سانس میں اپنے اندر انڈیل لیا ۔ خواجہ صاحب نے حضرت امیر خسرو ؒ سے فرمایا کہ میں تو چاہتا تھا کہ خرقہ خلافت تمہیں دوں ، مگر اللہ کی مرضی ، کہ تم نے یہ موقع گنوا دیا اور ملنگ نے پا لیا ۔

اسے اپنے ذہن کی ہارڈ ڈسک پر محفوظ  کر لیں ، جیسے یہ سبق ہر موقع ہر موڑ پر میرے کا م آتا رہا ہے ، ویسے ہی آپ کے بھی کام آئے گا ، اگر آپ سیانے ہیں تو بے شک آپ اسے ہمیشہ کیلئے یاد نہ رکھیں ، بس اس تحریر کے ختم ہونے تک تو کم ا زکم ذہن کی ریم میں محفوظ رہنے دیں ۔  

کسی میرے جیسے پھسڈی  نے ایک سیانے سے  پوچھا کہ جب انسان کے پاس اتنے سارے رشتے موجود ہیں ، ماں  کا رشتہ ، باپ کا ، بھائی ، بہنیں ، چچا  ، ماموں ، پھوپھیاں ، اور ان کی اولادیں ، وغیرہ وغیرہ تو پھر اتنے سارے رشتوں کی موجودگی میں دوست کی یا دوستی کی کیا ضرورت ۔؟  سیانے نے جواب دیا :۔ ہوا میں اتنی ساری گیسیں ہیں ، مگر پھر بھی ہر کسی کو آکسیجن کی ضرورت بہرحال رہتی ہے ۔  
 ہر بندہ کہتا پھرتا ہے کہ میں تو دوست بنانا چاہتا ہوں لیکن کوئی میرا دوست نہیں  بنتا۔ جی ہاں ہم سب خود کو بڑے دوست دار سمجھتے ہیں ، ہم سب کو دوست بنانا بھی چاہتے ہیں ۔ مگر ایک کڑوا سچ یہ ہے کہ ہم دوست بننا نہیں چاہتے ۔ ہماری شعوری اور لاشعور ی کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے بہت سے دوست ہوں، لیکن ہم کسی کے دوست ہوں یہ ضروری نہیں  سمجھا ہم نے ۔یہ دوغلا پن ہمارے اندر ہے ، لیکن ہم بجائے اپنے اندر کا جائزہ لینے اور اندر کی صفائی کے،  اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے ہیں ، لوگوں کے خون سفید ہونے اور دوستی عنقا ہو جانے کی تقریریں  کرتے پھرتے ہیں ۔
اچھا جی ! ایک منٹ ۔ یہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم دوست بنانا بھی چاہتے ہیں  اور دوست بننا بھی چاہتے ہیں ۔ تو میں ان سے پوچھتا چلوں کہ کیا آپ کی دوستی میک اپ، گیٹ اپ، اور تکلفات سے عاری ہے ؟؟  آپ اپنی اداکاری کو دوستی کا نام دیتے ہیں ؟ جی ہاں بد قسمتی سے ہم نے دوستی کیلئے الگ سے کاسٹیوم  بنا رکھے ہیں ، ہماری ایک میک اپ کٹ ہے ۔ دوست سے سامنا ہوتے ہی فریقین پھرتی سے وہ دوستی کا کاسٹیوم پہن کر چہرے پر دوستی کا میک اپ تھوپ لیتے ہیں ، اور پھر دوستی کی اداکاری کرتے ہیں ۔ اس بال کی کھال انشاءاللہ کسی  اور تحریر میں اتاروں گا  ، ابھی تو میں آپ کو ایک  دوست سے ملوانے لگا ہوں ۔  میک اپ ، گیٹ اپ ، اداکاری اور تکلفات سے عاری ایک سچا ، کھرا اور پر خلوص دوست ۔جس کی دوستی پر نہ اترانا کفرانِ نعمت ہے۔  

نہ وہ کسی انجان سیارے کا ہے ، نہ ہی وہ ماورائی مخلوق ہے ۔
وہ اسی دھرتی کا انسان ہے۔
نہ وہ اقبال کا بندہ  مومن ہے ، نہ غالبؔ کا مردِ آزاد ہے۔  
نہ وہ میرے چاچے کا بیٹا ہے ، نہ خالہ زاد ہے ۔
 پھوپھی تو میری کوئی ہے نہیں ، نہ ہی  وہ  میرے ماموں کی اولاد ہے ۔
اس کے سر پہ حاجیوں والا لال رومال ہے  ، نہ ماتھے پہ محراب ہے ۔
ہے تو وہ عام سا مگر خاص الخاص ہے ۔
نہ تو ہم بچپن سے لنگوٹیا یار ہیں ، نہ ہی اردو محفل سے پہلے ہم کہیں ملے  تھے۔

وہ لوگ  با برکت خیال کیے جاتے ہیں جو رمضان شریف کے مقدس مہینے میں  پیدا ہوں ، اور وہ تو اللہ کے پیارے سمجھے جاتے ہیں جو رمضان شریف میں ملک الموت کا شکار ہوجائیں ۔ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی اولاد کا نکاح رمضان شریف میں ہو ، تاکہ اس بندھن پر خدا کی رحمت سدا رہے ۔ تو پھر اس کو کیا نام دیا جائے کہ ہماری پہلی ملاقات اور پھر دوستی رمضان شریف کے با برکت مہینے میں ہوئی۔
سچ پوچھیں تو ہم دونوں کے وہم و گماں کے کسی کونے کھدرے میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ہم دوست بھی بن سکتے ہیں۔ میں دودھ کا جلا تھا اور چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا تھا  ، اور ان کا دعویٰ تھا کہ سو پشت سے ہے پیشہ آباء سپہ گری۔ وہ تو اللہ بھلا کرے میری پیاری سی دوست پلس بہنا عشبہ کا ۔ جس کی تصویر انہوں نے اپنے اوتار کے طور پر سجا رکھی تھی ۔ اور  وہ گپلو سا گل گوتھنا کاکا میرے متوجہ ہونے کا باعث بنا ۔(میں تعارف سے پہلے تک عشبہ کو لڑکا ہی سمجھتا رہا)۔ یوں بہانہ بنا ہماری ہیلو ہائے کا ۔ پتا چلا جناب اپنے ہی وسیب کے گبھرو جوان ہیں۔ مانو گویا پردیس میں گرائیں مل گیا ۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے دوستی کا تب تک بھی ہمارا کوئی ارادہ نہ تھا ۔ اور اللہ جانتا ہے مجھے واقعی نہیں معلوم کہ کب اور کیسے ہماری دوستی ہو گئی۔
ایک دن آن لائن ہوا تو سامنے کیفیت نامہ تھا ۔ حضرت الٹی گنتی گن رہے تھے ۔ مجھے بے حد ہنسی آئی ۔ میں سمجھا کہ روزہ لگ رہا ہے ۔ اور یوں(بقول اما نت چن) ہم ہنستے ہنستے کافی دور نکل آئے۔ حد تو یہ ہوئی کہ چھوٹے غالب نے اپنا پرسنل نمبر بھیج دیا اور اگلے ہی دن ایک بھاری بھرکم آواز سننا پڑی ۔ جیسی عمرو عیار کی کہانیوں میں دیوؤں کی ہوتی ہے۔ بس پھر کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے جاں ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر جانِ جاں ۔۔۔۔۔۔پھر۔۔۔۔۔ جانِ جاناں  ہوگئے ۔ 
غالب کی طرح میرا بھی یہی خیال تھا کہ اب چھوٹے غالب  کے علاوہ تخلیقیت کہیں رہ نہیں گئی ۔ مگر ایک دن جناب نے اپنے ایک مکالماتی کالم کا لنک بھیجا  تو مجھے بے اختیار کہنا پڑا :۔ "دیا ہے خلق کو ، تا اسے نظر نہ لگے٭٭٭بنا ہے عیش تجمل حسین خان کیلئے"
اللہ جھوٹ نہ بلوائے اس کی معرکہ آرا تحریریں پڑھ کر مجھے جلن ہوتی ہی تھی  ۔مگر جب ان کی زیارت ہوئی تو ان کی وجاہت بھی میرے سڑنے کا ایک اور سبب بن گئی۔ ظالم ہنستا ہے تو دل سے ایک آہ بذریعہ ٹھنڈی سانس نکلتی ہے کہ کاش اگر یہ لڑکی ہوتا تو میں ساری دنیا سے ڈوئل لڑ کر اسے اپنی جوگن بنا لیتا ۔ مگر ہائے ری پھوٹی قسمت ، موصوف ایک ہٹے کٹے  مذکر ہیں اور(بقول انہی کے)"ایک خوش و خرم فیملی کے سربراہ ہیں"۔ سچ مچ مجھے اس کی ہنسی بہت پسند ہے ۔دنیا کا ایک پوشیدہ سچ یہ بھی ہے کہ علی عظمت کے بعد یہ دنیا کا دوسرا بندہ ہے جس کی آواز  سن کر میرا ہائی سے ہائی بلڈ پریشر بھی خود بخود نارمل ہو جاتا ہے ۔ جب یہ ہنستا ہے تو پھر مجھے اپنا بخاریوں والا جلال  بھول جاتا ہے ۔

اس کی اگر مختصر الفاظ میں تعریف کرنی ہو تو یہی ہوگی کہ " یہ دوست ہے(حقیقی معنوں میں)" 
یہ دنیا کا سب سے پیارا دوست ہے ۔ 
میک اپ ، کاسٹیوم ، اداکاری ، اور ہر قسم کے مصنوعی پن سے عاری دوست۔
میں بہت سے لوگوں سے متاثر ہو جاتا ہوں ، میں بہت سے لوگوں کو پسند کرتا ہوں ، اور میں ان سے دوستی بھی کرنا چاہتا ہوں ۔  مگر حضرت امیر خسرو کی طرح میری دوستی ان کی قسمت میں نہیں لکھی تھی ۔ یا پھر میں ان کی دوستی کے لائق نہیں تھا ۔ اردو محفل پر یہ گمنام ملنگ بیٹھا تھا ، شاید اسی انتظار میں (اتنی سی خوش فہمی تو میرا حق ہے نا)اس نے بنا ہچکچائے میری دوستی کا پیالہ ایک ہی سانس میں اندر انڈیل لیا ۔ اور میں اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے ، جس نے مجھے اتنا پیارا دوست دیا ۔ دیر آید درست آید

میری جگہ اگر آنسہ محترمہ شبنم صاحبہ ہوتیں  تو یقیناً کہتیں

میرا بابو  چھیل چھبیلا میں تو ناچوں گی
میرا بلما رنگ رنگیلا ، میں تو ناچوں گی           

Wednesday, 26 December 2012

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

2 آرا


پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے



تمام اردو بولنے والوں کو نجم الدولہ ، دبیر الملک ، نظام جنگ
مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب
کا یوم ِپیدائش مبارک ہو




وقت کا کام ہے چلتے رہنا ، یہ کبھی نہیں رکتا چاہے گھڑی کے سیل نکال دیں ۔ جب سے اللہ نے اسے بنایا ہوگا یہ تب سے چل رہا ہے اور جب تک اللہ کا حکم ہے یہ چلتا رہے گا ۔ اتنا پرانا ہے پھر بھی اس کائنات میں یہی ایک چیز ہے جو نیا ہے ۔ گزرتا جاتا ہے اور موجودات کو پرانا کرتا جاتا ہے ، لیکن کچھ زندگیا ں ، کچھ لوگ ، کچھ کام ، کچھ تخلیقات اپنے آپ کو وقت کی قید سے آزاد کر لیتے ہیں  اور امر ہو جاتے ہیں ۔ پھر وہ بقول قبلہ استاد جی "میں عدم سے بھی پرے ہوں" کے مقام پر فائز ہو جاتے ہیں ۔ گزرتا وقت بھی ان کا کچھ بگاڑ نہیں پاتا ، میں زیادہ دور کیوں جاؤں میرے عظیم استادمرزا غالبؔ کی مثال سامنے ہے ، اردو میں نجانے کتنے نثر نگار ، کتنے ہی شاعر اردو کے افق پر سورج کی مانند ابھرے اور پھر ڈوب گئے ، اپنے وقت کے مقبول ترین شعرا آج صرف تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں ملتے ہیں ، لیکن غالبؔ ہر دم نیا ہے ، وقت کی بے رحم رفتار بھی غالبؔ کی چمک دمک ماند نہیں کر پائی ، بلکہ ریگ مال کی طرح اسے اور چمکاتی  گزرگئی ۔ غالبؔ نے اپنے ایک شعر میں اپنے کلام کو شراب سے تشبیہہ دے کر کہا شراب جتنی پرانی ہوتی جائے اتنی ہی قیمتی ہوتی جاتی ہے ، میرا کلام بھی جتنا پرانا ہوتا جائے گا اس کا نشہ بڑھتا جائے گا اور یہ قیمتی ترین ہوتا جائے گا۔اور دیکھ لیجئے  آج غالبؔ کےنشئی "ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں "۔
اس سے زیادہ حیرت کی بات کیا ہوگی ، کہ اردو کا سب سے گنجلک ، پیچیدہ اور مشکل ترین شاعر ہونے کے باوجود سب سے زیادہ پڑھا جانے والا شاعر غالب ہے ۔ ڈیڑھ صدی گزرنے کے باوجود بھی دیوانِ غالب اردو شاعری کی سب سے زیادہ چھپنے والی ، سب سے زیادہ بکنے والی ، اور سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اردو ادب کی تاریخ میں شاید سب سے چھوٹا دیوان غالب کا ہے ، مگر اسی چھوٹے سے دیوان پر محققین اس قدر فدا ہوئےکہ کم و بیش چالیس شرحیں  اسی دیوان کی لکھ ڈالی گئیں ، جس دیوان کو غالب کی زندگی میں چھاپہ خانہ والوں نے چھاپنے سے انکار کر دیا تھا کہ اس عجیب و غریب شاعری کی کتاب کو خریدے کا کون اور پڑھے گا کون۔۔۔۔۔؟؟؟
ایک بے اولاد کرایہ دار کو اللہ نے اتنی عزت دی کہ وہ ہزاروں دلوں کی دھڑکنوں میں بستا ہے ۔نہ صرف خواص میں بلکہ عوام میں بھی اتنا ہی مقبول ۔ 
پروفیسر رشید احمد صدیقی فرماتے ہیں کہ مغلیہ سلطنت نے ہندوستان کو دو انمول تحفے دیے، تاج محل اور غالب
ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری تو اپنی کتاب شروع ہی اس بات سے کرتے ہیں کہ :۔ "ہندوستان میں دو الہامی کتابیں ہیں ، وید مقدس اور دیوانِ غالب "
سر سید احمد خان ہوں  یا مولانا الطاف حسین حالی ، علامہ اقبال ہوں یا مولانا محمد علی جوہر سبھی کی بنیاد غالب کی فکرپر رکھی ہوئی ہے ، اردو ادب میں نت نئی تحریکیں آتی رہی ہیں ، آتی رہیں گی ، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اردو ادب میں اٹھنے والی ہر تحریک اپنا امام غالب کو کہتی ہے ۔ 
اس سے زیادہ حیرت کی بات کیا ہوگی کہ جس نادر روزگار کے محققین پربھی  پی ایچ ڈی کی  جاتی ہے، اس نے کبھی کسی سکول ، مدرسے ، کالج ، یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی، اس غالبِ خستہ کے اشعار سے کماحقہ لطف اندوز ہونے کیلئے لازم ہے کہ قاری کو طبیعات، مابعد الطبیعات ، علم ہیئت ، علم نجوم ، نیو کلیئر فزکس ، آسٹرو فزکس، نفسیات ، ریاضی ، تاریخ ، مصوری ، موسیقیت سے تھوڑا بہت واسطہ ضرور ہو ، ورنہ غالب کے اشعار سر سے زوں ں ں ں ں۔۔۔۔۔۔ کر کے گزر جائیں گے ۔اور سمجھ شریف میں کچھ نہیں آئے گا۔
ہم اردو والوں کو اللہ تعالیٰ کا یہ بہترین تحفہ غالب کی صورت میں ملا ، جس کی وجہ سے آج اردو عالمی ادب میں کے ٹو کی طرح سینہ تانے کھڑی ہے ۔ گوئٹے ، ہیں، براؤننگ ، شیکسپئر  وغیرہ ان سب کے مقابلے میں اسد اللہ بیگ تن تنہا سب پر غالب ہے ۔
27 دسمبر 1797 کو عبد اللہ بیگ خان کے گھر پیدا ہوئے ۔ آپ کی والدہ ماجدہ کانام عزت النسا ءبیگم  تھا ۔ (سلام ہو اس عظیم خاتون اور عظیم ماں پر، جنہوں نے اتنی بڑی شخصیت کو جنم دیا)۔ آگرہ میں صبح کے وقت غالب اس دارِ فانی میں (بقول انہی کے)  سزا بھگتنے تشریف لائے ۔ اور آتے ہی دل میں سوچا ہوگا :۔ "ڈبویا مجھ کو ہونے نے " ۔۔۔۔  5 سال کے تھے کہ والد کی وفات ہو گئی ۔ 9 سال کے تھے کہ چچا کی وفات ہو گئی ۔ جاگیر بحقِ سرکار تحویل میں لے لی گئی اور 10،000 سالانہ وظیفہ مقرر ہوا ۔ پتنگ اڑاتا 7 ، 8 سال کا یہ بچہ شاعری کرتا تھا ۔  13 سال کی عمر میں نواب الہی بخش خان کے داماد بن گئے ، 14 سال کے اس بچے کا تذکرہ "عمدہ منتخبہ " نامی تذکرہ شعرا کی کتاب میں کیا گیا۔  14 سال کی عمر تک اچھا خاصا دیوان لکھ ڈالا تھا ، اور آج جو دیوانِ غالب ہم پڑھتے ہیں ، اس کا 95 فیصد کلام غالب 19 سال کی عمر تک لکھ چکے تھے ۔ اس کے بعد غالب نے اردو میں چند اکا دکا غزلیں کہیں ، حیرت کی بات ہے کہ 1857 سے 1869 تک غالب  نے صرف 12 اشعار لکھے۔اللہ نے یکے بعد دیگرے 7 اولادیں دیں اور کوئی بھی چھ ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہا  ۔ 17 سال کی عمر سے 73 سال کی عمر تک غالب کرائے کے مکانوں میں رہے ۔ ساری زندگی ذاتی مکان نہیں خریدا نہ ذاتی کتاب خریدی ۔ 1969 کا سال غالب صدی کے طور پر منایا گیا  ، اور غالب پر تحقیق کا دائرہ مزید وسیع ہوتا گیا ۔ آج دیوانِ غالب کے منظوم تراجم پنجابی زبان سے لے کر دنیا کی ہر چھوٹی بڑی زبان میں موجود ہیں۔دنیا کی بے شمار عمارات غالب کے نام سے منسوب ہیں۔ 
ہندوستان میں آج بھی غالب کی سالگرہ نہایت تزک و احتشام سے منائی جاتی ہے ۔ چاندنی چوک سے غالب کے مکان تک ایک مشعل بردار  جلوس نکالا جاتا ہے ۔ غالب کے مکان کو قومی ورثہ قرار سے کر وہاں میوزیم بنا دیا گیا ہے ۔ جہاں غالب کے 
زیر استعمال اور ان سے متعلقہ اشیا محفوظ کی گئی ہیں۔ 


حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا                   


Tuesday, 25 December 2012

مرحوم کی یاد میں

2 آرا


پطرس بخاری صاحب اور مجھ میں اگراور کچھ مشترک مانا جائے یا نہ ، مگر ہم دونوں کا بخاری ہونا مجھ میں مزاح نگاری کےجراثیم پیدا کرنے کیلئے کافی تھا۔ وہ میرے پسندیدہ مزاح نگار بھی ہیں ، یہی بات ان کے مضمون "مرحوم کی یاد میں" کا پارٹ 2 لکھنے کا محرک بنی۔ اگر کسی نے داد میں ڈنڈی ماری تو خاکسار سے "برا" کوئی نہ ہوگا۔


ہمیں شروع دن سے ڈرائیوری سےنجانے کیوں نفرت رہی ہے(واضح رہے کہ نفرت ڈرائیوری سے ہے انسان سے نہیں )یہاں تک کہ گھر میں موجود ہوتے ہوئے بھی موٹرسائیکل تک چلانا سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔
ایک دن میرے ایک عزیز (دانی)نے کہا چاچو آپ کوموٹرسائیکل تو ضرور سیکھنی چاہیے، بلکہ اس نیک کام کی ابتدا میں اپنے ہاتھوں سے کروں گا۔ جب ہم کسی طریقے سے رام نہ ہوئے تو موصوف نے کہا کہ اگر آپ کے پاس موٹرسائیکل ہوگی تو لڑکیاں بھی آپ میں (مزید ) زیادہ دلچسپی لیں گی۔ بس ا س کا یہ تیر نشانے پر بیٹھا اور ہم نے موٹرسائیکل سیکھنے کی حامی بھر لی۔دانی خود بھی موٹرسائیکل کابہت شوقین ہے ۔ بلکہ یہ کہنابے جا نہ ہوگا کہ دھنوٹ میں رینٹ اے موٹرسائیکل والوں کے کاروبار کا سارا دارومدار دانی پر ہی ہے۔ یہاں سب سے زیادہ گھنٹے رینٹ پر موٹرسائیکل لینے کا اعزاز بھی اسے حاصل ہے۔ عموماً 24 گھنٹے کیلئے موٹرسائیکل رینٹ پر لے لیتا ہے۔جب رینٹ اے موٹرسائیکل والوں کا کاروبار مندا ہو جائے تو دعا کرتے ہیں کہ "یا اللہ ! دانی چھٹی پر آجائے"۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
جب ہم نے موٹرسائیکل سیکھنے کا ارادہ کر ہی لیا تو موٹرسائیکل ملنے کا پہلا ٹارگٹ بڑا بھائی تھا۔ بڑے بھائی سے موٹرسائیکل مانگی تو اس نے ہمارے "نیک" ارادے کو بھانپتے ہوئےمعذرت کر لی اور کہا "بھئی ، مجھے ابھی اپنی موٹرسائیکل کی بہت ضرورت ہے، میں اسے تباہ نہیں کرنا چاہتا ۔"ہر طرف سے مایوس ہو کر دانی نے ہمیں رینٹ کی موٹرسائیکل کی راہ دکھلائی ۔
چنانچہ اگلے دن ہم دونوں نے موٹرسائیکل رینٹ پر حاصل کی ۔ دانی نے پہلے تو مجھے اپنے پیچھے موٹرسائیکل پر سوار کرکے دو تین چکر لگائےتاکہ ہمارے اندر ڈرائیوری کے جراثیم جاگ جائیں ۔ اور جب ہمارے اندر ڈرائیوری کے جراثیم جاگ اٹھے تو دانی نے موٹرسائیکل روکی اور ہمیں ڈرائیوری کےموضوع پر ایک بھرپور لیکچر دیا ، جس میں بتایا کہ پہلے چابی لگانی ہے، پھر کک مار کر موٹرسائیکل سٹارٹ کرنا ہے۔ پھر کلچ کو پکڑ کر پہلا گئیر لگانا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ کلچ چھوڑتے جانا ہے، موٹرسائیکل خود بخود چلنے لگے گی۔
اب ہم موٹرسائیکل پر سوار ہوئے جبکہ دانی میرے پیچھے بطور انسٹرکٹر سوار ہوا ۔ میں نے کک لگائی ، کلچ پکڑ کر گیئر لگایا ۔ اور جونہی کلچ چھوڑا دانی صاحب نیچے گر پڑے اور موٹرسائیکل اوپر کی طرف منہ کر کے یوں کھڑی ہوگئی جیسے ہم نے چاند کی طرف سفر کرنا ہو ۔ دانی اپنے کپڑوں سے گرد جھاڑ تا اٹھ کھڑا ہوا اور ہمیں بتایا کہ یہ کلچ کو یکدم چھوڑنے کا نتیجہ ہے۔ میں نے کہا "اس کا مطلب ہےاگر چاند پر جانے کا پروگرام ہو تو کلچ کو یکدم چھوڑ دو اور اگر زمین پر سفر کرنا مقصود ہو تو کلچ کو آہستہ آہستہ چھوڑو۔""بات تو آپ کی ٹھیک ہے" دانی نے بے چارگی سے کہا " لیکن خیال رہےبعض اوقات کلچ کو یکدم چھوڑنے سے چاند سے بھی آگے کا سفر طے ہو جاتا ہے"۔
اگلی دفعہ جب انہی مراحل سے گزرے تو کلچ کو چھوڑتے ہوئے میرا دل بہت ڈول رہا تھا ۔ جی نہیں چاہتا تھا کہ کلچ کو چھوڑوں ، لیکن پیچھے انسٹرکٹر کے روپ میں بیٹھا دانی مسلسل کلچ چھوڑنے کی آوازیں لگا رہا تھا ، اور کہہ رہا تھا اب کلچ کو چھوڑ بھی دیں ، یہ کلچ ہی ہےکسی لڑکی کا بازو نہیں ہے۔اس کی ضد پر میں نے دھیرے دھیرے کلچ چھوڑا تو موٹرسائیکل واقعی آہستہ آہستہ سڑک پر آگے بڑھنے لگی ۔ پھر انسٹرکٹر کی طرف سے آرڈر ہوا کہ اب کلچ کو دوبارہ پکڑو اور دوسرا گیئر لگاؤ۔ میں نے ایسا ہی کیا ۔ موٹرسائیکل پہلے کی نسبت تیز ہو گئی ۔ اس طریقے پر میں نے تیسرا اور چوتھا گئیر لگایا ۔
اب موٹرسائیکل ہوا سے باتیں کرنے لگی ، لیکن چونکہ مجھے موٹرسائیکلوں کی زبان نہیں آتی اس لیے مجھے بالکل بھی علم نہیں ہو سکا کہ موٹرسائیکل ہوا سے کیا کیا باتیں کر رہی ہے۔ ویسے میں نےاندازہ لگایا کہ موٹرسائیکل ہوا سے میری ہی چغلیاں کر رہی ہے۔ اتنے میں اگے ایک سپیڈ بریکر سر پر آ پہنچا ۔ ہمارے سر پر نہیں بلکہ میرا مطلب ہے کہ ہم سپیڈ بریکر کے عین قریب پہنچ گئے ۔ پھر کیا تھا ، موٹرسائیکل سپیڈ بریکر پر چڑھی اور پھر تین چار فٹ ہوا میں اچھلی ۔ اس لمحے میں خود کو جہاز میں سوار محسوس کر رہا تھا لیکن اگلے ہی لمحے جب موٹرسائیکل زمین پر اتری تو ہم دونوں دور تک گھسٹتے چلے گئے ۔ وہ تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ معمولی چوٹیں آئیں. . . اصولی طور پر تو دانی کو چاہیے تھا کہ موٹرسائیکل چلانے کا طریقہ مجھے بعد میں بتاتا لیکن اسے روکنے کا طریقہ پہلے بتاتا مگر اس کے سمجھانے کی ترتیب الٹ تھی، اسی لیے حادثے سے دوچار ہونا پڑا ۔"آج کیلئے اتنا کافی ہے ، اگلا سبق اگلے اتوار کو دوں گا" یہ کہہ کر دانی نے خودموٹرسائیکل چلائی ، میں پیچھے بیٹھا اور موٹرسائیکل اس کے مالک کو واپس کر دی گئی ۔
اگلے اتوار تک ہم ذہنی طور پر کافی حد تک موٹرسائیکل چلانے کیلئے تیار تھےاور ہم نے موٹرسائیکل کو روکنے کا طریقہ بھی سیکھ لیا تھا ۔ آج دانی میرے پیچھے انسٹرکٹر کے روپ میں بیٹھ کر بہت خوش تھا کیونکہ اس کی محنت رنگ لاچکی تھی اور اس کا "ہونہار"شاگرد موٹرسائیکل چلانے ہی والا تھا لیکن ہماری یہ خوشی بالکل عارضی ثابت ہوئی۔
ہوا یوں کہ گاؤں کے گندے نالے کے کنارے کے ساتھ ساتھ بنی پکی سڑک پر ہم جا رہے تھے۔ سامنے ہمیں ایک کسان بیل کو لے کر جاتا ہوا نظر آیا ، ساتھ میں اس کا کتا بھی تھا ۔ جب کتے نے ایک اناڑی ڈرائیور کو موٹرسائیکل چلاتے دیکھا تو اس کی رگِ کمینگی پھڑکی اور اس نے اعلانِ جنگ کرتے ہی یلغار کر دی۔ ہم نے بھی موٹرسائیکل کی سپیڈ بڑھا دی ۔ کتے کا منہ ہماری ٹانگ کےقریب سے قریب تر آتا جا رہا تھا اور ہم کتے سے بچنے کیلئے موٹرسائیکل تھوڑا تھوڑا مخالف سمت میں کرتے جارہے تھے۔ ہمیں ہوش اس وقت آئی جب موٹرسائیکل سڑک سے لڑھک کر گندے نالے میں جا رہی تھی ۔ دانی تو پچھلے اتوار سے چوکنا ہو گیا تھا ، اس نے جب موٹرسائیکل کو گندے نالے میں جاتے دیکھا تو چھلانگ لگا دی ، جبکہ ہم موٹرسائیکل سمیت گندے نالے میں جا گرے ۔
اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ جب ہم گندے نالے سے نکلے تو انسان سے بھوت تک کا سفر ایک ہی جست میں طے کر چکے تھے۔ موٹرسائیکل اور دانی کو ایک دوسرے کے رحم وکرم پر چھوڑ کر ہم نے گھر کی راہ لی، جو کہ وہاں سے 10منٹ کی پیدل ڈرائیو پر تھا ۔ جب بھوت کے روپ میں گھر پہنچا تو اماں محترمہ نے سرے سے پہچاننے سے انکار کر دیا اور ہمیں اجنبی سمجھ کر خوب صلوٰتیں سنائیں ۔ ناچار سیدھا نل کے نیچے پہنچا ، جوں جوں پانی پڑتا گیا ہمارا چہرہ مبارک واضح ہوتا گیا۔ اماں بھی کچھ کھسیانی سی ہو گئیں ۔اورجیسے جیسےصورت حال واضح ہوتی گئی توپوں کا رخ دانی کی طرف ہوتا گیا ۔
گندے نالے سے موٹرسائیکل کو نکال کر مالک کے حوالے کرنےتک دانی پر جو بیتی وہ ایک الگ داستان ہے۔ اس کے بعد دانی نے کسی کو بھی ڈرائیوری کی فیلڈ میں اپنی شاگردی میں لینے سے پکی توبہ کر لی۔
اب ہم کار کی ڈرائیوری سیکھنے کیلئے پر تول رہے ہیں ۔ اگر کوئی صاحب ہمیں شاگرد بنانا چاہیں تو ان کی مہربانی ہوگی۔

Monday, 24 December 2012

گھم وے چرخیا گھم

0 آرا


گھم وے چرخیا گھم





گُھم وے چرخےیا گُھمتیری کتن والی جیوےنلیاں وٹن والی جیوے


گھوم اے چرخے گھوم 
تجھے کاتنے والی (ہستی) کی خیر ہو
نلیاں (دھاگے کا گولا) بٹنے والی (ہستی) کی خیر ہو


یہ زمین بھی گول ہے ، چاند ، سورج بھی گول ہیں ، اس کے علاوہ تمام سیارے،  ستارے بھی گول ہیں، کہکشائیں بھی دائرے کی صورت ہیں
چونکہ یہ ساری کائنات ایک محور کے گرد گھوم رہی ہے ، اس لیے حضرت شاہ حسین ؒ نے اسے چرخے سے تشبیہ دے کر ، داد دینے والے انداز میں فرمایا ہے کہ گھوم اے چرخے گھوم
جو ذات واحد و لا شریک ذات تجھے کات (گھما) رہی ہے ، اس کی خیر ہو (یعنی اس کی عظمتوں کو سلام)
کائنات میں ہر دم ستارے ٹوٹنے،بجھنے اور نئے ستارے وجود میں آنے کا عمل جاری ہے ، اسے شاعر نے  نلیاں بٹنے سے تشبیہ دے کر ذات خدا وندی کی حمد کی ہے

  بڈھا ہویوں شاہ حسینادندیں جھیراں پیاںاٹھ سویرے ڈھونڈن لگوںسنجھ دیاں جوگیاں


شاہ حسینؒ میاں !! اب تم بوڑھے ہو گئے ہو
دانت تمہارے سب ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں 
تم انہیں  صبح اٹھ کے ڈھونڈ رہے ہو
جو صبح صادق کے وقت ہی جا چکی ہیں 


اس شعر میں حضرت شاہ حسین ؒ اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ، کہ شاہ حسین اب تم بوڑھے ہوتے جا رہے ہو
تمہاری آنکھ اب کھلی ہے جب عمر ساری گزر چکی ہے ۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جو صبح صادق کے وقت جا چکے ہیں تم انہیں صبح کو سورج طلوع ہونے کے بعد ڈھونڈ رہے ہو،  یعنی وقت تو تم نے گنوا دیا ، اب بے فائدہ کوشش میں لگے ہو


ہر دم نام سنبھال سائیں داتاں توں استھر تھیویں


ہر دم مالک کے نام کا ذکر کرتے رہو 
تب تم پاک ہو سکتے ہو

اس شعر میں  ذکر الہٰی کی فضلیت اور ترغیب دی ہے ، کہ بندے کو چاہیے وہ ہر وقت اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرتا رہے 
اسی سے روح کی کثافت اور بوجھ دور ہوگا ، اور روح کو غذا ملے گی ، اور وہ ذکر کی برکت سےگناہوں  کی سیاہی اور آلودگی سے  پاک صاف ہوتی جائے گی



چرخہ بولے سائیں سائیںبائیڑ بولے گھوںکہے حسین ؒفقیر سائیں دامیں ناہیں سب توں


چرخہ سائیں سائیں بولتا ہے اور بائیڑ سے گھوں گھوں کی آواز آتی ہے 
اپنے پروردگار کا فقیر شاہ حسین ؒ یہی کہتا ہے  کہ میں کچھ بھی نہیں سب کچھ تو ہے ۔

جب چرخہ کاتنے کیلئے گھمایا جاتا ہے، تو ہر چکر  پر اس سے سائیں سائیں جیسی آواز آتی ہے 
اور بائیڑ جس پر دھاگہ لپٹتا جا رہا ہوتا ہے ، اس سے گھوں گھوں کی آوازیں آتی ہیں 
اللہ والے فنافی اللہ کے مقام پر ہوتے ہیں اس لیے انہیں  دنیا کی ہر آواز ہر مظہر میں اللہ کے حسن کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
اب ذات حق کے مشاہدے میں غرق ہو کر فقیر شاہ حسین اپنی ذات کی نفی کر کے کہتا ہے ، کہ میں کچھ بھی نہیں سب کچھ اللہ کی ذات ہے 

کچھ ایسا ہی مولانا روم ؒ کا بھی شعر ہے :۔
خشک تار و خشک چوب ، خشک پوست
از کجا می آید ایں آوازِ دوست

تار بھی خشک ہے ، لکڑی بھی خشک ہے ، اور کدو بھی خشک ہے
پھر یہ محبوب کی آواز کہاں سے آ رہی ہے

کیوں

0 آرا





اسرار الحق مجاز




آج شب جو چاند نے ہے روٹھنے کی ٹھان لی
گردشوں میں ہیں ستارے بات ہم نے مان لی
اندھیری سیاہ زندگی کو سوجھتی نہیں گلی
کہ آج ہاتھ تھام لو، اک ہاتھ کی کمی کھلی


کیوں کھوئے کھوئے چاند کے فراق میں ، تلاش میں ، اداس ہے دل
کیوں اپنے آپ سے خفا خفا ، ذرا ذرا سا ناراض ہے دل
یہ منزلیں بھی خود ہی طے کرے، یہ راستے بھی خود ہی طے کرے
کیوں تو راستوں پہ سہم سہم ، سنبھل سنبھل کے چلتا ہےیہ دل


زندگی سوالوں کے جواب ڈھونڈنے چلی
جواب میں سوالوں کی ایک لمبی سی لڑی ملی
سوال ہی سوال ہیں ، سوجھتی نہیں گلی
کہ آج ہاتھ تھام لو، اک ہاتھ کی کمی کھلی


جی میں آتا ہے ، مردہ ستارے نوچ لوں
ادھر بھی نوچ لوں، ادھر بھی نوچ لوں
ایک دو کا ذکر کیا، میں سارے نوچ لوں
کیوں تو آج اتنا وحشی ہے ،مزاج میں  مجاز ؔ اے غم ِ دل


دل کو سمجھانا ، کہہ دو کیا آسان ہے 
دل تو فطرت سے ، سن لو نا بے ایمان ہے
یہ خوش نہیں ہے ، جو ملا، بس مانگتا ہی ہے چلا
جانتا ہے ، ہر لگی کا درد ہی ہے بس اک صلہ
جب کبھی یہ دل لگا ، درد ہی ہمیں ملا


دل کی ہر لگی کا سن لو درد ہی ہے اک صلہ
 کیوں نئے نئےسے دردکے فراق میں ، تلاش میں ، اداس ہے دل
کیوں اپنے آپ سے خفا خفا ، ذرا ذرا سا ناراض ہے دل

Sunday, 23 December 2012

نایاب نصیحتیں

2 آرا




نایاب نصیحتیں





٭اگر آپ پر کوئی مصیبت آجائے تو گھبرا جائیے، کیونکہ گھبرانے سے اس کا صحیح حل مل جاتا ہے۔

٭سیدھے منہ بات نہ کرنے والوں کا منہ سیدھا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ اور وہ ہے چھینی ہتھوڑا۔

٭آپ کو راستے میں کوئی اینٹ پڑی نظر آئے تو اس کے ساتھ دوسری اینٹ بھی رکھ دیں، کیونکہ پہلے والی اینٹ بھی تو آخر کسی نہ کسی نے رکھی ہوگی۔

٭کسی کو نصیحت کرتے وقت یہ خیال رکھیں کہ نصیحت وہی اثر کرتی ہے جس میں منہ کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کا بھی استعمال ہو۔

٭خود کشی اکیلے نہ کیجئے بلکہ اپنے کسی دوست کو ساتھ لے جائیے جو آپ کو نہر میں دھکا دے سکے۔

٭بے وقوف کی باتیں ہمیشہ غور سے سننی چاہییں۔ اور جو وہ کہےآپ اس کے الٹ کرنے سے ہمیشہ کامیاب ہوں گے۔

٭اچھا جنریٹر وہی ہے جو لوڈ شیڈنگ میں کام آئے۔

٭کسی عورت یا لڑکی کو مت چھیڑو۔ کیونکہ صرف چھیڑنے کا کیا فائدہ؟

٭ اگر آپ کو کتا کاٹ لے تو آپ اسے کاٹ لیں ۔۔۔ ۔۔۔ حساب برابر۔

٭اگر آپ کے بال گرتے ہیں تو ٹنڈ کروا لیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ سیاپا ہی مکے۔

٭اگر آپ کا قد چھوٹا ہےتو تین چار مرتبہ پھانسی لیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ اگر بچ گئے تو بہت فائدہ ہو گا۔



٭اگر کوئی تمہیں گالیاں دے تو تم اسےایک بڑا سا پتھر اٹھا کر مار دو۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔اس کی ایسی کی تیسی۔

٭اگر آپ کو رات کو نیند نہیں آتی تو چوکیداری کرلیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔تاکہ کچھ پیسے بھی مل جائیں۔

غصّے میں خوب بولو، کیونکہ اس وقت تم اپنی زندگی کی بہترین تقریر کر سکتے ہو ۔*

زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، جو کھانا ہے آج ہی کھا لو ۔*

اگر تم کسی کو مطمئین نہ کر سکو تو اس کو کنفیوز کر دو ۔*

ہمیشہ سچ بولو، مگر بولتے ہی بھاگ جاؤ ۔*

مسکراؤ، کیونکہ یہ لوگو کو حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ آپ کیا سوچ رہے ہو ۔*

ہمیشہ خوش رہو، کہ یہ بہترین انتقام ہے اُن لوگوں سے جو ہمیں اُداس دیکھنا چاہتے ہیں ۔*




انتباہ:۔ ان نصیحتوں پر عمل والا نتائج کا خود ذمہ دار ہوگا۔

Sunday, 16 December 2012

مائے نی میں کنوں آکھاں

3 آرا


مائے نی میں کنوں آکھاں، درد وچھوڑے دا حال


اے ماں !!  میں اپنے دردِ جدائی کا احوال کس سے کہوں


انسان کی فطرت ہے کہ اسے جب کوئی درد یا تکلیف ہو تو وہ لاشعوری طور پر ماں کو ہی پکارتا ہے ۔ اس میں عمر کی کوئی قید نہیں ۔ بچہ ہو یا بڑا ، چاہے بوڑھا بھی ہو ، اس کے منہ غیر اختیاری طور پر "ہائے اماں" "اوئی ماں"  کے الفاظ ہی نکلتے ہیں 
یہ الفاظ بھی اسی  انسانی  فطرت، اور نفسیات کے آئینہ دار ہیں  ، 
درد جدائی سے صوفیا کرام روح کی اپنے مبدا سے جدائی کو کو قرار دیتے ہیں ، جس میں روح کو اپنے مبدا سے جدا کر ، پہلے عالم ارواح ، پھر اس دنیا میں انسانی جسم میں قید ہونا پڑا۔
اسی بات کو مرزا غالبؔ نے بھی یوں کہا ہے :۔
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا


سولاں مار دیوانی کیتی، برہوں پیا خیال


تکلیفوں کی کثرت نے دیوانہ کر دیا ، اور جدائی کا ہی خیال میں رچ گئی


اس شعر کی حقیقی تشریح  غالب ؔ کا یہ مصرعہ  کرتا ہے 
ہوا جب غم سے یوں بے حس ، تو غم کیا سر کے کٹنے کا۔
تکالیف کی کثرت ، اور تسلسل سے دماغ یا تو بے حس ہو جاتا ہے  یا تاب نہ لا کر دیوانہ ہو جاتا ہے ۔
جیسا کہ غالبؔ  نے مزاح کے پردے میں یہی انسانی نفسیاتی نقطہ بیان کیا :۔
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

جب اتنی کثرت سے درد یا تکلیف انسان برداشت کرے تو فطری طور پر اسے درد سے بھی انس ہو جاتا ہے ۔ اور یہی بات شاہ حسین  نے کہی ہے کہ اس کثرت اور تسلسل سے آخر اب مجھے جدائی ، درد جدائی  سے بھی محبت سی ہو گئی ہے 
اور یہی وہ مقام ہے ، جب درد خود دوا ہوا جاتا ہے ۔ بقول غالب:۔ درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا


جنگل بیلے پھراں ڈھونڈیندی، اجے ناں پایو لال



جنگلوں ، بیلوں میں ڈھونڈتی پھری، لیکن ابھی تک گوہر مراد نہیں پایا


اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں انسان کی شہ رگ کے قریب ہوں ، میں انسان کے دل میں رہتا ہوں ۔ مگر انسان اسے جنگلوں اور ویرانوں میں ڈھونڈتا پھرتا ہے ۔
اسی بات پر طنز کرتے ہوئے شاہ حسینؒ  فرماتے ہیں کہ جنگلوں اور ویرانوں میں دھونڈتی پھرتی ہوں نجانے کب سے ، لیکن ابھی تک گوہر مراد ہاتھ نہیں آیا۔

بقول بھلے شاہ سرکار:۔ 
جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں، تے رب ملدا ڈڈوؤاں مچھیاں نوں
جے رب ملدا جنگل پھریاں ، تے رب ملدا گایاں وچھیاں نوں 
(اگر رب نہانے دھونے سے ملتا تو پھر رب صرف مچھلیوں اور مینڈکوں کو ہی ملتا
اگر رب جنگل پھرنے سے ملتا تو رب گائے ، بیل ، اور دیگر جنگلی جانوروں کو ملتا)


دکھاں دی روٹی ، سولاں دا سالن، آہیں دا بالن بال


دکھوں کی روٹی ، تکالیف کا سالن ، اور آہوں کا ایندھن جلایا


اس میں راہ سلوک کی منزلیں، اس راہ میں پیش آنے والے مصائب کا ذکر کیا ہے اور بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس راہ پہ نئے آنے والوں کو ان چیزوں کیلئے تیار ہو کر آنا چاہیے۔ کیونکہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ راہ کی تکالیف اور مصائب سے اکثر لوگ بیچ راہ سے ہی لوٹ جاتے ہیں۔
اس راہ کیلئے زاد راہ بتائی گئی ہے ، کہ دکھوں کی روٹی کھانی پڑے گی ، اور سالن  تکالیف کا ہوگا ، جو تمہیں جدائی کے عالم میں آہوں کا ایندھن جلا کر خود ہی تیار کرنا پڑے گا۔کھانے پینے کی اشیا ء کےنام لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جس طرح ہم رغبت سے خوراک یعنی روٹی اپنے پسندیدہ سالن کے ساتھ کھانا پسند کرتے ہیں ۔ اور اسے پھر ہضم کرکے جزو بدن بناتے ہیں ۔ ویسے ہی اس راہ  کے مصائب کو خوراک کی طرح اپنے اندر اتارنا اور ہضم کرنا ہی کامیابی کی کنجی ہے ۔ ورنہ سب بے کار اور بے فائدہ ہے۔


     دھواں دُکھے میرے مرشد والاجاں پھولاں تے لال 


میرے مرشد والا دھواں اٹھتا ہے، اور روح کے اندر جھانکوں تو سرخ ہے

صوفیا کرام کی اصطلاح میں دل میں مرشد کریم کی محبت پیدا کرنے کو "سائیں دا مَچ" کہتے ہیں ۔ "مَچ" کو اردو میں آگ کا الاؤ یا بھڑکتی آگ کہتے ہیں ۔
اس شعر میں شاہ حسین ؒ اپنی محبت کی تپش اور اس کی تابناکی کی کیفیت بیان کر رہے ہیں ، کہ یہ جو میرے منہ سے گرم آہیں نکلتی ہیں ، یہ در اصل میرے دل میں بھڑکتی عشق حقیقی کی آگ کا دھواں ہیں ۔ جو میرے دل میں میرے مرشد نے جلائی ہے۔ اور میری جان یا روح جل جل کے سرخ انگارہ ہو چکی ہے۔ جب میں نے اپنے اندر جھانک کے دیکھا تو میں نے اپنی روح کو یا جان کو سرخ پایا۔


رانجھن رانجھن پھراں ڈھوڈیندی
رانجھن میرے نال 


میں محبوب (اللہ تعالی)  کو ڈھونڈتی پھرتی ہوں۔ جب کہ وہ تو میرے ساتھ ہی ہے

اس شعر میں شاعر نے اپنے مشاہدے کی بنا پر اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے ، کہ اللہ تعالیٰ تو انسان کے دل میں اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب رہتا ہے ۔
اور نادان انسان اسے جنگلوں اور ویرانوں میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔
رانجھن میرے نال کہنے کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے ، کہ جب اللہ تعالیٰ انسان کے دل میں بستا ہے ، تو بجائے کہ انسان اسے ڈھونڈنے جنگلوں میں نکل جائے ، انسانیت کی فلاح اور خدمت کرے ، یہی سوچ کر کہ جن کی بھلائی وہ کررہا ہے ، ان کے دل میں خدا بستا ہے ۔
حقوق العباد کی بہت تاکید ہے شریعت ظاہری میں بھی اور شریعتِ باطنی میں بھی ۔
مرزا غالبؔ کا بھی شعر ہے :۔
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
اور علامہ اقبال ؒ نے بھی بہت خوبصورت انداز میں سمجھایا ہے :۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا گیا انسان کو
ورنہ طاعت کو کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

    

کہے حسین فقیر نمانا ، شوہ ملے تاں تھیواں نہال


بے چارا فقیر حسینؒ کہتا ہے ، شاہ(اللہ تعالیٰ) ملے گا تب  نہال ہونگا

اپنے درد جدائی کا ذکر کرنے کے بعد شاہ حسینؒ  فرماتے ہیں کہ جب اللہ کا قرب حاصل کر لوں گا ، تب نہال ہونگا، یا آرام میں آ جاؤں گا ۔ جدائی میں تو آرام یا چین و سکون کا خیال بھی محال ہے

کرم فرما