Pak Urdu Installer

Sunday 5 May 2013

ایلس ان ونڈر لینڈ (مغزل کہانی قسط نمبر 4) ۔

3 آرا


گزشتہ سے پیوستہ

کراچی آمد:۔

کراچی پہنچنے تک جوگی سے جوگر ہونے تک جو حالات غالب خستہ کو پیش آئے وہ ایک الگ داستان ہے ۔ چونکہ استاد جی قبلہ کا فرمانِ عالیشان ہے کہ :۔
سفینہ جب  کہ کنارے پہ آ لگا غالبؔ 
کیا خدا سےستم  و  جورِ ناخدا کہیے 
اس لیے ہم اس داستان کو بذریعہ بائی پاس ایک طرف چھوڑ کر سیدھے کراچی اترتے ہیں ۔ غالب کلاں  کو  تو" دشت کو  دیکھ کے گھر  یاد آیا" تھا  مگر  غالب خورد  کوکراچی  دیکھ کے گھر یادآیا۔قاعدہ الٹا ہو گیا  اور  ہم   کبھی اپنے  منہ  کو  اور  کبھی کراچی  کو دیکھتے  رہ گئے۔    اجی کراچی کیا ہے ۔۔۔۔ عمارتوں کا ایک بے ہنگم سا جنگل اگ آیا ہو جیسے ۔ اور اس جنگل  میں ایک خالص پینڈوگواچی گاں کی طرح تھوتھنی اٹھائے " خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں " کی واٹر کلرتصویر بنا یہ سوچ رہا تھا کہ :۔ 
یہ پری چہرہ  لوگ کیسے ہیں؟
غمزہ  و عشوہ  و ادا  کیا ہے ؟
دوپٹے  ان حسینوں  کے کیا ہوئے؟شرم کیا چیز ہے ، حیا کیا  ہے ؟ حواس بحال کرنے کی کوشش کی مگر ، ایک کے بعد ایک ایسی ایسی صورت نظر آتی کہ  حواس اپنی جگہ لوٹنے کی کوئی امید برنہیں آتی۔شیخ سعدی ؒ  اگر کراچی آئے ہوتے  تو شاید "برگِ  درختانِ  سبز در نظر ہوشیار"  والے شعر  میں بیان شدہ  معرفتِ کردگار کا موزوں ذریعہ  پا لیتے ۔     زیادہ تفصیل کیا بتاؤں  بس مختصرا ً عرض کیا ہے :۔
کراچی کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں!
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے 
قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے  کہ اس قدر شاعرانہ طبیعت ، حسن پرست دل اور غالبانہ کھوپڑی کے ساتھ ایک کور ذوق پیٹ بھی نتھی کر دیا ہے ۔ اسے دنیا کی رنگینیوں سنگینیوں سے کیا لینا دینا ، یہاں تو بس ھل من مزید ھل من مزید کی صدا ہی ابھرتی رہتی ہے ۔  جیسے لاہور میں حضرت داتا علی ہجویری کا آستانہ ہم سے بے یار و مددگار مسافروں کی پناہ گاہ ہے ، سنا ہے یہاں بھی ایک بہت بڑے بابا جی کا مزار ہے ۔ بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں ، ان کی پہنچ کا یہ عالم ہے  کہ جس کی جیب میں پہنچ جائیں اس کی پہنچ پھر بہت اوپر تک پہنچی ہوتی ہے ۔ اور جس کی جیب میں کچھ عرصہ نہ پہنچیں تو وہ بنفس نفیس خود اوپر پہنچ جاتا ہے ۔ ان کی تصویر سے مزین تعویز جیب میں ہو تو سمجھ ہر مشکل آسان ۔۔۔۔۔۔ ہر بلا دور۔۔۔۔۔۔شومئی قسمت کہ میرے پاس بابائے اعظم کا کوئی تعویز بھی نہ تھا ۔
زندگی  یوں  بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا  راہ گزر  یاد آیا
غیب سے نوائے سروش کی تان پر ایک مضمون خیال کی وادی میں اترا کہ اہلیان ِ سندھ سادات کا بہت احترام کرتے ہیں ، اور میں ٹھہرا سولہ آنے کھرا نجیب الطرفین  سید بخاری ۔اسی زعم میں ایک راہ گیر کو روک کر کہا :۔ "سائیں ایک منٹ بات سنیے۔" اس ستم ظریف نے بات سننے سے پہلے ہی  کہہ دیا :۔ "معاف کرو بابا۔"  دن دیہاڑے اس قدر غیر آئینی بے ہودگی پر " دل میرا بے محاباجل گیا۔" میں نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور بے نقط سنانے کا ارادہ باندھا مگر "کب وہ سنتا ہے کہانی میری " سو اپنی راہ ہو لیا ۔  کچھ دیر میری غیرت ِ سادات نے پیچ و تاب کھائے لیکن مجبوری تھی اس لیے ایک اور بھلے مانس کو روک کر مدعا بیان کیا ۔ وہ مسکین بے چارگی سے بولا :۔ " بھائی میں تو خود اس شہر میں پردیسی ہوں ۔"اور جوگی صاحب" اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ۔"
پھرتے  ہیں پیر  خوار کوئی  پوچھتا نہیں
اس  کراچی میں  عزت  ِ سادات بھی گئی 
اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ ناک کی سیدھ میں چلنا شروع کر دوں اور  سمندر میں جا کر چھلانگ لگا دوں ۔گنگناتے ہوئے غالب ایکسپریس نے آگے گھسٹنا شروع کر دیا  ۔ اجنبی شہر کے اجنبی راستے۔۔۔۔۔ میری تنہائی پہ مسکراتے رہے ۔ ۔۔۔۔۔میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا ۔۔۔۔ کہ اچانک کیا دیکھتا ہوں سامنے ایک بڑا سا بورڈ لگا ہوا ہے ، اور تو نجانے کیا کیا لکھا ہوا تھا مگر مجھ سے " ایدھی لنگر خانہ " سے آگے نہ پڑھا گیا ۔ 
اللہ تعالیٰ بے حد و بے حساب جزا دے ایدھی صاحب ، ان کے ادارے اور کارکنان کو ، جو مجھ جیسے غریبوں کا اس مادہ پرست شہر میں خدا کے بعد اکلوتا سہارا ہیں ۔ کھانے کے اختتام کا باقاعدہ اعلان میں نے ایک ڈکار سے کیا اور  پیٹ اور منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک کارکن سے کہا:۔ 
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو مدعا کیا ہے ؟؟
جواب ملا :۔ 
کون ہے جو نہیں ہے  حاجتمند
کس کی حاجت روا کرے کوئی
میں نے سٹپٹا کے کہا :۔ " بھائی صاحب ! میں خدا نخواستہ آپ کا ادبی ذوق جانچنے کی گستاخی نہیں کر رہا ۔ نہ ہی آپ کو بیت بازی کا چیلنج کر رہا ہوں ۔ باعث ِ تقریر آنکہ ۔۔۔۔ یا تو مجھے بابائے اعظم کے مزار تک پہنچا دیا جائے یا پھر غزال آباد تک پہنچنے میں معاون رہنمائی فرمائی جاوے ، کیونکہ :۔
اپنا نہیں وہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں 
اس در پہ نہیں بار تو کعبے ہی کو ہو آئے 
اس بھلے مانس نے خندہ پیشانی سے جواب دیا :۔ قائد اعظم کے مزار تک پہنچانا تو آسان ہے کیونکہ کراچی میں "ہوگا کوئی ایسا بھی جو جناح کو نہ جانے " مگر میں پوچھتا ہوں آخر یہ "غالب کون ہے ؟ " کیونکہ نہ تو وہ شاعر اچھا ہے نہ ہی بدنام بہت ہے ۔
میری تو مانو سوئی پہ سوئی چڑھ گئی ۔ تلملا کے  بولا :۔ " ہاں ۔۔۔۔ آپ کی بات کسی حد تک ٹھیک ہے ، مجھے بھی محمود میاں کی شاعری میں کوئی ایسی خاص بات نظر کبھی نہیں آئی ۔ چند دل جلے تو اسے بیگم نامہ بھی کہتے ہیں ۔ ہر چند کہ کسی  ایڈیٹ کا اس رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ مگر پھر بھی ہم ڈنکے کی چوٹ پہ کہے دیتے ہیں ، کہ اگر ہماری آپا جان شادی اور بچوں کے جھنجھٹ سے مزید کچھ عرصہ آزاد رہی ہوتیں تو یہ پروین شاکر اور نوشی گیلانی  ، کشور ناہید ، زہرہ نگاہ کی دال کچی رہ گئی ہوتی ۔ اور غزل ناز غزل کا نام نسائی شاعری میں بلندیوں پر رقم ہوتا۔خیر سے ہم اسی غزالہ عالم کے منہ بولے کم اور سگے زیادہ چھوٹے بھیا ہیں ۔ انہی کی تلاش یہاں کھینچ لائی ہے ورنہ ہم تو وہ آلسی ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بتا  بھی نہیں سکتے ۔
مجھے امید تھی کہ میری اس رام لیلا سے اس کا دل بھر آئے گا مگر شاید اس سے بھی کہیں زیادہ دردناک حادثے دیکھنے میں ان کا دن گزرتا تھا ۔ اس لیے کسی غیر معمولی رد عمل کا اظہار کیے بغیر اس نے مجھے تسلی دی اورکہا کہ جب تک ان کا پتہ نہیں مل جاتا آپ یہاں ہمارے مہمان ہیں ۔ ہم انہیں ڈھونڈنے میں آپ کی ہر ممکن مدد کریں گے ۔ اس قدر دل نوازی پر میں نے مناسب نہ جانا کہ بیٹھ کر روٹیاں توڑتا رہوں ۔ میں نے اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر ادارے کو پیش کر دیں ۔
ایک  دن جب اپنی پیشہ ورانہ  ذمہ داری کے سلسلے میں ادارے کی گاڑی میں  جائے حادثہ  سے  لوٹ  رہے تھے کہ ایک چوک میں خلیل  الرحمن  صاحب نظر آ گئے ۔ میں بے اختیار  اچھل پڑا مگر  یہ اچھلنا مجھے بہت مہنگا پڑا ۔ میرا سر سیدھا گاڑی  کی چھت  سے  جا  ٹکرایا ۔  شاید  سر  سے خونناب کا چشمہ بھی پھوٹ  نکلا ہو ۔ مگر اس وقت  مجھے ان باتوں کی پروا کب تھی ۔ میں نے جلدی سے  ڈرائیور  کو گاڑی روکنے کو کہا اور رکنے سے پہلے ہی باہر چھلانگ لگا دی ۔ ڈرائیور اور اردگرد موجود لوگ  میرے اس سٹنٹ  پر  انگشت بدنداں رہ گئے ۔  چند ایک  شوقین مزاج لوگوں نے سمجھا کہ  شاید کسی فلم کی شوٹنگ ہو رہی  ہے ۔ انہوں نے موبائل کیمرے سےمیری جانبازی  کا مظاہرہ  فلمبند  کرنا شروع کر دیا ۔ جبکہ  خلیل صاحب کا مجھے دیکھ کر  رنگ اڑا اور  میرے اترنے کے سٹائل پر ان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ چہرہ مبارک کا رنگ  پیلا پڑ گیا جیسے کسی  بدروح کو دیکھ لیا ہو۔وہ سمجھے شاید  یہ بُری بلا میرا گلا دبانے  کے مشن پر  کراچی آن پہنچی ہے ۔  ہائے  امی جی۔۔۔۔۔۔۔ 
اس سے پہلے کے ان کے مزید اوسان خطا ہوتے فوراً سے پیشتر اپنی پھٹپھٹی پر سوار ہوئے ۔۔۔۔۔الٹی سیدھی دو چار لاتیں رسید کر کے اسے آمادہ بہ  روانگی  کیا ۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔ نو دو گیارہ ہو گئے ۔میں حیرانی سے ان کو فرار ہوتے دیکھتا ہی رہ رہ گیا 
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے
وہ تو جب گاڑی کے شیشے میں اپنا حلیہ  شریف دیکھا تو بے اختیار اپنی ہیئت کذائی پر ہنسی آ گئی ۔ کیونکہ خون آلودہ ہاتھ ، چہرے اور کپڑوں پر  خون کے بے شمار  چھینٹوں  اور دھبوں کے ساتھ میں اچھا خاصا سلطان راہی  لگ رہا تھا ۔  اس صورت  میں  بقول غالب "پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے "
ڈرائیور نے کہا :۔"میرا خیال ہے  ان کے پیچھے چلتے ہیں ۔شاید ان سے غزالوں کے ٹھکانے کا کوئی سراغ ہاتھ آجائے ۔" مگر میں نے نفی میں سر ہلا دیااور کہا :۔ "یار کیوں غریب کا خونِ ناحق میرے نامہ اعمال میں درج کروانے پہ تُلے ہو ۔ ہماری گاڑی کو تعاقب میں آتا دیکھ کر مجھے سو فی صد یقین ہے کہ حضرت کو برین ہیمبرج نہ سہی ہارٹ  اٹیک ضرور ہو جائے گا ۔"
دھمکی میں مر گیا جو نہ بابِ نبرد تھا   

3 آرا:

  • 15 May 2013 at 15:10
    Anonymous :

    غالب کلاں کو تو" دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا" تھا مگر غالب خورد کوکراچی دیکھ کے گھر یادآیا۔قاعدہ الٹا ہو گیا اور ہم کبھی اپنے منہ کو اور کبھی کراچی کو دیکھتے رہ گئے۔ اجی کراچی کیا ہے ۔۔۔۔ عمارتوں کا ایک بے ہنگم سا جنگل اگ آیا ہو جیسے ۔ اور اس جنگل میں ایک خالص پینڈوگواچی گاں کی طرح تھوتھنی اٹھائے " خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں " کی واٹر کلرتصویر بنا یہ سوچ رہا تھا کہ :۔
    یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟
    غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے ؟
    دوپٹے ان حسینوں کے کیا ہوئے؟شرم کیا چیز ہے ، حیا کیا ہے ؟ حواس بحال کرنے کی کوشش کی مگر ، ایک کے بعد ایک ایسی ایسی صورت نظر آتی کہ حواس اپنی جگہ لوٹنے کی کوئی امید برنہیں آتی۔شیخ سعدی ؒ اگر کراچی آئے ہوتے تو شاید "برگِ درختانِ سبز در نظر ہوشیار" والے شعر میں بیان شدہ معرفتِ کردگار کا موزوں ذریعہ پا لیتے ۔ زیادہ تفصیل کیا بتاؤں بس مختصرا ً عرض کیا ہے :۔
    کراچی کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں!
    اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے



    چھوٹا غالب کا اندازِ بیان اور بڑے غالب کے اشعار کا تھوڑی ترمیم کے ساتھ بر موقع اور برمحل استعمال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سونے پر سہاگہ ہے بھئی واہ ۔۔۔۔ بہت زبردست
    اب کوئی خامی نظر نہ آئے تو کوئی کیا کرے بھلا؟؟؟

  • 20 May 2013 at 18:31

    اپنا نہیں وہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں
    اس در پہ نہیں بار تو کعبے ہی کو ہو آئے

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آپ کی قیمتی آرا کا منتظر
فدوی چھوٹا غالب

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

کرم فرما