Pak Urdu Installer

Monday 9 September 2013

ڈبویا مجھ کو ہونے نے (قسط پانزدہم) ۔

1 آرا

اونٹ رے اونٹ ! تیری کونسی کل سیدھی


نہ معلوم  جوگی کا  خمیر  کس  مٹی سے اٹھایا  گیا تھا۔ دنیا جہان سے نرالی منطق  ، نرالے ہی  طور تھے ۔اور  وسیم  سے دوستی کے بعد  تو  مانو  سہاگہ  پھر گیا  ۔ہینگ لگی نہ پھٹکڑی  مگر  رنگ ایسا  چوکھا آیا  کہ  سب کی آنکھیں خیرہ ہو کے رہ گئیں ۔ کوئی  ایک ادھ معاملہ ہو تو  بندہ  بھی کہے  کہ کبھی کبھار  دماغی رو  الٹ  جاتی ہے  ، دو چار  ڈنڈے پڑے  تو  دماغ  ٹھکانے آجائے گاجبکہ  اس قدر  تسلسل  ، تواتر  اورثابت قدمی سے  روشِ عام سے الٹ چلنے والے  جس  کی  دماغی رو نہیں بلکہ ساری کی ساری  کھوپڑی ہی الٹ  ہوایسے کا پھر کیا علاج ۔۔۔؟؟
علم  ِ صرف اور اس کی  گردانات  اور  تعلیلات  سے  ہر ایک کی جان جاتی  تھی ۔ جوگی  اینڈ ہمنوا  نے  ایسی  سبیل نکالی  کہ  جس  نے بھی سنا  حیرت کے مارے عش عش  بھی نہ کر سکا ۔ سب  لوگ   جب "میزان  الصرف "  میں سر دئیے   "ماضی  مطلق   معروف  مزید فیہ  " کی  صرف ِ  کبیر  اور ان کے اوزان  کو رٹا مار مار  کے ہلکان ہو رہے ہوتے جوگی اینڈ کمپنی  مزے سے عمران اور پاکیشیا  سیکرٹ سروس کے کارنامے پڑھا کرتے اس کے باوجودجب   علم الصرف کے پیریڈ میں سب با جماعت مرغا بن کر حسد اور رشک کے ملے جلےجذبات سے جوگی اور وسیم کو جناب محمد امین صاحب سے  گپیں  ہانکتے دیکھتے تو ان  بے چاروں کا کلیجہ سڑ کے سُوا  ہو جاتا  ۔آخر  انہوں نے ڈیڑھ لیٹر پیپسی  اور دو کلو  بسکٹ کی  بھینٹ دے کر  یہ راز ِ نہاں  پالیا کہ ان دونوں  نے میزان الصرف کی گردانیں کبھی اپنے سر پہ سوار نہیں ہونے دیں بلکہ  یہ آتے جاتے  چلتے پھرتے  نظر آنے والی  کسی  بھی  چیز  کو گردان  میں قید  کر لیتے ہیں۔ مثلاً پنکھا  دیکھا  تو  شروع  ہو گئے ۔ ۔۔۔۔  پَنکھا، پنکھآ، پنکھو، پنکھت ، پنکھتا، پنکھنَ، پنکھتَ ، پنکھتما،  پنکھتم ۔۔۔۔۔۔الخ۔
ان چیرہ دستیوں کا  شکار  محض علم الصرف ہی نہیں بلکہ  عربی ادب  ، فارسی  ادب اور  پھر  منطق  اور اصولِ فقہ  بھی حصہ بقدرِ جثہ  پاتے رہے ۔ عربی زبان کی وسعت    ماشاء اللہ  بے حد و حساب  ہے  ،  اور  اس پہ مستزاد  وسیم اکرم  گردان کیلئے ایسے ایسے  مصادر  چُن چُن  کر  ڈھونڈ لاتا  کہ مولانا  نذر محمد  صاحب "بے شرم ، گدھے " کی گردان کرنے لگ جاتے ۔ اور  پھر  ہمیشہ  کیلئےجوگی  اور   وسیم  کیلئے عربی مصادر کی گردانیں   شجرِ ممنوعہ  قرار دے دی گئیں۔
فارسی  میں کبھی بے خیالی میں یا بھولے سے اگر  جناب محمد  حنیف صاحب  ان دونوں میں سے کسی کو گردان کا کہہ دیتے تو پھر  "ریدن" ،  "شاشیدن" ، "لیسیدن"، "چسپیدن" وغیرہ قسم  کے مصادرکی گردان  انہیں ان کی توبہ یاد دلادیتی  کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ان  شیطانوں  سے گردان کا کبھی نہیں کہنا۔
گلستانِ سعدی  کا باب پنجم (در عشق و جوانی ) ان کا پسندیدہ ترین ہونے کے  باوجود  نہ معلوم کیا وجہ تھی  کہ ان دونوں کیلئے گلستان  کا سب سے  زیادہ  پیچیدہ اور  تشریح طلب باب تھا۔ غلام محمد صاحب پانچ سات بار تو اپنی سادہ دلی  سے  ان دونوں کو پڑھاتے  اور ناقابلِ گرفت حد تک تشریح بھی فرماتے  رہے ، لیکن تا بہ کے ۔۔۔۔؟؟؟آخر کار سمجھ ہی گئے  کہ  انہیں گلستان سعدی  ؒ اور خاص طور پر باب پنجم  حفظ ہے  ، بس  یہ  تشریح کے ضمن میں دوسرے شعرا کے شعر  سننے اور مزے سے نکتے بازی کرنے  کے چکر میں باب ِ پنجم  کے ادق ہونے  کی دہائی  دیتے ہیں۔

 جس  کو ہو دین  و دل  عزیز ، اس کی گلی  میں جائے کیوں


فقہ  اور  اصولِ فقہ  کے درس  میں  ان کی کھڑی  کی  گئیں مباحث بھی   اپنی  جگہ  ایک  تماشا  تھیں۔۔۔ سب سے پہلے پانی کی پاکی اور ناپاکی والے مسئلے   پر  ان  دونوں کی سوئی بارہ  پہ اٹک گئی ۔مولانا شکیل احمد  صاحب کا اس قسم کے طالب علموں سے پہلی بار واسطہ پڑا تھا ۔  لہذاپہلے پہل تو بوکھلا  گئے  اور دوسری  بار وضو  کے مسئلے پر  ڈٹ  گئے ۔ اس بحث کی وجہ  دراصل  عوام  میں رائج  یہ غلط تصور جسے  فقہ کا مسئلہ  سمجھ  لیا گیا  تھا کہ  وضو  ٹوٹنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے  کہ  انسان  کا  چاہے  کسی بھی وجہ سے  چاہے  چند  لمحے  کیلئے ہی سہی ستر ہٹ جائے ۔ یعنی اس غلط تصور کی رو سے  اگر  کوئی  باوضو  شخص  کپڑے تبدیل کرتا  ہے تو اس کا وضو  ٹوٹ گیا  اوراب اسے دوبارہ وضو کرنا پڑے گا ۔حلقہ  ملنگاں(جوگی اور وسیم )کا کہنا تھا کہ وضو نہیں ٹوٹتا  جبکہ  عوام کا تو کیا کہنا  شکیل صاحب نے  بھی حکومت کی رٹ قائم کرنے اور ان دونوں سے یرغمال نہ ہونے  کے چکر میں وضو کے ٹوٹنے اور تجدید ِ وضو  کے حق میں ووٹ  دیا  اور پھر  بحث اتنی بڑھی کہ سانپ کے گلے میں چھچھوندر ہو گئی ۔  شکیل  صاحب نے انا کا مسئلہ بنا لیا اور حلقہ  ملنگاں  کی تو فطرت  میں تھا  کہ سچ  پر  ڈٹ جاؤ اور پھر  رتی برابر  بھی پیچھے نہ ہٹو ۔
آخر کار  جب  فقہ کی کسی  مستند  کتاب  میں کسی  بھی امام ؒ  کے نزدیک  وضو  کا ٹوٹنا ثابت نہ ہوا تو  شکیل صاحب غیر پارلیمانی  ہتھکنڈوں پر  اتر آئے ۔اور  ان کی علمیت  کا ملمع جوگی  کے پھینکے پھندے میں پھنس کر اتر  گیا۔ کسی مسئلے  پر بات کے دوران مثال  کے طور جوگی نے غالب  ؔ کا مشہور ِ زمانہ مصرعہ  "کون جیتا ہے تیری زلف  کے سر ہونے تک"پڑھا تو حسبِ عادت شکیل صاحب نے مصرعے  کو  سراسر غلط قرار دیتے ہوئے ساری مثال کو ماننے سے  انکار کر دیا ۔  وجہ  کی کھوج میں  پتہ چلا  کہ شکیل صاحب  کا قول  ہےکہ  ایک  زلف  کبھی  سر  (جسے انگلش میں ہیڈ کہتے ہیں) ہو ہی  نہیں سکتی ۔  یعنی  شاعر نے ایک ناممکن  سی بات محض  بھرتی کا شعر  جڑنے کو کہہ دی ہے ۔  نہایت ہی بے تکا شعر ہے ۔جب ان  کی اطلاع کیلئے عرض کیا گیا کہ یہ   (بقول  آپ کے) بے تکا شعر  فخر ِ اردو  مرزا غالب ؔ  علیہ الرحمۃ  کا  ہے  تو انہوں نے ایک نثری ہجو  غالب  ؔ  کی  شان میں  کہہ  کر اسے  بے تکے شعر  سے  ترقی سے کر  لغو  ترین شعر  کے درجے پر فائز کر دیا ۔
جوگی  نے ایمان کی امان  پا  کر  عرض  کی کہ سر جی ! فدوی  کے ناقص  خیال  میں سر  ہونے  کا مطلب  فتح  ہونے کے  مطلب میں بیان ہوا ہے ۔ اور شکیل صاحب  کی شائستگی  کی پیمانہ  چھلک پڑا ۔  انہوں  نے جوگی کے  ماضی  قریب کے ریکارڈ  اور  حال  کے  وقوعے  کی  روشنی  میں مستقبل  کی  پیش گوئیاں  شروع کر دیں۔ یہاں تک تو سب خیر  گزری  اگلے دن  قائد  اعظم محمد علی جناح ؒ  کے ذکر  پر  جب انہوں  نے بابائے قوم  کی شان میں  نازیبا  کلمات پاس کیے  تو  حلقہ ملنگاں نے احتجاجاً شکیل  صاحب سے پڑھنے سے انکار کر دیا  اور  ان کی کلاسز کے  بائیکاٹ کا  اعلان کر دیا ۔  


حضرت ناصح گر آویں دیدہ و دل فرشِ راہ


فقہ  کے مدرس  تبدیل  ہو گئے مگر  حلقہ ملنگاں  کے اطوار تبدیل  نہ  ہوئے ۔  اب کی بار  بحث کا  باعث "قدوری" کی کتاب النکاح بن گئی ۔ طلاق  اور مہر  کے مسائل پر تو خیر  بے ضرر بحثیں اکثر رونق ِ کلاس ہوتی ہی تھیں۔  مگر  یہ بحث نہایت  عجب نوعیت کی  تھی ۔متنازعہ  مسئلہ   جنسیات  سے متعلق   ہونے کے سبب یہاں  صرف بحث کی مناسب تفصیل پر اکتفا کیا  جا رہا ہے ۔
عوام الناس میں  نیم ملا حضرات کی پھیلائی لغو محض افواہ  کے سچ  یا جھوٹ ہونے پر  بحث ہوئی ۔ نیم  ملا  اور مکتبی قسم کے مولانا حضرات  کا اس بارے میں قول تھا کہ مسئلہ  نا مذکور  فعلِ حرام ہے اور اس  کے وقوع کی صورت میں  نکاح فاسد ہو جاتا ہے ۔ اور تجدید ِ نکاح بھی صرف حلالہ  کے بعد  ہی  ہو گی ۔
اس فعل کے حلال یا حرام  ہونے  کی بحث اپنی جگہ  جوگی اور وسیم  کا  نکتہ  اعتراض یہ تھا  کہ اس فعل     کے وقوع  کی صورت میں  آئمہ  اربعہ  میں سے کسی  کے نزدیک  بھی نکاح کے فاسد ہونے کا  کوئی ثبوت نہیں۔نہ طلاق جبری واقع ہو  گی نہ ہی  نکاح ٹوٹے  گا۔کیونکہ  جھوٹ بولنا  اور شراب پینا قسم  کے گناہ نہ  صرف حرام  بلکہ کبیرہ گناہ  ہیں۔ لیکن ان کبیرہ گناہوں  کے  وقوع  کے بعد  بھی  نکاح نہیں ٹوٹتا۔
ہر طرف زلزلہ سا آ گیا اور نام  نہاد  علامہ  حضرات کے  قصرِ  علم  کے چند کنگرے  گر پڑے ۔  حسبِ عادت بات کفر  کے فتوے سے شروع ہوئی اور یہاں تک آن پہنچی  کہ ان دونوں  میں خود ابلیس  حلول کر گیا ہے ۔ اس  لیے یہ اس قسم کے مسئلوں  کو  بحث کا  اکھاڑہ  بنا لیتے ہیں۔ لیکن جب کسی طرح گلو خلاصی نہ  ہوئی اور جوگی  اینڈ ہمنوا  اپنے موقف  پر ڈٹے  رہے  کہ اول درجہ تو یہ ہے کہ امام ِ اعظم حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کا قول پیش کیا جائے جس سے ثابت ہو کہ نکاح ٹوٹ گیا ۔ درجہ دوم میں بقیہ  آئمہ ثلاثہ کے اقوال  سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے ۔  بس پھر کیا تھا ۔ ۔۔۔۔ لائبریری  میں رش  لگ گیا  ۔  بڑی بڑی کتابیں جو  ہم جیسے بچے جمہورے  صرف الماری  میں سجی دیکھ  کر  دل بہلا  سکتے تھے  ۔  وہ اپنی طباعت کے بعد  پہلی بار کھل گئیں۔لیکن نکاح ٹوٹنے کا  قول کسی کتاب میں نہ پایا جا سکا ۔  تین  دن اکھاڑہ سجا رہا جس  میں اساتذہ کے علاوہ  طلباء کی  دلچسپی  بھی دیدنی تھی ۔
آخر  جب  ہر  ممکن کوشش کے باوجود نکاح ٹوٹنے کا قول نہ  مل سکا  تو پھر  بات حلال حرام پر آ گئی ۔
نامذکور  فعل  کے حلال ، حرام  ہونے پر    نئی بحث کا آغاز ہو گیا ۔
اس بحث نے اس قدر طول کھینچا  کہ  شیطان کی آنت ہو گئی۔ جوگی  اور ہمنوا کا  نکتہ نہایت سادہ  تھا کہ  نکاح کامقصد ہی حرام کو حلال کرنا ہے ۔ نکاح سے پہلے  جو کچھ  کرناگناہ کبیرہ  ہے  نکاح کے ایجاب و قبول  کے بعد وہی  ثواب کا کام ہو جاتا ہے ۔ پس اگر  نکاح کے بعد بھی کچھ  حلال اور کچھ حرام  کا جھگڑا رہے تو نکاح کا مقصد  اور مطلب تو فوت ہو گیا ۔  ایسے ناقص نکاح کا کوئی کیا کرے ۔ نکاح میں  ایجاب  و قبول  کا اطلاق "کُل" پر  ہوگا نہ کہ "جزو"پر۔۔۔
بیع و شرا کے قواعد  ِ فقہ اس ضمن میں بہترین رہنمائی  فراہم کرتےہیں ۔ تفصیل میں جانا بے جا ہے ۔
اللہ تعالیٰ  نے جنرل طور پر  فرما دیا کہ نکاح کے بعد مرد پر عورت حلال ہے اور عورت  کیلئے مرد حلال ہے ۔  پس  اگر  اب ہم قیل و قال کریں تو ہم  میں اور بنی اسرائیل  میں کونسافرق باقی رہ گیا ۔  سورۃ بقرہ  اللہ نے مسلمانوں کی ضیافتِ طبع  کیلئے نازل نہیں فرمائی  بلکہ اس کا مقصد بنی اسرائیل  کا قصہ سنا کر  عبرت دلانا تھا کہ کہیں کل کو مسلمان بھی یہی قیل و قال نہ شروع کر دیں۔ (واقعہ  بقرہ کا خلاصہ ) موسیٰ  علیہ السلام  کے سوال  پر اللہ  تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ ایک گائے ذبح کر  کےاس کے گوشت کا ایک ٹکڑا مقتول  کی لاش پر رکھو ۔ مقتول  خود اٹھ کر بتا دے گا کہ اس کا نامعلوم قاتل کون  ہے ۔  غور فرمائیے ۔۔۔۔ اللہ  نے ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیا ۔۔۔ کوئی بھی ہو۔۔۔ کیسی بھی ہو ۔۔۔  نہ رنگ کی تخصیص ۔۔۔۔  نہ عمر  کی قید ۔۔۔۔  بات نہایت سادہ تھی ۔  لیکن  بنی اسرائیل اپنی عادت سے مجبور تھے ۔ سوال پہ سوال کرتے گئے اور خود کو خود  پھنساتے گئے ۔ رنگ پوچھا تو اللہ تعالی  ٰ  نے فرمایا "تسر الناظرین       "،  پھر  بھی شامت نے ستایا تو پوچھ لیا کہ عمر  کتنی ہو ۔۔۔الخ ۔  سوال پوچھتے گئے اور ایک سادہ سی بات کو پیچیدہ کرتے گئے ۔ کوئی  بھی گائے سے بات اب ایک مخصوص گائے تک آن پہنچی ۔  جس کا ملنا  ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہو گیا ۔اور اس وقت ہم مسلمان بھی وہی تماشا  کر رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ  نے جب جنرل طور پر  مرد و  عورت کو نکاح کے بعد ایک دوسرے پر حلال  کر دیا تو ہمیں پاگل کتے نے کیوں کاٹ لیا ہے کہ ہم پوچھتے پھر رہے ہیں کہ کہاں  کہاں تک چھونے کی اجازت ہے ۔ اور کیا کیا کرنے کی اجازت ہے ۔"میاں بیوی ایک  دوسرے کا لباس ہیں۔" کیا اتنے واضح حکم کے بعدیہ  پوچھنے کا  کوئی جواز رہ جاتا ہے کہ یہ لباس ہم  جسم کے کونسے کونسے  حصے پر پہنیں۔۔۔؟؟؟  جب واضح حکم آ گیا تو اس کے بعد تفصیل پوچھ پوچھ کے چسکے لینا چہ معنیٰ دارد۔۔۔؟؟؟

قائل ہونا نہ ہونا ایک طرف ۔۔۔۔ جوگی اور وسیم کی ذہانت کی دھاک ہر طرف بیٹھ گئی ۔

1 آرا:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آپ کی قیمتی آرا کا منتظر
فدوی چھوٹا غالب

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

کرم فرما