ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ جوگی کو پڑھنے کا (غیر نصابی) چسکہ کب لگا البتہ اس روایت کے راوی جناب چھوٹا غالب عفی عنہ صاحب کا کہنا ہے کہ جوگی نے پہلی اور دوسری جماعت کے درمیانی وقفے میں ایک چھوٹی سی بچوں کی کہانی "بزدل شہزادی"پڑھی تھی۔ اور جوگی کے مطابق وہ پہلی کہانی اس کے دماغ کی ہارڈ ڈسک میں ابھی تک ویسے ہی محفوظ ہے ۔اس کے بعد جوگی کو الف لیلیٰ ہاتھ لگی ۔پھر توبقول غالبؒ "گویا دبستاں کھل گیا۔۔۔۔۔۔"
اور پانچویں تک آتے آتے جوگی سپر مین، سپائیڈر مین ، ہر کولیس، ٹارزن، اور عمرو عیار کے قصوں کا حافظ ہو چکا تھا ۔مگراب یہ قصےبچگانہ لگنے لگےتھے ۔ اور تمنا اپنا دوسرا قدم رکھنے کو بے تاب تھی ۔ ایک دوست(خرم شہزاد) کے گھر جانا ہوا تو اس کے نانا جان کا کتب خانہ جوگی کیلئے کوہ ِصدا ثابت ہوا ۔ ٹیپو سلطان ، نواب سراج الدولہ کے کارنامے پڑھے تو خواب میں سلطان ٹیپو کی طرح انگریزوں کی ایسی تیسی کرنے لگا۔
اس کو چھٹی نہ ملی ، جس کو سبق یاد ہوا
ہر چند کہ جوگی کی پانچویں جماعت میں پوزیشن آئی مگر جوگی کے والد صاحب اس وقت تک بڑے دو بیٹوں کے تعلیمی ریکارڈکو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ تعلیم سے میری اولاد کا کچھ بگڑنے والا نہیں ۔ بڑے دونوں صاحبزادے آٹھویں ، نویں سے آگے نہ بڑھ سکے ، ہزار کوششیں کی گئیں ، کئی ٹیوٹر بدلے گئے حتیٰ کہ باخبر ذرائع کے مطابق امتحان میں پیپر بھی بدلوائے گئے ، مگر یہ حضرات میٹرکولیشن کی زلف سر کرنے میں ناکام رہے ۔ بڑوں کی ناکامیاں چھوٹے کی راہ کا کانٹا بن گئیں ۔ اور مانعِ وحشت خرامی ہائے لیلیٰ ہو گئیں۔دانائی اور (نجانے کس)ہنر میں یکتا ئی نے چھوٹے غالب سے آسمان کو دشمنی کا سبب فراہم کر دیا۔ ان سب عوامل کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوزیشن لینے کے باوجود جوگی کی تعلیم کو فل سٹاپ لگا کر کوئی ہنر سکھانے کا" دانشمندانہ" فیصلہ کیا گیا ۔شاہ صاحب کا خیال تھا کہ 5 سال بعد اس نے بھی میٹرک میں اٹک جانا ہے ، اس لیے بہتر ہے اسے ابھی سے کوئی ہنر سکھا دیا جائے ، ویسے بھی پڑھ لکھ کے کونسا نوکری ملنی ہے ۔ حکمِ حاکم مرگِ مفاجات ۔ جوگی بے چارا مرتا کیا نہ کرتا ، دل ہی دل میں کڑھ کر رہ گیا ۔ بقول اکبر الہ آبادی :۔
چور آئے ، گھر میں تھا جو کچھ ، لے گئے
کر ہی کیا سکتا تھا بندہ ، کھانس لینے کے سوا
اور دل میں" بڑوں" کے خلاف پہلی گرہ پڑ گئی ۔قارئین کو سمجھنے میں اب کوئی مشکل نہ رہی ہو گی کہ کریلا حالات کے نیم پر چڑھا تو دہرا کڑوا ہو گیا ۔ وہ گرہ ، وہ نفرت اب مرتے دم تک ہر اس سورمے کا مقدر ہے جو" بڑے "ہونے کے زعم میں مبتلا ہو ۔ میں ہر اس ابلہ کا دشمن ہوں جو خود کو" بڑا "سمجھے ۔ عمر صرف بال سفید کرتی ہے ۔ عقل دینا اللہ کی مرضی ہے ۔ جسے چاہے دے ، جب چاہے دے ۔ پھر چاہے وہ سید ہو یا چوڑا ۔ مسلمان ہو یا کسی بھی مذہب کا پیرو۔
نہ تو علم کسی کے باپ کی جاگیر ہے ۔ نہ عقل کسی مائی کے لال کی وراثت۔
میں ایک سیکنڈ کے انسان سے لے کر طویل العمرہر انسان کی عزت و احترام کا قائل ہوں بشرطیکہ وہ انسان ہو۔استاد بھی کیا خوب فرماتے ہیں :۔
آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا
میں کہاں یہ وبال کہاں
حسبِ معمول ایک اور یکطرفہ فیصلے میں طے کیا گیا کہ جوگی موٹر سائیکل مکینک بنے گا ۔ اور اس فیصلے کو عملی پاجامہ پہنانے کیلئے رفیق آٹوز پر شاگردی کیلئے پہنچا دیا گیا مگر بھلا ہو رفیق میاں کا جنہوں نے بڑی سہولت سے پہلو بچا لیا کہ شاہ صاحب ، گناہگار نہ کریں میں کیسے پیروں کے بچے کو اپنا شاگرد بنا سکتا ہوں ، ویسے بھی پہلے ہی میرے پاس درجن بھر شاگرد موجود ہیں ۔بے اختیار جوگی نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا ۔
مگر فلک ِ کج رو نے ابھی ایک اور پھندا لگا رکھا تھا ۔ ایک واقف کار کو پتا نہیں کیا سوجھی کہ بڑے شاہ صاحب سے کہا کہ آپ فکر نہ کریں ، آپ جوگی میاں کو موٹر(کار) مکینک بنائیں ، بڑا زبردست اور عزت والا کام ہے ، میرا ایک واقف ہے ہم اس کی ورکشاپ میں اسے شاگردی دلوا دیتے ہیں ، اتنا ہی نہیں بلکہ اس خدائی فوجدار نے اسی وقت موٹر سائیکل پر بٹھایا اور بلال موٹر ورکشاپ پر پہنچا کے دم لیا ۔
کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں
سارا راستہ دعائیں مانگتا رہا کہ رفیق آٹوز کی طرح وہاں بھی مجھے شاگرد بنانے سے صاف انکار کر دیا جائے ۔ مگر شاید وقت قبولیت کا نہیں تھا ۔ اور قسمت بھی کوئی کچی پنسل سے نہیں لکھی گئی تھی ۔یوں ایک اصیل عربی گھوڑا گدھا گاڑی میں جوت دیا گیا ۔ تین چار دن تو جوگی کو ماحول ہی اوپرا سا لگا ۔ہر طرف کالا تیل، موبل آئل کی بو، اور گاڑیوں کا ہجوم ۔مزید کچھ دن جوگی کو اوزاروں کے نام یاد کرنے میں صرف ہو گئے ۔ استاد کہتا :۔ "چھوٹے دس کا گوٹی راڈ لے آؤ" اور چھوٹے صاحب دس انچ کا راڈ استاد کے ہاتھ میں تھما دیتے ۔اور جواب ِ آں غزل کے طور پر فین بیلٹ یا راڈز سے پٹائی کروا بیٹھتے۔
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا ؟؟؟
ایک بار جب ایک کار کےٹائر کھول کے اندر لگی بریک ڈسکس دھونے کو کہا گیا، تو جوگی نے بالٹی پانی کی لی اور بڑی دل جمعی سے چاروں وھیلوں کی بریک ڈسکس دھو کے رکھ دیں ۔ کشائش کو شاید یہ عقدہ مشکل پسند آیا ہومگر جوگی میاں مار کے حقدار ٹھہرے ، بعد میں پتا چلا کہ انہیں پٹرول یا بریک آئل سے دھونا تھا ۔
عرض کیجئے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں
آئل فلٹر کھولنے لگے تو فلٹر ہاتھ میں اور چوڑیاں وہیں کی وہیں ۔ گیس ویلڈنگ کے ذریعے بڑی مشکل سے کھولاگیا ۔ پلگ کھولنے کا ارادہ کیا تو آدھا پلگ ہاتھ میں اور آدھا انجن سے باہر آنے سے انکاری۔ ایک بار جو فارغ بیٹھا دیکھ کر استاد ڈینٹر نے کہا "شاہ جی یہ کار کے دروازے تو کھول کے الگ کر دو، میں اتنی دیر میں سلنڈر میں کاربوریٹر ڈال لوں ۔ حضرت نے دروازے تو کار سے الگ کر دئیے ۔ البتہ آدھے بولٹ اندر ہی ہراساں ہو کر ٹوٹ گئے۔
اس مار کٹائی میں 2 سال گزر گئے۔۔۔۔ اچھا خاصا مکینک بھی بن گیا۔۔۔۔
مگر جوگی کا اس کام میں دل نہ لگا۔
غالب صاحب کیا یہ سچ ہے ؟؟؟
سو فیصد سچ ہے سرکار
آپ ابھی تک اسے افسانہ بازی ہی سمجھ رہے تھے کیا؟؟
زیادتی ہے