Pak Urdu Installer

Wednesday 26 December 2012

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

2 آرا


پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے



تمام اردو بولنے والوں کو نجم الدولہ ، دبیر الملک ، نظام جنگ
مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب
کا یوم ِپیدائش مبارک ہو




وقت کا کام ہے چلتے رہنا ، یہ کبھی نہیں رکتا چاہے گھڑی کے سیل نکال دیں ۔ جب سے اللہ نے اسے بنایا ہوگا یہ تب سے چل رہا ہے اور جب تک اللہ کا حکم ہے یہ چلتا رہے گا ۔ اتنا پرانا ہے پھر بھی اس کائنات میں یہی ایک چیز ہے جو نیا ہے ۔ گزرتا جاتا ہے اور موجودات کو پرانا کرتا جاتا ہے ، لیکن کچھ زندگیا ں ، کچھ لوگ ، کچھ کام ، کچھ تخلیقات اپنے آپ کو وقت کی قید سے آزاد کر لیتے ہیں  اور امر ہو جاتے ہیں ۔ پھر وہ بقول قبلہ استاد جی "میں عدم سے بھی پرے ہوں" کے مقام پر فائز ہو جاتے ہیں ۔ گزرتا وقت بھی ان کا کچھ بگاڑ نہیں پاتا ، میں زیادہ دور کیوں جاؤں میرے عظیم استادمرزا غالبؔ کی مثال سامنے ہے ، اردو میں نجانے کتنے نثر نگار ، کتنے ہی شاعر اردو کے افق پر سورج کی مانند ابھرے اور پھر ڈوب گئے ، اپنے وقت کے مقبول ترین شعرا آج صرف تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں ملتے ہیں ، لیکن غالبؔ ہر دم نیا ہے ، وقت کی بے رحم رفتار بھی غالبؔ کی چمک دمک ماند نہیں کر پائی ، بلکہ ریگ مال کی طرح اسے اور چمکاتی  گزرگئی ۔ غالبؔ نے اپنے ایک شعر میں اپنے کلام کو شراب سے تشبیہہ دے کر کہا شراب جتنی پرانی ہوتی جائے اتنی ہی قیمتی ہوتی جاتی ہے ، میرا کلام بھی جتنا پرانا ہوتا جائے گا اس کا نشہ بڑھتا جائے گا اور یہ قیمتی ترین ہوتا جائے گا۔اور دیکھ لیجئے  آج غالبؔ کےنشئی "ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں "۔
اس سے زیادہ حیرت کی بات کیا ہوگی ، کہ اردو کا سب سے گنجلک ، پیچیدہ اور مشکل ترین شاعر ہونے کے باوجود سب سے زیادہ پڑھا جانے والا شاعر غالب ہے ۔ ڈیڑھ صدی گزرنے کے باوجود بھی دیوانِ غالب اردو شاعری کی سب سے زیادہ چھپنے والی ، سب سے زیادہ بکنے والی ، اور سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اردو ادب کی تاریخ میں شاید سب سے چھوٹا دیوان غالب کا ہے ، مگر اسی چھوٹے سے دیوان پر محققین اس قدر فدا ہوئےکہ کم و بیش چالیس شرحیں  اسی دیوان کی لکھ ڈالی گئیں ، جس دیوان کو غالب کی زندگی میں چھاپہ خانہ والوں نے چھاپنے سے انکار کر دیا تھا کہ اس عجیب و غریب شاعری کی کتاب کو خریدے کا کون اور پڑھے گا کون۔۔۔۔۔؟؟؟
ایک بے اولاد کرایہ دار کو اللہ نے اتنی عزت دی کہ وہ ہزاروں دلوں کی دھڑکنوں میں بستا ہے ۔نہ صرف خواص میں بلکہ عوام میں بھی اتنا ہی مقبول ۔ 
پروفیسر رشید احمد صدیقی فرماتے ہیں کہ مغلیہ سلطنت نے ہندوستان کو دو انمول تحفے دیے، تاج محل اور غالب
ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری تو اپنی کتاب شروع ہی اس بات سے کرتے ہیں کہ :۔ "ہندوستان میں دو الہامی کتابیں ہیں ، وید مقدس اور دیوانِ غالب "
سر سید احمد خان ہوں  یا مولانا الطاف حسین حالی ، علامہ اقبال ہوں یا مولانا محمد علی جوہر سبھی کی بنیاد غالب کی فکرپر رکھی ہوئی ہے ، اردو ادب میں نت نئی تحریکیں آتی رہی ہیں ، آتی رہیں گی ، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اردو ادب میں اٹھنے والی ہر تحریک اپنا امام غالب کو کہتی ہے ۔ 
اس سے زیادہ حیرت کی بات کیا ہوگی کہ جس نادر روزگار کے محققین پربھی  پی ایچ ڈی کی  جاتی ہے، اس نے کبھی کسی سکول ، مدرسے ، کالج ، یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی، اس غالبِ خستہ کے اشعار سے کماحقہ لطف اندوز ہونے کیلئے لازم ہے کہ قاری کو طبیعات، مابعد الطبیعات ، علم ہیئت ، علم نجوم ، نیو کلیئر فزکس ، آسٹرو فزکس، نفسیات ، ریاضی ، تاریخ ، مصوری ، موسیقیت سے تھوڑا بہت واسطہ ضرور ہو ، ورنہ غالب کے اشعار سر سے زوں ں ں ں ں۔۔۔۔۔۔ کر کے گزر جائیں گے ۔اور سمجھ شریف میں کچھ نہیں آئے گا۔
ہم اردو والوں کو اللہ تعالیٰ کا یہ بہترین تحفہ غالب کی صورت میں ملا ، جس کی وجہ سے آج اردو عالمی ادب میں کے ٹو کی طرح سینہ تانے کھڑی ہے ۔ گوئٹے ، ہیں، براؤننگ ، شیکسپئر  وغیرہ ان سب کے مقابلے میں اسد اللہ بیگ تن تنہا سب پر غالب ہے ۔
27 دسمبر 1797 کو عبد اللہ بیگ خان کے گھر پیدا ہوئے ۔ آپ کی والدہ ماجدہ کانام عزت النسا ءبیگم  تھا ۔ (سلام ہو اس عظیم خاتون اور عظیم ماں پر، جنہوں نے اتنی بڑی شخصیت کو جنم دیا)۔ آگرہ میں صبح کے وقت غالب اس دارِ فانی میں (بقول انہی کے)  سزا بھگتنے تشریف لائے ۔ اور آتے ہی دل میں سوچا ہوگا :۔ "ڈبویا مجھ کو ہونے نے " ۔۔۔۔  5 سال کے تھے کہ والد کی وفات ہو گئی ۔ 9 سال کے تھے کہ چچا کی وفات ہو گئی ۔ جاگیر بحقِ سرکار تحویل میں لے لی گئی اور 10،000 سالانہ وظیفہ مقرر ہوا ۔ پتنگ اڑاتا 7 ، 8 سال کا یہ بچہ شاعری کرتا تھا ۔  13 سال کی عمر میں نواب الہی بخش خان کے داماد بن گئے ، 14 سال کے اس بچے کا تذکرہ "عمدہ منتخبہ " نامی تذکرہ شعرا کی کتاب میں کیا گیا۔  14 سال کی عمر تک اچھا خاصا دیوان لکھ ڈالا تھا ، اور آج جو دیوانِ غالب ہم پڑھتے ہیں ، اس کا 95 فیصد کلام غالب 19 سال کی عمر تک لکھ چکے تھے ۔ اس کے بعد غالب نے اردو میں چند اکا دکا غزلیں کہیں ، حیرت کی بات ہے کہ 1857 سے 1869 تک غالب  نے صرف 12 اشعار لکھے۔اللہ نے یکے بعد دیگرے 7 اولادیں دیں اور کوئی بھی چھ ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہا  ۔ 17 سال کی عمر سے 73 سال کی عمر تک غالب کرائے کے مکانوں میں رہے ۔ ساری زندگی ذاتی مکان نہیں خریدا نہ ذاتی کتاب خریدی ۔ 1969 کا سال غالب صدی کے طور پر منایا گیا  ، اور غالب پر تحقیق کا دائرہ مزید وسیع ہوتا گیا ۔ آج دیوانِ غالب کے منظوم تراجم پنجابی زبان سے لے کر دنیا کی ہر چھوٹی بڑی زبان میں موجود ہیں۔دنیا کی بے شمار عمارات غالب کے نام سے منسوب ہیں۔ 
ہندوستان میں آج بھی غالب کی سالگرہ نہایت تزک و احتشام سے منائی جاتی ہے ۔ چاندنی چوک سے غالب کے مکان تک ایک مشعل بردار  جلوس نکالا جاتا ہے ۔ غالب کے مکان کو قومی ورثہ قرار سے کر وہاں میوزیم بنا دیا گیا ہے ۔ جہاں غالب کے 
زیر استعمال اور ان سے متعلقہ اشیا محفوظ کی گئی ہیں۔ 


حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا                   


2 آرا:

  • 28 December 2012 at 09:51

    بہت ہی عمدہ اور معلوماتی تحریر ہے۔ بہت سی باتوں سے میں انجان تھا۔ بلاشبہ روایتی طرز بیاں تمہارا یعنی اک رواں تحریر :)

  • 12 March 2013 at 19:59

    آپ کی غالب سے محبت بے مثال ہے۔ غالب پسند مجھے بھی حد سے بڑھ کر ہے۔ مگر ایسی محبت نہ دیکھی تھی۔

    میں نے غالب کو میٹرک کے بعد پڑھ لیا تھا۔ پھر سودا اور میر کو بھی پڑھا۔ حافظ اور خیام کے کلام سے بھی لطف اٹھایا۔ اردو اور فارسی کے بعد انگلش کلاسیکل ڈرامہ نگاروں اور شاعروں سے بھی مستفیذ ہوا۔ آپ کی طرح استادوں کو پڑھنے کا "نقصان" یہ ہوا، کہ "پڑھنے کے لائق" مصنفین کی تعداد بہت کم لگنے لگی۔ جیسے انگلش میں کہتے ہیں نا "رُوئن" کرنا۔ بس کچھ ایسا ہی سمجھیے۔ لگتا ہے، آپ کے ساتھ بھی عین یہی تجربہ ہوا ہے!

    ویسے میں آپ کی طرح اسے تمام ادیبوں پر فوقیت نہیں دیتا۔ خاص طور پر خیام کی کچھ رباعیات ایسی ہیں، جن کا دیوانِ غالب میں کوئی بدل نہیں۔ میں جب کسی بہت گہری سوچ سے لطف اٹھانا چاہوں تو دیوانِ غالب کی بجائے خیام یا انگریز شاعروں کو فوقیت دیتا ہوں۔

    آپ کا یہ جملہ:

    " گوئٹے، براؤننگ ، شیکسپئر وغیرہ ان سب کے مقابلے میں اسد اللہ بیگ تن تنہا سب پر غالب ہے"

    میری نظر میں محلِ اشکال ہے۔ یہ جملہ یقینا محبت نے کہلوایا ہے!

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آپ کی قیمتی آرا کا منتظر
فدوی چھوٹا غالب

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

کرم فرما