Pak Urdu Installer

Monday, 15 December 2014

چلتے ہو تو لاہور کو چلیے (قسط چہارم)۔

3 آرا
بورے والا کے بعد چیچہ وطنی کے باہر سےیوں گزرےجیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک جاتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو وادی ثمود میں سے گزرنے کا حکم فرمایا تھا ۔ میں منزل بہ منزل ارسل اور افی صاحب کو برابر خبر دیتا رہا، مبادا یہ نہ کہیں کہ بے خبری میں آ لیا ہے ۔ بورے والا سے لاہور تک کوئی قابل ذکر واقعہ پیش نہ آیا ، سوائے اس کےکہ موٹر وے پر بس کے سامنے جاتے ٹرک کو اچانک بریک لگی تو بس اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ کمزور دل مسافروں نے کلمے پڑھے جبکہ میں نے غالب کا شعر :۔ ہم تھے تیار...

Saturday, 13 December 2014

چلتے ہو تو لاہور کو چلیے (قسط سوم)۔

0 آرا
ڈرائیور نے وہاڑی شہر کو بائی پاس کیا ، اور بس کو سوئے لاہور رواں دواں رکھا۔ اب مجھے خیال آیا کہ یہ واقعی ڈائیوو ہے یا محض مونو گرام  چپکا کر شیر کی کھال میں گدھے والا معاملہ کیا ہوا ہے۔ اگرواقعی ڈائیوو ہےتو اب تک اس غیرتِ ِناہید کے درشن کیوں نہیں ہوئے جسے عرفِ عام میں بس ہوسٹس کہا جاتا ہے۔ اصولاً تو میرے سوار ہوتے وقت انہیں استقبال کیلئےکھڑا ہونا چاہیے تھا ،بے شک اہلاً و سہلاً مرحبا نہ بھی کہتی۔   مانا کہ ہماری نظراچھی خاصی کمزور ہے مگر چشمے پہ خواہ مخواہ تو پیسے خرچ نہیں کیے ناں......چشمے...

Friday, 12 December 2014

چلتے ہو تو لاہور کو چلیے (قسط دوم)۔

0 آرا
گھر سے نکلتے وقت ارادہ تھا کہ بہاولپورسےجا کے بس پکڑتا ہوں، مگر راستے میں خیال آیا کہ  بس گزرنی تو یہیں سے ہے ، اس لیے فون کر کے  سیٹ بک کروا لی ، معلوم ہواکہ پونے نوبجے ڈائیوو دھنوٹ سے گزرے گی ۔مانعِ وحشت خرامی ہائے جوگی کوئی نہ تھا، اس لیے آٹھ بجے دھنوٹ شہر پہنچ کرانتظارکو "وخت" میں ڈال دیا۔ ساڑھے آٹھ بجے تک غالب  کی غزل "زِ من گرت بود باور نہ انتظار بیا" کے پنجابی ورژن "میرے شوق دا نئیں اتبار تینوں ، آ جا ویکھ میرا انتظار، آجا" کا زیر لب ریاض کرتا  رہا۔ اور داد کےطور پہ خندہ...

Tuesday, 9 December 2014

چلتے ہو تو لاہور کو چلیے (قسط اول)۔

2 آرا
حسب سابق یہ قصہ بھی غالب  سے شروع ہوتا ہے۔ جذبہ ویلفیئر  فاؤنڈیشن  کی  تقریبِ  حلف برداری  میں        میری  مسلسل  جملہ بازیوں سے تنگ آکر  ایک دوست  نے   "کَسِنور مغلوب علی الکلب" کے مصداق  مجھے  غالب کا طعنہ دے مارا ۔  جس  کا  خلاصہ  یہ  تھا "غالب  سے تمہیں  آج تک ملا ہی کیا  ہے ؟  " جواب میں  کہنے کوتو   بہت کچھ تھا ، لیکن وہ سب باطنی تھا۔   دنیاوی...

Sunday, 7 December 2014

منکہ مسمی چھوٹا غالب

5 آرا
مرزا نوشہ اسد اللہ بیگ غالب کے نادر خطوط جو انہوں نے اپنی وفات تک اپنے شاگردوں ، دوستوں کو لکھے ، اور انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے خطوط کے مجموعے کتابی صورت میں شائع کیے۔  کیا کہنے غالب کی عالم گیر شہرت  و مقبولیت کے، زمین پر تو چرچا تھا ہی عالم بالا اور عالمِ ارواح میں بھی جناب قبلہ غالب کےڈنکے بجتے تھے، یہ تب کی بات ہے جب میں ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا، اور عالمِ ارواح میں رہتا تھا، مجھے جنابِ غالب سے ایک گونہ عقیدت اور اس سے بڑھ کر محبت سی ہو گئی،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ...

Thursday, 4 December 2014

بچھڑا کچھ اس ادا سے۔۔۔ (تدفین)۔ (11)

2 آرا
گزشتہ سے پیوستہ زمین  سے تقریباً    پانچ فٹ  نیچے   قبر  کے اندر  داخلے  کیلئے ایک  فٹ چوڑا  اور دو فٹ لمبا روشن دان  نما راستہ تھا۔   اس  سے قبر  کے فرش تک  مزید پانچ  فٹ گہرائی تھی۔  قبر  کے فرش  پہ   ابا  جی کی ہدایت کے  مطابق  ریت بچھائی گئی تھی ۔   اندر  سے  قبر تقریباً سات فٹ  لمبی   اور  اڑھائی  فٹ چوڑی  تھی۔  حالانکہ  اس...

Tuesday, 2 December 2014

بچھڑا کچھ اس ادا سے۔۔۔۔ (10)۔

0 آرا
گزشتہ سے پیوستہ ہجوم میں ہلچل مچ گئی ۔  اس ہلچل میں ایک شناسا نے مجھے  دیکھا تو میرے گلے  لگ گئے اور اظہارِ افسوس کیا۔ بس اس کا گلے لگنا تھا کہ لوگ مکھیوں  کی طرح مجھ پر ٹوٹ پڑے ۔ اس  سے پہلے بھی انہی لوگوں  کے درمیان کھڑا تھا ، لیکن مجھے  شکل سے کوئی نہ جانتاتھا۔ اب  سب  کی کامن سینس  نے بتا دیا شاید  کہ  یہ  ضرور پیر صاحب کے  صاحبزادوں  میں سے چھوٹا ہے ۔  اور پھر ایک کے بعد  ایک  کا سلسلہ  شروع...

کرم فرما