Pak Urdu Installer

Sunday 5 May 2013

جزقیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار (مغزل کہانی قسط نمبر 7) -

3 آرا
گزشتہ سے پیوستہ

اچانک  ایک جھماکا سا ہوااور جھٹکے  سے  میری آنکھیں کھل گئیں   ۔
مگر یہ کیا۔۔۔۔؟؟؟
یہ تو کوئی  اور دنیا  ۔۔۔ کوئی اور  ہی عالم تھا ۔۔۔۔
شاید  نہیں  بلکہ یقیناً  میں  عالم موجودات کی بجائے عالم محسوسات  میں  تھا ۔ بے اختیار  اٹھنے کی کوشش کی  مگر صرف  سوچ کر رہ گیا ، کیونکہ میں پہلے ہی  اٹھا ہوا تھا ۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ چار  سیاہ  پوش ہیولوں نے مجھے ٹنگا لولی  (چار  طرف سے  یعنی دونوں بازو اور دونوں  ٹانگوں سے اٹھانا) کر رکھا  تھا اور ایک طرف کو  بھاگے جا رہے تھے ۔ یہاں  بھاگنا لفظ میں نے  ان کی تیز  رفتاری  کابیان کرنے کیلئے استعمال کیا ہے  جبکہ  حقیقت یہ تھی  کہ  وہ مجھے اٹھائے  ہوئے  ہوا میں  تیزی سے اڑے جا رہے تھے ۔ حیران ہو کر  سوچا "یا الٰہی !! یہ ماجرا کیا ہے " اور ہیولوں کو مخاطب کر کے پوچھا:۔ " کون  ہو بھائی ؟ کدھر لے جا رہے ہو  مجھے ؟ میں  نے   تمہارا  بگاڑا کیا ہے ۔۔؟؟ "میرے مخاطب کرنے پر  ایک ہیولے  نے میری جانب دیکھا اور میں لرز کر رہ گیا ۔ سرخ انگارہ آنکھیں کسی  بھی قسم کے  تاثرات  سے عاری تھیں۔  صد شکر کہ باقی  چہرہ  سیاہ  لبادے میں   ڈھکا ہوا تھا ورنہ  ۔۔۔ 
ایک  آواز میرے کانوں  سے ٹکرائی :۔ " پہچانا نہیں ہمیں۔۔؟؟ ہم موت کے فرشتے ہیں۔ اور  تمہاری روح کو تمہارے  ٹھکانے  یعنی سقر  مقر ہاویہ زاویہ  تک پہنچا  نا  ہماری ذمہ داری ہے  ۔" میری تو  سٹی گم ہو گئی ۔  کانپتے ہوئے بولا :۔ " کیوں مذاق کرتے ہو یار ۔۔۔ ویسے بھی میں اپنی  آپی  سے ملنے  آیا تھا  کوئی  ڈاکا  ڈالنے تونہیں آیا تھا  ۔۔۔تمہیں  کوئی غلط فہمی ہوئی ہے شاید ۔"
جواب ملا :۔ " ہم یہ سب نہیں جانتے ۔ اور نہ ہی جانناچاہتے ہیں۔ ہر بندہ  موت کو سامنے  دیکھ کر  ایسے ہی  اپنے آپ کو  معصوم ثابت کرنے  پر تل جاتا ہے ۔ یہ ڈرامے ہم روزانہ  دیکھتے ہیں۔ ویسے بھی  ہماری تمہاری  کوئی دشمنی نہیں۔ ہم تو بس اپنی ڈیوٹی نبھا رہے ہیں۔ ہمارے چیف  یعنی ملک الموت  روحوں کو جسم سے  جدا کرتے ہیں، اور روح کو  اس دنیا سے اس دنیا  میں اس کے ٹھکانے تک  پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے ۔اور  اب تم مر چکے ہو ۔"
میں نے کہا :۔ " مرنے کا مجھے  غم نہیں ۔  مگر  یہ شدادجیسا انجام میرے مقدر میں کیوں لکھا تھا ۔ اس نے بھی  جنت میں پہلا قدم رکھا تھا کہ  موت  نے آن دبوچا ، اورمیں بھی  ساری  زندگی کی تلاش کے بعد  جب  منزل پر  پہنچا  تو پہلے قدم پر  ہی ملک الموت کے ہتھے چڑھ گیا ۔"
کیا بیاں کرکے مرا روئیں گے یار
مگر "شگفتہ  بیانی "  میری 
اچانک  ایک خیال  آنے پر میں نے پھر پوچھا :۔ " میرے  اتنے دوست  تھے ۔ کسی نے مجھے بچانے  کی کوئی  کوشش نہ کی۔۔۔؟؟"  جواب ملا :۔ " موقع پر جو  موجود تھے  ان میں سے  مذکر  تو سر پکڑ  کے بیٹھ گیا  اور  جوشِ اشک سے  طوفاں  برپا کرنے پر تل گیا ۔  البتہ  خاتون نے ہمیں روکنے کی بہت کوشش کی ، اور دھمکایا بھی  بہت ۔ لیکن ہم   دو گرہوں میں بٹ کر اسے چکمہ دینے اور تمہیں لے کر نکل بھاگنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔  باقی  دوستوں کا حال  نیچے خود دیکھ لو۔" یہ سن کر میں  سر گھماکر  نیچے دیکھنے لگا۔ اس وقت  ابھی ہم کراچی  کی فضاؤں میں ہی تھے ۔
 ایک جگہ یوسف ثانی  صاحب نظر آئے ۔  ہمیشہ مجھے چھوٹا بھائی سمجھ کر شفقت فرمایا کرتے  تھے ۔ سوچا  بندہ مومن ہیں  مدد نہ سہی  کوئی تسلی  تو دے ہی دیں گے ۔  آواز دی ۔ سن کر افسردہ  ہو گئے  اور فرمایا :۔" چھوٹے میاں اللہ کو یہی منظور تھا ۔ اس کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے بھلا ۔  تم  اپنا راستہ ناپو اور  ہمیں تمہاری جواں مرگی  بلکہ پردیس  مرگی  پر  صبر کے  گھونٹ بھرنے دو۔  تمہاری بدقسمتی کہ  میں ایصال ِ ثواب  وغیرہ کا بالکل قائل  نہیں۔  کسی فاتحہ  شاتحہ کی امید نہ رکھنا۔"
ہوئی توقع  جن سے خستگی کی داد پانے کی۔۔۔
اس ٹکے سے جواب  کے بعد  کسی  اور سے "کس امید پہ کہیئے  کہ آرزو کیا ہے۔" ٹھنڈا سانس لے کر  مہ جبین آپی  کو یاد کیا اور ان کی تلاش  میں نظریں یہاں  وہاں  دوڑائیں ، مگر ان کا گھر  شاید کہیں پیچھے رہ گیا تھا ۔  صبر کے سوا چارہ ہی کیا تھا ۔ مومن  نے بھی کیا خوب کہا  تھا مگر  خوامخواہ  ہی کہا تھا؎
چارہ دل  سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا
اسی  اثنا میں جامشورو ، لاڑکانہ ، حیدرآباد ،  روہڑی  ، سکھر بھی  گزر گئے ۔  آگے  پنجاب  اور بلوچستان  کی سرحد آنے والی تھی ۔  مغرب کی جانب  سے  شاید  مستونگ  میں کوئی  رند  بیٹھا  گنگنا  رہا تھا ؎
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت  کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
پنجاب کی سرحد  شروع ہوئی  کشمور سے گزرتے  ہوئے جونہی صادق آباد پہنچے  ایک ہنگامہ برپا تھا ۔ پہیہ  جام ہڑتالیں تو سنیں تھیں مگر ان مظاہرین  نے پہیہ سمیت سب کچھ جام کر رکھا  تھا حتیٰ  کہ دریائے  سندھ کا پانی بھی۔ بہت معرکے کا  احتجاجی مظاہرہ تھا ۔ جس کے روح رواں  کوئی گول مٹول  مگر نہایت ہینڈسم  صاحب(جیسے ہنڈا سوک  ، یا سوزوکی مارگلہ ) تھے گود میں ایک بہت ہی پالی پالی شی سویٹی  پری  کو اٹھایا ہوا تھا ۔احمد  علی ،  محسن وقار ،سید زبیر اور چند  نامعلوم  بہی خواہ  بھی  صف ِ اول  میں  نعرہ  زنی  میں مشغول  تھے۔  ان کے مطالبات  کا خلاصہ یہ  تھا  کہ  چھوٹا  غالب  کو نشانِ حیدر  دیا جائے ۔  اور حکومتی خرچ پر  ان کا شاندار  مزار تعمیر کروا کے ان کے خلیفہ  جناب ذوالقرنین  سرور صاحب  کو  سجادہ نشین کا منصب سرکاری طور پر سونپ دیا جائے ۔ ورنہ  اسلام آباد تک  ڈائیوو  میں بیٹھ کر لانگ مارچ تو  کیا لانگ ا پریل سے بھی دریغ نہیں  کریں گے۔
دل  کو بہت ڈھارس بندھی  اور ان  ہوا  خواہوں کیلئے تشکر  انہ  جذبات امڈ  امڈ آئے ۔
جز قیس اور  کوئی  نہ آیا بروئے کار 
  خیر ۔۔۔رحیم یار خان  پلک جھپکتے  گزر گیا ۔ بہاولپور  سے  آواز  آ رہی  تھی "خس کم جہاں پاک۔ مسخرہ کہیں کا " ملتان  خانیوال  بھی گزرگئے  چیچہ  وطنی سے   گزرے  تو ساہیوال   کی  جانب سے کوئی پکار نے والا پکار رہا تھا :۔ " احمد فراز کو میرا  سلام کہیو۔" راوی  پار کیا  تو  کمالیہ  شروع ہوا ، کوئی  لاہوری پٹھا  باقاعدہ  سلطان راہی  والے سٹائل  میں بازو لہرا لہرا کے  بڑھکیں مار تے  ہوئے  آپے سے  باہر  ہوا جا رہاتھا :۔" اوئے ساڈا  ڈنگیا تے پانی نئیں منگدا ۔۔ ۔ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔ ہااااااا۔۔۔ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔"ٹوبہ  ، رجانہ ، گوجرہ  سے  گزرتے ہوئے  جب  سمندری  پہنچے تو  فیصل آباد  کی جانب سے  ڈھول  کی ڈھما ڈھم  سنائی دے رہی تھی ۔ قریب  پہنچے  تو  دیکھا کہ  لوگ بغلیں بجا رہے تھے،  اور مٹھائیاں بانٹ رہے تھے ۔۔ اور وہ جو  قصور والوں سے اک موہوم   سی امید تھی  انہیں لاہوریوں  سمیت  وہاں بھنگڑے ڈالتے دیکھ کر  مر گئی ۔ حالانکہ  قصور والوں کو  تو  کم از کم سمجھا نا  چاہیے تھا ان نادانوں کو  کہ "  دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے۔۔۔  سجناں وی مر جانا۔" 
سرگودھا ، گوجرانوالہ  میں میرا تھا ہی کون ۔  میں نے فرشتوں سے  کہا  کہ میری آخری خواہش کے طور پر پلیز  موٹر وے  والا روٹ  پکڑو ۔  اور براستہ وزیرآباد ، سیالکوٹ چلو ۔  اس بے ضرر  سی خواہش میں ان کا کیا گھاٹا تھا۔ وہیں سے ہو لیے ۔ سیالکوٹ  سے گزرنے لگے توایک  جگہ سے دھوئیں کے   مرغولے اٹھتے  دیکھ کر  میں سمجھ  گیا  کہ    حضرت  یہیں رونق  افروز  ہیں  ۔ پکے  سگریٹ  کے  سوٹے لگا تے  ہوئےکوئی  عالم ِ بے کیفی  میں نعرے لگا رہا تھا "لگے دم ۔۔ مٹے غم ۔۔۔  پی پیالہ صبر دا ۔ ۔۔ کوئی نئیں ساتھی قبر دا   ۔۔۔ جھولے  لال ۔۔۔۔۔"مجھ سے  رہا نہ گیا ۔  میں نے بے اختیار  پکارا :۔ "  پیر بھائی ۔۔۔!!میں دنیا تیری چھوڑ چلا۔۔۔فرشتے  مجھے اغوا کر کے لے جا رہے ہیں " مست  ملنگ تھوڑا چونکا  اور پھر  اسی  ٹون میں بولا :۔ " اچھا دوست  میری تو دعا ہے جہاں رہو خوش رہو۔۔۔۔  مرشد  کو  سلام دیجو ۔ ۔۔(ایک   اور سُوٹا لگا  کر ) جھولے لال ل ل ۔۔۔۔"
میں ہوں فسردگی کی آرزو غالب کہ دل
دیکھ کر  طرزِ تپاک ِ اہل دنیا جل گیا
اسی  دوران پنڈی  بھی آ گیا ۔ اسلام  آباد  کی فضاؤں میں داخل ہوئے تو  چائے  کی  بہت ہی زبردست  خوشبو  کی  لپٹیں ناک سے ٹکرائیں ۔ البتہ یہ بتانے سے قاصر ہوں کہ لپٹن یلو لیبل  کی  خوشبو تھی یا سپریم   کی (کیا معلوم کھلی  پتی  ہو) بہر  حال جو بھی تھی خوشبو  بڑی  زبردست تھی   شاید الائچی  یا سونف   کا تڑکا  لگایا  گیا  تھا ۔ ناک  کو اس کے حال  پہ چھوڑ  کر کان لگائے تو   آواز آئی :۔
نہ ترے آنے کی خوشی نہ  جانے کا غم
کہ یہی ہے  قلندر کی متاعِ زندگی۔۔۔!!
قریب تھا  کہ ہم  کشمیر سے گزرتے ہوئے  گلگت  بلتستان کی حدود میں داخل ہوتے کہ کیا  دیکھتا ہوں خیبر پختونخواہ  کی جانب سے  کچھ ہر اہرا  سا غبار  اڑتا ہماری  طرف آتا  دکھائی  دیا ۔ فرشتوں کی رفتار میں تیزی آ گئی  کہ طوفان آنے والا ہے  جلدی یہاں سے نکل چلیں۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے ہرے  رنگ کا طوفان  قریب پہنچا اور ہمارے قافلے  کا  راستہ روک لیا ۔  اور  طوفان  میں  سے ایک نورانی پیکر  نمودارہوا ۔  یقیناً  میری طرح آپ کو حیرانی ہو گی  کہ ہمارا راستہ روکنے والا کوئی ٹارزن ، ہرکولیس ، تھور یا سپائیڈر مین نہ تھا ۔  نہ ہی ہلک  ، یا  دی میٹرکس  کا "نیو" تھا ۔ بلکہ  ایک  نرم و نازک سی خاتون تھیں۔ چہرہ  مہندی  کے بڑے بڑے پتوں میں چھپا ہوا ہونے کی وجہ سے میں پہچان نہ پایا۔ البتہ  ان  کے نہایت  خوبصورت  ، چمکیلے  بلکہ  نورانی  (اتنے خوبصورت کہ حوریں  بھی رشک کرتی اور  ان سے کریم مانگتی  ہونگی )مزید حیرانی یہ  کہ  ان خوبصورت ہاتھوں نے  مسکارا ، آئی  لائنر ، لپ سٹک نہیں بلکہ  پمپ ایکشن  رپیٹر  تھام رکھا تھا ۔ اچانک  سریلی آواز میں گرجیں:۔ "خبردار ۔۔۔!!  جو ایک قدم بھی آگے  بڑھایا تو ۔ میں فائر  کرنے  سے دریغ نہیں کروں گی  اور کسی  بھول میں مت  رہنا  میرا نشانہ  "وانٹڈ "  کی انجلینا جولی  سے  بھی  زیادہ پکا ہے ۔" فرشتوں نے ہینڈ بریکس  کھینچ  لیں اور  مذاکرات کا ڈول ڈالا :۔ "دیکھئے  معزز  خاتون !  ہم کوئی ہوائی مخلوق نہیں ۔  رب  کائنات کے فرشتے  ہیں۔  اور اسی کے  حکم سے  اس بدبخت  کی روح کو  یہاں سے  اگلے جہاں پہنچانے  جا رہے ہیں۔ "
محترمہ کی غصے بھری آواز  آئی (چہرے کی تاثرات  تو میں دیکھ نہیں پایا):۔ " سوچ سمجھ کے بولو  میاں فرشتے ۔  آدم  مسجود ملائک  ہے  ، اور  پھر  یہ  صرف  آدم  ہی نہیں بلکہ میرے پیارے  چھوٹےبھیا بھی ہیں۔اور  اگر ہاروت  ماروت  کا انجام  یاد ہو  تو پھر میرے غالب بھیا  کو بدبخت  کہنے کی جرات  نہ کرنا ۔ "
ایک فرشتہ بولا:۔ " معزز خاتون !  ہمیں آپ کے  خواہرانہ  جذبات  کی قدر ہے ۔  مگر  آپ کو شاید  یہ معلوم نہیں کہ  اس  بد۔۔۔۔ (کہتے کہتے  ایک دم زبان غوطہ  کھاگئی ) میرا مطلب ہے  کئی لوگوں کی طرف  اس  پر  بداخلاق ہونے  اور ناپاک جانور(شاید کتا  شاید سور۔ واللہ اعلم)  ہونے کے الزامات  عاید کیے گئے ہیں۔"اور  طوفان  میں جیسے بھونچال آ گیا ۔ گرج کر بولیں:۔ " لوگ کون ہوتے ہیں میرے  بھیا پر اس طرح کے الزام لگانے والے ۔  میں تو ۔۔۔۔۔ " ابھی وہ آگے  کہنے ہی والی تھیں کہ  ہمارے پیچھے کچھ دیکھ کر  چونکیں اور رک گئیں۔ انہیں  چپ ہوتا دیکھ کر فرشتوں  نے بھی غیر ارادی  طور پر  پیچھے مڑ کر دیکھا  ، (ظاہر ہے میں نے بھی)  اور ایک خوبصورت پری کو آتا دیکھ کر  مزید گھبرا گئے ۔  پری  کیا  تھیں بس یوں سمجھیے  کہ پرستان کی  شہزادی بنفس نفیس  تشریف لائی تھیں۔  (جنہوں  نے  فلم "ٹِنکر بیل اینڈ دی  لاسٹ ٹریژر"  میں  کوئین فیری کو  دیکھا  ہو۔ وہ سمجھ گئے ہونگے ) سنہری ستاروں میں ملبوس ۔ ہاتھ  میں  ستارے  والی چھڑی  لیے  وہ  شہزادی  قریب پہنچیں اور آتے  ہی  فرمایا:۔ " شاباش  حنا! بہت اچھا کیا ۔  اگر تم انہیں نہ روک لیتیں مجھے  ابھی  نجانے  اور کتنی بھاگ دوڑ کرنا پڑتی ۔" اور یہ سن کر میں حیرانی  سے اچھل تو  نہ سکا  مگر بہت  حیران ضرورہوا۔ یعنی  کہ یہ  میری  سپر گریٹ  آپی  جی ہیں۔ مگر  منہ کیوں چھپا رکھا ہے  ، اور اسی  وقت مجھے  خیال آیا کہ  صرف  حنا آپی ہی  نہیں فیری  آپی نے  بھی چہرہ  بھی نقاب  میں   تھا ۔  میں تو بھیا  ہوں ان کا ۔۔ شاید  فرشتو ں سے پردہ کر رکھا ہو۔ میں ابھی  اسی  سوچ میں تھا کہ ایک فرشتے  کی آواز آئی :۔ " دیکھیں بی بی  آپ خدائی کاموں میں ٹانگ اڑا رہی ہیں ۔۔۔ اچھا نہیں کر رہی  ہیں۔ اس کا نتیجہ اچھا  نہیں ہوگا۔"
فیری  آپی  پھنکاریں:۔ "وہ سب بعد میں  دیکھی جائے  گی  ابھی تو  ہمیں چھوٹے  غالب کا بلیک  وارنٹ دکھاؤ۔ کراچی  سے توتم  مجھے چکمہ دے کے بھاگ نکلے ،  مگر اب  حنا اور  مجھ سے  بچ کے نکلنا  مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ "(ڈون والے  سٹائل میں)
فرشتوں  نے بیک زبان کہا:۔" بلیک وارنٹ تو  ہمارے پاس نہیں ہے ۔وہ تو ملک الموت  کے پاس ہوتا ہے ۔"  آپی  کہاں  اس فریب میں آنے  والی تھیں۔  گرج کے بولیں:۔ " مجھے الو سمجھا ہے کیا؟  میں نے " دی فینٹم  ممی " اور "  پائریٹس  آف دی  کیربیئن۔ ایٹ  ورلڈز اینڈ"  نامی  فلمیں دیکھی  ہوئی ہیں۔ اور  اتنا تو مجھے  پتا ہے  کہ  روح کو لے جانے والے  فرشتوں کے پاس پروانہ راہداری  ضرور  ہوتا ہے ۔ ورنہ  روح اس عالم میں داخل نہیں ہو پاتی۔ چلو اب نکالو  جلدی ۔۔ شاباش۔"ناچار  فرشتے کو میرا بلیک وارنٹ اور  پروانہ  راہداری  نکال کے دکھانا ہی پڑا ۔ حنا آپی نے  دیکھ  کر فتویٰ دے  دیا کہ  یہ  پروانہ  جعلی ہے ۔  فرشتہ  چڑ کر بولا:۔ " بی بی ۔  پروانہ  راہداری   پروانہ  ہوتا ہے ، اصلی  ہو جعلی۔"
اتنے میں فیری آپی  حنا آپی  کے قریب ہوئیں  اور  اردو  میں کھسر پھسر کی ۔ فرشتوں  کے تو سر سے گزر گئی  مگر  چونکہ "اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتےہیں داغ"  اس لیے  میں نے سب سن بھی لیا اور ان کا پلان   بھی سمجھ گیا۔فیری  آپی  کہہ رہی تھیں:۔ "حنا !  جیسے  بھی  ہو ، ہمیں ان کو باتوں میں لگائے رکھنا ہوگا ۔ کیونکہ  مہ جبین آنٹی  مصلے  پر بیٹھی  دعاؤں میں مشغول ہیں۔ انہوں نے کہا ہے  تم فرشتوں  کو اُس دنیا  میں جانے  سے  جتنی دیر روک سکتی ہو روکے رکھو۔ اس  دنیا کا معاملہ اسی دنیا  میں ہی نپٹ جائے  تواچھا ہے ۔ " حنا  آپی  کی مسکراتی ہوئی آواز سنائی دی:۔ " ہرااااااا۔۔۔۔  میں بھی سوچ رہی تھی  کہ مہ جبین آنٹی کہاں غائب ہیں ۔  لگتا ہے  اب تووہ فیصلہ اپنے  حق میں کروا کے ہی دم لیں گی ۔  بہت  پہنچی  ہوئی بی بی ہیں ۔ مجھےان پہ یقین ہے۔"
میں بیان  نہیں کر سکتاکہ  مجھے  اس وقت  کتنی  خوشی  ہو رہی تھی ۔  آپ غلط سمجھے مجھے دوبارہ  زندگی  ملنے کی  خوشی نہیں بلکہ اتنی پیاری  اور دبنگ  بہنوں  کاچھوٹا  اور لاڈلا بھیا  ہونے  پر خوشی  اور فخر  سا ہو رہا تھا ۔  دنیا میں مجھ جیسا  خوش قسمت  اورکون ہو گا  بھلا ۔
اس دوران    فرشتے بھی  ڈائریکٹ  ایکشن کے  فیصلے  پر متفق ہو کر ڈو آر ڈائی   کے موڈ میں آ گئے   کہ اچانک   ایک اور فرشتہ  نازل ہوا ۔ مگر وہ  ان  موت کے فرشتوں جیسا  نہیں تھا ۔  بے حد وجیہہ  ، پاکیزہ  ، نورانی  صورت کہ دیکھ کر بے  اختیار  اللہ  کے  حضور جھک  جانے  کا خیال  آئے  جو اتنی مخلوقات  کا خالق  اور مالک ہے ۔

اس کہانی کی آخری قسط انشاءاللہ جلد ہی  پیش کر دی جائے گی

3 آرا:

  • 17 May 2013 at 22:05
    Anonymous :

    کبھی کبھی انسان پر ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ وہ بہت کچھ کہنا چاہتا ہے مگر الفاظ اسکا ساتھ دینے سے انکار کر دیتے ہیں، ۔۔۔۔۔اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو مصنف کہنا چاہتا ہے اسکی تہہ تک ایک عام قاری پہنچ نہیں پاتا ۔۔۔۔۔کچھ الفاظ ، استعارات اور تشبیہات میں الجھ کر قاری نفسِ مضمون کی گہرائی میں غوطے لگاتا ہی رہ جاتا ہے ۔۔۔۔۔ لیکن پھر بھی اسکے ہاتھ وہ سرا نہیں آتا جس کو پکڑ کر وہ اس بھنور سے نجات حاصل کرسکے۔۔۔۔

    مجھے دانشمندی کا دعویٰ تو کبھی نہیں رہا بس اسی لئے میں اس تحریر کے فلسفے کو سمجھنے سے اپنے ہاتھ کھڑے کرتی ہوں
    اور اپنی کم فہمی کا اقرار کرتی ہوں
    کچھ الفاظ کے استعمال نے مجھے الجھن میں ڈال دیا ہے لیکن اس میں بھی میری کم علمی ہی کا قصور ہے

    اویس تم نے ایک شاندار خاکہ لکھا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر کوئی اسکو بعینہہ سمجھنے میں کامیاب ہوجائے

  • 19 May 2013 at 11:31

    اس تحریر کو پڑھتے وقت ایک بات ذہن میں رہنی چاہیے
    "ہیں آج کیوں ذلیل ، کہ کل تک نہ تھی پسند
    گستاخی ِ فرشتہ ہماری جناب میں"

    فرشتے بھی یکے از مخلوقات ہیں ۔ اور انسان بہر حال مسجودِ ملائک اور اشرف المخلوقات ہے

    مزید یہ کہ اگر تحریر کے عنوان کو ذہن میں رکھیے تو کچھ گتھیاں مزید بھی سلجھ جائیں گی

    لیکن اس تحریر کو بار بار پڑھنے سے ہی عقدے وا ہوں گے
    ایک بار پڑھنے سے تحریر چاہے غالب کلاں کی ہو چاہے غالب خورد کی کماحقہ سمجھ آنی مشکل ہے
    اور مجھے یہی گلہ اپنے قارئین سے رہتا ہے ہمیشہ
    کہ وہ جلدی میں اور روانی میں میری تحریر کا بین السطور پیغام نظر انداز کر جاتے ہیں۔ اور سامنے کے لفظوں میں بہہ جاتے ہیں

  • 20 May 2013 at 18:28

    زُباں ہے گنگ اور ذہن خالی ہے
    میری جاں تِرا ہر اِک لفظ مِثالی ہے

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آپ کی قیمتی آرا کا منتظر
فدوی چھوٹا غالب

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

کرم فرما