اب جبکہ یہ راز راز نہیں رہا کہ وہ نامراد جوگی دراصل میں ہی تھا ، جو مغ پلس غزل کی تلاش میں تھا۔
تو پھر تکلف ایک طرف رکھیے اور آگے کی کہانی مجھ سے سنیے۔۔۔
کچھ عرصہ مزید بیت گیا ، مگر جوگی کی تلاش کو منزل نصیب نہ ہوئی ۔
واں وہ غرور عز و ناز ، یاں یہ حجاب پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں ، بزم میں وہ بلائے کیوں
چونکہ اس مسئلے پر آنجہانی غالب مرزا پہلے ہی اچھی خاصی روشنی ڈال چکے تھے ۔ اس لیےمیرے دل میں ان کیلئے کوئی شکوہ شکایت قسم کی خرافات کا کوئی گزر نہ تھا۔آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ جب بزرگ خواب میں اشارہ کر گئے تھے کہ وہ ملک پاکستان کے شہر کراچی میں رہتے ہیں ، تو پھر "مانع وحشت خرامی ہائے لیلیٰ کون ہے۔؟؟" میں مانتا ہوں کہ "خانہ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا " مگر یہ کمبخت کراچی کا سفر "بے کرایہ نہ تھا" ۔ شکل پر بے شک اب بھی سٹوڈنٹی برستی ہے مگر زیادہ سے زیادہ رحیم یار خان تک مفتہ ہو سکتا ہے ، اگر تمام کنڈکٹر حاتم طائی کے ہاتھ پر بیعت بھی کر لیں تب بھی تو منٹھار ، نیو خان وغیرہ کی دوڑ صادق آباد کی جامع مسجد تک ہی ہے۔اگر چندہ جمع کر کے بالفرض کراچی پہنچ بھی جاؤں تو کراچی کونسا چک نمبر 111/7ہے جہاں میں جاتے ہی انہیں ڈھونڈ لوں گا۔اللہ جھوٹ نہ بلوائے ایک بار تو زبیدہ آپا سے رجوع کرنے کا خیال بھی دماغ میں کلبلایا ، مگر بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا ۔۔۔۔
ایک دن جب میں اسی فکر میں غرق تھا تو غیب سے مضامین خیال میں آنے لگے ۔ جن میں سے ایک اچھوتا اور نادر مضمون یہ تھا کہ کراچی پہنچ کر وہاں گلی گلی "بھانڈے قلعی کرالو" کی صدا لگانا شروع کر دو ۔پریوں کی شہزادی بھلا کب بھانڈے دھوتی ہوگی ، اس لیے جس گھر سے سب سے زیادہ کالے اور حال سے بے حال برتن لائے جائیں ، سمجھو وہیں اپنی آپا جی رہتی ہیں ، اگر خدا نخواستہ سگھڑاپے میں بھی مس یونیورس کے ایوارڈ پر بھی قابض ہوئیں تو لوگوں بھانڈے قلعی کرتے کرتے یہ عزت ِ سادات بھی جاتی رہے گی ۔ نوشہ میاں کی بھی تو کوئی امید بر نہیں آئی تھی ۔ مگر دل کو تسلی دی کہ
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں شہرِ فتور کی
کسی نہ کسی گھر سے تو دودِ تیموریہ اٹھتا دکھائی دے گا ۔ ویسے بھی پریوں کی شہزادی ہوئیں تو کیا شادی کے بعد ہر لڑکی بیگم ہی بن جاتی ہے، شاید محمود میاں کہیں کسی تھڑے پر پکا سگریٹ پھونکتے اور عشق کو کوستےنظر آ جائیں ۔ اتنی عمدہ ترکیب سوچنے پر دو تین الٹی چھلانگیں لگائیں ، اپنے آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا ، اور آگے کا پلان سوچا کہ کرائے کا بست و بندکیونکر ہو ۔
نظر ِ انتخاب مسجد کیلئے چندہ کی صندوقچی پر جا پڑی ، مگر ہائے ری پھوٹی قسمت اس خزانے پر مولوی صاحب پھن پھیلائے چوکس بیٹھے تھے ۔سمجھ دار آدمی تھے مجھے دیکھ کر اور بھی چوکس ہو گئے ،چیں بجبیں ہو کر پوچھا :۔ خیر تو ہے آج فوجاں ادھر کدھر؟ کیسے راہ بھول پڑے کیونکہ آپ اور آپ استاد محترم کا مشترکہ ایجنڈا ہے کہ "طبیعت ادھر نہیں آتی۔"
جوابا ً میں نے زمانے بھر کا گھسا پٹا جملہ اچھال دیا :۔ مولوی صاحب ! سیانے کہتے صبح کا بھولا شام کو لوٹے تو بھولا کہہ کر اس کا دل نہ توڑو ۔ میں تو پھر بھی شام سے کئی گھنٹے پہلے دوپہر کو نازل ہوا ہوں ۔ "
مولانا صاحب بھی گرگِ باراں دیدہ تھے ، مجھے ایک طنزیہ مسکراہٹ سے نوازا ، اورمجھے کچھ ایسی شک بھری نظروں سے گھورا ، جیسی نظروں سے غالب نے اس ساقی کو گھورا تھا جس پر انہیں شک تھا کہ "ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔"اور فرمایا :۔ اور وہ صبح کتنے سال پہلے کی تھی؟
مسلسل طنزیہ حملوں پر میرے بخاری خون نے بھی ابال پکڑا، میں نے درجوابِ آن غزل کے طور پر گستاخانہ کہا :۔" مولوی صاحب آپ کے اسی دل شکن رویے سے مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا ہے ۔"
وہ بھی کچھ کم ڈھیٹ نہ تھے ترکی بہ ترکی بولے :۔ " ارشاد ۔۔۔۔ ارشاد۔۔۔۔ ناچیز ہمہ تن گوش ہے۔"
اب تو مانو جوابی حملہ واجب ہو گیا تھا ،سو دانت پیس کے بولا:۔ " ایک کسان کا گدھا رسا تڑا کر بھاگ نکلا ، اور شامت کا مارا مسجد میں پنا ہ لینے گھس گیا ۔ مولانا صاحب سخت چراغ پا اور بدمزہ ہوئے ، ڈنڈا لے کرجہاد کی نیت سے گدھے پر پل پڑے ، کچھ دیر میں کسان بھی افتاں خیزاں وہاں پہنچ گیا اور گدھے کی درگت بنتے دیکھ کر بولا :۔ مولوی صاحب رحم کریں بے چارہ بے زبان جانور ہے ، کبھی مجھے بھی مسجد میں گھستے دیکھا ہےکیا۔؟"
اور ساتھ ہی ایک جناتی قسم کا قہقہہ بھی لگایا ، مولانا صاحب شاید لطیفے سے زیادہ میرے قہقہے کا برا مان گئے ، اس لیے ہمیشہ سے کارآمد اکسیری نسخہ یعنی باآوازِ بلند "لاحول ولاقوۃ ۔۔۔۔۔" کا ورد شروع کر دیا ۔ اس اسم اعظم کے سامنے تو شیطان ِ اعظم یعنی ابلیس بھی نہ ٹک سکے ، میری بھلا کیا مجال تھی۔اس لیے خدا سے دل ہی دل میں "بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے" کا شکوہ کرتے بھاگ نکلا۔
جب ٹھنڈے دل اور ٹھنڈے پیٹ سے سوچا تو سمجھ آیا کہ مولانا صاحب پر غصہ بے جا ہے کہ بقول استاد جی "اس میں کچھ شائبہ خوبی تقدیر بھی تھا"۔لیکن ہمت ہارنا سراسر بے عزتی تھی ۔ کچھ دیر بعد اس خیال سے پھر دو تین چکر لگائے کہ بندہ بشر ہے، شاید باتھ روم گیا ہو ۔ مگر مولوی صاحب شاید قبض کے مریض تھے ، یا پھر میرے دوسرے چکر پر معاملہ سمجھ گئے تھے مزید چوکنے ہو بیٹھے ۔ خیر میں نے نماز کے وقت کا انتظار کیا ، اور گھات میں بیٹھ گیا کہ جونہی اذان کیلئے اٹھیں تو صندوقچی لاپتہ کر دی جائے ۔ لیکن جب میں نے اذان کیلئے اٹھنے سے پہلے مولوی صاحب کو سرمایہ صندوقچی سے اپنے فتراک میں منتقل کرتے دیکھا ، توکھسیانی بلی کی طرح بے اختیار عمران سیریز کو کوسا ،اور جی چاہا کہ مولوی صاحب "سےکوئی پوچھے تم نے کیا مزہ پایا"۔۔۔۔۔ ۔
پھر دل کو تسلی دی اور ڈھٹائی سے سوچا خیر ہے ۔۔۔۔!!استاد جی کے ساتھ ایسا ہوا ہوتا تو آج یہ شعر یوں ہوتا:۔
گر کیا مولانا نے سرمایہ غائب ، اچھا یوں ہی سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا
ہونا تو یہی چاہیے تھا مگر احباب ہی نااہل تھے ، چارہ سازی وحشت نہ کر سکے ، اس لیے اٹھتے بیٹھتے خیال ِ کراچی نورد تھا۔
محلے میں اور کوئی منہ لگاتا ہی نہ تھا کہ اسی سے ادھار ہی مانگ لیتا ، اسی بہانے استاد جی کی سنت پر بھی عمل ہو جاتایعنی ایک پنتھ دو کاج ۔مگر کسی ڈیڑھ شانے نے سچ ہی کہا ہے :"اے بسا آرزو کہ خاک شد۔"لے دے کے ایک "نون" ہی تھا ، جو میرا دوست ، ہمدم ، رازداں بلکہ مختصر کہا جائے تو لنگوٹیا یار تھا ۔ طرفہ تماشا یہ کہ وہ بھی میری طرح کنگال شہنشاہ ۔ (تفصیلی تعارف کیلئے الف نون ملاحظہ ہو)
چونکہ کبھی کبھار اس کے منہ سے کام کے مشورے بھی خارج ہو جاتے تھے ، اسی امید پر میں نے نون کا کھرا اٹھایا اور اسے اللہ ڈتہ گرم حمام پر جا پکڑا ، موصوف کنگھی چوٹی میں مصروف تھے ،میرے سلام کا جواب بھی میڈم نور جہاں کی طرز میں آیا ۔ حیرانی تو مجھے بہت ہوئی لیکن میں پٹڑی سے اترکر اپنے مشن امپوسبل چندہ پروٹوکول کو پسِ پشت ڈالنا نہ چاہتا تھا ۔ اس لیے سیدھے کام کی بات پر آیا ۔
"یار میں کراچی جانا چاہتا ہوں "
"اچھا ۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے جاؤ" کہہ کر وہ اپنے کام میں مگن رہا ۔ یہ بے نیازی مجھے ہضم کرنا مشکل تھی ، پھر بھی اس معاملے کی تفتیش ملتوی کر کے میں غرایا :۔" کمینے ! میں اجازت مانگنے نہیں ۔ مشورہ مانگنے آیا ہوں ۔" مگر اس کی محویت پھر بھی نہ ٹوٹی ۔ میں نے ایک سرد آہ بھر کر کہا:۔ حق ہاااااااااا۔۔۔۔
"تو اور آرائشِ خم کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دوردراز"
حسبِ توقع غالب کے شعر پر نون بری طرح چڑ گیا ، کنگھی پٹخی اور جھنجھلا کے بولا :۔ " کراچی جانا ہے تو جاؤ مرو۔۔۔ میرا کیوں سر کھا رہے ہو ۔ ابھی تک وہ کلینک والی پٹائی سے ابھرنے والے گومڑ ختم ہوئے نہیں اور تو پھر کوئی نیا پنگا لے کر آ گیا ۔"
اس غیر متوقع عزت افزائی پر میرا منہ بن گیا :۔ "تو دوست کسی کا بھی ، ستم گر نہ ہوا تھا۔"اس لیے مزیدتپانے کیلئے پھر غالب کا مصرعہ گنگنایا ۔
نون مزید چڑ گیا :۔ "یار تو آخر کیوں میری جان کو آ گیا ہے؟"
میں نے مسکرا کے صدا لگائی :۔ "ایک مشورے کا سوال ہے بابا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
نون بھلا کیسے موقع ہاتھ سے جانے دیتا ، ہاتھ جوڑ کے بولا :۔ معاف کرو بابا ۔۔۔۔ جمعرات کو آنا۔۔۔"
میں نے کہا :۔ "اکڑنا بند کر خبیث ۔۔۔ تم سے تو میں بعد میں نپٹ لوں گا مگر ابھی شرافت سے کوئی اچھا سا مشورہ دے ، کوئی ترکیب سوچ ۔۔ ۔ کراچی جانے کا سب سے سستا ذریعہ سوچ ۔۔۔۔۔ کیونکہ عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب ہے سمجھ نہیں آتا دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک ۔"
نون شرارت سے بولا :۔ "چل میں تجھے دریائے سندھ میں دھکا دے آتا ہوں ، بہتے بہتے کراچی تو پہنچ ہی جاؤ گے۔"
"اپنی کمینگی کسی اور وقت تک کیلئے اٹھا رکھو اور سیدھا سیدھا مشورہ دو، میں واقعی سنجیدہ ہوں ۔" میری جھنجھلاہٹ عروج پر تھی
نون شاید مجھ سے کلینک پر پڑنے والی مار پر سوری سننا چاہتا تھا اس لیے بے نیازی سے دوبارہ محو آئینہ داری ہو گیا ۔ ظالم نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ اسے "کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں " ۔ مجھ جیسے آزادہ و خود بیں کیلئے اب الٹے پھر آنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔
انگور کھٹے پا کر میں نے خود کو غیرت دلائی کہ "اپنی ہستی ہی سے ہو ، جو کچھ ہو " استاد جی کے اس ولولہ انگیز مصرعے پر کھوپڑی کو تاؤ آ یا اور ایک ترکیب چھپاک سے دماغ کے جوہڑ میں مینڈک کی طرح کودی اور میں بے اختیار اچھل پڑا ۔ جیسے پچھلی بار خواب میں الف چاچو سے ملاقات کی تھی اسی طرح پھر سے کوئی خواب دیکھا جائے ۔ نیک کام میں دیر کیسی ۔۔۔۔ نکما تو ہمیشہ سے تھا ۔۔۔۔ بس لیٹنے کی دیر تھی ۔ ۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔ کروٹیں بدل بدل کر بقول ملکہ جہنم میڈم نصیبو لال "کنڈ چھلی گئی سجناں " اور نیند تھی کہ جیسے عنقا کے پروں پہ بندھی تھی ۔۔۔۔۔برات ِ عاشقاں بر شاخِ آہو۔
ہزار حیف کہ اتنا نہیں کوئی غالبؔ
کہ جاگنے کو ملا دیوے آ کے خواب کے ساتھ
بہت سوں کا سلیپنگ پلز سے بھلا ہو جاتا ہے ، اسی امید پر میں نے بھی کچھ گولیاں گنے بغیر پھانک لیں ، مگر " درد منت کشِ دوا نہ ہو ا۔۔۔۔۔۔"
تنگ آ کر وقت گزاری کیلئے 1962 ء کا ایک رسالہ اٹھا لیا ۔ ورق گردانی کرتے کرتے نگاہیں ایک شعر سے دوچار ہوئیں ، اور چھوٹا غالب چاروں شانے چت ۔
خواجہ حیدر علی آتش ؔ کہہ رہے تھے :۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
آؤ دیکھا نہ تاؤ ، اٹھ کے کمر باندھی ، اور مسافر راہ پر گر پڑا (راہ افتادن ) ۔ اس قدر نازک مزاج تو نہ تھا مگر پھر بھی تھا تو جنس آدم سے ، آہستہ آہستہ گوڈے گٹے جواب دینے لگے ۔بہاولپور تک کا سفر تو جیسے تیسے کٹ گیا مگر مجھے آٹے دال کا بھاؤ خوب خوب معلوم ہو گیا ، دل میں سوچا ایک ضلع پار کرنے پر یہ حشر ہوا ہے تو جوگی میاں حساب لگا لو ، بہاولپور ، رحیم یار خان کو پار کر کے سندھ کی سرحد آئے گی ، اور پورا سندھ پار کرکے سمندر کنارے مائی کلاچی کا کراچی بستا ہے، اچھا خاصا لمبا رستہ ہے ۔حساب کتاب سے تو جوگی کو غش پہ غش آنے لگے ، سارا جوگ اور جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ۔ بے اختیار جی چاہا کہ عورتوں کی طرح جھولی اٹھا اٹھا کے آتش ؔ کو بدعائیں دوں اور منہ بھر کے نہ صرف اسے بلکہ اس کے اگلے پچھلوں کو بھی ایسا کوسوں کہ وصی شاہ ، اور فرصت عباس شاہ سنیں تو شاعری سے توبہ تائب ہو جائیں اور داتا دربار پر ملنگ بن کے بیٹھ جائیں ۔
واقعی قرآن مجید سچ کہتا ہے ، غالب کے علاوہ سارے (اکثر ) شاعر جھوٹے ہیں ۔ آتش ؔ کو کبھی خود پیدل سفر کرنا پڑا ہوتا تو ایسا بے تکا شعر لکھنے سے پہلے قلم توڑدیتا ۔ منہ پہ کالک مل لیتا مگر اتنی لمبی نہ چھوڑتا ۔ اور میں نے بدھو پنے میں نایاب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا کہ اس کئی سو سال کے مرحوم شاعر کے جھانسے میں آ گیا ۔ ایک پٹرول پمپ پہ بیٹھا آتش ؔ اور اس کے دیوان کو کوس ہی رہا تھا کہ لانگ مارچ سے واپس آنے والوں کا قافلہ وہاں آن پہنچا ۔ وہ وہاں کچھ دیر پانی پینے اور سستانے کیلئے رکے ، میں تو کافی دیر سے سستا ہی رہا تھا اس لیے اس امدادِ غیبی پر شکر ادا کیا اور قافلے کی ایک بس میں گھس گیا ۔
جاری ہے
اس کہانی کی اگلی قسط ملاحظہ کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
تو پھر تکلف ایک طرف رکھیے اور آگے کی کہانی مجھ سے سنیے۔۔۔
کچھ عرصہ مزید بیت گیا ، مگر جوگی کی تلاش کو منزل نصیب نہ ہوئی ۔
واں وہ غرور عز و ناز ، یاں یہ حجاب پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں ، بزم میں وہ بلائے کیوں
چونکہ اس مسئلے پر آنجہانی غالب مرزا پہلے ہی اچھی خاصی روشنی ڈال چکے تھے ۔ اس لیےمیرے دل میں ان کیلئے کوئی شکوہ شکایت قسم کی خرافات کا کوئی گزر نہ تھا۔آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ جب بزرگ خواب میں اشارہ کر گئے تھے کہ وہ ملک پاکستان کے شہر کراچی میں رہتے ہیں ، تو پھر "مانع وحشت خرامی ہائے لیلیٰ کون ہے۔؟؟" میں مانتا ہوں کہ "خانہ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا " مگر یہ کمبخت کراچی کا سفر "بے کرایہ نہ تھا" ۔ شکل پر بے شک اب بھی سٹوڈنٹی برستی ہے مگر زیادہ سے زیادہ رحیم یار خان تک مفتہ ہو سکتا ہے ، اگر تمام کنڈکٹر حاتم طائی کے ہاتھ پر بیعت بھی کر لیں تب بھی تو منٹھار ، نیو خان وغیرہ کی دوڑ صادق آباد کی جامع مسجد تک ہی ہے۔اگر چندہ جمع کر کے بالفرض کراچی پہنچ بھی جاؤں تو کراچی کونسا چک نمبر 111/7ہے جہاں میں جاتے ہی انہیں ڈھونڈ لوں گا۔اللہ جھوٹ نہ بلوائے ایک بار تو زبیدہ آپا سے رجوع کرنے کا خیال بھی دماغ میں کلبلایا ، مگر بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا ۔۔۔۔
ایک دن جب میں اسی فکر میں غرق تھا تو غیب سے مضامین خیال میں آنے لگے ۔ جن میں سے ایک اچھوتا اور نادر مضمون یہ تھا کہ کراچی پہنچ کر وہاں گلی گلی "بھانڈے قلعی کرالو" کی صدا لگانا شروع کر دو ۔پریوں کی شہزادی بھلا کب بھانڈے دھوتی ہوگی ، اس لیے جس گھر سے سب سے زیادہ کالے اور حال سے بے حال برتن لائے جائیں ، سمجھو وہیں اپنی آپا جی رہتی ہیں ، اگر خدا نخواستہ سگھڑاپے میں بھی مس یونیورس کے ایوارڈ پر بھی قابض ہوئیں تو لوگوں بھانڈے قلعی کرتے کرتے یہ عزت ِ سادات بھی جاتی رہے گی ۔ نوشہ میاں کی بھی تو کوئی امید بر نہیں آئی تھی ۔ مگر دل کو تسلی دی کہ
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں شہرِ فتور کی
کسی نہ کسی گھر سے تو دودِ تیموریہ اٹھتا دکھائی دے گا ۔ ویسے بھی پریوں کی شہزادی ہوئیں تو کیا شادی کے بعد ہر لڑکی بیگم ہی بن جاتی ہے، شاید محمود میاں کہیں کسی تھڑے پر پکا سگریٹ پھونکتے اور عشق کو کوستےنظر آ جائیں ۔ اتنی عمدہ ترکیب سوچنے پر دو تین الٹی چھلانگیں لگائیں ، اپنے آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا ، اور آگے کا پلان سوچا کہ کرائے کا بست و بندکیونکر ہو ۔
نظر ِ انتخاب مسجد کیلئے چندہ کی صندوقچی پر جا پڑی ، مگر ہائے ری پھوٹی قسمت اس خزانے پر مولوی صاحب پھن پھیلائے چوکس بیٹھے تھے ۔سمجھ دار آدمی تھے مجھے دیکھ کر اور بھی چوکس ہو گئے ،چیں بجبیں ہو کر پوچھا :۔ خیر تو ہے آج فوجاں ادھر کدھر؟ کیسے راہ بھول پڑے کیونکہ آپ اور آپ استاد محترم کا مشترکہ ایجنڈا ہے کہ "طبیعت ادھر نہیں آتی۔"
جوابا ً میں نے زمانے بھر کا گھسا پٹا جملہ اچھال دیا :۔ مولوی صاحب ! سیانے کہتے صبح کا بھولا شام کو لوٹے تو بھولا کہہ کر اس کا دل نہ توڑو ۔ میں تو پھر بھی شام سے کئی گھنٹے پہلے دوپہر کو نازل ہوا ہوں ۔ "
مولانا صاحب بھی گرگِ باراں دیدہ تھے ، مجھے ایک طنزیہ مسکراہٹ سے نوازا ، اورمجھے کچھ ایسی شک بھری نظروں سے گھورا ، جیسی نظروں سے غالب نے اس ساقی کو گھورا تھا جس پر انہیں شک تھا کہ "ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔"اور فرمایا :۔ اور وہ صبح کتنے سال پہلے کی تھی؟
مسلسل طنزیہ حملوں پر میرے بخاری خون نے بھی ابال پکڑا، میں نے درجوابِ آن غزل کے طور پر گستاخانہ کہا :۔" مولوی صاحب آپ کے اسی دل شکن رویے سے مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا ہے ۔"
وہ بھی کچھ کم ڈھیٹ نہ تھے ترکی بہ ترکی بولے :۔ " ارشاد ۔۔۔۔ ارشاد۔۔۔۔ ناچیز ہمہ تن گوش ہے۔"
اب تو مانو جوابی حملہ واجب ہو گیا تھا ،سو دانت پیس کے بولا:۔ " ایک کسان کا گدھا رسا تڑا کر بھاگ نکلا ، اور شامت کا مارا مسجد میں پنا ہ لینے گھس گیا ۔ مولانا صاحب سخت چراغ پا اور بدمزہ ہوئے ، ڈنڈا لے کرجہاد کی نیت سے گدھے پر پل پڑے ، کچھ دیر میں کسان بھی افتاں خیزاں وہاں پہنچ گیا اور گدھے کی درگت بنتے دیکھ کر بولا :۔ مولوی صاحب رحم کریں بے چارہ بے زبان جانور ہے ، کبھی مجھے بھی مسجد میں گھستے دیکھا ہےکیا۔؟"
اور ساتھ ہی ایک جناتی قسم کا قہقہہ بھی لگایا ، مولانا صاحب شاید لطیفے سے زیادہ میرے قہقہے کا برا مان گئے ، اس لیے ہمیشہ سے کارآمد اکسیری نسخہ یعنی باآوازِ بلند "لاحول ولاقوۃ ۔۔۔۔۔" کا ورد شروع کر دیا ۔ اس اسم اعظم کے سامنے تو شیطان ِ اعظم یعنی ابلیس بھی نہ ٹک سکے ، میری بھلا کیا مجال تھی۔اس لیے خدا سے دل ہی دل میں "بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے" کا شکوہ کرتے بھاگ نکلا۔
جب ٹھنڈے دل اور ٹھنڈے پیٹ سے سوچا تو سمجھ آیا کہ مولانا صاحب پر غصہ بے جا ہے کہ بقول استاد جی "اس میں کچھ شائبہ خوبی تقدیر بھی تھا"۔لیکن ہمت ہارنا سراسر بے عزتی تھی ۔ کچھ دیر بعد اس خیال سے پھر دو تین چکر لگائے کہ بندہ بشر ہے، شاید باتھ روم گیا ہو ۔ مگر مولوی صاحب شاید قبض کے مریض تھے ، یا پھر میرے دوسرے چکر پر معاملہ سمجھ گئے تھے مزید چوکنے ہو بیٹھے ۔ خیر میں نے نماز کے وقت کا انتظار کیا ، اور گھات میں بیٹھ گیا کہ جونہی اذان کیلئے اٹھیں تو صندوقچی لاپتہ کر دی جائے ۔ لیکن جب میں نے اذان کیلئے اٹھنے سے پہلے مولوی صاحب کو سرمایہ صندوقچی سے اپنے فتراک میں منتقل کرتے دیکھا ، توکھسیانی بلی کی طرح بے اختیار عمران سیریز کو کوسا ،اور جی چاہا کہ مولوی صاحب "سےکوئی پوچھے تم نے کیا مزہ پایا"۔۔۔۔۔ ۔
پھر دل کو تسلی دی اور ڈھٹائی سے سوچا خیر ہے ۔۔۔۔!!استاد جی کے ساتھ ایسا ہوا ہوتا تو آج یہ شعر یوں ہوتا:۔
گر کیا مولانا نے سرمایہ غائب ، اچھا یوں ہی سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا
ہونا تو یہی چاہیے تھا مگر احباب ہی نااہل تھے ، چارہ سازی وحشت نہ کر سکے ، اس لیے اٹھتے بیٹھتے خیال ِ کراچی نورد تھا۔
محلے میں اور کوئی منہ لگاتا ہی نہ تھا کہ اسی سے ادھار ہی مانگ لیتا ، اسی بہانے استاد جی کی سنت پر بھی عمل ہو جاتایعنی ایک پنتھ دو کاج ۔مگر کسی ڈیڑھ شانے نے سچ ہی کہا ہے :"اے بسا آرزو کہ خاک شد۔"لے دے کے ایک "نون" ہی تھا ، جو میرا دوست ، ہمدم ، رازداں بلکہ مختصر کہا جائے تو لنگوٹیا یار تھا ۔ طرفہ تماشا یہ کہ وہ بھی میری طرح کنگال شہنشاہ ۔ (تفصیلی تعارف کیلئے الف نون ملاحظہ ہو)
چونکہ کبھی کبھار اس کے منہ سے کام کے مشورے بھی خارج ہو جاتے تھے ، اسی امید پر میں نے نون کا کھرا اٹھایا اور اسے اللہ ڈتہ گرم حمام پر جا پکڑا ، موصوف کنگھی چوٹی میں مصروف تھے ،میرے سلام کا جواب بھی میڈم نور جہاں کی طرز میں آیا ۔ حیرانی تو مجھے بہت ہوئی لیکن میں پٹڑی سے اترکر اپنے مشن امپوسبل چندہ پروٹوکول کو پسِ پشت ڈالنا نہ چاہتا تھا ۔ اس لیے سیدھے کام کی بات پر آیا ۔
"یار میں کراچی جانا چاہتا ہوں "
"اچھا ۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے جاؤ" کہہ کر وہ اپنے کام میں مگن رہا ۔ یہ بے نیازی مجھے ہضم کرنا مشکل تھی ، پھر بھی اس معاملے کی تفتیش ملتوی کر کے میں غرایا :۔" کمینے ! میں اجازت مانگنے نہیں ۔ مشورہ مانگنے آیا ہوں ۔" مگر اس کی محویت پھر بھی نہ ٹوٹی ۔ میں نے ایک سرد آہ بھر کر کہا:۔ حق ہاااااااااا۔۔۔۔
"تو اور آرائشِ خم کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دوردراز"
حسبِ توقع غالب کے شعر پر نون بری طرح چڑ گیا ، کنگھی پٹخی اور جھنجھلا کے بولا :۔ " کراچی جانا ہے تو جاؤ مرو۔۔۔ میرا کیوں سر کھا رہے ہو ۔ ابھی تک وہ کلینک والی پٹائی سے ابھرنے والے گومڑ ختم ہوئے نہیں اور تو پھر کوئی نیا پنگا لے کر آ گیا ۔"
اس غیر متوقع عزت افزائی پر میرا منہ بن گیا :۔ "تو دوست کسی کا بھی ، ستم گر نہ ہوا تھا۔"اس لیے مزیدتپانے کیلئے پھر غالب کا مصرعہ گنگنایا ۔
نون مزید چڑ گیا :۔ "یار تو آخر کیوں میری جان کو آ گیا ہے؟"
میں نے مسکرا کے صدا لگائی :۔ "ایک مشورے کا سوال ہے بابا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
نون بھلا کیسے موقع ہاتھ سے جانے دیتا ، ہاتھ جوڑ کے بولا :۔ معاف کرو بابا ۔۔۔۔ جمعرات کو آنا۔۔۔"
میں نے کہا :۔ "اکڑنا بند کر خبیث ۔۔۔ تم سے تو میں بعد میں نپٹ لوں گا مگر ابھی شرافت سے کوئی اچھا سا مشورہ دے ، کوئی ترکیب سوچ ۔۔ ۔ کراچی جانے کا سب سے سستا ذریعہ سوچ ۔۔۔۔۔ کیونکہ عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب ہے سمجھ نہیں آتا دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک ۔"
نون شرارت سے بولا :۔ "چل میں تجھے دریائے سندھ میں دھکا دے آتا ہوں ، بہتے بہتے کراچی تو پہنچ ہی جاؤ گے۔"
"اپنی کمینگی کسی اور وقت تک کیلئے اٹھا رکھو اور سیدھا سیدھا مشورہ دو، میں واقعی سنجیدہ ہوں ۔" میری جھنجھلاہٹ عروج پر تھی
نون شاید مجھ سے کلینک پر پڑنے والی مار پر سوری سننا چاہتا تھا اس لیے بے نیازی سے دوبارہ محو آئینہ داری ہو گیا ۔ ظالم نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ اسے "کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں " ۔ مجھ جیسے آزادہ و خود بیں کیلئے اب الٹے پھر آنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔
انگور کھٹے پا کر میں نے خود کو غیرت دلائی کہ "اپنی ہستی ہی سے ہو ، جو کچھ ہو " استاد جی کے اس ولولہ انگیز مصرعے پر کھوپڑی کو تاؤ آ یا اور ایک ترکیب چھپاک سے دماغ کے جوہڑ میں مینڈک کی طرح کودی اور میں بے اختیار اچھل پڑا ۔ جیسے پچھلی بار خواب میں الف چاچو سے ملاقات کی تھی اسی طرح پھر سے کوئی خواب دیکھا جائے ۔ نیک کام میں دیر کیسی ۔۔۔۔ نکما تو ہمیشہ سے تھا ۔۔۔۔ بس لیٹنے کی دیر تھی ۔ ۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔ کروٹیں بدل بدل کر بقول ملکہ جہنم میڈم نصیبو لال "کنڈ چھلی گئی سجناں " اور نیند تھی کہ جیسے عنقا کے پروں پہ بندھی تھی ۔۔۔۔۔برات ِ عاشقاں بر شاخِ آہو۔
ہزار حیف کہ اتنا نہیں کوئی غالبؔ
کہ جاگنے کو ملا دیوے آ کے خواب کے ساتھ
بہت سوں کا سلیپنگ پلز سے بھلا ہو جاتا ہے ، اسی امید پر میں نے بھی کچھ گولیاں گنے بغیر پھانک لیں ، مگر " درد منت کشِ دوا نہ ہو ا۔۔۔۔۔۔"
تنگ آ کر وقت گزاری کیلئے 1962 ء کا ایک رسالہ اٹھا لیا ۔ ورق گردانی کرتے کرتے نگاہیں ایک شعر سے دوچار ہوئیں ، اور چھوٹا غالب چاروں شانے چت ۔
خواجہ حیدر علی آتش ؔ کہہ رہے تھے :۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
آؤ دیکھا نہ تاؤ ، اٹھ کے کمر باندھی ، اور مسافر راہ پر گر پڑا (راہ افتادن ) ۔ اس قدر نازک مزاج تو نہ تھا مگر پھر بھی تھا تو جنس آدم سے ، آہستہ آہستہ گوڈے گٹے جواب دینے لگے ۔بہاولپور تک کا سفر تو جیسے تیسے کٹ گیا مگر مجھے آٹے دال کا بھاؤ خوب خوب معلوم ہو گیا ، دل میں سوچا ایک ضلع پار کرنے پر یہ حشر ہوا ہے تو جوگی میاں حساب لگا لو ، بہاولپور ، رحیم یار خان کو پار کر کے سندھ کی سرحد آئے گی ، اور پورا سندھ پار کرکے سمندر کنارے مائی کلاچی کا کراچی بستا ہے، اچھا خاصا لمبا رستہ ہے ۔حساب کتاب سے تو جوگی کو غش پہ غش آنے لگے ، سارا جوگ اور جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ۔ بے اختیار جی چاہا کہ عورتوں کی طرح جھولی اٹھا اٹھا کے آتش ؔ کو بدعائیں دوں اور منہ بھر کے نہ صرف اسے بلکہ اس کے اگلے پچھلوں کو بھی ایسا کوسوں کہ وصی شاہ ، اور فرصت عباس شاہ سنیں تو شاعری سے توبہ تائب ہو جائیں اور داتا دربار پر ملنگ بن کے بیٹھ جائیں ۔
واقعی قرآن مجید سچ کہتا ہے ، غالب کے علاوہ سارے (اکثر ) شاعر جھوٹے ہیں ۔ آتش ؔ کو کبھی خود پیدل سفر کرنا پڑا ہوتا تو ایسا بے تکا شعر لکھنے سے پہلے قلم توڑدیتا ۔ منہ پہ کالک مل لیتا مگر اتنی لمبی نہ چھوڑتا ۔ اور میں نے بدھو پنے میں نایاب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا کہ اس کئی سو سال کے مرحوم شاعر کے جھانسے میں آ گیا ۔ ایک پٹرول پمپ پہ بیٹھا آتش ؔ اور اس کے دیوان کو کوس ہی رہا تھا کہ لانگ مارچ سے واپس آنے والوں کا قافلہ وہاں آن پہنچا ۔ وہ وہاں کچھ دیر پانی پینے اور سستانے کیلئے رکے ، میں تو کافی دیر سے سستا ہی رہا تھا اس لیے اس امدادِ غیبی پر شکر ادا کیا اور قافلے کی ایک بس میں گھس گیا ۔
جاری ہے
اس کہانی کی اگلی قسط ملاحظہ کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
خُوب لھکا ہے جناب اس روداد کو پڑھنے کے لیے آپ کی شخصیت اور م-م مغل کی شخصیت کا جو تاثراُبھرتا ہے اس کو تحریرکرنا ایک دفتر کا متقاضی ہے جو ہم سے کاہل
سے ممکن نہیں
زبیر مرزا
ایمان والوں کیلئے اتنا ہی کافی ہے
آپ کا یہ تبصرہ بھی میرے لیے تمغہ ٔ ِ امتیاز سے کم نہیں
بے حد مشکور ہوں زبیر بھائی