Pak Urdu Installer

Monday 8 April 2013

الف نون قسط 2 (حصہ دوم) ۔

2 آرا

الف نون قسط 2 کا بقیہ حصہ



اگلا دن ٹکور کرنے ،  ایک دوسرے کوالزام دینے  اور لعن طعن کرنے میں گزرا ۔ اچھی خاصی منتیں کروانے کے بعد الف نے مزید ساتھ دینے کا سگنل دیا ۔ اور دونوں پھر  سکول جا پہنچے (لیکن راستہ بدل کر) ۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ مس "رے" کے چچا فوت ہو گئے ہیں  اس لیے وہ آج سکول نہیں آئی اور کل  بھی نہیں آئے گی ۔ الف نے تو بلا ٹل جانے پر شکر ادا کیا مگر نون ہمت ہارنے والوں میں سے نہ تھا ۔ اچانک اچھلتے ہوئے بولا:۔ " ایک ترکیب دماغ میں آئی ہے ۔" 
الف نے بے اختیار ہاتھ جوڑ دئیے :۔ "رحم کر یار اپنے آپ پر بھی اور مجھ خستہ جاں پر بھی ترس کھا۔۔۔۔تیری ترکیبوں سے تو اللہ پناہ دے ۔"
 نون کا اصرار جاری رہا :۔ " ایک منٹ سن تو لو یار ! مستقبل قریب میں ہونے والے سسرال سے تعلقات استوار کرنے کااس سے اچھا موقع اور کیا ہوگا۔"
"تم کہنا کیا چاہتے ہو ۔۔۔؟؟" الف کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا ۔
نون جھنجھلا گیا :۔ " میں تو ہمیشہ کہتا ہوں کہ تم کوڑھ مغز ہو ۔۔۔ یہ سامنے کی بات بھی تمہاری سمجھ دانی میں نہیں آ رہی ۔ ۔۔۔ یار !! چچا کے ہاں تعزیت کیلئے جائیں گے تو اس طرح بالواسطہ مس "رے" پر میرے خلوص کا اثر ہوگا ۔ اور اس کے گھر والوں کی نظر میں بھی آ جاؤں گا ۔ میرے جیسا بر تو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گا ۔" نون کی خوش فہمیاں عروج پر تھیں ۔الف ایک گہرا سانس لے کر بے بسی سے نون کو دیکھتا رہا ۔
"تمہاری خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم اس نئے پلان سے متفق ہو ۔" نون کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی چل پڑے ۔
الف نے بے چارگی سے کہا :۔ " قسمت میں اگر مزید ذلت ہی لکھی ہے تو ہونی کوکون ٹال سکتا ہے بھلا ۔۔۔۔  مگر تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھے تعزیت کرنا نہیں آتا۔ اور میری معلومات کے مطابق تم بھی اس فن میں کورے ہو ۔ "
نون زچ ہو کر بولا:۔" یار پچھلی بار بھی تیری انہی منحوس باتوں نے گل کھلایا تھا ۔ اب پھروہی باتیں لے کے بیٹھ گیا ۔ ۔۔۔ تعزیت کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ ۔۔۔ بس تم میرے ساتھ چلو اور جو میں کروں وہ تم بھی کرتے جانا ۔" اور الف نے بے چارگی سے سر ہلا دیا۔

اگلے دن سر پہ قوالوں والوں  ٹوپیاں سجائے الف ،نون تیار تھے ۔ صرف ہارمونیم اور طبلے کی کمی تھی ورنہ بالکل غلام فرید صابری اور مقبول احمد صابری قوال لگ رہے ہوتے  ۔ نون نے الف کو سمجھایا :۔ " تعزیت کرنا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ۔ بس مسکین سا منہ بنا لو اور رونی آواز میں کہو کہ بہت افسوس ہوا ، مرحوم بہت اچھے آدمی تھے ، خدا انہیں جنت نصیب کرے اور آپ کو صبر جمیل عطا کرے ۔۔۔۔ سمجھ گئے ناں۔۔۔۔؟؟؟" نون نےتصدیق چاہی اور الف نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
 نون نے خوشی سے نعرہ لگایا :۔ " چلو ۔۔۔۔ تو پھر یلغار ہو ۔۔۔۔۔"
"بندہ خوار ہو۔۔۔۔۔۔۔ " الف نے ٹکڑا جوڑا ۔ 
اور یہ دو رکنی تعزیتی وفد روانہ ہو گیا ۔
مس "رے" کے چچا کے گھر کے سامنے ٹینٹ کے نیچے بہت سے لوگ تعزیتی منہ بنا کر بیٹھے غیبت میں مصروف تھے ۔ قریب پہنچ کر نون نے باآواز بلند سلام کیا ۔ مگر بجائے جواب کے سب لوگ منہ اٹھا کر انہیں دیکھنے لگے ۔ سب کے اس طرح با جماعت گھورنے سے نون کا بلڈ پریشر لو (ایل او ڈبلیو) ہونے لگا ۔ الف نے ہمت کی اور ایک خالی جگہ دیکھ کر غڑاپ سے بیٹھ گیا ، نون نےبھی تقلید کی ۔ 
ایک بوڑھے کی زبان میں کھجلی ہوئی :۔ " آپ لوگ کون ہیں بیٹا ، ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا آپ کو ۔" نون نے اس غیر متوقع حملے پر گڑبڑا کر الف کی جانب مدد طلب نظروں سے دیکھا اور الف مسکین صورت بنا کے بولا :۔ "وہ جی ۔۔۔ رہتے تو ہم آپ کے ساتھ والے محلے میں  ہیں لیکن تبلیغی جماعت میں ہونے کی وجہ سے اکثر بیرون ِ شہر ہی رہتے ہیں ۔ مرحوم سے ہماری بہت اچھی علیک سلیک تھی ۔ "
جملہ حاضرین و ناظرین میں سناٹا  چھایا ہوا تھا اورسب خشوع و خضوع سے یک ٹک انہیں یوں گھور رہے تھے جیسے اس سے زیادہ ثواب کا کام دنیا میں اور کوئی نہیں ۔ الف نے دل میں سب کو کوستے ہوئے نون کو کہنی ماری کہ آگے کی بات تم سنبھالو ۔مگر بیک وقت اتنے بوڑھوں کی نظروں کا ارتکاز اسے نروس کرنے کیلئے کافی تھا۔ الف کے بار بار کہنیاں مارنے سے بے چارے کا منہ تکلیف کے مارے عجیب و غریب زاویے اختیار کر رہا تھا ۔اچانک ایک شخص بولا:۔ " کیا بات ہے ۔۔۔؟  پیٹ میں درد ہے ۔۔۔؟؟؟"
" جی نہیں ۔۔۔ !! ایسی بات نہیں ۔۔۔ دراصل ۔۔۔۔ چچا ۔۔۔بہت اچھے آدمی تھے ۔۔۔" بمشکل نون کے حلق سے الفاظ برآمد ہوئے ۔
"کون چچا۔۔۔؟؟" وہ شخص حیرانی سے بولا ۔ اور نون کی گھبراہٹ دو چند ہو گئی :۔ "وہی جن کا انتقال ہوا ہے ۔" یہ کہتے ہوئے نون نے الف کو زور سے کہنی ماری ۔الف حالانکہ تعزیت کے فن سے نابلد تھا مگر مجبوری تھی ، دوست خطرے میں تھا   اس لیے بولنا پڑا :۔ "چچا مرحوم بہت نیک آدمی تھے ۔"
"کیسے۔۔۔؟؟" ایک بلغمی بوڑھا بولا تو الف نے ایک لمبی چھوڑی :۔ "وہ نیکی کے کام بہت کرتے تھے ۔"
"مثلاً۔۔۔۔؟؟"وہ اپنی منحوس آواز میں پھر کھڑکھڑایاتو الف بے اختیار دانت پیس کر رہ گیا ۔ جی میں تو آیا کہ کہہ دے کہ بڈھے شتر مرغ !! میں کوئی مرحوم کے دائیں کندھے پر بیٹھنے والا فرشتہ نہیں ہوں جو نیکیوں کی تفصیلات بیان کروں ۔مگر دل کی بات کہنے کا موقع نہ تھا  اس لیے منہ سے  فقط اتنا نکلا :۔ "انہوں نے کبھی غیر محرم پر دوسری نگاہ نہیں ڈالی ۔"  
"جی ہاں  ! جب بھی دیکھا ٹکٹکی باندھ کر دیکھا ۔" نون نے اپنی دانست میں کمک پہنچائی ۔
وہ ناگواری سے بولا:۔"لیکن میں نے تو اسے ہمیشہ عورتوں کی خوشبوئیں سونگھتے دیکھا ہے ۔"لگتا تھا مرحوم سے اس کی کچھ زیادہ ہی لگتی تھی جو مرنے کے بعد بھی اس کی تعریفیں برداشت نہیں ہو رہی تھیں ۔
"جی اس کی بھی ایک وجہ ہے ۔" الف کی خود اعتمادی اب لوٹ آئی تھی ۔
"کیا اس کی کوئی سائنسی وجہ ہے۔؟"ایک چشمش سے  لڑکے نے  جو شکل سے ہی طالب علم لگتا تھا ، بیچ میں ٹانگ اڑانے کا فرض ادا کیا ۔ 
الف نے کلس کے اس کی جانب دیکھا اور پوچھا :۔ "کیا آپ سائنس پڑھتے ہو ۔؟"
"جی ہاں میں  نے میٹرک سائنس میں  کیا ہے ۔" فخریہ جواب آیا۔
"کاش تم نے میٹرک دینیات میں کیا ہوتا۔۔۔۔" نون نے بے اختیارالف کو  داد بھری نظروں سے دیکھا جو ابھی مزید لمبی لمبی چھوڑرہا تھا :۔ "دیکھو ہم نے چچا مرحوم کو یہ بات بتائی تھی کہ اگر کوئی عورت خوشبو لگا کر باہر نکلے اور اس کی خوشبو غیر سونگھے تو مرنے کے بعد اس کو سخت عذاب ہوگا ۔ چونکہ چچا کو عورتوں کا خوشبو لگا کر باہر نکلنا سخت ناپسند تھا اسی لیے وہ عورتوں کی خوشبوئیں زیادہ سے زیادہ سونگھ کر انہیں زیادہ سے زیادہ عذاب میں  پھنسانا چاہتے تھے ۔ ۔۔ 
واہ ۔۔۔۔۔!!! کیا اعلیٰ پائے کی سوچ تھی ۔ مگر تم لوگ نہ سمجھ سکے۔ خدا آسمان پر موجودان کی روح کا درجہ بلند کرے ۔ "
"نیوٹن کے قانون کے مطابق زمین کششِ ثقل رکھتی ہے ۔ پھر روح آسمان پر کس طرح جا سکتی ہے ۔" وہی طالب علم پھر بولا۔
"جس طرح نیوٹن کی روح اوپر چلی گئی تھی اس طرح ۔" نون نے اپنی طرف سے منطقی دلیل جھاڑی۔ 
"کیوں اوپر چلی گئی ۔۔۔؟؟ اس کی کوئی سائنسی وجہ ۔۔۔؟؟؟ " وہ گلے پڑتے ہوئے بولا۔
"ابے تو کیا ہم پر سائنس والوں کا چھوڑا ہوا ہے ۔۔۔؟؟ " حالات کا رخ بدلتا دیکھ کر نون کی برداشت جواب دے گئی ۔ 
"آپ نے ایسا کیوں سوچا ۔۔۔؟؟؟ اس کی کوئی سائنسی وجہ ۔۔۔؟؟؟ " وہ لڑکا پھر بولا ، بڑا ڈھیٹ تھا ۔ 
"ساری تعزیت کمبخت سائنس کی نذر ہوگئی ۔" نون تپتے ہوئے بولا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔ الف نے بھی پیروی کی ۔
"کہاں چل دیے۔۔۔۔؟؟" وہ لڑکا تو پیچھے ہی  پڑ گیا تھا ۔ 
"گھر ۔۔۔۔ ذلیل کمینے کمبخت منحوس انسان۔۔۔"گھر کے علاوہ باقی سب الفاظ دل میں ہی بولے گئے ۔
"کیوں اس کی کوئی سائنسی وجہ ۔۔۔؟؟" اس کا پرنالہ ابھی تک وہیں تھا ۔ اور نون نے تہیہ کر لیا کہ ایک بار یہ کہیں اکیلا ہاتھ آ جائے، ساری فزکس ، کیمسٹری ناک کے راستے نکال کے رکھ دوں گا۔

کچھ دیر بعد کنواروں اجلاس  پھرمنعقد ہوا ۔ جس میں بلغمی اور شکی قسم کے تمام بوڑھوں اور سائنس کی جملہ شاخوں کے خلاف متفقہ قراردادِ مذمت منظور گئی ۔ اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ اب ڈائریکٹ ایکشن کے سوا کوئی چارہ نہیں ، اس سلسلے میں کیا تدبیر اختیار کی جائےکہ کارگر ثابت ہو ۔ اس سوال پر الف تو سنیاسی باواکی طرح سر جھکا کر مراقبے میں غرق ہو گیا۔ لیکن نون کو کسی پل چین نہ تھا ،  اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے پہلو بدلنے سے بھی جب کچھ نہ سوجھا تو  الف پر چڑھ دوڑا :۔ "یار تم نے جو اتنی فلمیں دیکھ رکھی ہیں ، وہیں سے کوئی آئیڈیا اخذ کرو ۔۔۔ اس سچوئیشن میں ایک غریب ہیرو کو ہیروئن کو اپنی جانب مائل کرنے کیلئے کیا کرنا چاہیے۔۔۔؟؟؟"
"اخلاق سے متاثر ۔۔۔" الف کے پاس ریڈی میڈ جواب ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں ۔
نون طنزیہ لہجے میں بولا :۔ "تمہارا مطلب ہے جب وہ سکول سے چھٹی کے بعد گھر جانے لگے تو میں اس سے ہاتھ جوڑ کر کہوں "بی بی ۔۔۔!! ذرا دو منٹ کیلئے میری بات سن لیجئے ۔ میری ظہر کی نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے ، اور آپ بھی گھر جا کر دو رکعت نفل ضرور پڑھ لیجئے گا ، بے انتہا اجر و ثواب ہوگا۔"تاکہ اس پر یہ تاثر پڑے کہ میں کتنا پرہیز گار ، بااخلاق اور متقی ہوں ۔"
الف کی پٹاری میں ترکیبوں کی بھلا کیا کمی تھی، بولا :۔ " اب تو پھر ڈائریکٹ ایکشن کی ذیل میں صرف دو آپشن باقی رہ گئے ہیں ۔ یا تو مس "رے" کو پھول پیش کر کے اپنے جذبات کا اظہار فرمائیے یا پھر گھٹیا قسم کے عاشقوں کی راہ اپناتے ہوئے ایک عدد محبت نامے کا سہارا لیجئے ۔" 
الف کی اس سہانی ترکیب پر  نون کا بھنگڑا پروگرام شروع ہو گیا مگر  جیسے بجلی جانے سے ٹی وی بند ہو جائے اچانک نون کو ایک دم  بریکیں لگ گئیں :۔ "مگر یار یہ بھی تو سوچ بلی کےگلے میں گھنٹی باندھے گا کون۔۔۔؟؟"
الف نے پہلے ہی ہاتھ کھڑے کر دئیے :۔ "خبردار ۔۔۔!! مجھ سے یہ چھچھوری امید ہر گز نہ رکھنا ۔ ویسے بھی بقول منی بیگم 
؎ اے دوست محبت کے صدمے تنہا ہی اٹھانا پڑتے ہیں 
رہبر تو فقط اس رستے پر ، دو گام  سہارا دیتا ہے۔۔"
اورالف کی طوطا چشمی پر نون کا دمکتا چہرہ فیوز ہو گیا ۔
اب فیصلہ ہوا کہ ووٹ ڈالے جائیں تاکہ خط یا پھول میں سے ایک کا انتخاب ہو سکے ۔ لیکن 5 روزہ ٹیسٹ میچ کی طرح الیکشن بھی ڈرا ہو گیا ۔ کیونکہ انتخابی نشان "پھول" کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد ایک تھی ۔ انتخابی نشان "خط"کو  بھی کل ملا کے ایک ووٹ ملا تھا ۔اب معاملہ جوڑ توڑ اور ہارس ٹریڈنگ کی مدد سے نپٹانے کی کوشش کی گئی بالآخر الف کے انتخابی نشان "پھول " پر سینٹ کے ارکان میں اتفاق رائے ہو گیا ۔ 
اگلے مرحلے میں ایک موزوں گلاب کی تلاش میں پٹواری صاحب کی کیاری اجاڑی گئی ۔ کافی لتاڑ پچھاڑ کے بعد ایک گلاب کا انتخاب عمل میں آیا ۔ نون نے الف سے شرٹ مانگی اور بڑے بھائی کی پینٹ زیب تن کی ۔ چھٹی سے پہلے دونوں سکول کے راستے میں گھات لگا کر بیٹھ گئے ۔ الف وقتاً فوقتاً حوصلہ بڑھا کر یارِ غار ہونے کا فرض نبھاتا رہا جبکہ نون آیت الکرسی پڑھتے ہوئے مطلع صاف (گلی خالی ) رہنے کی دعائیں کرتا ہوا اپنے آپ پر پھونکیں مارتا رہا ۔ دور سے آتی مس"رے " کو دیکھ کر نون کا دل دھک دھک کرنے لگا لیکن الف نے ہمت بندھا کر روانہ کیا ۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا چاچے کریم بخش کی بیٹھک کے سامنے بنے تھڑے کے پاس پہنچ کر رک گیا ۔ اتنے میں مس "رے" بھی نرسری کی کاکیوں کی پلٹن سمیت قریب پہنچ گئی۔ دور ہونے کی وجہ سے الف تک آواز تو نہ پہنچ رہی تھی البتہ ویڈیو سگنل کلیئر ہونے سے سب دکھائی دے رہا تھا ۔ نون نے جونہی مس " رے" کو روک کر پھول پیش کیا اور "رے" صاحبہ نے لینے کیلئے ہاتھ بڑھایا کہ عین اسی وقت چاچے کریم بخش کی بیٹھک کا درازہ کھلا اور نون کی بدقسمتی "مس" رے کے ابا کے پیکر میں چاچے کریم بخش سے بات کرتے ہوئے باہر آئی ۔
پھر کیا تھا۔۔۔۔ مس "رے" کے ابے نے وہی کیا جو فلموں میں ہمایوں قریشی اس قسم کے موقع پر کرتا ہے ۔ 
ظاہر ہے مس "رے" نے بھی وہی کیا جو اس قسم کی صورتِ حال میں عمومالڑکیاں کرتی ہیں ۔ یعنی فوراً پارٹی بدل کر یہ ظاہر کیا کہ نون اسے زبردستی پھول پکڑانے کی کوشش کر رہا تھا ۔
باقی رہ گیا الف ۔۔۔۔ تو اس نے بھی وہی کیا جو میر جعفر نے پلاسی کے میدان میں نواب سراج الدولہ کے ساتھ کیا تھا ۔۔۔ موقع واردات سے فرار ہو کر عزت بچانے کو کوئی برائی سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے ۔۔۔ سانوں کی ۔۔۔۔
مصیبتوں نے بھی جیسے آج ہی ایکا کر لیا تھا ۔ نون کی بھاگنے کی کوشش بھی بے کار گئی کیونکہ دیگر غمخواروں کی طرح ٹانگوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ، اور بھاگنے پر کانپنے کو ترجیح دی ۔اور اس طرح ٹیپو سلطان کی طرح نون دشمنوں میں اکیلا رہ گیا ۔
بعد کی شنیدہ اطلاعات اور عینی شاہدین کے حلفیہ بیان کے مطابق جوتا کاری کے کارخیر میں اہلِ محلہ   جوق در جوق شریک ہوئے ۔ ظالموں کااس سے بھی دل نہ بھرا تو بطور سویٹ ڈش بخشو کمہار کی کھوتی پر بٹھا کر محلہ کی سیر بھی کرائی گئی ۔ 
"گھوڑی پر چڑھنے والے خواب کی تعبیر اگر کھوتی پہ چڑھنا ہے تو کنوارہ ہی اچھا ۔۔۔۔۔" الف نے جھرجھری لے کر سوچا ۔
فاعتبرو یا اولوالابصار                             

2 آرا:

  • 8 May 2013 at 15:05

    باقی رہ گیا الف ۔۔۔۔ تو اس نے بھی وہی کیا جو میر جعفر نے پلاسی کے میدان میں نواب سراج الدولہ کے ساتھ کیا تھا ۔۔۔ موقع واردات سے فرار ہو کر عزت بچانے کو کوئی برائی سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے ۔۔۔ سانوں کی ۔۔۔۔

    ہاہاہاہاہا بہت اعلی۔۔۔ زبردست

  • 20 May 2013 at 15:00

    "اورالف کی طوطا چشمی پر نون کا دمکتا چہرہ فیوز ہو گیا ۔"

    یار یہ جملہ رہ رہ کر یاد آرہا تھا۔۔۔ آخر دوبارہ اقتباس لے کر لکھ دیا۔۔۔۔۔

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آپ کی قیمتی آرا کا منتظر
فدوی چھوٹا غالب

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

کرم فرما