حق مغفرت کرے ، عجب آزاد مرد تھا
ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ جناب عبدالرشید صاحب جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ نابغہ روزگار شخصیت تھے ۔پرنسپل آف ایچی سن لاہور کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تو پیر صاحبان کے پر زور اصرار پر حزب الرحمن اسلامی اکادمی میں وائس پرنسپل کا عہدہ سنبھال لیا ۔ بے حد باغ و بہار قسم کی شخصیت تھے ۔ ریاضیات اور طبیعات میں اپنے مقابل کسی کو کچھ نہ مانتے تھے ۔ اور یہ سچ بھی تھا ۔ اریب قریب ستر سال کی عمر میں بھی "رشکِ جوانی پیری" کے مالک تھے ۔ ہاکی کے باقاعدہ کھلاڑی تھے ۔ اور کبڈی کے کھیل میں اچھے اچھے بھی ان کے سامنےپانی بھرتے تھے ۔
اکثر اوقات ان کا مزاج خوشگوار ہی رہتا تھا ۔اور خوشگوار موڈ میں ہمیشہ ٹھیٹھ پنجابی میں لن ترانیاں فرمایا کرتے تھے مگر جیسے ہی اردو یا انگلش بولنا شروع کرتے ہم سب سمجھ جاتے تھے ، کہ موسم گرج چمک والا ہو گیا ہے لہذا پتلی گلی پکڑنے میں ہی عافیت ہے ۔ جوگی پر ہمیشہ خصوصی شفقت فرماتے تھے ۔ انگلش میں جوگی کی تمام تر مہارت کا کریڈٹ انہی کو جاتا ہے ۔ سکول سے چھٹی کے بعد فارغ وقت میں آصف الرحمن (کلاس فیلو اور ان کا رشتے دار ) اور جوگی کو اپنے پاس بٹھا کر انگریزی لکھائی کی مشق پہ مشق کراتے اور انگلش گرائمر کے رموز بھی سمجھاتے ۔ مگر یہ لطیفہ بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ آج اگر جوگی علمِ ریاضی میں صفر درجہ رکھتا ہے تو اس کی وجہ بھی جناب رشید صاحب ہیں۔
ان کا معمول تھا کہ رات کو عشا ء کی نماز کے بعد وہ ہوسٹل کا چکر لگاتے تھے ۔ لیکن یہ کوئی دجال کے جیسا چکرنہ ہوتا تھا ۔ بلکہ وہ ہر کمرے میں جا کر ہر ایک طالب علم سے اس کا حال چال پوچھتے ۔ پڑھائی کے بارے میں دریافت کرتے۔ اور کمال بے حد کمال یہ تھا کہ وہ ہر بچے کو ذاتی طور پر جانتے تھے ۔ اس کی پڑھائی میں کیفیت ، اس کی عادات و افعال ، اس کی پسند ناپسند سب انہیں معلوم تھی ۔اس معمول میں کبھی ناغہ نہ ہوا۔
سر جائے یا رہے نہ رہیں پر کہے بغیر
ساتویں جماعت میں اردو کا پیریڈ جاری تھا اور سبق تھا میلہ چراغاں ۔۔۔۔۔۔۔۔ استاد صاحب نے لیکچر میں بتایا کہ ان بزرگ کا نام مادھو لال حسین تھا۔ سمجھ آ گیا نا سب کو ؟ کیا نام تھا اس بزرگ کا جن کے مزار پر میلہ لگتا ہے ۔قسمت کے مارے جوگی کے منہ سے نکل گیا شاہ حسین ؒ ۔سلیم صاحب کا پارہ یکدم ہائی ہو گیا ۔ میں جانتا ہوں تمہیں ۔ تم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟ میں نے کیا غلط پڑھایا ہے مادھو لال حسین، جو تم شاہ حسین کہہ رہے ہو ؟
اورحسبِ توقع ڈنڈا اٹھا کر شروع ہو گئے ۔جب اچھی طرح اپنا غصہ نکال چکے ۔ تو مرغے سے انسانی صورت میں واپسی کا حکم ہوا۔ اور بولے اب ذرا اپنے ہم جماعتوں کو مادھو لال حسین کے بارے میں بتاؤ۔ تم وہی ہو نا ۔۔۔۔جو اساتذہ کو لقمے دیتا ہے ۔۔۔۔آج میں کرتا ہوں تمہیں سیدھا۔ ۔۔۔اب ہو جاؤ شروع ۔۔۔۔ اور غلطی کی صورت میں کسی رعایت کی امید نہ رکھنا ۔ جوگی نے حضرت شاہ حسینؒ کی پیدائش سے لیکر وفات تک کے ان کے حالات ، اور مادھو لال حسین ؒ کی وجہ تسمیہ بیان کر دئیے ۔۔۔بلکہ سویٹ ڈش کے طور پر ان کا کچھ کلام بھی سنا دیا۔ مگر جوگی کا گناہ پھر بھی منت کشِ گلبانگ ِ تسلی نہ ہوا ۔
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا ، پر یاد آتا ہے
دوسرے سال جوگی کاتعارف وسیم اکرم سے ہوا۔ان میں حیرت ناک حد تک مماثلت اور مشابہت تھی ۔نہ صرف قد ، جسامت میں بلکہ شکل و صورت میں بھی اٹھارہ ، بیس کا فرق تھا ۔ جوگی کی طرح اس کا بھی کوئی دوست نہیں تھا۔ اس کے والدجناب محمد اکرم صاحب ائیر فورس میں آفیسر تھے ، وہ بھی انگلش میڈیم سے اچانک درس نظامی میں آیا تھا ۔ پڑھائی میں جتنا اچھا تھا ، ہوسٹل میں اتنا ہی للو اور بدھو تھا ۔ لڑکے اس کے گھر سے آئے ستو، پنجیرے ، اور حلوے ، کھا جاتے ، اور آنجناب بے چارگی سے دیکھتے رہتے ۔جرمِ ضعیفی کی نہیں یہاں جرمِ شریفی کی سزا مرگِ مفاجات تھی۔ وہ نہایت ہی کم آمیز ، اور تنہائی پسند تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک ان دونوں میں واجبی سی بات چیت بھی نہیں تھی ۔پھر جو علیک سلیک ہوئی تو سلام دعا سے نکلی، دوستی کی دیوار پھاندی اور لنگوٹیانہ یاری کے میدان میں آزاد گھومنے لگی۔حتیٰ کہ سکول ، مدرسے اور ہوسٹل میں ان دونوں کی دوستی کی مثالیں دی جانے لگیں ۔ ایک ، اکیلا ایک ہوتا تھا اب ایک اور ایک مل کر گیارہ ہو گئے ۔للو سا وسیم پتا نہیں کہاں رہ گیا ، اب تو ایک نیا وسیم سب سے سامنے تھا ، جو ڈنکے کی چوٹ پر جوگی کو نہ صرف اپناپیر بلکہ گرو مانتا تھا ۔ اور بڑوں بڑوں کے کان کترتا تھا۔ کون سا میدان تھا ، جس میں ہم پیچھے رہتے ہوں ۔ سب سے زیادہ پیریڈ مس کرنے کا اعزاز ہمارے پاس تھا ۔ اس کے باوجود پڑھائی میں سب سے آگے۔۔۔ سب سے زیادہ سونے والے ہم ۔۔۔۔ کلاس میں ہمیشہ سب سے آخری رو میں بیٹھنے والے ہم ۔۔۔۔ اس کے باوجود اساتذہ کے سب سے زیادہ چہیتے ۔۔۔۔ نہ صرف اپنی کلاس میں بلکہ تمام سکول اور مدرسے کی کلاسوں میں مقبول ترین۔ہر دلعزیز ترین طالب علم۔۔۔۔ اساتذہ نے ہماری رو (یعنی کلاس ڈیسکوں کی آخری قطار) کو"قبائلی علاقہ" کا خطاب دیا ہوا تھا ۔ قبائلی علاقے میں نصابی کتب سے زیادہ عمران سیریز ، اور جاسوسی ڈائجسٹ پائے جاتے تھے ۔ لیکن جب پکڑ دھکڑ میں شدت آتی چلی گئی تو ہم نے مولانا حبیب اللہ صاحب کو عمران سیریز کا چسکا لگایا اوریوں اپنی کلیکشن کو ہوسٹل سپرنڈنٹ ، اور دیگر سخت گیر اساتذہ کی دست برد سے محفوظ کر لیا ۔
مرا معلم عشق تو شاعری آموخت
اس الف لیلی ٰ کا آغاز اس تاریخی دن سےہوتا ہے جب سردیوں کا موسم اور منگل کا دن تھا ۔ اتفاق سےپیریڈ بھی فری تھا۔ میس کی جانب سے بکرے کے ممیانے کی آواز آ رہی تھی ۔ (منگل کو میس میں بکرے ذبح کر کے پکائے جاتے تھے) وسیم جو بسا اوقات خاموش ہی رہا کرتا تھا اس دن نجانے کس موڈ میں تھا ، جوگی سے بولا:۔ "ذرا محسوس کرو کہ بکرا کیا کہنا چاہتا ہے ۔"پھر دونوں نے مل کر بکرے کی آواز بغور سنی ۔ایک دوسرے کو اپنے اپنے اندازے سنائے۔ اور پھر مل کر اپنی ان احمقانہ سوچوں پر خوب ہنسے ۔ اس پہلی بالمشافہ بات چیت سے اجنبیت کی دیوار کیا گری کہ دونوں غیر محسوس طریقے سے دوست بنتے چلے گئے ۔ دونوں کو کو ئی اور منہ نہیں لگاتا تھا ، جو کہ سب سے بڑا سبب بنا ان دونوں کی دوستی اور قریب آنے کا۔ وسیم نے جوگی سے کہا :۔"اگر بکرے کی فریاد کو علامہ اقبال کی نظم کی طرح ایک نظم کی شکل میں لایا جائے تو کمال ہو جائے گا۔ "اس نے نہ صرف جوگی کا حوصلہ بڑھایا بلکہ ساتھ ہی انعام کے طور پر سوہن حلوہ کھلانے کا بھی وعدہ کیا ۔ اس طرح جوگی نے اپنی (مرحوم)شاعری کا آغاز ایک فی البدیہہ نظم " بکرے کی صدا" سے کیا ۔ جسے باقی ہم جماعتوں کی طرف سے جزوی طور پر اور وسیم کی طرف سے خصوصی اور کلی طور پر داد ملی ۔جلد ہی اس سلسلے کی دوسری نظم "مینڈکوں کی ٹر ٹر" منظر عام پر آئی ، اور پہلے کی نسبت زیادہ داد کی حقدار ٹھہری ۔ جوگی کا حوصلہ بڑھانے اور اسے مزید آگے بڑھتے رہنے میں صرف اور صرف وسیم کا ہاتھ تھا ۔ وہ نہ صرف ایک اچھا سامع تھا بلکہ بہت اچھا مشیر بھی تھا ۔جواب میں جوگی نے وسیم کے اندر اعتماد پیدا کرنے بلکہ اسے مضبوط کرنے میں مدد بہم پہنچائی ۔
کمال ہے جی۔۔۔ماشاءاللہ
سچادوست تو اللہ کی دوستی کا پرتو ہوتا ہے
متفق علیہ