آپ نے زندگی میں اچھے ، برے تقریباًہر قسم کے لوگ دیکھے ہونگے،کچھ کے بارے میں آپ کا خیال ہوگا کہ "خوبیوں کا مجموعہ ہے وہ" اور کچھ میں خامیاں ہی خامیاں ، کچھ اعتدال پسند بھی دیکھے ہونگے، آدھے تیتر آدھے بٹیر (میر امطلب ہے ففٹی ففٹی)۔ مگر میں ملواتا ہوں آپ کو مجموعہ تضادات سے ۔۔۔۔
آپ چاہے ستاروں پہ یقین رکھتے ہوں یا نہیں ، ان کا طالع ستارہ زحل ۔۔نحس۔۔۔ اور پیدائش کا دن ہفتہ۔۔۔ نحسِ اکبر۔۔۔۔
روایت ہے کہ جس دن آپ پیدا ہوئے اس دن شہر میں چار دنبوں کو ہیضہ ہوا پندرہ بھینسیں السر میں مبتلا ہوئیں ، جبکہ 35 پلے شرم سے مر گئے پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے یہ سعد ہیں۔ کسی نے کوئی پھل دار درخت کا پودا لگوانا ہویا نومولود کا نام رکھنا ہو۔ انہیں زحمت دی جاتی ہے ۔ اللہ جانے بھئی کیا راز ہے۔ خدا گواہ ہے مجھے ان کے عقلمند ہونے میں کوئی شک شبہ نہیں۔ مگر بعض لوگ نجانے کیوں ان کی عقل سے پہلے "بے" کا اضافہ کرنے پر بھی مصر رہتے ہیں۔
حیوان ِ ظریف سے تو آپ واقف ہی ہیں ان کی کچھ عادات تو فطری طور پر ان میں تھیں اور کچھ شعوری کوشش کے نتیجے میں اپنے اندر پیدا کر لی ہیں۔یار لوگوں نے چھوٹا غالب ؔ کہہ کہہ کے یہی نام مشہور کر دیا ہے ، اب ان کا اصل نام بہت کم لوگ جانتے ہیں ۔لوگوں کی تو بات ہی کیا ۔ بھولے بھٹکے کوئی اگر اویس کہہ کر پکارے تو غائب دماغ پروفیسر کی طرح خود بھی چونک پڑتے ہیں "ہائیں ں ں ں یہ اویس کون ہے ۔؟؟"
صرف نام ہی کیا اکثر رشتہ دار تو ان کو شکل سے بھی نہیں جانتے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پیدا ہوا تھا تب تو دیکھا تھا ، اس کے بعد ہمیشہ یہی سنا ہے کہ پڑھ رہا ہے ، پڑھ رہا ہے ، کبھی بھیرہ شریف ، کبھی قادربخش شریف ، کبھی بہاولپور تو کبھی لاہور۔
البتہ جن بزرگوں کا واسطہ آپ سے اکثر پڑتا رہتا ہے وہ آپ کو قیامت کی نشانی قرار دینے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے ۔
بزرگوں کی اس وجہ عناد کی تلاش میں جب ہاتھ پیر مارے گئے تو انکشاف ہوا کہ آپ سفاکی کی حد مساوات کے علمبردار اور قلمبردار ہیں۔
شیخ سعدیؒ کے اس مصرعے پر دل و جان سے فدا ہیں :۔ بزرگی بہ عقل است نہ بسال (بزرگی عقل سے ہے عمر سے نہیں )۔ اس ضمن میں آپ کو شرم دلانے کی بے شمار ناکام کوششوں کے جواب میں آپ نے ڈھٹائی سے فرمایا :۔اگر کوئی مجھ سے دس بیس تیس یاچالیس سال پہلے پیدا ہو گیا تو یہ اس کا کوئی ذاتی کمال نہیں ، یہ تو قدرت کی ستم ظریفی ہے ۔ہاں اگر کوئی مجھے اپنے وہ کار ہائے نمایاں بتائے جو اس نے مجھ سے پہلے پیدا ہوکر کیے تو پھر بات ہے ، ورنہ کوئی اپنے سفید بالوں کے بل پر مجھ سے عزت نہیں کروا سکتا جبکہ اس کا نامہ اعمال مجھ سے کئی سال زیادہ گناہوں بھرا ہو۔
لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس سفاکانہ رویے کے باوجود ان کے سب سے بہترین تعلقات بزرگ پارٹی سے ہی ہیں ۔
بالکل نہیں۔۔۔۔ بدلحاظ نہیں کہا جا سکتا انہیں۔۔۔۔ کیونکہ خود سے چھوٹی عمر کے ہر انسان کو قابلِ عزت گردانتے ہیں۔ پتا نہیں یہ کونسی سائنس ہے؟؟
آپ کا کہنا ہے کہ مجھے بچے پسند نہیں ، مگر اس حقیقت کو جھٹلانا بھی ممکن نہیں کہ یہ بچہ لوگوں کے موسٹ فیوریٹ ماموں ، موسٹ فیوریٹ چاچو(چاچو تو شاذ و نادر بلکہ ان سے ناواقف لوگ کہتے ہیں۔ جبکہ گھر کے بھیدی یعنی سگے بھتیجے بھتیجیاں بھی ماموں کہتے ہیں ۔) اور بیسٹ فرینڈ ہیں ۔ خواتین میں ان کی مقبولیت کا گراف ہمیشہ بلند ہی رہتا ہے ۔ بڑی بوڑھیوں کے چہیتےتو ہیں ہی ،مگر درمیانی طبقے میں بے حد مقبول ہیں۔البتہ ہم عمر بی بی لوگوں سے ہمیشہ کنی کترا ئے رہتے ہیں ۔اس معاملے میں ناجائز حد تک شریف ہیں اور ان سے زیادہ شریف ہیں جو ان سے کم شریف ہیں ۔ فون پر زنانہ آواز سنتے ہی فورا باجی کہہ دیتے ہیں ۔ ایک مرتبہ تو حد ہی کر دی ، موبائل میں کارڈ فیڈ کرنے کیلئے نمبر ملایا تو اس محترمہ کو بھی باجی کہہ دیا جس نے کہا "یو فون میں خوش آمدید "۔
ایک دو کیس ایسے سامنے آئے کہ بڑوں کے بھی ہاتھ کھڑے ہو گئے ۔ معاملہ اس حد تک لا ینحل ہو ا کہ بات علیحدگی تک جا پہنچی تھی ۔ اللہ بھلا کرے اس خدائی خدمت گار کا کہ فریقین کو نجانے کیا پٹی پڑھائی کہ بیگم صاحبان شوہر مرید ہو گئیں اور فریق ِ ثانی نے فخر سے زن مریدی کا تاج سر پہ سجا لیا ۔مگر اس میں تضاد کیا ہوا؟؟ یہ تو اچھی خاصی نیکی ہو گئی ۔ جی بالکل۔۔۔۔ مگر اس حقیقت کو کیسے جھٹلایا جائے کہ دو طلاقوں کے پیچھے بھی انہی کا ہاتھ تھا ۔اور کمال یہ کہ اس کے باوجود فریقین بلکہ دیگر متاثرین کی بھی دعائیں پائیں ۔ اب بتائیں کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔۔۔؟؟؟؟
آپ کا خیال ہوگا اس قدر سویٹ بلکہ سویٹیسٹ (نہ صرف خود بلکہ) مٹھار مٹھار باتیں کرنے والا اگر خود حلوائی نہیں تو کم از کم صبح صبح ناشتے میں ہاتھیوں کی طرح ڈیڑھ دو من گنے ضرور چبا تا ہوگا۔ مگر آپ کا جواب اور خیال دونوں غلط قرار دئیے جاتے ہیں ۔اور کوئی گاجریں کھانے کا تکا لگانے کی بھی کوشش نہ کرے ، کیونکہ گاجریں ہی کیا ، یہ "گ" والی کسی بھی چیز کو منہ لگانا کسرِ شان سمجھتے ہیں ۔ جی ہاں ۔۔۔۔۔!!!"گ" گاجر، "گ" گوبھی، "گ"گونگلواور "گ" گوشت"کو اپنے لیے شجرِ ممنوعہ سمجھنے والے کامن بھاتا کھاجا کریلے اور میتھی ہے۔شاید آپ کو یہ بات گپ محسوس ہو مگر حقیقت یہی ہے ۔ خیر پکے ہوئے کریلے اور میتھی شوق سے کھانے والے تو آپ نے اکثر دیکھے ہی ہونگے ، مگر مزہ تو تب ہے جب آپ ان کو کچے کریلے چباتے اور میتھی چرتے دیکھیں ۔
کریلے اور میتھی ہی نہیں ، کدو ہوں بینگن یا بھنڈیاں، اماں کا ہاتھ بٹانے کے بہانے آدھ سیر سے زیادہ سبزی ان کے پیٹ کو پیاری ہوجاتی ہے۔
جس پر اماں خدا کا شکر بجا لاتی ہیں کہ شکر ہے یہ گوشت نہیں کھاتا ورنہ ۔۔۔۔۔۔
گوشت تو یہ خود نہیں کھاتے مگر چائے اماں نہیں پینے دیتیں ، اگر کبھی کبھار (گھر سے باہر) چائے کا کپ ان کے ہاتھ میں ہو تو یقیناً اس چائے اور شربت روح افزا میں صرف رنگ کا ہی فرق ہوگا۔ آزمائش شرط ہے۔
آئیے تھوڑا اور حیران کروں آپ کو۔۔۔۔۔۔
گرما گرم جلیبیوں پر جان چھڑکنے والے کو رس گلے دیکھ کر ابکائیاں آنے لگتی ہیں ۔
گوشت خود تو کھاتے نہیں مگر کسی کو کھاتا دیکھ لیں تو قے روکنا مشکل ہو جاتا ہے ۔
سونف چبانے والے ۔۔۔۔ الائچی چبانے والے۔۔۔۔ حتیٰ کہ پان کی جگالی کرنے والے آپ نے بہت دیکھے ہوں گے ۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے ان کی جیبوں میں فلفلِ سیاہ (کالی مرچ)نہ صرف پائی جاتی ہے ۔ بلکہ چبائی بھی جاتی ہے۔ چار پانچ ہری مرچیں بھی برآمد ہو جائیں تو کچھ بعید نہیں۔
ہاہاہاہاہاہاہا یہ کوئی گپ نہیں۔۔۔۔
خیر شاید آپ کہیں کہ دو چار ہری مرچیں چبا لینا تو کوئی ایسی بڑی بات نہیں جس پر حیران ہونے کی زحمت کی جائے ۔ ایک بار کسی نے ان کے منہ پر یہی کہہ دیا بس پھر کیا تھا ۔۔۔۔ حضرت نے للکارا ۔۔۔۔ لے آؤ بھئی ہائی برِڈ مرچیں بھی لے آؤ۔ وہ مذاق سمجھ کے پورا ایک پودا ہائی برِڈ مرچ کا اکھاڑ لایا ۔ اور یہ بلا سارا پودا چُگ گئی۔ جی نہیں آنکھیں بند کر کے نگلیں نہیں۔ بلکہ مزے لے لے کر چبا چبا کے ڈکار گئے۔اور پسینہ دیکھنے والوں کوآ گیا ۔
(ہائی برِڈ مرچ کوئی مذاق نہیں ۔ یہ جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں۔ )
ایک دن شرط لگا کر تقریبا ً 3 سیر سے زیادہ دیسی مرچیں ہڑپ کر گئے ۔ اماں کو پتا چلا تو بے اختیار انہوں نے ماتھا پیٹ لیا :۔ "(ترجمہ)ہائے ۔۔۔۔ لوگوں کی اولاد بادام ، پستے ، چلغوزے کا شغل کرتی ہے ۔ میرا یہ یاجوج ماجوج مرچوں کا دشمن ہوا ہے"
اب تک آپ کے تخیلاتی کینوس پرایک عمرو عیار کے ہم شکل مریل ، چمرخ اور مرنجان مرنج سے نتھو خیرے کی تصویر بن چکی ہو گی ، لیکن میں آپ کی یہ غلط فہمی بھی بروقت دور کرتا چلوں کہ جو لوگ آپ کو چھوٹا غالب نہیں کہتے وہ انہیں ٹارزن کہہ کر پکارتے ہیں ۔(ماشاءاللہ)
شیکسپئر کے ایک ڈرامے کا مشہورِ زمانہ بلکہ بدنام ِ زمانہ سا جملہ ہے :۔ "نام میں کیا رکھا ہے۔"
لیکن میں ثابت کر سکتا ہوں کہ شیکسپئر نے چول ہی ہانکی ہے۔ نام میں ہی تو سب کچھ رکھا ہوتا ہے۔
اس شخصی نیرنگی سے قطع نظر کرکے اگر ان کے نام کی نیرنگیوں کو دیکھا جائے تو کچھ حیرت انگیز حقائق اور تضادات سے پردہ اٹھتا ہے۔
اویس قرنی
الف پر ضمہ(پیش) پڑھا جائے تو مطلب بنتا ہے :۔ " روحانی فیض یافتہ"
الف پر فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو مطلب ہوتا ہے:۔ "بھیڑیا"
"وین ہیلسنگ" سے جب شہزادی اینا پوچھتی ہے :۔ "(ترجمہ) کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وین ہیلسنگ ایک دھارمک انسان ہے ۔ جبکہ کچھ کہتے ہیں ایک سفاک قاتل۔ ۔۔ سچائی کیا ہے۔؟" تو وین ہیلسنگ کا جواب تھا :۔ "ہو سکتا ہے میں دونوں ہی ہوں۔۔"
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
ان کا مزید شخصیاتی اور نفسیاتی پوسٹ مارٹم کیا جائے تو ثابت ہوگاکہ چھ فٹ کا یہ ہٹا کٹا دیو ہیکل "چھوٹا" صرف چھوٹا غالب ہی نہیں ، بلکہ "چھوٹا طارق بن زیاد" ، "چھوٹا ٹیپو سلطان" اور "چھوٹا منٹو" بھی ہے ۔ بہت سے لوگوں کو دعویٰ ہوتا ہے سرپھرا ہونے کا ،مگر یہ مجسم شوریدہ سر اور غالب کے الفاظ میں "جنوں جولاں ، گدائے بے سرو پا"واقع ہوئے ہیں ۔ ہر دن اپنی زندگی کا آخری دن سمجھ کر جینے والی اس بلا کا کوئی سامنا کرکے دکھائے تو ہم مانیں ۔ انتہائی حد تک امن پسند بلکہ امن پرست کہا جائے تو ہر گز مبالغہ نہیں ۔ مگر ۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔ خیر چھوڑئیے ۔۔۔ میں آپ کو ڈرانانہیں چاہتا
آلسی اس قدر واقع ہوئے ہیں کہ آپ سن کر کانوں کو ہاتھ لگائیں گے۔ بے شمار واقعات میں سے ایک واقعہ گزک کے طور پر حاضر ہے۔ یہ بات تو سارے زمانے کو معلوم ہے کہ چھ ماہ سے پہلے منہ دھونے کو یہ اسراف میں شمار کرتے ہیں۔ ایک بار اماں نے جب اصرار کی حد کر دی اور ان کا کوئی بہانہ نہ چلنے پایا۔ تو اماں جان سے کہا کہ ہاتھ اور منہ دھونا بہت مشکل کام ہے ۔ مگر آپ کے حکم سے روگردانی کی مجال بھی نہیں ۔ آپ کو بھی کچھ ڈسکاؤنٹ دینا چاہیے، اس لیے یا تو ہاتھ دھونے کا کہیں یا منہ دھونے کا۔ اماں نے یہ سوچ کر منہ دھونے کا کہہ دیا کہ منہ دھونے کے دوران ہاتھ بھی خود بکود دھل ہی جائیں گے ۔ مگر اس فخر الکہلا کو سلام ہے کہ جا کے پانی سے بھرے ٹب میں منہ ڈال دیا اور دو تین بار ہلا جلا کر باہر نکال لیا۔ اور اماں سے آ کر فرمانبرداری کی داد چاہی۔ بجائے داد دینے کے انہوں نے ماتھا پیٹ لیا۔
چھوٹا غالب نام کے بارے میں کچھ دل جلوں کا بیان ِ حلفی ہے کہ یہ صرف محض "شو بازی" ہے ۔اس گدھے کے تو فرشتوں کو بھی نہیں پتا کہ غالبؔ کس گلقند کا نام ہے ۔ مگر چھوڑیں جی ان کی باتوں پہ نہ جائیں ۔۔۔۔ کیا خوب کہا ہے ملکہ ترنم نے "دنیا کب چپ رہتی ہے ۔۔۔ کہنے دے جو کہتی ہے ۔۔۔۔ مت کر دنیا کی بات سجن۔۔۔۔۔۔ الخ" اس دنیا نے تو حضرت مریم علیہ السلام اور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسی پاک روحوں پر زبان درازی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔ حضرت حسین بن منصور حلاج ؒ کا تو ذکر ہی کیا کرنا ۔۔۔۔ اب بھلا آپ خود ہی بتائیں کہ اس چھوٹے موٹے کی حیثیت ہی کیا ۔۔۔؟؟؟
لیکن آپ کی تسلی نہیں ہو پا رہی اور آپ کے اندر کے انڈیانا جونز کو چین نہیں آ رہا تو جناب ِ عالی موسٹ ویلکم کیونکہ "ننکانہ دور تے نئیں"۔اگر آپ ذرا آلسی قسم کے انڈیانا جونز ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔۔ ایسے بھی اللہ کے بندے موجود ہیں ۔۔۔۔۔ جو کہ اس فنا فی الغالب کے عینی شاہد ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔
"کشتیاں جلا دو " ان کا پسندیدہ جملہ نہیں بلکہ ان کا نصب العین ہے ۔ اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ "راہِ فرار یا واپسی کا راستہ چور اچکے رکھتے ہیں۔اور میں تمہیں چور اچکا نظر آتا ہوں کیا ؟ "
شیخ سعدی ؒ نے فرمایا تھا " میں صرف خدا سے ڈرتا ہوں اور اس شخص سے جو خداسے نہیں ڈرتا ۔" ان سے ملیے ۔۔۔۔یہ ٹیپو سلطان کے معتقد اور بے خطر آتشِ نمرود میں کود پڑنے والے صاحب کہتے ہیں:۔ "اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے کے علاوہ اگر کسی سے ڈرتا ہوں تو وہ ہے عورت ۔ "(لاحول ولا قوۃ ۔۔۔ یہ آپ کیا سوچنے لگے ؟) آپ شاید انہیں کسی حکیم پروفیسر فلاں ، فلاں فلاں سے رجوع کا مشورہ دینے کا سوچ رہے ہوں ۔ تو اطلاعاً عرض ہے کہ سو پشت سے ہے پیشہ آباء دوا گری۔ الٹے بانس بریلی کو لے جانے کی حماقت مت کیجیئے۔ اور ان کی مذکورہ بالا بے تکی منطق کی کوئی اور توجیہہ سوچیں ۔
آپ یقیناً چونک جائیں گے یا شاید ایک اور مذاق سمجھیں گے کہ دیوانِ غالب ؔ جس کے سرہانے رہتا ہواور میں کہوں کہ اسے شاعری سے چِڑ ہی نہیں سخت نفرت ہے۔ان کو تکرار سے چاہے وہ کسی بھی چیز کی ہو سخت چڑ ہے ۔ آپ ان سے ایک ہی بات دوسری یا تیسری بار کہنے کی غلطی کر دیکھیں ۔ خود ہی جان جائیں گے ۔حیران تو ان کی اماں جان بھی بہت ہوتی ہیں بلکہ بعض اوقات تو کہہ بھی دیتی ہیں۔(ترجمہ):۔"بیٹا ۔۔۔ آج تک تم اس دیوانِ غالب سے تو نہیں اکتائے ۔۔۔ ایک ایک شعر کو تسبیح کی طرح ہزارہزار بار پڑھتے ہو ۔ "
ایک بار کسی نے دیکھ لیا ادب سے بیٹھے گہری سنجیدگی سے کچھ پڑھ رہے تھے ۔ وہ حیران ۔۔۔۔ خیر ہو آج چھوٹا قرآن مجید کھول کے بیٹھا ہے ۔ داد دینے کو آئیں تو ان کے سامنے نسخہ حمیدیہ کھلا ہوا تھا ۔ تب سے گھر میں مذاق بن گیا۔
مگر مچھ کے آنسو تو عام بات ہےایک بار بھیڑیا روتے ہوئے پکڑ ا گیا ۔ دھاڑیں مار مار کے جوش اشک سے تہیہ طوفاں کیے ہوئے سر پٹخ رہا تھا ۔اماں حیران ۔۔۔۔ سر پہ ہاتھ پھیر کے فرمایا :۔ " (ترجمہ) بیٹا اگر کوئی لڑکی وغیرہ کا چکر شکر ہے تو بتاؤ ۔ بولے بقول غالب "چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں " سو جوگی کے دماغ میں ان خرافات کاگزر کہاں ؟ ۔۔۔ مگر یوں گریہ نیم شبی چہ معنی دارد ۔۔۔ جواب ملا اک شعر چڑھ گیا ہے ۔۔۔ سناؤ تو ذرا ہم بھی تو سنیں ۔۔۔۔ کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب۔۔۔۔۔۔ اگلا مصرعہ ہچکیوں میں ڈوب گیا ۔اور ماں بیٹا رونے بیٹھ گئے۔
کسی کی آخری ہچکی ، کسی کی دل لگی ہوگی
اماں نے تدبیر نکالی کہ بینڈ بجے گا تو نُورا سب غالب شالب بھول بھال جائے گا ۔ تلاش کی ضرورت ہی کیا ۔ ایک انار سو بیمار ۔ مگر انار کے نخرے بھی تو دیکھئے ۔ صورت میں چاہے مس افریقہ ہو۔ سیرت میں چاہے پھولن دیوی ہو ۔ اپنا محبوب وہی جو ادا رکھتا ہو ۔
ادا کا مطلب ان کی ڈکشنری میں دیوان ِ غالب ہے
صلائے عام ہے بانوانِ نکتہ داں کیلئے
مگر
نہ نو من تیل میسر ہوا ۔۔۔ نہ رادھا ناچی
بی بی لوگوں کا کہنا ہے ٹھنڈی آہیں بھرنا قبول ہے ، مگر دیوان غالب کا گھوٹا نہیں لگایا جاتا۔
یہ سب پڑھ کے شاید آپ کو قصہ گل بکاؤلی یاد آ رہا ہو
اس پاگل کا خاکہ پڑھنے سے بہتر ہے آپ اسی گل بکاؤلی یا سیف الملوک سے دل بہلا لیں۔
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کہے دیوانہ کیا
جو لوگ ابھی تک نہیں اُکتائے وہ مزید تفصیلات ان کی خود نوشت "ڈبویا مجھ کو ہونے نے" میں ملاحظہ فرمائیں۔ جن کی اس سے بھی تسلی نہ ہو اور وہ عین الیقین کے قائل ہوں تو ہم ان کو کھلے بازو خوش آمدید کہتے ہیں۔
ست بسم اللہ جی آیاں نوں
ایک دن شرط لگا کر تقریبا ً 3 سیر سے زیادہ دیسی مرچیں ہڑپ کر گئے ۔ اماں کو پتا چلا تو بے اختیار انہوں نے ماتھا پیٹ لیا :۔ "(ترجمہ)ہائے ۔۔۔۔ لوگوں کی اولاد بادام ، پستے ، چلغوزے کا شغل کرتی ہے ۔ میرا یہ یاجوج ماجوج مرچوں کا دشمن ہوا ہے"
ہاہاہاہاہا بہت عمدہ۔۔۔ بہت مزا آیا اس آلسی انسان سے ملکر۔۔۔ زبردست۔۔۔
الف پر ضمہ(پیش) پڑھا جائے تو مطلب بنتا ہے :۔ " روحانی فیض یافتہ"
یعنی اویس کےدرست تلفظ 'Owais' ہے نا کہ 'Awais '؟
کیونکہ انگریزی میں لکھتے ہوئے تو شاید 'او' سے لکھتے ہیں لیکن بولتے ہوئے 'اے' سے کہہ دیتے ہیں۔
اچھا بلاگ ہے۔ بہت سے لوگ سوچتے اچھا ہیں لیکن خیالات کو الفاظ میں ڈھالنے کا ہنر نہیں رکھتے۔۔آپ ماشاءاللہ لکھتے بھی بہت اچھا ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو مثبت تبدیلی لانے میں استعمال کرتے رہیں ۔ یہ بھی ایک صدقہ جاریہ ہے۔
مگر مچھ کے آنسو تو عام بات ہےایک بار بھیڑیا روتے ہوئے پکڑ ا گیا ۔ دھاڑیں مار مار کے جوش اشک سے تہیہ طوفاں کیے ہوئے سر پٹخ رہا تھا ۔اماں حیران ۔۔۔۔ سر پہ ہاتھ پھیر کے فرمایا :۔ " (ترجمہ) بیٹا اگر کوئی لڑکی وغیرہ کا چکر شکر ہے تو بتاؤ ۔ بولے بقول غالب "چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں " سو جوگی کے دماغ میں ان خرافات کاگزر کہاں ؟ ۔۔۔ مگر یوں گریہ نیم شبی چہ معنی دارد ۔۔۔ جواب ملا اک شعر چڑھ گیا ہے ۔۔۔ سناؤ تو ذرا ہم بھی تو سنیں ۔۔۔۔ کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب۔۔۔۔۔۔ اگلا مصرعہ ہچکیوں میں ڈوب گیا ۔اور ماں بیٹا رونے بیٹھ گئے۔
کسی کی آخری ہچکی ، کسی کی دل لگی ہوگی
اماں نے تدبیر نکالی کہ بینڈ بجے گا تو نُورا سب غالب شالب بھول بھال جائے گا ۔ تلاش کی ضرورت ہی کیا ۔ ایک انار سو بیمار ۔ مگر انار کے نخرے بھی تو دیکھئے ۔ صورت میں چاہے مس افریقہ ہو۔ سیرت میں چاہے پھولن دیوی ہو ۔ اپنا محبوب وہی جو ادا رکھتا ہو ۔
ادا کا مطلب ان کی ڈکشنری میں دیوان ِ غالب ہے
صلائے عام ہے بانوانِ نکتہ داں کیلئے
مگر
نہ نو من تیل میسر ہوا ۔۔۔ نہ رادھا ناچی
بی بی لوگوں کا کہنا ہے ٹھنڈی آہیں بھرنا قبول ہے ، مگر دیوان غالب کا گھوٹا نہیں لگایا جاتا۔
ہاہاہاہاہاہاہا
اویس اتنا بہترین خاکہ لکھا ہے ایک دیوانے کا کہ پڑھ کے آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر مسکراہٹ۔۔۔۔۔۔۔ واہ واہ یہ کیسا تضاد ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟لگتا ہے یہ خاکہ پڑھ کر مجھ پر مجموعہء تضادات کے جراثیم حملہ آور ہوگئے ہیں
بہترین خاکہ ہے اور باوجود کوشش کے کوئی خامی نہ نظر آئی
خوش رہو اویس آمین
بی بی لوگوں کا کہنا ہے ٹھنڈی آہیں بھرنا قبول ہے ، مگر دیوان غالب کا گھوٹا نہیں لگایا جاتا۔
میری دل کی گہرائیوں سے یہ دعا ہے کہ تم کو بہت جلد دیوانِ غالب کا گھوٹا لگانے والی بیبی مل جائے
ماشاءاللہ بڑے بڑے لوگ آئے ہوئے ہیں
چلیں "مغرور" کی جگہ "مصروف" لکھا کروں گا اب
بقول غالب کلاں
وہ آئے بلاگ پہ ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے بلاگ کو دیکھتے ہیں
اچھا تو اب کیا ہم "بینا" جی کو بھی نہ پہچان پائیں گے؟؟؟
بہت بہت بہت خوشی ہوئی آپ کو یہاں دیکھ کر
جیتے رہو لوگو
اور ہمار حوصلہ بڑھاتے رہو
کیانی جی
آپ نے تو صرف اے اور او والے تلفظ سنے ہیں
لوگ تو میرے نام کے اتنے تلفظ گھڑتے ہیں کہ بے اختیار نام بدلنے کا سوچنے لگتا ہوں
ویسے یہ بھی صدقہ جاریہ؟؟؟؟؟
مگر کیسے؟؟؟؟؟
اور آپ کی کچھ مدد چاہیے
مجھے معلوم ہے آپ بہت مصروف ہیں مگر زیادہ نہیں بس تھوڑی سی رہنمائی اور مدد۔۔۔۔ بس
باقی پھر ہم شیر ہیں
صِرف یہی نہیں موصوف کو میرے جیسے کم عِلم لوگ اُن کے عِلمی مقام کے پیشِ نظر "شاہ جی" بھی کہیں تو بہت ہی زیادہ چِرھتے ہیں،،،مجے ایک آدھ تجربہ ہوا ہے۔۔اور اگر فون کرو تو سوتے میں ہیلو کہہ کر بند کر دیتے ہیں اور پِھر کہتے ہیں کہ اچھا وہ آپ تھے،،،میں سمجھا مجھے کوئی بِلا وجہ تنگ کر رہا ہے
اگر اِن خوبیوں کا ذِکر کردیتے تو ایک خوبصورت اِضافہ ہوتا
یار غالب ہمیں تو داد دینے کے لئے بھی الفاظ نہیں ملتے۔
خوش رہیں عمدہ تحریر تھی۔
میرے لیے تو یہی بہت ہے بھائی
آپ الفاظ کے تردد میں نہ پڑا کیجئے
آپ کا آنا اور پڑھنا ہی میری حوصلہ افزائی کیلئے بہت ہے
ویسے بھی خلوص کبھی الفاظ کا محتاج نہیں ہوتا