Pak Urdu Installer

Sunday 5 May 2013

یہ نہ تھی ہماری قسمت (مغزل کہانی قسط نمبر 6) -

2 آرا


گزشتہ سے پیوستہ


کراچی میں جیسے  اکثر شبِ برات کا ہی سماں رہتا ہے ۔ شُرلیاں  پٹاخے (جاندار  شرلیاں پٹاخے منہ نہ بنائیں یہ ان کا  تذکرہ  نہیں) رونق بڑھائے رکھتے ہیں کہ  "نوحہ غم ہی  سہی نغمہ شادی  نہ سہی" ۔  شاید اس کی  ایک وجہ  بے تحاشا  بڑھتی ہوئی  شرح آبادی پر کنٹرول  کی کوشش بھی  ہو ۔ لیکن  موت کے فرشتے  اور میٹرنٹی ہومز ، دائیوں  وغیرہ  میں   کانٹے کا مقابلہ  ہے ۔ وہ  مارتے مارتے  تھکتا ہے  نہ  ثانی الذکر کو  زچگیوں  کی ہڑبونگ  سانس لینے کی فرصت دیتی ہے ۔  مگر جیساکہ   ہاتھیوں  کی لڑائی میں ہمیشہ  بے چارے مینڈک  ہی زیادہ رگڑیں چوٹیں کھا بیٹھتے ہیں وہی حال  بے چارے  ایدھی  کارکنان کا ہے ۔  وہ بھی آخر  انسان ہیں پیالہ و ساغر تو نہیں ،  اس گردش مدام اور جنازوں  کے اژدہام  سے  میرا دل  بھلا  کیوں نہ گھبرا جاتا ۔ میں بھی تو  میڈ بائی  مٹی ہوں  کوئی  سلی کون سے تو  نہیں بنا ہوا ۔  بقول شاعر؎
ختم ہوتا ہے کب کارِ جہاں
اک  نہ اک دردِ سری رہتی ہے
ایک  بار  لالو کھیت  میں  جب میں دیگر کارکنان  کے ساتھ جائے حادثہ  پر  امدادی  کاموں میں مصروف تھا کہ  ناگاہ    سریلی  سی زنانہ آواز میں کسی نے  میرا نام  پکارا :۔ "غالب صاحب ۔۔۔!!"ہرچند کہ  میں جوگی ہوں مگر دل تو  بچہ ہے جی ۔۔۔  کان  کھڑے کیسے نہ ہوتے ۔ دماغ نے  یاد دلایا  "ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد"اب  دل اور دماغ  میں جھگڑا  شروع  ہوگیا  اور "  ایماں مجھے روکے ہے  جو کھینچے ہے مجھے کفر"  والی  صورتِ حال پیدا ہو گئی ۔   میرے اندر  کا  فیلسوف  چلایا : بھلا  اس دیارِ غیر میں غالب خستہ کا واقف  کون نکل آیا وہ  بھی  کوئی صنفِ نزاکت سے ۔قریب  تھا کہ  میں  وہم سمجھ کر سر جھٹک  کے  اپنے کام میں مصروف ہو جاتا کہ  آواز دوبارہ  آئی  اور اس بار  آواز  کا مخرج  کہیں قریب  ہی محسوس ہوا ۔ آواز کی سمت  دیکھنے کو مڑنے ہی لگا تھا  کہ  ایک دم  جیسے  کوئی  مقناطیس کا  جنوبی قطب  مجھے شمالی قطب سمجھ کے مجھ  سے لپٹ گیا ۔  میں حیران  اور کچھ کچھ  پریشان ۔۔۔ اور  سچ کہوں  تو کچھ کچھ بے مزہ بھی ہوا ۔۔۔  کیونکہ  اچھا  خاصا  میں کسی  کے بلاوے  پر لبیک  کہنے ہی والا تھا  کہ  یہ کباب  میں ہڈی ٹپک پڑی ۔ ہڈی کو اپنے  حال پر چھوڑ کر میں نے  سریلی  خاتون  کی تلاش میں  ادھر ادھر  نظروں کے گھوڑے دوڑا ئے ۔  مگر گوہر مقصود ہاتھ  نہ آیا ۔ جھنجھلا  کے کباب  میں ہڈی  کی  جانب توجہ کا خیال  ۔  اچانک دماغ  میں کوندا لپکا  کہ کہیں لپٹنے کے بہانے  پیٹ میں خنجر نہ گھونپ دے  اور میرا خون  لپٹن یلو لیبل  کی چائے کی  مانند  لالوکے کھیت  کو سیراب  کرتا نظر آئے ۔ اور  بقول سعدی ؒ تریاق  کے عراق  سے آنے  تک کہیں  سانپ کا  کاٹا  پردیس  میں  جان نہ دے بیٹھے ۔ اس  لیے جس قدر جلد  ہو سکے  موصوف کا  چہرہ  دیکھ لیا جائے  تاکہ  سند رہے اور  بوقت وصیت کام آ سکے ۔ مگر  مصیبت  یہ تھی کہ  میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے  نہیں چھوڑتا ۔  اگر یہ معانقہ ہے تو  معانقے کی بھی کم از کم ایک  حد ہوتی ہے  ، یہ تو نہیں  کہ "چپکا لے سیّاں  فیوی کول سے " ۔
میں نے  ردعمل کے  طور پر اپنی  ٹارزنیت  کا مظاہرہ  فرمایا  اور جناب کی پسلیوں نے احتجاجی  نوٹس جاری کیا  تو انہیں الگ ہونے کا خیال آیا ۔ الگ ہوئے  اور پھر  مجھے پکارا :۔ "ارے غالب بھیا  ۔۔۔ آپ اور یہاں ۔۔"مردانہ  منہ سے  زنانہ  آواز  نکلتے دیکھ کر حیران رہ گیا اور  بے اختیار سوچا"اب سو چ میرے دوست خدا ہے کہ نہیں ۔"اور بے حد خوش بھی ہوا ۔ اس بار کھٹاک سے لپٹنے کی باری میری تھی ۔ 
تعارف بھی کرادیتا ہوں  ذرا دھنگ سے مل تو لینے دیں ۔ نہیں نہیں ۔۔۔ تعارف  کرانا ٹھیک نہیں ۔  البتہ کچھ اشارے (خبردار  اس سے  وہ والے  اشارے  مراد لے کر  خواتین مجھے لوفر لفنگے  کے خطاب نہ دینے بیٹھ جائیں )دیتا  ہوں تاکہ ذرا قارئین کی توجہ  کا بھی اندازہ ہو سکے کہ پڑھتے بھی ہیں یا بس سکرول  کر کے ۔۔۔۔۔  خیر  ۔۔۔ چھوڑئیے !!۔ 
ایک گورا چٹا  خوبصورت گھبرو  جوان ۔ ۔۔۔
چہرہ  سنجیدہ  مگر آنکھوں میں شرارت اور ذہانت کے لشکارے ۔۔۔۔
آواز سے  تو اچھا  خاصا  بندہ  بھی دھوکا کھا جائے ۔۔۔  
جیسے آشا بھوسلے  نغمہ سرا  ہوں ۔۔۔ 
کچھ کچھ ناہید اختر سے ملتی  جلتی آواز۔۔۔۔
گانا  شروع کر دیں توامید ہے لتا منگیشگر  کی روزی روٹی  بند ہو جائے ۔۔۔۔
المختصر یوں سمجھ لیں کہ  ببر شیر  کلین شیو  کروا کے  آ یا ہو  جیسے ۔۔۔۔
ابھی تک  مجھ سے چپکے ہوئے ہیں  ۔۔۔ پس ثابت ہوا کہ  میرے پیڈ سٹل فین  بھی واقع ہوئے  ہیں ۔ 
میں نے کان میں کہا :۔"  ۔۔۔۔ بھائی چھوڑ دیں اب تو  لوگ ہمیں مشکوک  نظروں  سے دیکھنا شروع ہو گئے ہیں ۔  "  
اس جگت نے پسلی خلاصی کروا دی  ورنہ یہ تو  شاید  ایک دو پسلیاں  کڑک کرنے  پر تلے ہوئے تھے ۔ چھوٹتے ہی بولے :۔ "  واہ صاحب واہ۔۔۔!!  نہ کوئی  پیام نہ خبر  ۔۔۔ اچانک کراچی میں آن ٹپکے ۔۔۔  اتنی کچی دوستی  تو ہماری نہ تھی  کہ  مجھے بتانا بھی مناسب نہ جانا آپ نے ۔" میں نے بولنے کیلئے منہ کھولا  مگر بولنے کی حسرت لیے کھلے کا کھلا ہی رہ گیا  کیونکہ وہ مجھے بولنے کا موقع دینے کو تیار نہ تھے ۔ ان کی آکاش وانی  سے نشریات بدستور جاری تھیں ۔۔۔:۔ "اور ایدھی میں کب سے جاب سٹارٹ کی ۔۔۔؟ لگتا ہے کافی دنوں سے کراچی میں ہیں  ۔۔۔۔ مگر اس قدر بے گانگی کہ ہم کو  بتایا بھی نہ ۔۔۔۔ (آگے بہت سا وغیرہ وغیرہ ) " ۔جیسے ہی سانس لینے کو رکے میں موقع غنیمت جان کر عرض حال پیش کیا کہ ؎
بنا کر رضاکاروں کا ہم بھیس چھوٹا غالب
نشانِ  مغل و  خانہ ءِ  غزل  ڈھونڈتے ہیں 
 نیز پوچھا کہ "آخر  اس درد کی دوا کیا ہے؟"  ۔ میری بات ان سنی کر کے  ایک بار  پھر اپنی  ہانکنے  لگے :۔ "اگر میں تماشا دیکھنے باہر  نہ آیا ہوتا تو  آپ سے ملاقات  سے محروم رہ گیا ہوتا ۔ اب قسمت  سے کراچی  آ ہی گئے ہیں تو ہمیں بھی مہمان  نوازی کا موقع دیں ۔  " میں نے کہا :۔ "آپ کا  خلوص و محبت سر آنکھوں پر۔ میں جس  کام کو گھر سے نکلا ہوں  وہ ہر بار بیچ میں رہ جاتا ہے۔ اس لیے پہلے میری مشکل کا کوئی  حل نکالیں ۔ "
بولے:۔ "اب فکر فاقے سے باہر تشریف لائیے ۔ غزالوں کے  ٹھکانے  کی سن گن بھی مل جاوے گی مگر پہلے ہمیں میزبانی کا  شرف بخشیں  ۔"  اب اس قدر محبت اور اصرار سے کوئی  بلائے تو کون کافر انکار  کی جرات کرے  ۔ ان کی تقریر  جاری تھی  ۔"قریب ہی میرا غریب خانہ ہے ۔"  دل کو"قریب" کا لفظ سن کر  خوشی ہوئی مگر پاپی پیٹ کو لفظ"غریب خانہ" پر مایوسی ہوئی ۔ اس نے سمجھاروح افزا کے  ایک گلاس  پر ٹرخا دیں گے یا زیادہ سے زیادہ  ٹینگ کا  ایک ساشے  گھول  کے لے آئیں گے ۔ مگر جب نام نہاد"غریب  خانے " پر میزبان  نے  میزبانی  شروع کی تو   پیٹ میاں    ہانپنے لگے۔۔۔ ہاتھ کھڑے کر دئیے ۔۔۔ میں نے  کہا اب ٹھونس نا خبیث کہیں کے ۔ اب گدھے کی طرح ہانپتا کیوں ہے ۔ مگر پیٹ  منہ تک  بھرا ہونے کی وجہ سے کوئی جواب نہ دے سکا ۔ آخر مجھے ہی رحم آگیا  اور میں نے ہاتھ روک لیے ۔ مگر میزبان کو رحم نہ آیا ۔ اٹھا اٹھا کے سامنے دھرتے  اور ایک دو چمچ چکھنے کا کہہ کر ساری  پلیٹ خالی کرا کے دم لیتے ۔  میں نے دہائی دی تو جا کر پھکی گولڑہ  شریف اور ہاجمولا  کینڈی کا  ایک پیکٹ لے آئے ۔ماشاءاللہ بھابھی جان کے  ہاتھ میں اللہ نے  خوب ذائقہ دیا  ہے ۔ اگر الٹیاں لگنے  کا ڈر نہ ہوتا تو رکنے والا میں بھی نہیں تھا۔اس  دعوت ِ شیراز  کے اختتام پر  فدوی  نے اس حج کا  ثواب ان کی نذر کیا جو  کبھی نہ کبھی ہم کریں گے۔ 
 ان کے صاحبزادے  سے ملاقات  کا شرف حاصل ہوا اور  ایسا لگا کہ چلبل پانڈے  کا  بچپن میرے سامنے ہے ۔  شکل ایسی معصوم ، سنجیدہ   اور  فلسفیانہ    جیسے ارسطو  دوبارہ  پیدا ہو گیا ہو ۔ حرکتیں  ایسی کہ  شیطان  ِ اعظم بھی پیٹ پکڑ کر  ہنستا ہنستا  گر پڑے (قدموں میں)  اور مریدی  کی  درخواست  پیش کرے ۔
ہاجمولا  چباتے  ہوئے  میں نے  یاد دلایا  کہ  آپ نے  کچھ وعدہ بھی کیا تھا ۔  بولے  :۔ " یاد ہے وعدہ  !  مگر اس سے پہلے  آپ کو ایک وعدہ دینا پڑے گا ۔"  
میں نے کہا:۔ " پردیسی کو بلیک  میل کرتے ہو میاں  ۔اللہ پوچھے آپ کو ۔۔" ناچار وعدہ کرتے ہی بنی۔بولے:۔ " غزالوں کا  پتہ میں  ڈھونڈ لاتا ہوں مگر  اس  سے پہلے آپ وعدہ کریں  کہ آپ  جتنے دن  کراچی میں ہیں ہمارے مہمان رہیں گے ۔  "  میں  سٹپٹا گیا:۔ "  کیوں میری زندگی کے درپے ہو کاکا شپاہی ۔۔۔؟ غزالہ  آپی  کو آپ جانتے  نہیں ۔ پٹھان خون  ہے  ۔ مجھے چھری پھیر دیں گی  مگر جیتے جی کسی اور کے ہاں مہمان ہونے  کی اجازت ہر گز نہیں دیں گی۔  البتہ اتنا  کہہ سکتا ہوں کہ واپسی  سے پہلے  ایک دو دن آپ کو میزبانی  کا موقع ضرور دوں گا۔ " کافی  دیر یہ یک نکاتی  مذاکرات  چلتے  رہے ۔ آخر اتفاق رائے ہو ہی  گیا۔ میزبان نے   ہاتف دستی  نکال کر  دو چار جگہ سے  سن گن لی اور  جلد ہی  خوشخبری سنائی۔  میرے  بھی اسد اللہ  خاں  بہادر  کی طرح  خوشی سے  ہاتھ پاؤں  پھول گئے ۔ بس  نہیں  چل رہا تھا کہ ابھی  انہیں  گھسیٹتا  ہوا  سوئے منزل لےچلوں۔ مگر میزبان  اگلے  دن سے پہلے  جان چھوڑنے پر  راضی  نہ ہوا۔ آدھی رات تک تو شکاریات  کے قصے چلتے رہے ۔ تھک گئے  تو خراٹوں سے ماحول  مترنم  کر دیا ۔  میں نے  دل ہی دل میں  مومن  خاں مومن کو یاد کیا ۔ 
شب جو مسجد میں  جا پھنسے مومن
رات کٹی خدا خدا کر کے۔۔۔!!
جیسے مومن کی رات کٹ گئی تھی  میری بھی  جیسے تیسے  کٹ ہی گئی ۔ صبح ہونے والی تھی کہ میں نے رولا ڈال دیا ۔۔۔ ایں ایں ایں ۔۔۔۔ مجھے آپی  پاش جانا ہے ےےےے ۔۔۔ ایں ایں ایں ۔۔۔۔۔  میزبان نے بہتیرا سمجھایا بھائی  دن تو نکلنے دو ۔ میں نے کہا صبح ہو گئی ہے  یار ۔  فرمایا  یہ  جھوٹی صبح (صبح کاذب )  ہے  ۔ مجبوراً چپ ہو گیا اور گھڑیاں گننے لگا ۔ عاشق تو تھا نہیں کہ ستارے  گنتا ۔ مگر  قسمت  دیکھئے  کہ گھڑی بھی ایک  ہی تھی(دیوار پر) اسی کو بار بار  گنتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد سچی صبح کے آثار  محسو س ہوئے تو میں  پھر مچل گیا ۔  میزبان نے تنگ آ کر  ہاتھ جوڑ دئیے ۔ پھر بھی مجھے افاقہ نہ ہوا تو چپل گھسیٹی  اور مجھے لے کر  باہر  نکلے  ۔ باہر تو جیسے ہو کا عالم تھا  انسان تو درکنار  کوئی کتا بلا  بھی  نظر نہ آیا ۔ میزبان نے کہا  :۔ "اب ایسے عالم میں کس سے  راستہ پوچھیں گے۔۔۔؟۔کم از کم صبح تو ہو لینے دو اللہ کے بندے ۔  یہ میرا گھر ہے کوئی  خرکار کیمپ تو  نہیں جو  تمہیں کسی  کل چین  نہیں پڑتا ۔  " خلاف  ِ توقع بات میری سمجھ میں آ گئی ۔  مجبوری کا  دوسرا نام صبر ہے  اور ایک  افواہ کے مطابق  اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے ۔ میں نے بھی 9  بجے تک صبر کیا  مگر قسم لے لیں پھل تو  کیا گٹھلی بھی دیکھنے کو نہ  ملی ۔ ہاں البتہ تفصیلی قسم کا بھرپور ناشتہ  سارے دلدر  بھلانے  کو کافی تھا ۔  اگر  ناشتہ ہی صبر کا پھل تھا  تو پھر میٹھا نہیں بڑا کرارااور چٹپٹا تھا ۔  ا س  لیے  تمام  کتب اور ریکارڈز وغیرہ میں درستی  کی جائے اور آئندہ  بھی صبر کا پھل میٹھا لکھ کر  عوام کو بے وقوف  بنانے  کا  سلسلہ موقوف  کیا جاوے ۔ الداعی  الی الخیر :۔ فدوی چھوٹا غالبؔ

قصہ کوتاہ ! ایک دو مقامات سے کمک پا کر  آخر کار  یہ مختصر قافلہ  غزال آباد  جا پہنچا ۔ مگر سرائیکی کہاوت  "جلدی دے اگوں ٹوئے۔" کی طرح جب ہم  افتاں خیزاں  آشیانِ غزل پہنچے تو  دروازے پہ  لٹکا  تالہ  میرا منہ چڑا رہا تھا ۔ نہ جانے کہاں گئے ہونگے ۔ ایک خیال آیا    جیسے عمران سیریز  میں سیکرٹ سروس کے  دھاوا بولنے پر غیر ملکی ایجنٹ  زیر زمین چلے جاتے ہیں اور ایجنسی ہیڈ کوارٹر   کیمو فلاج  کر دئیے جاتے ہیں۔ اسی طرح شاید  میرے آنے کی بو پا کریہ بھی کہیں  کھسک لیے ہونگے ۔ 
قسمت  کی خوبی دیکھئے  ٹوٹی کہاں کمند
دو چار  ہاتھ  جب کہ لبِ بام رہ گیا
میرا اتر ا منہ دیکھ کر میزبان  کی خوئے دلنوازی  نے جوش مارا ۔ اور انہوں نے تسلی دی  :۔" اتنی  زیادہ پریشانی  کی بات نہیں ۔  مکان تو مل گیا ہے سمجھو آدھی پریشانی ختم  ۔ جہاں بھی ہونگے  لوٹ کر تو آخر  یہیں آئیں گے ناں ۔ آپ اس طرح منہ  نہ لٹکائیں مجھ سے ہنسی  روکنا مشکل  ہو جاتا ہے ۔"
ہم بے زار بیٹھے تھے  اور میزبان کو اٹکھیلیاں سوجھ رہی تھیں ۔ میں توانشا کی  طرح  ان سے  "چل راہ لگ اپنی "  بھی  نہ کہہ سکتا تھا کیونکہ ایک تو  شہر انہی کا  تھا دوسرے  میں  مہمان بھی انہی  کا تھا ۔  اس لیےایک ٹھنڈی سانس  لی اور مزید منہ بنا لیا۔میزبان کا دل پسیج گیا ۔ بولے:۔ غالب بھائی ! آپ تو دل پر لے گئے  میں تو آپ  کی پریشانی  کم کرنے  کیلئے  ذرا مذاق  کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔  خیر آئیے واپس چلتے ہیں۔" مرتا کیا نہ کرتا ۔ چل پڑا۔۔۔۔۔
میزبان کوئی  میری طرح نکمے بابو  تو نہ تھے ان کو ایک ضروری کام سے جانا پڑا  تو جاتے جاتے  مجھے کہیں نہ بھاگ  جانے  اورٹک کر بیٹھنے کی  ہزرا ہا تاکیدیں کر کے چلے گئے ۔ میری حالت  عجیب ہو رہی تھی۔۔۔ 
کھڑا تھا ۔۔۔۔ بیٹھ گیا۔۔۔۔
بیٹھ کر بھی چین نہ پایا تو ۔۔۔۔ لیٹ گیا ۔۔۔۔
لیٹ کے  بھی  بے چینی کم نہ ہوئی تو ۔۔۔۔ اٹھ کے ٹہلنے لگا۔۔۔۔۔
بار بار دل میں خیال آ رہا تھا کہ شاید اب واپس آ چکے ہو ں ۔ٹھکانہ تو ان کا دیکھ ہی لیا ہے کیوں نہ خود ہی جا کر دیکھ آؤں کہ  آئے یا نہیں۔ میزبان   کو اپنے ساتھ خجل خوار کرنے  کی کیا ضرورت ہے ۔ بے چارے  کوخلوص اور محبت کی اتنی سزا دینا  مناسب نہیں۔   یہ سوچتے سوچتے گھڑی دیکھی تو دو بجا رہی  تھی ۔ کچن سے آتی  ولولہ  انگیز  خوشبوئیں پیٹ کو ورغلانے کی بھرپور   کوشش کر رہی  تھیں  لنچ کے بعد چلے جانا۔کہ اچانک میرؔ  یاد آگئے۔
حوصلہ مند چٹانوں کو بھی ریزہ ریزہ کردیں
شوقِ منزل میں رکاوٹ نہیں دیکھا کرتے
اور غالب ایکسپریس کی  بریکیں فیل ہو گئیں۔ راستے میں خیال آیا کہ کم از کم  بتا کے تو آتا ۔ میزبان میرے اچانک  غائب ہونے  پر پریشان ہونگے ۔ لیکن  سوچا کہ شاید ابھی بھی  خانہِ غزل پر  تالہ ہو  ۔ واپس  تو ویسے  بھی  جانا پڑے گا کیوں  نہ چل کے تصدیق ہی   کر لی جائے ۔  اور  شاید  اس وقت آسمان کسی  اور کی  بدخوئی میں مصروف تھا یا واقعی  قدرت مہربان ہو گئی تھی ۔ کیونکہ وہاں پہنچ  کر دیکھا  خانہ غزل پر تالہ  موجود نہ تھا ۔  میری باچھوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور دل کنگرو کی طرح چھلانگیں مارنے لگا ۔  مجھ پہ شادی مرگ جیسی کیفیت طاری تھی ۔  سمجھ نہ آ رہا تھا کہ اب کیا کروں ۔
اسی ادھیڑ بن میں  قریب پہنچ گیا ۔ کچھ اٹھا پٹخ ، اور  برتن کھڑکنے   قبیل  کی کچھ  آوازیں کانوں میں آئیں ۔ اور بچاؤ بچا ؤ کی صدا  کے ساتھ ایک دو مردانہ  چیخیں  فضا میں گونجیں۔  حیرانی سے  اوپر دیکھا  کہ " یہ ہنگامہ  اے خدا کیا ہے ؟ " مگر نہ  میں کلیم اللہ تھا  نہ ہی  اس وقت   کوہِ  طور پر کھڑا تھا جو خدا مجھے  ریپلائی  کی  زحمت  گوارہ فرماتا ۔  اس لیے  خود ہی اٹکل پچو سے کام لینے کی  کوشش کی ۔ مگر کچھ سمجھ نہ آیا ۔  سوچا اچانک اندر  جا کر  سرپرائز دینا  چاہیے ۔  
میں جونہی دروازے میں داخل ہوا۔  کوئی کانوں  پہ ہاتھ رکھے بہت تیزی سے  باہر نکلا۔  میری بدقسمتی  کہ اس کے باہر نکلنے اور  میرے اندر گھسنے  کا  وقت ایک ہی تھا ۔ ۔۔۔ کوئی ڈوئی  نما  چیز (شاید  بیلن ہو،  مجھے  غور کرنے  کا موقع  اور وقت  ہی نہیں ملا  )  زناٹے  سے  میرے ماتھے پر آ لگی ۔ کچھ  قرمزی سے  ستارے ناچے  اورکچھ   سوچنے سمجھنے سے پہلے ہی  میرے چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔ ۔۔۔۔  میں کٹے ہوئے کیکر کی طرح  دھڑام  سےآ  گرا ۔
اسد اللہ  خاں تمام ہوا
دریغا !وہ رندِ شاہد باز

2 آرا:

  • 17 May 2013 at 21:41
    Anonymous :

    جیسے مومن کی رات کٹ گئی تھی میری بھی جیسے تیسے کٹ ہی گئی ۔ صبح ہونے والی تھی کہ میں نے رولا ڈال دیا ۔۔۔ ایں ایں ایں ۔۔۔۔ مجھے آپی پاش جانا ہے ےےےے ۔۔۔ ایں ایں ایں ۔۔۔۔۔ میزبان نے بہتیرا سمجھایا بھائی دن تو نکلنے دو ۔ میں نے کہا صبح ہو گئی ہے یار ۔ فرمایا یہ جھوٹی صبح (صبح کاذب ) ہے ۔ مجبوراً چپ ہو گیا اور گھڑیاں گننے لگا ۔ عاشق تو تھا نہیں کہ ستارے گنتا ۔ مگر قسمت دیکھئے کہ گھڑی بھی ایک ہی تھی(دیوار پر) اسی کو بار بار گنتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد سچی صبح کے آثار محسو س ہوئے تو میں پھر مچل گیا ۔ میزبان نے تنگ آ کر ہاتھ جوڑ دئیے ۔ پھر بھی مجھے افاقہ نہ ہوا تو چپل گھسیٹی اور مجھے لے کر باہر نکلے ۔ باہر تو جیسے ہو کا عالم تھا انسان تو درکنار کوئی کتا بلا بھی نظر نہ آیا ۔ میزبان نے کہا :۔ "اب ایسے عالم میں کس سے راستہ پوچھیں گے۔۔۔؟۔کم از کم صبح تو ہو لینے دو اللہ کے بندے ۔ یہ میرا گھر ہے کوئی خرکار کیمپ تو نہیں جو تمہیں کسی کل چین نہیں پڑتا ۔ " خلاف ِ توقع بات میری سمجھ میں آ گئی ۔ مجبوری کا دوسرا نام صبر ہے اور ایک افواہ کے مطابق اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے ۔ میں نے بھی 9 بجے تک صبر کیا مگر قسم لے لیں پھل تو کیا گٹھلی بھی دیکھنے کو نہ ملی ۔ ہاں البتہ تفصیلی قسم کا بھرپور ناشتہ سارے دلدر بھلانے کو کافی تھا ۔ اگر ناشتہ ہی صبر کا پھل تھا تو پھر میٹھا نہیں بڑا کرارااور چٹپٹا تھا ۔ ا س لیے تمام کتب اور ریکارڈز وغیرہ میں درستی کی جائے اور آئندہ بھی صبر کا پھل میٹھا لکھ کر عوام کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ موقوف کیا جاوے ۔ الداعی الی الخیر :۔ فدوی چھوٹا غالبؔ



    غزال آباد کی سیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ بھی گھر بیٹھے۔۔۔۔۔
    واہ واہ کیا بات ہے

    دلچسپ کہانی اور شگفتہ اندازِ تحریر
    مزا آگیا

  • 20 May 2013 at 18:02

    چھا گئے حضورِ والا ۔۔۔۔ہم تو آپ کی عِلمیت کے پہلے ہی معترف تھے

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آپ کی قیمتی آرا کا منتظر
فدوی چھوٹا غالب

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

کرم فرما