Pak Urdu Installer

Saturday, 1 June 2013

ڈبویا مجھ کو ہونے نے (قسط ششم ) ۔

3 آرا

حلقہ  رندانِ خاکسار بیا


ماموں کی مہربانی کہ انہوں نے جوگی  کو اپنے پیر  و  مرشد  کے پاس قادر بخش شریف پہنچا دیا۔قادر بخش  شریف  میں  ایک  ولی کامل  اور   باکمال  بزرگ حضرت  سید محمد عبداللہ  شاہ قادری  رحمتہ اللہ  علیہ کا مزار ہے۔اگر  کسی  کا قول ہو کہ پیر  انِ باصفا  اور  مرشدانِ کاملان اب صرف ماضی  کی حکایات  میں رہ  گئے ہیں ۔ فی زمانہ  قحط  الرجال ہے تو  اسے میرا  مشورہ  ہے  کہ ایک  مرتبہ  قادر  بخش  شریف  میں تشریف لائیے ۔  کچھ عرصہ  تنقیدی  جائزہ لیجیئے ۔  پھر  جو  آپ  کو  حق  محسوس  ہو    اس میں آپ  آزاد ہیں ۔ مگر  خیال  رہے  کہ یہ مشورہ  مفت  کا  ہر گز نہیں۔  اس کے  ہدیے  کے طور پر  فدوی  چھوٹا غالب  دعا  کا حقدار ہے ۔

حضرت  سید عبداللہ  شاہ قادریؒ کے جد ِامجد یعنی  حضرت  امام  لطیف بری  رحمۃاللہ  علیہ  کے  بھائی  کے صاحبزادے  سید  محمد موسیٰ     راولپنڈی  سے نقلِ وطن  کر کے  علاقہ  لائل پور (موجودہ  فیصل آباد) میں تشریف لائے ۔ الحمد اللہ فدوی   ان کے مزار پر   حاضری  کا  بھی مشرف ہے ۔ اور  وہ بستی  انہی  کے نام سے  یعنی "سید موسیٰ"  کے نام سے مشہور ہے ۔ پھر  صاحب ِ مذکور  کے جدِ امجد  جن کا  اسمِ گرامی  سید قادر بخش تھا ۔  انہوں  نے  جو  جگہ آباد کی   وہ  آہستہ  آہستہ  ایک  چھوٹا  سا گاؤں ہو گئی ۔ اور  اسی گاؤں کا  نام بھی  قادر بخش  ہے ۔
حضرت سید  محمد عبداللہ شاہ  قادریؒ  اسی  گاؤں قادر  بخش میں  1898 ء  کو  اس دارِ فانی  میں رونق  افروز ہوئے ۔اس علاقے میں جہالت کا  یہ عالم تھا  کہ لوگ  مسلمان  تو تھے  لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ اسلام کس  چیز کا نام ہے ۔  ہندو  قوم کے ساتھ  رہتے رہتے  ہندو تہذیب  ان  میں کوٹ کوٹ  کر بھری ہوئی  تھی ۔  انہی کے توہمات  و رواج مسلمانوں نے  اپنائے ہوئے تھے ۔  بلکہ یہاں تک  نوبت پہنچ چکی تھی  کہ  ہندوؤں کی  دیکھا دیکھی  مرضِ چیچک  کو  دور کرنے کیلئے  درختوں  کی پوجا  کرتے تھے ۔ 
  یہ وہ زمانہ تھا  جب کہ  پورے ضلع  میں  صرف چند سکول  تھے اور  وہ بھی  بڑے بڑے شہروں میں ۔  آپ جب کچھ  بڑے ہوئے  تو  حسبِ  دستور  مسجدمیں ایک  دیندار مولوی  صاحب  سے سلسلہ  تعلیم  کا  آغاز کیا ۔قرآنِ کریم  اور دوسری  چھوٹی چھوٹی  فارسی  کتابوں  سے لے کر گلستان  ، بوستان تک تعلیم جاری رکھی ۔ ان کے علاوہ  بھی  چند کتب آپ کی نظروں سے گزریں ۔  جناب  پیر  صاحب کی  تعلیم کے  بارے میں  بتانے  کی ضرورت اس لیے  محسوس ہوئی  کہ  فدوی   یہ ظاہر کر سکے  کہ  علمِ ظاہر اور  علمِ باطن  میں کیا فرق ہے۔
ابھی آپ  پانچ برس کے تھے  کہ اپنے  ننھیال  میں تشریف لے گئے ۔ گاؤں  کے پاس ہی  ایک رہٹ  تھا۔  اس  پر خشک لکڑیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا  ۔ آپ نے اسے  آگ لگا دی  ۔اس انبار سے اس قدر بلند شعلے نکلے کہ  گاؤں والے خوفزدہ ہوگئے  اور آگ بجھانے کیلئے  کنویں کی طرف دوڑے ۔  جب آپ  کو وہاں  کھڑے  دیکھا تو   سب نے  دریافت کیا  کہ   یہ آگ تو نے  کیوں لگا  دی اور ہمارا سارا  ایندھن جلا  دیا؟؟۔ آپ  نے فرمایا  بھئی  میں نے ایندھن نہیں جلایا  ، بلکہ روشنی کی  ہے تاکہ اندھیرا دور ہو جائے ۔  یہ  آثار آپ کے بچپن  میں  تھے ۔ اور  پھر آپ نے  اجالا  کر کے  دکھایا اور  ایسی  روشنی کی  کہ ظلمت شیاطین  دور  ہو گئی ۔
سندیلیانوالی  میں حضرت  قطب الاقطاب سید  قطب علی  شاہ بخاری  ؒ  کے  دستِ  حق  پرست پر بیعت ہوئے اور تیس سال  کی عمر میں آپ  کو خرقہ خلافت عطا ہوا۔اور آپ نے تبلیغ  شروع فرمائی  ۔ غالباً  جو تبلیغ  آپ نے فرمائی شاید ہی کسی ولی  اللہ  نے کی ہو ۔ کیونکہ  اکثر کتب میں  ، میں  نے  دیکھا ہے کہ  ہر فقیر (جو وعظ فرماتے تھے )  کے  وقت مقرر ہوا کرتے تھے ۔ مثلاً حضرت محبوبِ سبحانی  شیخ عبدالقادر جیلانی  رحمۃ اللہ علیہ  ہفتہ  میں تین بار وعظ  و  نصیحت فرمایا کرتے تھے ۔ خواجہ حسن  بصری  ؒ ہفتہ میں  ایک بار ۔ غرض کہ  سب کے  وقت مخصوص تھے لیکن  جنابِ شیخ کا  کوئی  وقت مقرر  نہ تھا۔ آپکا  کام  دن ہو یا رات  ، یہی ہوتا تھا ۔  صبح نمازِ  فجر  اور اوراد و تلاوت کے بعد  باہر تشریف  لاتے  اور آغازِ محفل ہوتا ۔ دوپہر بارہ بجے  تک مسلسل  وعظ  فرماتے ۔ پھر  بعد نمازِ ظہر  وعظ فرمانے  لگتے تو  شام ہو جاتی ۔ کبھی کبھی تو  عشاء  تک بھی  یہ سلسلہ  جاری رہتا ۔  یہ معمول  شروع سے  لے کر  آخر عمر  تک اسی طرح رہا ۔


نسخہ کیمیا


عبدالحمید  قادری  صاحب بیان کرتے ہیں کہ  ایک مرتبہ لاہور میں  حضرت صاحب ؒ میرے بڑے بھائی کے مکان پر تشریف لائے ۔  اور شام کا کھانا وہیں  تناول فرمایا ۔ کھانا خاص اہتمام سے تیار کیا گیا تھا ۔  اگرچہ دعوت میں  میں بھی مدعو تھا مگر ان دنوں اعلیٰ  حضرت  سے میرا تعارف  نہ تھا  ۔  کھانے سے فراغت کے بعد   واپس  تشریف لے جاتے ہوئے حضرت صاحب  اس کمرہ سے گزرے جہاں میں بیٹھا تھا ۔ ایک خوش پوش اور مقبول صورت بزرگ کو اپنے سامنے دیکھ  کر میں تعظیماً  کھڑا ہو گیا ۔  ادھر آپ  نے  مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا  ادھر  بھائی صاحب نے بتایا کہ یہ میرا چھوٹا بھائی عبدالحمید ہے  ۔  میں  نے بڑھ کر مصافحہ کیا اور آپ تشریف لے گئے ۔ 
میں بیٹھ کر سوچنے لگا  :۔ "کیسی پیری  ہے  کہ اچھے اچھے کپڑے پہن لیے اور عمدہ عمدہ کھانے کھا لیے۔  " دوسرے دن  بھائی صاحب میری فرمائش پر  مجھے  اپنے ساتھ لے کر  مال روڈ پر  ڈاکٹر جلال الدین دندان ساز  کی دکان پر گئے ۔ سردی کا موسم تھا ، آنحضرت قبلہ و کعبہ دوکان کے سامنے  صحن میں ایک کرسی پر  تشریف فرما تھے  ۔  سلام و نیاز کے بعدحسب الارشاد میں پاس ہی پڑی  ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا  اور عرض کیا :۔"  قبلہ!  جب  قرآن مجید  ہماری  راہنمائی  کیلئے  موجود ہے  ۔ احادیث موجود ہیں۔ حضور سرورِ کائنات ﷺ کی حیاتِ طیبہ  کا ایک ایک واقعہ  ہمارے سامنے ہے  ۔ پھر کیا ضرورت ہے  کہ ہم کسی  راہنما  کی  تلاش کریں اور حضور خاتم الانبیا  کے علاوہ کسی اور کو  راہنما  بنا لیں ۔"
آپ نے فرمایا :۔"  میں شہری آبادیوں  سے  دور دراز  کا رہنے والا  ایک سادہ  دیہاتی ہوں ۔ اس لیے شہروں  میں رہنے والے لوگوں  کی طرح میرا ذہن فلسفیانہ  نہیں  ہے۔  تاہم میں جو کچھ کہوں  ذرا غور سے سن لو ۔" آپ  ؒ  نے  مال روڈ پر گزرتی  ہوئی  موٹروں  کی طرف  اشارہ  کرتے ہوئے فرمایا :۔"دیکھو!  موٹریں  سڑک پر  بھاگی جا رہی ہیں ۔جن لوگوں نے انہیں بنایا  ہے ۔ انہوں نے  تعلیم  کے ابتدائی  مدارج  طے  کرنے کے بعد  انجینرنگ  کے  امتحان پاس کیے ۔  تجربہ گاہوں میں  عمر کا ایک حصہ  صرف کیا  اور پہلے لوگوں  کے علم  اور تجربات  سے بھی استفادہ  کیا ۔ پھر بڑی محنت  اور کاوش  کے بعد  ایسی موٹریں  بنانے میں  کامیاب ہوئے ۔  ہم یہ بھی دیکھتے  ہیں کہ زندگی کے مختلف  شعبوں  میں  موجود  ترقی کا راز  انسان کی صدیوں  کی مسلسل  جد  و  جہد  کا  نتیجہ ہے  ۔ پھر یہ کیونکر  ممکن ہے  کہ جس  شعبے  سے ہم فائدہ  اٹھانے  کے خواہش مند ہیں ۔ اس سے متعلق  صرف کتابیں  پڑھ  کر  ہی کامیابی  سے ہمکنار ہو جائیں  اور ماہرین  کی کاوش  اور تجربات  کا نظر انداز  کر دیں ۔اس  کی واضح  مثال  یہ ہے کہ  میں  ایک عرصہ سے  دانتوں کی تکلیف  میں  مبتلا ہوں  ۔ اس بات کا مجھےبھی علم  ہے  کہ  دندان سازی  سے متعلق  کتابیں  موجود ہیں  ۔ اگر میں  ان کتابوں کو پڑھ کر  اپنے دانتوں  کا علاج خود ہی  کرنے کی کوشش کرتا   تو کیا  یہ دانشوری کی دلیل ہوتی ۔؟؟؟  کیا  ایسے فعل سے  میرے دانتوں  کو مزید  تکلیف پہنچنے کا امکان  مفقود  ہو جاتا  ۔؟؟؟  میرے  شعور نے  تو  مجھے  یہی مشورہ دیا  کہ  خطرہ مول لینے کی بجائے  یہی مناسب ہےکہ  کسی ماہر  کی  خدمت سے فائدہ  اٹھایا جائے ۔  اور ماہر بھی ایسا ہو  جس  سے سراسر  صحت کی بحالی کی توقع کی جاسکے ۔ اناڑی نہ ہو  کہ  صحت مند دانت بھی اکھاڑ  کر باہر پھینک دے ۔"
پھر فرمایا:۔" یہ ان شعبوں کا حال ہے  جن کا تعلق  دنیا کے مادی عناصر سے ہے  ۔  لیکن قرآن حکیم  اور رسالت الہی  کا منشا  صرف مادیات کی ترقی ہی نہیں  بلکہ اس کا بلند و بالا  مقصد  روحانیت کی ترقی ہے  ۔ یہہ علم  عرفانِ الہی  کا ذریعہ ہے  اور تمام علموں پر حاوی ہے  ۔ اس علم  سے تمام  اشیا کی حقیقت  معلوم ہو جاتی ہے ۔ یہ علم آدم علیہ السلام کو دیا گیا تو وہ ملائکہ  پر سبقت لے گئے  ۔  یہ علم اولاد آدم کا  ورثہ ہے  ۔ جس نے اسے حاصل کر لیا  اس نے تمام  علوم پر فوقیت  حاصل کر لی  ۔ ماہرین مادیات نے آج ریڈیو  ، وائرلیس  اور ٹیلیویژن  ایجاد کیے ہیں ۔  مگر سیدنا  حضرت عمر فاروق  رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  نے  آج سے تیرہ سو  برس پہلے  مسجد نبوی  میں جمعۃ المبارک  کا  خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے  حضرت ساریہ  کی کفار کے  ساتھ جنگ کا نظارہ  فرمالیا  ۔ اور اسی وقت فرمایا  "یا ساریۃ الجبل "  
اللہ تعالیٰ  نے انسان  کو  تمام  علوم کا  خزینہ بنایا  ہے اور  اس میں  تمام اوصافِ حمیدہ  اور رذیلہ   رکھ دئیے ہیں ۔ کوئی شے اس سے خارج میں موجود نہیں ہے ۔ یہ گنجینہ معلومات  ہے ۔  اس انسان نے  مادی اعتبار سے  نئی نئی  چیزیں  ایجاد کی ہیں  ۔  ان ایجادات  کا  علم اللہ تعالیٰ نے اس میں پہلے ہی ودیعت  فرما رکھا  ہے  جنہیں یہ  خدادا  عقل و دانش سے  اللہ تعالیٰ  کے بخشے ہوئے  خزانہ معلومات  سے حاصل کرتا ہے  ۔ لیکن ایسے لوگوں میں  غیر مادی  اشیا  کا ادراک محال ہے  ۔  یہی انسان جب  روحانیت میں ترقی کرنے لگتا ہے  تو آہستہ آہستہ  اس کے خزانہ معلومات  پر چھائے ہوئے پردے  اٹھتے چلے جاتے ہیں ۔ اور اس کیلئے  اشیاء مسخر  ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ اور اگریہ  اسی طرح  ترقی  کرتا چلا جائے  تو انفس  و آفاق  میں ہر شے اس کی تابع  ہو جاتی ہے ۔
جناب رسول اللہ  ﷺ  کا وجودِ مسعود  نور و بشریت  کا ایک  حسین امتزاج ہے ۔ جو نور  ِ ذات سے  فیض حاصل کرتا ہے  اور  مخلوق کو پہنچاتا ہے ۔ اسی وجہ سے  اللہ تعالیٰ  نے  حضورﷺ کو رحمۃ للعا لمین  ارشاد فرمایا ہے  ۔چنانچہ  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دستور تھا کہ  قرآن مجید  کی تلاوت  میں لطف اٹھاتے  اور عبرت حاصل کرتے تھے اور رسول ِ خدا  ﷺ  کی  پاکیزہ صحبت میں اخلاق اللہ   کی تعلیم پاتے تھے ۔ اور ان کے عقدے کھلتے تھے ۔ اس لیے جب  تک  کسی ایسے مردِ خدا  کی صحبت اختیار نہ کی جائے  جو  رسول اللہ  ﷺ سے  آج بھی صحبت رکھتا ہو اور  حضور ﷺ  کا  ہدایت یافتہ ہو،   قرآن مجید  کا  سمجھنا  محال ہے 
واقف نمی شوند  کہ گم کردہ  اند راہ
تا رہرواں بہ راہنمائے  نمی رسند
قرآن مجید آج بھی موجود  ہے  مگر پڑھنے والے خال خال ہیں ۔ قرآن حکیم کا پڑھنا یہ ہے  کہ آیاتِ مطہرہ  اپنا  رنگ دکھلائیں اور حروف ِ مقطعات  اپنا مفہوم بیان فرما دیں 
پڑھنا گڑھنا  کسب ہے اور سنوار لے حبیب
جس پڑھنے  شوہ پائیے  وہ پڑھنا کسے نصیب
پھر قدرے توقف کے  بعد فرمایا :۔ " عبدالحمید  !  اگر اچھا کھانا کھانے  اور عمدہ کپڑا  پہننے  میں دلی رغبت اور ارادہ  کا دخل ہو  تو  یہ دنیا داری ہے  ۔ اور جب اپنا ارادہ  اٹھا لیا تو  پھر وہ ذاتِ کریم  جو کچھ بھی عنایت  فرمائے  اس کی مہربانی ہے ۔  نہ تو موٹا  کپڑا پہننے  اور سادہ غذا کھانے میں رنج ہے  اور نہ ہی عمدہ پوشاک  اور عمدہ کھانا  کھانے میں خوشی اور رغبت  ہے ۔ البتہ صبر اور شکر کا دامن  ہاتھ  سے نکلنے نہ پائے ۔"

اس  آفتابِ  ہدایت نے  مورخہ 29 جون  1961ء  وصال  فرمایا  ۔اور آپ کا  مزار قادر بخش شریف میں  مرجع خاص و عام ہے ۔

3 آرا:

  • 3 June 2013 at 10:28

    سندیلیانوالی میں حضرت قطب الاقطاب سید قطب علی شاہ بخاری ؒ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے اور تیس سال کی عمر میں آپ کو خرقہ خلافت عطا ہوا۔اور آپ نے تبلیغ شروع فرمائی ۔ غالباً جو تبلیغ آپ نے فرمائی شاید ہی کسی ولی اللہ نے کی ہو ۔ کیونکہ اکثر کتب میں ، میں نے دیکھا ہے کہ ہر فقیر (جو وعظ فرماتے تھے ) کے وقت مقرر ہوا کرتے تھے ۔ مثلاً حضرت محبوبِ سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہفتہ میں تین بار وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے ۔ خواجہ حسن بصری ؒ ہفتہ میں ایک بار ۔ غرض کہ سب کے وقت مخصوص تھے لیکن جنابِ شیخ کا کوئی وقت مقرر نہ تھا۔ آپکا کام دن ہو یا رات ، یہی ہوتا تھا ۔ صبح نمازِ فجر اور اوراد و تلاوت کے بعد باہر تشریف لاتے اور آغازِ محفل ہوتا ۔ دوپہر بارہ بجے تک مسلسل وعظ فرماتے ۔ پھر بعد نمازِ ظہر وعظ فرمانے لگتے تو شام ہو جاتی ۔ کبھی کبھی تو عشاء تک بھی یہ سلسلہ جاری رہتا ۔ یہ معمول شروع سے لے کر آخر عمر تک اسی طرح رہا ۔

    ماشاءاللہ۔۔۔

  • 30 May 2014 at 08:20

    عبدالحمید ! اگر اچھا کھانا کھانے اور عمدہ کپڑا پہننے میں دلی رغبت اور ارادہ کا دخل ہو تو یہ دنیا داری ہے ۔ اور جب اپنا ارادہ اٹھا لیا تو پھر وہ ذاتِ کریم جو کچھ بھی عنایت فرمائے اس کی مہربانی ہے ۔ نہ تو موٹا کپڑا پہننے اور سادہ غذا کھانے میں رنج ہے اور نہ ہی عمدہ پوشاک اور عمدہ کھانا کھانے میں خوشی اور رغبت ہے ۔ البتہ صبر اور شکر کا دامن ہاتھ سے نکلنے نہ پائے ۔"
    ماشاءاللہ
    کیا دلنشیں انداز بیاں ہے حضرت کا ،

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آپ کی قیمتی آرا کا منتظر
فدوی چھوٹا غالب

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

کرم فرما