Pak Urdu Installer

Friday, 17 May 2013

ڈبویا مجھ کو ہونے نے (قسط سوم) ۔

1 آرا

جب مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوارِ گلستان پر


جوگی کی ابتدائی تعلیم حسبِ روایت   گھر میں ہی ہوئی۔شعور  اور لاشعور میں دبی ماضی  کی داخل  دفتر فائلیں  کھنگالنے سے  انکشاف ہوتا  ہے کہ  اڑھائی  یا  زیادہ  سے زیادہ تین  سال  کا  جوگی   ایک روپے  کے لالچ  میں  سارا دن تختی  لکھا کرتا تھا ۔  ٹیوب  ویل  اپنا  تھا ،  اور  وہاں  ایک  بار لکھی تختی  ابا  جی کو دکھانے  کے بعد  دھو کر  سوکھنے کے بعد  لکھنے  کا  یہ عمل  بار بار جاری رہتا۔  یوں آم کے آم اور  گٹھلیوں  کے دام کے  مصداق  جوگی   املا  ،  صحتِ املا  اور خوشخطی  کے ساتھ  ساتھ  الفاظ کے  معانی کے سلسلے  میں کسی  فرہنگ  اور ڈکشنری  کی  محتاجی  سے  آزاد  ہوتا  چلا گیا ۔  اس وقت  تو  یہ جوئے شیر صلے  میں ملنے والے  ایک روپے  کے نوٹ کی خاطر بہائی جاتی  تھی ۔ مگر  اسی بہانے  لفظ و  معانی  سے  ایسا قریبی  رشتہ جڑ گیا کہ اب  لفظ میرے  رازدار  دوست اور میرے جاسوس ہو کر رہ گئے  ہیں۔  یہ میرا وہ  ہتھیار ہیں جن کی مدد  سے  میں ہر  ایک کی  شخصیت کے  اندر جھانکنے  اور "پردے کے پیچھے  کیا ہے" سے  واقف  ہوجانے  کی صلاحیت سے مسلح ہوں۔
مجھے  اچھی طرح یاد ہے  جب میرے  بڑے بھائیوں کو لفظ "آسٹریلیا"  کا تلفظ نہیں  آتا تھا ۔  تب مجھے  20  تک  کے روایتی پہاڑوں کے  علاوہ "سوا"  کا پہاڑہ ، "ڈیڑھ " کا پہاڑہ ، "پونے "  کا پہاڑہ بھی یاد تھے۔ جب کہ  6  کلمے ، اور  ایمانیات  وغیرہ  تو ہمارے  ہاں  بچے  جھولے  میں ہی یاد کر لیتے ہیں۔      
ہونہار پوت کے پاؤں پالنے میں  رویتِ ہلال کمیٹی کی مدد کے بغیرہی دیکھے جا چکے تھے۔ اور جوگی کا بھی ہر اٹھتا قدم "دشتِ امکاں" کو روند رہا تھا، سکول میں داخل کرایا گیاتواس کی خداداد ذہانت کے اعتراف کے طور پر ڈائریکٹ دوسری جماعت میں بٹھا دیا گیا۔لیکن ماسٹر صاحب پڑھانے سے زیادہ چمڑی ادھیڑنے کے شوقین تھے، اور بات بات پہ بچوں کو مرغا بنا کر ان کی "بانگِ درا" سننے کو مستحب جانتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جوگی کو سکول پھانسی گھاٹ اور ماسٹر ظفر اللہ صاحب تارا مسیح نظر آنے لگے۔ گھر سے بستہ لیے نکلتا مگر سکول جانے کی بجائے قدرت کے شاہکاروں کے مطالعے کیلئے۔ اور چھٹی کے وقت مسکین سی صورت بنائے گھرواپس۔
ایک بار یوں ہوا کہ جوگی صاحب جب کہ ریلوے لائن پر کائنات کے اسرار و رموز پر غور وفکر فرمانے میں مگن تھے کہ والد صاحب" مرگِ ناگہانی" کی طرح سر پر پہنچ گئے ، اور پھر جو مار پڑی اس کا تو ذکر ہی کیا مگر ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ سب کو سکول نہ جانے کی وجہ سمجھ آ گئی ، اور جوگی کو لڑکیوں کے سکول میں داخل کر دیا گیا ، تاکہ کم از کم سکول جانا تو سیکھ لے۔بس پھر کیا تھا ، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات استانیوں کی نظروں سے چھپے نہ رہ سکے، اور جوگی کو ایک ہی مہینے کے اندر اندر تیسری جماعت کا ویزا مل گیا، نکمی نکمی لڑکیوں کے درمیان راجہ اندر بنے پھرتے تھے۔اور سب لڑکیاں باقاعدہ ٹافیا ں وغیرہ کھلا کر بھائی بناتیں اور ناز اٹھاتیں۔


لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز


شہر میں پہلا کے جی سکول کھلا تو  جوگی کو ایک بار پھر سکول سے ہجرت کرنی پڑی۔ نیا سکول نیا ماحول ، چونکہ استانیاں پڑھاتی تھیں  اس لیے وہاں  دل لگ  تو  لگنا  ہی تھا۔ کہانی پھر نرسری سے شروع ہو گئی ، اور حسبِ سابق پریپ اور ون کلاس کو جوگی نے ایک ہی سال میں فتح کر ڈالا۔جب سکول کے بچوں کو ریڈیو پاکستان کی سیر کرائی گئی، تو بچوں کے ایک پروگرام میں جوگی نے بھی ایک تقریر کی ۔ اور انعام کے ساتھ ساتھ خوب داد بھی سمیٹی، سکول کے پرنسپل صاحب کی جوہر شناس نظروں نے جوگی کے اندر چھپے فنکار کو بھی ڈھونڈ نکالا ،ا ورسکول کی پہلی سالانہ تقریب  تقسیم انعامات میں جوگی صاحب کے جوہر کھل کر مزید سامنے آئے ، جب ایک ڈرامے میں پیر صاحب کا کردار اس خوبصورتی سے نبھایا کہ دیکھنے والے عش عش کر اٹھے، دوسری کلاس میں پہنچنے تک جوگی سکول کا سب سے زیادہ ہر دلعزیز طالب علم  بن چکا تھا۔ جوگی کی ایک دلچسپ عادت تھی، کچی پنسل کا سکہ چبانے کی، پنسل کو شارپ کرتا رہتا اور سکہ چباتا رہتا،  ایک دن سر ناصر صاحب نے ریاضی پڑھاتے وقت مثال دی کہ بچو،فرض کیا کہ  موٹا(جوگی)ایک دن میں 4 پنسلیں چبا جاتا ہے تو ایک ہفتے میں کتنی پنسلیں کھا جائے گا؟

کس سے محرومی قسمت کی شکایت کیجئے


وقت ایک دریا کی مانند ہے ، ہمیشہ ایک طرف نہیں بہتا ، پس وقت نے کروٹ لی ، اور اس کروٹ کے نیچے جوگی بھی آ گیا۔ پینڈو لوگ اس زمانے میں کورٹ کچہری کے بڑے شوقین ہوا کرتے تھے، اور اسی ہنگامہ پہ گھر کی رونق موقوف سمجھتے تھے۔  زمین اور جائیداد کی مقدمے بازی ، مار کٹائی تک جا پہنچی، جوگی کے بھائی نے کسی کی ہڈی پسلی ایک کی تو جوابِ آں غزل کے طور پر کچھ دن بعد اس پر گولی چلا دی گئی، زیادہ نقصان تو خیر نہیں ہوا،
والد صاحب نے مقدموں کی پیروی احسن طریقے سے کرنے کیلئے ، آبائی گاؤں چھوڑا اور شہر میں گھر خرید لیا ، اس افراتفری میں کسی اور کا تو کچھ نہیں بگڑا مگر جوگی سے ایک بار پھرنہ صرف اس کا سکول چھوٹا بلکہ تعلیمی سلسلہ بھی پھر کھڈے لائن لگ گیا۔وہاں قریبی سرکاری سکول میں داخلے کا فیصلہ کیا گیا، مگر چونکہ سال ختم ہونے کے قریب تھا اس لیے امتحانات کے بعد داخلے کا لارا دتہ  گیا، اور یوں فرصت کا  یہ عرصہ" تصورِ جاناں کیے ہوئے " گزرا
آخر کار جوگی کو تیسری جماعت میں داخلہ مل گیا،  روایتی سرکاری سکول کے روایتی استاد صاحبان اور وکھری ٹائپ دا جوگی ۔پڑھائی وغیرہ کا تو رواج ہی نہ تھا۔ اس سکول میں چار دیواری نام کی کوئی چیز نہ تھی، سکول کے میدان میں شیشم اور سرس کے درخت کمرہ جماعت کہلاتے تھے، پانی پینے کیلئے سڑک پار کر کے مسجد کی ٹونٹیوں سے آبِ حیات کشید کرنا پڑتا تھا، سکول کے میدان کے ساتھ والے میدان میں فقیروں کی بھی جھونپڑیاں   کافی تعداد میں  تھیں ، ان کے گدھے اور خچر بھی بلا تکلف خود کولڑکوں کا ہم جماعت سمجھتے تھے، استاد ہر کتاب کا ایک صفحہ کاپی پر لکھ کر آنے کا حکم جاری کرتے اور لمبی تان کر سو جاتے، اگلے دن ہوم ورک چیک کرنے کے نام پر کاپیوں پر لکیریں گھسیٹ دیتے، امتحانات کے بعد جب نتیجہ کا اعلان ہوا تو انکشاف ہوا کہ جوگی اول آیا ہے ۔ ایسےہی وقت دلکی چال چلتا  چلتاگزرتا گیا۔

1 آرا:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آپ کی قیمتی آرا کا منتظر
فدوی چھوٹا غالب

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

کرم فرما