Pak Urdu Installer

Sunday, 5 May 2013

پینڈو بابا جی ؒ کے حضور (مغزل کہانی قسط نمبر 5) -

2 آرا
گزشتہ سے پیوستہ


کچھ عرصہ کراچی میں گزرا تو اجنبیت کی دیوار گر گئی ، کم از کم اتنا مانوس تو ہو ہی گیا کہ کسی کی مدد کے بغیر کہیں آ جا سکوں ۔ ایک دن فارغ بیٹھے بیٹھے اکتا گیا تو خیال آیا کہ کیوں نہ چل کے بابائے اعظم ؒ کے مزار پر حاضری دی جائے کہ اس عظیم قائدؒ کیلئے فاتحہ خوانی فرض اگر نہیں تو کم از کم ہر پاکستانی پر قرض ضرور ہے ۔
جیسے مسلمانوں پر زندگی میں کم   سے  کم ایک بار حج فرض ہے اسی طرح ہر پاکستانی (اگر وہ احسان فراموش نہیں ) پر جو کراچی آنے جانے کی استطاعت رکھتا ہے تو زندگی میں ایک بار مزارِ قائدؒ حاضری اور فاتحہ خوانی خود پر فرض سمجھے کہ یہ محبت و احسان کی شریعت کا پہلا رکن ہے ۔ 
ایک بار فون پر کسی کراچی کے دوست سے دوستی ہو گئی ۔ اس نے مجھے کراچی آنے کی دعوت دی تو جواب میں میں نے بتایا کہ کراچی دیکھنےکا تو مجھے بہت شوق ہے خاص طور پر قائد اعظم ؒ کے مزار پر حاضری تو میری زندگی کی چند حسرتوں میں سے ایک حسرت ہے ۔ میری اس بات پر وہ طنز سے ہنسا اور بولا :۔ "کراچی میں مز ارِ قائدؒ کے علاوہ  اور بھی کئی جگہیں ہیں دیکھنے کی ، وہاں تو صرف پینڈو لوگ جاتے ہیں ۔ تو آج میں ڈنکے کی چوٹ پر اپنے پینڈو ہونے کا فخریہ اعتراف کرتے ہوئے ہر ایسی سوچ رکھنے والےکی سوچ پر تھو تھو تھو کرتا ہوں ۔ میں جاہل اور پینڈو ضرور ہوں مگر احسان فراموش نہیں ۔
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم ؒ تیرا احسان ہے احسان
قصہ مختصر ۔۔۔۔!!! پینڈوبارگاہ جناح میں جا پہنچا  ۔میری خود بینی + و آزادہ روی جانے کہاں چھو منتر ہو گئی ، اور ساری شوریدہ سری جھاگ کی طرح بیٹھ گئی ۔ ایک 65 برس پہلے فوت ہو چکے بابے کا مجھ پہ ایسا رعب چھایا کہ بیان سے باہر ہے۔ میرا خیال ہے کہ لفظ "رعب" اس کیفیت کی پوری طرح عکاسی کرنے سےبھی  قاصر ہے اور کچھ غلط فہمیوں کا باعث بھی ۔ یہ تو دراصل ایک باکردار  جوان ِ رعنااور ایک باوقار بابا جی کی جلالت و عظمت کا سادہ سا اعتراف تھا ۔
سبحان اللہ !! جیسے وہ جناح کیپ سجائے وقار سے سر اٹھائے ایک سادہ سی شیروانی میں ملبوس گورنر جنرل آف پاکستان کے طور پر قوم سے مخاطب تھے ، اسی سادگی اور وقار کے ساتھ ان کا مزار شان و شوکت سے سر اٹھائے کھڑا اپنا پاکستان دیکھ رہا ہے ۔ گیٹ سے داخل ہوتے ہی شدتِ جذبات سے آنکھیں دھندلا گئیں اور میں میکا نیکی انداز میں سر جھکائے چلتا گیا ۔ سر جھکا رکھا تھا کہ کوئی دیکھ نہ لے یہ چھ فٹ کا ہٹا کٹا پینڈو رو رہا ہے ۔ مگر مزار کے اندر داخل ہوتے ہی ساری احتیاطیں ، ساری وضع داری جذبات کے ریلے میں آنسوؤں کے ساتھ بہہ گئی ۔ 
اب ایک یتیم بچہ اپنے باپ کی قبر سے لپٹا ہوا تھا جو اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اپنا سب کچھ اپنی اولاد کے نام کرکے دنیا سے جا چکا تھا ۔
فرشتوں نے زمین کی لگامیں کھینچ لیں ۔۔۔۔ سورج سکتے میں  آ گیا۔۔۔۔۔ اور وقت کو ہچکی لگ گئی ۔۔۔۔۔
مجھے تو اس وقت ہوش آیا جب چوبدار نے مجھے کندھے سے پکڑ کر ہلاتے ہوئے جیسے تصدیق چاہی :۔" بھائی صاحب ! آپ ٹھیک تو ہیں ناں ۔۔؟"
میں اسے کیسے بتاتا کہ آج ہی تو ٹھیک ہوا ہوں ۔ ۔۔۔ دل و دماغ کی ساری کثافتیں آج بابا جی ؒ کے کندھے پہ سر رکھ کے آنسوؤں میں بہا دی ہیں ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔میں آج ہی تو ٹھیک ہوا ہوں ۔۔۔
اب جو ہوش آیا تو ادھر ادھر نظر دوڑائی ۔۔۔
بادشاہوں کے دربار سنے تھے ۔۔۔ پڑھے تھے۔۔۔۔
اولیا ءاللہ کے دربار آنکھوں سے دیکھے تھے ۔۔۔۔۔
لیکن ایسے بابائے اعظم ؒ کا دربار نہ کہیں دیکھا ، نہ سنا ، نہ پڑھا ۔۔۔۔۔۔
اس قدر سادگی کہ مثال ممکن نہیں ۔۔۔۔
اس سادگی سے ٹپکتا ایسا جاہ و جلال ، ایسی شوکت و حشمت کہ شہنشاہان ِ روم و فارس دیکھ لیں تو رشک کے مارے انگلیاں کاٹ لیں۔۔۔۔
نہ نوبت ، نہ نقارہ ۔۔۔۔ نہ ملنگ نہ مجاور ۔۔۔۔ اگر بتیاں ہیں نہ صدائے حق ہو کے غلغلے ۔۔۔۔۔
پھر بھی ایسا تقدس ۔۔۔۔ ایسی پاکیزگی ۔۔۔۔۔ کہ بے اختیار غالب ؔ کا شعر زبان پہ جاری ہو جائے ؎
اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں میرے نزدیک
اک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے۔۔۔!!
پتا نہیں لوگ کیسے منقش دروازے ۔۔۔۔ چاندی کا کٹہرا۔۔۔۔ دیدہ زیب سنگ مر مر کا فرش ۔۔۔۔ اور چھت سے جھولتا وہ دلکش فانوس دیکھ لیتے ہیں ۔ مجھے تو یہ سب دیکھنے کی فرصت مل سکی نہ دیکھنے کی چاہت رہی ۔ بس اتنا یاد ہے کہ اک دست ِ پر شفقت میرے جھکے سر پر آیا اور آواز آئی :۔ "بی بریو مائی ڈئیر سن ۔"اور حواس گم ۔۔۔۔ قیاس گم ۔۔۔۔ نظر سے آس پاس گم ۔۔۔۔۔
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا 
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
ویسے تو میں مویشی پال بھائیوں کی طرح کوئی حسرت پال انسان نہیں ،پھر بھی بندہ بشر ہوں ۔۔۔ زیادہ نہیں  البتہ دو چار بے ضرر سی خواہشیں ضرور کہیں دل کے نہاں خانوں میں رکھی ہیں ۔ جیسے کہ چھوٹی امراؤ بیگم اور چھوٹا غالب جھیل سیف الملوک کے پانی میں پاؤں لٹکائے ، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چاند سے محو گفتگو ہوں ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ مگر ایک خواہش بلکہ حسرت سمجھ لیں ، ایسی ہے کہ جس کے پورا ہونے کیلئے میں یہ دو چار خواہشیں تو کیا بقیہ ساری زندگی بھی قربان کرنے کو تیار ہوں ۔ بس مجھے صرف اتنا وقت مل جائے کہ میں ان کے سامنے کھڑا ہو کر ۔۔۔آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر۔۔۔۔ کہہ سکوں :۔
مائی لارڈ !  مسٹر قائد اعظم محمد علی جناح ۔۔۔! آئی لو یو ۔۔۔ سو مچ 
اور وہ مسکرا دیں ۔ (بے شک" می ٹو" نہ بھی کہیں ، پھر بھی چلے گا)
ہک ہااااااا۔۔۔۔۔۔ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں  اور جا بسیں
پینڈو شاداں و فرحاں دربارِ جناح سے باہر آیا ۔۔۔۔ ایک انگڑائی لی اور سوچا ذرا گھوم پھر کر باغِ جناح کا کراچیانہ ورژن بھی دیکھ لیا جائے ۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ پینڈو کی تو ہو گئی ہائے ۔۔۔ ہائے ۔۔۔ ہائے ۔۔۔۔
زیادہ تفصیل میں کیا جاؤں ۔۔۔ عقلمند را اشارہ کافی ہے ۔۔۔ اس لیے مختصر اً عرض کیا ہے ؎
وہ سبزہ زار ہائے مطرا کہ ہے غضب
وہ نازنین بتانِ خود آرا کہ ہائے ہائے
صبر آزما وہ ان کی نگاہیں کہ حف نظر 
طاقت ربا وہ ان کا اشارا کہ ہائے ہائے
جن کو یہ اشارا سمجھ نہیں آیا۔۔۔ وہ جا کر کارٹون نیٹ ورک دیکھیں
خدا جانے ان بنات النعش  کے جی میں  کیا آئی  کہ اس  قدر  عیاں  ہو گئیں ۔ایک  سے بڑھ کر ایک  نو بہار ِ ناز  دیکھ  کے خدا کی صناعی   پہ  کئی بار  سبحان اللہ  منہ سے نکل گیا ۔سبحان  اللہ  کوئی تھیں   زلفِ سیاہ رخ پہ پریشاں  کیے ہوئے ۔۔۔۔سبحان اللہ یہ  ہیں کہ سرمے  سے تیز  دشنہ  مژگاں  کیے ہوئے ۔۔۔۔ اور  یہ  جو  مسکرا رہی ہیں چہرہ فروغ   ِ لپ سٹک  سے  گلستاں کیے ہوئے ۔۔۔۔  اور  بے چارہ  پینڈو  کہ اسے  مدت ہوئی  یار کو مہماں  کیے ہوئے۔۔۔۔۔جگر لخت  لخت سے  دعوت ِ مژگاں  کرتا آگے  بڑھ  گیا۔   
مجھے مہاتما بدھ کے مقابلے میں مہاتما منگل یا مہاتما جمعرات ہونے کا دعوی کبھی نہیں رہا ۔۔۔ نہ ہی میں کوئی برہم چاری پرش ہوں۔
پارسا کوئی نہیں مانتا بھاڑ میں جائے ، الحمد اللہ تاک جھانک بھی میری عادت کبھی نہیں رہی ۔
شاید کسی کو میری روشن خیالی میں تامل ہو  مگر مجھے تنگ نظر ملاں بھی نہیں کہا جا سکتا ۔
میں کسی بی بی ، خاتون کو پردے کے فضائل بھی نہیں گنوانا چاہتا نہ ہی میری برقعوں کی دکان ہے ۔
فیشن کرنا ، اور خود آراستگی خواتین کا ازلی فطری حق ہے ۔ یہ بات مجھے دل سے تسلیم ہے ۔
مگر میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بے شک بے شک حجاب  نہ اوڑھیں ، برقع پہنیں آپ کے دشمن ، کہیں آپ کا دم نہ گھٹ جائے ۔ مگر ڈھنگ کے کپڑے پہننے میں حرج ہی کیا ہے بھلا۔۔۔۔؟؟؟ خدا نے دوپٹہ آپ کو بطور ڈھال عطا فرمایا ہے ۔۔ ۔ اور ایک اچھا سپاہی اپنی ڈھال سائیڈ پہ لٹکا کر میدانِ جنگ میں  نہیں اترتا ۔۔۔۔ یہ آپ کے پیارے سے بابا جانی ؒ کا اپنی مایہ ناز پاکستانی  بیٹیوں کے نام ایک چھوٹا سا پیغام تھا جو فدوی نے پہنچا دیا ۔کسی کو برا لگا ہو تو ۔۔۔ ۔ قہرِ درویش ، بر جانِ درویش ۔۔۔۔
بات کچھ زیادہ ہی پٹڑی سے اتر چکی ہے ۔ اس لیے جو عجلت پسند سورمے  بذریعہ سکرولنگ  یہاں تک آن پہنچے ہیں ان سے اس خواہ مخواہ جذباتیت کیلئے معذرت چاہتا ہوں ۔۔۔ پاکستانی ہو اور جذباتی نہ ہو ۔۔۔ یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔ جب تک جذباتی نہ ہو جائیں ہمیں کھانا ہضم نہیں ہوتا ۔۔۔۔ بس سمجھ لیں میں بھی ایک سچے اور پکے پاکستانی کی طرح اپنا کھانا ہضم کر رہا تھا ۔ 
پڑھنے کا بہت شکریہ ۔۔۔۔ اجر آپ کو اللہ دے گا

ملتے ہیں  اس سفر کے اگلے پڑاؤ میں
دعاؤں کا طالب :۔ فدوی چھوٹا غالب             

2 آرا:

  • 17 May 2013 at 21:32
    Anonymous :

    سبحان اللہ ۔۔۔۔۔
    اویس جن الفاظ میں تم نے بابائے قوم قائدِاعظم محمد علی جناح کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے ، وہ صآرف تمہارے ہی دل کی نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں دلوں کے ایسے ہی جذبات ہیں
    بے شک وہ ایسی ہی محبت کے لائق تھے
    انکے کردار کی عظمت کی گواہی تو خود غیر مسلم بھی دیتے ہیں
    اب انکی عظمت ایک ثبوت یہ بھی تو ہے کہ لوگ پتہ نہیں کہاں کہاں سے آکر انکے مزار پر حاضری دیتے ہیں
    جیسے کہ ایک دھنوٹ کا باسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔باباجی کے حضور حاضر ہوکر فیضیاب بھی ہوگیا اور یہاں کے رہنے والے کچھ لوگ محروم ہی رہے۔۔۔۔۔۔۔چاہتے ہوئے بھی انکے مزار پر حاضری کی سعادت حاصل کرنے میں ناکام۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    جیسے ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کرتی ہے ایسے ہی کچھ عاقبت نااندیشوں نے وہاں کے ماحول کو پراگندہ کرکے بہت سارے اچھے لوگوں کا راستہ بند کردیا ہے۔۔۔۔

    اوہو میں بھی کیا ذکر لے کر بیٹھ گئی ۔۔۔ اویس اتنی شاندار تحریر لکھنے پر بہت ساری شاباش اور پرخلوص دعائیں
    جنکے لئے یہ خاکہ لکھا گیا ۔۔۔۔۔وہ شہزادہ اور شہزادی ہنوز غائب ہیں

  • 20 May 2013 at 18:21

    حضرت جِس طرح کی کیفیت آپ کی مزارِ قائد پہ ہوئی بعینہ فقیر کی یہی حالت مزارِ اِقبال پہ ہوئی،،وہ حالت ہوئی کہ احاطہء تحریر میں نہیں آ سکتی۔۔۔۔۔۔۔
    خُدا رحمت کُنند این عاشقانِ پاک طینت را۔۔۔۔

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آپ کی قیمتی آرا کا منتظر
فدوی چھوٹا غالب

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

کرم فرما