Pak Urdu Installer

Tuesday 9 December 2014

چلتے ہو تو لاہور کو چلیے (قسط اول)۔

2 آرا
حسب سابق یہ قصہ بھی غالب  سے شروع ہوتا ہے۔
جذبہ ویلفیئر  فاؤنڈیشن  کی  تقریبِ  حلف برداری  میں        میری  مسلسل  جملہ بازیوں سے تنگ آکر  ایک دوست  نے   "کَسِنور مغلوب علی الکلب" کے مصداق  مجھے  غالب کا طعنہ دے مارا ۔  جس  کا  خلاصہ  یہ  تھا "غالب  سے تمہیں  آج تک ملا ہی کیا  ہے ؟  " جواب میں  کہنے کوتو   بہت کچھ تھا ، لیکن وہ سب باطنی تھا۔   دنیاوی  دستور  اور دنیاوی  معیارات  کی  کسوٹی  پر  پورا اترنے  کیلئے میرے  پاس کوئی ظاہری   ثبوت نہیں  تھا۔ 
علامہ اقبال  کی طرح میری بھی شدید خواہش رہی ہے  کہ  "دیکھا ہے جو   میں نے اوروں کو بھی دکھا دے" مگر افسوس کہ زمانے کے انداز ہی نہیں معیار بھی  بدلے گئے۔ افسوس  کہ ظاہر پرست زمانے کو مرعوب  کرنے کیلئے  میرے پاس کوئی  ید بیضا نہیں  تھا۔  

جیسے تیسے  دن گزرا  اور وہ  رات  اسی پیچ و تاب میں گزری  کہ  میرا استاد  بھی کامل ۔  میری اپنے  عظیم   استاد سے محبت بھی سچی ۔ میرا غالب کی غالبیت  اور ان کے فضل و کمال  پہ  آنکھوں دیکھا یقین ۔ مگر ہائے یہ  بے بسی ۔۔۔۔کاش ۔۔۔!!!  میرے بس میں  ہو تو  ہر  انسان کی  وہ آنکھ میں وہ نور بھر دوں  جس سے وہ جہل کے  اندھیرے  چیر کر   عظمتِ  غالب کا اپنی  آنکھوں سے مشاہدہ   کرے اور  کہے  کہ "فبای  آلا ربکما تکذبن"۔

غالب کی غیرت تیموریہ جوش میں  آئی ۔۔۔
اور پھر کمال  ہو گیا۔۔۔۔
الحمد اللہ  اب میرے  پاس  واضح  ثبوت ہے  کہ  غالب سے مجھے نہ صرف  باطنی  بلکہ ظاہری طور بھی  بہت کچھ ملا ہے۔

افتخار افی  صاحب  کے اس  جملے کی  گونج تازندگی  میرے کانوں سےنہ جائے گی  جب انہوں نے کہا  کہ کل  ڈنر  داستان  سرائے  میں  کرنا ۔  اب اتنا بتاؤ کہ  لاہور  آ رہے ہو یا نہیں؟میرا  دل تو چاہا  کہ  چھلانگیں  لگاؤں  ، مگر  اس خیال  سے  باز رہا کہ کہیں  ڈارون  کی تھیوری کو  لوگ سچ نہ سمجھنے لگیں۔
اویس قرنی  ہمیشہ سے  اشفاق احمد صاحب  اور عالی جنابہ  محترمہ  آپا  بانو قدسیہ  صاحب   کا  مداح و پرستار تھا ،  مگر  اس جیسے  بے شمار گمنام   مداحین تصور میں  ہی   ان عظیم ہستیوں    کے سامنے  زانوئے  ادب تہہ  کر کے  دلِ ناداں  کو  بہلا لیتے ہیں جیسے ایک غربت  کی ماری مجبور ماں    ہنڈیا میں پانی ڈال کر بھوکے بچوں کو  بہلا رہی تھی۔اور  بانو  آپا  جی  کی خدمت میں حاضری کا موقع  نصیب ہوا تو  "چھوٹے غالب " کو۔

سمجھدار  وں کیلئے  یقیناً یہ اشارہ کافی تھا۔   جن کو سمجھ نہیں آئی  ان کیلئے مزید وضاحت کر دوں  کہ  نہ تو چھوٹا  غالب  ایک دو ہفتے  پہلے    بانو قدسیہ آپا  جی  کا پرستار ہوا  تھا اور  نہ ہی  افتخار  افی صاحب  سے نئی نئی دوستی ہوئی تھی۔  لیکن ذرا  ٹائمنگ دیکھئے ۔۔۔۔

جمعہ  21  نومبر  2014  کو 5 بجے لاہور پہنچنا تھا ۔ اور  جمعرات تھی  کہ گزرنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔  فیصل آباد  سے ارسل کے فون پہ فون آنے لگے۔  شانی ابو ظہبی میں  ہاتھ مل رہا تھا ،  اور  چھوٹا غالب  گھڑیاں گن رہا تھا۔
 سوچا  ذوالقرنین  کوبھی اطلاع دے دوں  ، اور اسے بھی  لاہور آنے کی دعوت دوں ۔  فون کیا تو  "جواب موصول نہیں ہو رہا " سن کے اپنا سا منہ لے کے رہ گیا۔ 

ساری رات  انہی سوچوں میں گزری کہ کیسا منظر ہو گا جب  یہ آنکھیں اس  ہستی کی  زیارت  سے مشرف ہو ں  گی جنہیں  ہمیشہ سے  آئیڈلائز  کرتا رہا۔   کیسے  انہوں بتاؤں  گا کہ کتنی عقیدت ہے مجھے  آپ سے۔ بہت سارے سوال  سوچے کہ  پوچھوں گا  یہ پوچھوں گا ،  یہ پوچھوں گا۔۔۔۔  اور صبح کی اذانیں ہونے لگیں ۔غسل  کے بعد  پتا چلا  کہ واقعی سردیاں  آ چکی ہیں ۔ ٹھٹھرتے کانپتے  رخت سفر باندھا۔  اماں کی دعائیں لیں اور  چل پڑا۔ 
ویسی ہی   صبح ہےجیسی کہ روز ہوتی تھی ۔ وہی مناظر ہیں جو  ہمیشہ  سے دیکھتا چلا آیا  ہوں ۔  مگر آج ان کے رنگ کچھ اور ہی ہیں ۔  مشرق سے ابھرتا سورج  آج کچھ زیادہ ہی چمکدار  اور خوبصورت لگ رہا ہے۔یہی کھیت   یہی سبزہ  چوبیس گھنٹے  پیش نظر رہتا ہے ، لیکن  آج ان کی ہریالی ہی نرالی  ہے۔  طبیعت  پہ عجب خمار سا چھایا  ہوا  ہے۔  جی چاہتا ہے  عادی  شرابیوں کی طرح  غل  غپاڑہ  کرنے لگوں ،  اتنا  ۔۔۔۔۔کہ  سب  کو خبر ہو جائے  کہ  آج  چھوٹا  غالب  بانو  آپا کے  حضور جا رہا ہے۔
  میں تیز چل رہا ہوں   یا میرے شوقِ  ملاقات  کے احترام میں زمین سمٹی جا رہی ہے  ،  پگڈنڈی  پہ اترا  تو  ارد گرد  پودے قطار باندھے  جیسے مجھے گارڈ آف آنر دے رہے  ہیں ۔  شبنم کے  قطرے  میرے  پیروں پہ نچھاور  ہو رہے ہیں،  میرے  غلیظ پاؤں  دھو رہے  ہیں کہ  آج چھوٹا  غالب  بانو آپا کے  
حضور  جا رہا ہے ۔

(جاری ہے)

2 آرا:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آپ کی قیمتی آرا کا منتظر
فدوی چھوٹا غالب

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

کرم فرما