اب تک پچھلی تمام اقساط میں جتنے بھی دوستوں کا تذکرہ آیا وہ مجھے دوست رکھتے ہیں اور میں انہیں دوست رکھتا ہوں ۔یعنی معاملہ برابری کے اصول پر قائم ہے ۔ لیکن افتخار صاحب اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ اور بے شمار لوگوں کی طرح فدوی بھی انہیں بے حد عزیز اور محبوب جانتا ہے قطع نظر اس کے کہ یہ ہم سب میں سے کس کو دوست سمجھتے ہیں اور کس کو محض اپنا مداح ۔۔۔۔
بڑے لوگوں کے مداحین کی کثرت کوئی انہونی یا عجوبہ نہیں کہ اس پر حیران ہوا جائے ۔جیسے شہد یاکوزہ مصری اگر اوپن ایئر پڑے ہوں تو مکھیوں کے جمگھٹے لگ ہی جایا کرتے ہیں۔ شکاریات اور جنگلیات والے جانتے ہیں کہ گیدڑ اور اسی قسم کے چھوٹے گوشت خور جانور جنگل میں ببر شیر کے پیچھے پیچھے ہی رہتے ہیں۔ کیونکہ شیر کی عادت ہے کہ وہ ایک شکار کو پورا نہیں کھاتا بلکہ گیدڑوں اور باقی تمام جانور جو اس کے زیر سایہ پلتے ہیں ان کیلئے کچھ حصہ چھوڑ دیا کرتاہے ۔ کہیں چشمہ پھوٹ پڑے تو آس پاس بہت سی گھاس پھونس اُگ ہی آیا کرتی ہے ۔چشمہ کسی کو اپنے منہ سے نہیں بلاتا نہ ہی دعوتی کارڈ بھیجتا ہے پھر بھی پانی پینے کو بہت سے جانور ، انسان آ جاتے ہیں۔بادشاہوں کے دربار بھی ہمیشہ سے ایسے آباد رہتے آئے ہیں۔ کچھ درباری ، کچھ چوبدار ، کچھ چاکر ، اور کچھ محض خوشامدی درباروں کی رونق رہتے ہی ہیں۔
یہ تو یک جہت موجودات کی مثال تھی ۔ کثیر الجہت شخصیات و موجودات کا معاملہ بھی اس سے مختلف تو نہیں البتہ ان کے ساتھ اور پیچھے درباریوں ، خوشامدیوں اور دُرد خوارو ذلہ چینوں کی کثرت دیکھ کر دُم دار ستارہ یاد آ جاتا ہے ۔ وہ دم اس کی ذاتی نہیں ہوتی بلکہ اس کی انتہائی کشش ثقل کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ اس کی کشش سے خلائی اجسام اور ذرات اس کی طرف کھنچے تو چلے جاتے ہیں لیکن اس کی انتہائی رفتار کا ساتھ نہ دے پانے کے سبب اس کے پیچھے پیچھے اپنی اپنی رفتار سے گھسٹتے رہ جاتے ہیں۔ جسے دیکھنے والا ستارے کی دم سمجھتا ہے ۔ افتخار صاحب بھی ایسی ہی ایک کثیر الجہت شخصیت ہیں ۔ ادیب ، شاعر ، اداکار ، کالم نگار، یہ ، وہ ۔۔۔۔ اور پتا نہیں کیا کیا۔۔۔۔ اور یہ دنیا کی عجیب حقیقت ہے کہ اللہ جسے مقام و مرتبہ یا دولت سے نواز دے ان کے اچانک ہی بہت سے دوست ہی نہیں رشتہ دار بھی نکل آتے ہیں۔ لیکن واللہ میں اس ستارے کی دم میں موجودفصلی بٹیروں کی بھیڑ اورخوشامدیوں کے ہجوم کا حصہ نہیں۔
میری ان سے محبت اور دوستی ایک عجیب معاملہ ہے جسے سمجھنے سے پہلے آپ کو حضرت شاہ حسینؒ کاشعر :۔
جے کوئی متراں دی خبر لے آوے۔۔۔۔ ہتھ دے ڈیندی آں چھلے۔
سمجھنا لازم ہے ۔ ورنہ یہ معاملہ بھی آپ کی سمجھ سے باہر ہے ۔
شیخ سعدی ؒ کی طرح شنیدہ ام کہ ایک بار فرشتوں کا ایک گروپ انسانی بھیس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دروازے پر پہنچا اور اپنی ملکوتی آواز میں اللہ کے نام پر سوال کیا ۔ فرشتوں کی آواز اور پھر ان کا لفظ "اللہ " کہنے کا انداز ، سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بے خودی طاری ہوگئی ۔ بے قرار ہو کر باہر نکلے اور باہر کھڑے انسانی روپ میں فرشتوں سے کہا کہ ایک بار پھر اسی انداز میں لفظ "اللہ " کا نعرہ سناؤ تو اپنی بکریوں کا آدھا ریوڑ تمہیں دے دوں گا ۔ (یاد رہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی تعداد ہزاروں میں تھی ) فرشتوں نے پھر اسی انداز میں اللہ کا نام لیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام وجد سے جھوم اٹھے اور حسبِ وعدہ اپنا آدھا ریوڑ ان کے حوالے کر دیا ۔ جب فرشتے لے کر جانے لگے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پکار کر کہا ذرا رکو ۔ اور مجھے ایک بار پھر اللہ کا نام سناؤ ۔ بدلے میں تمہیں اپنا باقی آدھا ریوڑ بھی دے دوں گا۔ فرشتوں نے پھر اسی انداز میں بلند آواز میں "اللہ " کہا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بقیہ آدھا ریوڑ بھی ان کے حوالے کر دیا ۔ فرشتے لے کر جب تھوڑی دور گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام بے تابی سے دوڑے دوڑے ان کے پاس پہنچے اور ان سے التجائیہ لہجے میں ایک بار پھر وہی فرمائش کی ۔ فرشتوں نے کہا کہ اب تو آپ ہمیں اپنا سارا ریوڑ دے چکے ہیں ۔ اب ہم اگر آپ کی فرمائش پوری کریں تو آپ بدلے میں ہمیں کیا دیں گے۔۔؟حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا اتنا ریوڑ سنبھالنے اور چرانے کیلئے تمہیں کسی غلام کی ضرورت تو ہوگی ۔ پس ایک بار اللہ کا نام سنا دو اورمیں بدلے میں تمہاری غلامی کروں گا ۔ اب کی بار فرشتے وجد میں آ گئے اور حقیقت حال ظاہر کی کہ دراصل ہم فرشتے ہیں اور بس آپ کی اللہ سے محبت کا جائزہ لینے اللہ کی اجازت سے آئے تھے ۔ یہ مال اب بھی آپ کا ہی ہے ۔
قاعدے کے مطابق ناقص کی سند کیلئے کامل کی مثال دی جاتی ہے اس لیے اس مثال کا سہارا لیا ہے تاکہ افی صاحب سے اپنے تعلق کی وضاحت بیان کر سکوں ۔افتخار صاحب ہی وہ قاصد ہیں جو مجھ تک "متراں دی خبر" لائے اور بدلے میں انہیں "ہتھ دے چھلے" تو کیا ہاتھ کی انگلیاں دینے کو بھی تیار ہوں ۔ مگر نہ یہ سنار ہیں کہ میرے دئیے کھوٹے چھلے ان کے کسی کام آئیں نہ ہی یہ آدم خور ہیں کہ اپنی انگلیاں دوں اور یہ چبا لیں۔البتہ انہی انگلیوں سے کم از کم اپنی نیاز مندی اور تشکر کا اظہار کر سکتا ہوں سو وہی کر رہا ہوں۔
پہلی بار انہیں شانی کے البم میں اشفاق احمد صاحب کے ساتھ ایک تصویر میں دیکھا تھا ۔میں ان کو نہیں جانتا تھا ۔ دوسری بار ان کا ذکر ارسل کے منہ سے سنا ۔ غالب کے ایک شعر کی تشریح کے دوران ان کا ذکر آیا اور پھر اکثر آنے لگا۔مجھے پرواہ نہیں تھی ۔ پھر ارسل نے ان کا تفصیلی تذکرہ کیا کہ افی صاحب ایسے ہیں افی صاحب ویسے ہیں ، اتنے عمرے کیے یہ کیا، وہ کیا وغیرہ وغیرہ مگر مجھے دلچسپی کا کوئی پہلو نظر نہ آیا ۔ اس سارے تذکرے کو بے دلی سے سنتے سنتے اچانک میرے کان کھڑے ہو گئے ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ یکے از دیوانگان ِ غالب ہیں۔ میری اس کیفیت کو وہی سمجھ سکتا ہے جسے 30 سال پردیس میں گزرے ہوں اور اچانک قریب ہی کسی گرائیں یا کم از کم پاکستانی کے ہونے کی خبر مل جائے ۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس "مجھ کو"میرؔ سے صحبت نہیں رہی
اب وہی ڈرامہ معکوس ہو گیا ۔ یعنی اب میں بہانے بہانے سے افی صاحب کا ذکر کے ارسل کو مزید کریدنے کی کوشش کرتا اور وہ ٹال مٹول ، بے نیازی کے مظاہرے فرماتا ۔ حتیٰ کہ اسے دھمکیاں بھی دے ڈالیں مگر میری دکھتی رگ اس کے ہاتھ میں تھی اور وہ جانتا تھا کہ تڑپے چاہے پھڑکے مجھ سے دور نہیں بھاگے گا۔آخر میں دھمکیوں سے منت ترلے پر اتر آیا ۔ یہاں تک کہ اگر نمبر نہیں دینا یا رابطہ نہیں کروانا تو کم از کم کانفرنس کال پر ہی بات کروالینے میں تو کوئی حرج نہیں ۔ آخرکار کئی جتنوں سے یہ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے ۔۔۔۔
گرمیوں کی ایک ڈھلتی شام تھی ۔ مغرب کے بعد افی صاحب ایوننگ واک پر تھے جب فدوی نے ارسل سے ہاتھ آیا افی صاحب کا نمبر ملا یا (خوش قسمتی سے وارد اتیئے تھے )۔ارسل میرا تعارف پہلے ہی کروا چکا تھا اس لیے نام بتاتے ہی پہچان گئے اور سمجھے شاید میں نے کسی کام کے چکر میں فون کیا ہے (اس معاملے میں بڑے لوگ بے قصور ہیں کیونکہ اکثریت ان سے کوئی کام نکلوانے کے چکر میں ہی رابطہ کرتی ہے )۔ مگر میں نے وضاحت کی کہ فدوی کام یا کسی وجہ سے آپ کے پیچھے نہیں پڑا بلکہ ہم تو محبت والے ہیں ۔یہ سن کر بہت خوشی کا اظہار کیا ۔ میں نے پوچھا کہیں میں آپ کی مصروفیت میں مخل تو نہیں ہو رہا ۔ کمال مہربانی سے بولے کہ جی نہیں میں بس واک ہی کر رہا ہوں ۔ میں نے دل میں شکر ادا کیا۔ پھر جستہ جستہ بات مرزا نوشہ پر آ گئی اورمیرا وہ حال ہو گیا کہ
کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے ساتھ رہےہم نہیں رہے
میں نے سپائیڈر مین تھری اور کنگفو پانڈا میں ایک ٹیکنیک دیکھی تھی ۔جب سپائیڈر مین ایک گرتی عمارت کے کنکریٹ کے گرتے ہوئے ٹکڑوں پر پیر رکھ کے پھلانگتا ٹاپتا اس عمارت میں جا کر واپس آ گیا ۔ اور کنگفو پانڈا میں جو ٹیکنیک قید خانے سے فرار کیلئے ٹائی لنگ نے استعمال کی تھی وہی ٹیکنیک استعمال کر کے ان کی باتوں پر پیر رکھتا پھلانگتا اپنے تخیل کے تمام تر حواسوں کے ساتھ فدوی دلی میں استادِ محترم جناب غالبؔ کلاں کے قدموں میں جا پہنچا۔ یہ بولتے گئے اور میں دیکھتا گیا ۔
یہ غالب اکیڈمی چابی لینے گئے ساتھ میں بھی تھا ۔ راستے میں انہیں میں نے ایک کوئلہ کی ریڑھی سے ایک کوئلہ اٹھاتے دیکھا ۔ پھر مین گیٹ کا تالا کھول کر ہم خاندانِ لوہارو کے قبرستان کے احاطے میں داخل ہوئے ۔ صحن کا فرش سرخ پتھر اور اس کے حاشیے سفید پتھر سے بنے دکھائی دئیے ۔ سامنے مجھے ایک کرایے دار کا اپنا ذاتی گھر نظر آیا ۔ سفید سنگ مرمر اور خوبصورت جالیوں سے تعمیر کردہ اس عظیم انسان کا اپنا گھر جس کی 262 روپے آٹھ آنے ماہانہ آمدنی تھی مگر 73 سال ڈیڑھ مہینے کی زندگی میں کوئی ذاتی گھر نہ بنایا تھا ۔
افی صاحب تو غالبؔ سے باتیں کرتے رہے ، مگر مجھ پر تو ایسارعب چھایا کہ لگتا تھا کہ پیدائشی گونگا ہوں ۔ افی صاحب نے مزار کے کتبے پر کوئلے سے تنویر ملک صاحب کا نام لکھا اور تصویریں بنائیں۔ پھر جب کوئلے سے لکھا نام مٹانے لگے تو وہ ضد کر گیا یا پھر غالب ؔ کو اپنے ایک دیوانے تنویر ملک کا نام اپنے پاس لکھا رہنا منظور تھا ۔ کچھ بھی ہو بہرحال پانی سے دھونے پر بھی وہ نام پوری طرح نہیں مٹا۔خیر پھر الوداع کا وقت آیا اور ایک گھنٹہ پورا ہوتے ہوتے میں افی صاحب کے طفیل دلی میں حاضری دے کر واپس آ گیا ۔
ALLAH aap ko slamat rakhay bhai,maujh kamtareen baray jo mohabbat ka izhaar aap ny kia ,ye sirf or sirf ALLAH ki kram navazi hy .aap ki tehreer ny sabit kr dia k aap ko bndy ki pehchan chndaN nai hy .varna mujh naqis ki tareef krna dra kinar aap maira naam bhi lina pasand na krtay .dua hy ALLAH mujhay us qabil kr day jis masnad pr aap ny mujhay bithaya hy ,aameen
خوبصورت کِردار والے خوبصورت ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔مخدوما بہتریں تحریر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔