مرزا نوشہ اسد اللہ بیگ غالب کے نادر خطوط جو انہوں نے اپنی وفات تک اپنے شاگردوں ، دوستوں کو لکھے ، اور انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے خطوط کے مجموعے کتابی صورت میں شائع کیے۔
کیا کہنے غالب کی عالم گیر شہرت و مقبولیت کے، زمین پر تو چرچا تھا ہی عالم بالا اور عالمِ ارواح میں بھی جناب قبلہ غالب کےڈنکے بجتے تھے، یہ تب کی بات ہے جب میں ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا، اور عالمِ ارواح میں رہتا تھا، مجھے جنابِ غالب سے ایک گونہ عقیدت اور اس سے بڑھ کر محبت سی ہو گئی،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے 3 جنوری 1869 ء کو شاگرد ہونے کی درخواست بھیجی ، جو کہ صد شکر غالب نےقبول فرما لی، اور مجھے اپنی شاگردی میں لے لیا، یوں خاکسار کو بھی غالب سے روحانی خط و کتابت کا شرف حاصل ہوا۔ لیکن اس وقت تک چونکہ (بقول غالب)ان کی عالمِ خاکی سے رہائی کا وقت قریب تھا، اس لیے وہ جلد ہی عالمِ بالا تشریف لے آئے، اور مجھے قدموں میں رہنے کا موقع ملا۔
پھر 1984 ء کا سال شروع ہوا۔ معلوم ہوا کہ اب کے جنت سے بے آبرو ہو کر نکلنے کی میری باری ہے، بس صاحبو!! حکمِ حاکم مرگِ مفاجات، داغِ جدائی دل پر لیے، روتا ہوا عالمِ خاکی میں آن وارد ہوا، آتے ہی میں نے صدا لگائی کہ"ایک کاغذ قلم کا سوال ہے بابا "تاکہ میں ایک خیریت سے پہنچنے کی اطلاع کا خط ہی لکھ کر بھیج سکوں، مگربجائے کہ کوئی ہماری بات پر کان دھرتا ایک صاحب نے ہمیں اٹھایا اور اپنا منہ میرے کان کے پاس لائے۔
میں سمجھا کہ "کن کُرررررررر" کرنے والے ہیں ، لیکن اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدا سن کر دل کو تسلی ہوئی کہ شکر ہے مسلمانوں والی بیرک میں ڈالا گیا ہوں ،اذان کے بعد میرا منہ میٹھا کرایا گیا، مگر میری بات پر کسی کی توجہ نہ تھی میں نے پھر ہاتھ پیر چلا چلا کر اپنے غصے کا اظہار کیا کہ اللہ کے بندو کوئی تو مجھے موبائل دے دے یا اگر ابھی موبائل فون کا رواج نہیں ہو ا تو کم از کم ایک قلم اور سادہ کاغذ ہی دے دے۔
اللہ بخشے ایک نورانی صورت بی بی ، ہمیں دیکھ دیکھ کر مسکراتیں اور فرماتیں کہ حرکتیں تو دیکھو، یہ تو بڑا ہو کر شیطان کے بھی کان کاٹے گا، بعد میں معلوم پڑا کہ موصوفہ ہماری والدہ محترمہ ہیں ۔ ناچار تھک ہار کر کسی کو اپنا ہم زباں نہ پا کر صبر کے کڑوے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ اور آخرکار وہ وقت آ ہی گیا کہ جب فدوی نے قلم پکڑنا سیکھ ہی لیا، میں ناصر کاظمی کی طرح یہ تو ہر گز نہیں کہوں گا کہ "میں نےجب لکھنا سیکھا تھا، تیراہی نام لکھا تھا" مگر یہ سچ ہے کہ جب میں پہلی بار کسی شعر پر وجد میں آیا تھا وہ قبلہ استادِ محترم کا ہی شعر تھا، یوں میں نے عالمِ خاکی میں دیوانے دل کو بہلانے کی سبیل نکالی ، غالب کوپڑھ پڑھ کر میں آدمی سے انسان بنا، میں نے زندگی کا مطلب غالب سے سیکھا، اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ مجھے میری ہر الجھن کا جواب دیوانِ غالب سے ملا ، اگر میں چھوٹا غالب نہ ہوتا تو یقیناً کچھ نہ ہوتا، سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، کہ اس نے میرے دل میں غالب کی محبت ڈالی ، ورنہ ایسے کتنے ہی نام نہاد پڑھے لکھے ، ڈاکٹرز ، پروفیسرز کو جانتا ہوں جو غالب کے غین میں گم ہو کر رہ جاتے ہیں ، اور سارا کا سارا علم دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کا کروڑ ہا شکر ہے کہ اس نے مجھ ناچیز کو غالب کو سمجھنے کی ہمت اور توفیق دی، ورنہ بقول کسے "غالب ادب کے سمندر کا برمودا ٹرائی اینگل ہیں ، جس میں علم کے جہاز صرف محبت کے قطب نما کی مدد سے منزل تک پہنچتے پاتے ہیں ، ورنہ استاد ذوق سے لیکر قیامت تک نجانے کتنےادب کے "جہاز" ڈوب مرتے رہیں گے" اور اس عمر میں جب کہ لڑکے لڑکیوں کو پرفیوم وغیرہ لگا کر خون سے خط لکھتے ہیں میں نے پہلا خط قبلہ استادِ محترم کو لکھا، اور وہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے، اور انشاء اللہ میری عالمِ ارواح کو واپسی تک جاری رہے گا
میں جانتا بس تم کو ہوں ٭٭ میں مانتا بس تم کو ہوں
تم ہی میرا گیان ہو٭٭٭تم ہی میرا دھیان ہو
کیسے بتاؤں میں تمہیں ٭٭ تم ہی تو میری جان ہو
اسی سلسلے میں غالب کے وہ خطوط جو اب تک کہیں نہ شائع ہوئے، نہ کسی نے پڑھے، عوام الناس کی بھلائی کیلئےپیش خدمت ہیں
گر قبول افتد زہے عزو شرف
جیتے رہو جوگی ۔ یار شہزادے تمھارے اظہاریے پر آیا ہوں تو پتہ نہیں کیوں آنکھیں بھر آئی ہیں۔۔ خیر اب آتا رہوں گا۔۔ جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا۔۔
تمھاری تحاریر کا اسیر
م۔م۔مغل
ہمم تو یہاں ایک اور حضر ہیں جو غالب ہونے کے دعویدار ہیں
ویسے خاکسار کو سید شہزاد ناصر گیلانی کہتے ہیں
یہ بھی اچھا نام ہے سائیں
مگر اگر ناصر کے ساتھ کاظمی ہوتا تو آنند آ جاتا
بہت بہت بہت خوش آمدید
یعنی کہ ست بسم اللہ جی آیاں نوں
سجن آون اکھیں ٹھرن
آپ کے غائبانہ تعارف اور اب ڈائریکٹ ملاقات سے فدوی کو وہ فرحت قلب ملی کہ بیان سے باہر ہے
جزاک اللہ بھائی بلکہ پیر بھائی
آتے رہیے اور میرا دل شاد کام کرتے رہیے
کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتناہی وہ خاموش ہے
استاد ابراہیم کے شعر سے آغاز تنقید محض چٹخارے کے لیے ہے ورنہ مجھے ایم-اے اردو سال اول میں غالب نے میری توقع سے بڑھ کے نمبر دئیے تھے۔ یعنی مرزا غالب کے سوال پر میری امید سے زیادہ نمبر ملے مجھے۔ اب قاری سمجھے گا کہ مجھے یہ کیسے معلوم ہوا کیونکہ پیپر میرے سامنے تو چیک ہوا نہیں ہو گا اور ایک پیپر کے مختلف سوالات کے نمبر علیحدہ علیحدہ درج نہیں ہوتے۔ اوہو! ارے میاں پہلے غالب والے سوال کے بعد دوسرا سوال لکھ کر ہی کون آیا تھا جو مزید نمبر شمبر ملتے۔ اب وجہ پوچھیے
جواب یہ ہے کہ بھائی صاحب پیپرز کی تیاری تو کی ہی نہیں تھی۔
اویس صاحب! یہ پچھلے سال 2012 کی بات ہے۔
لیکن مرزا غالب کے حالات و واقعات اور ان کی شاعری میں اس قدر ذاتی (اس کا آپ کو اعتراف بھی تھا وارث بھائی والے خاکے میں پتا چلا تھا جب)دلچسپی تھی کہ صرف ایک سوال لکھا تھا اور اس میں سے پچھتر فی صد 75٪ نمبر ملے۔ اور کچھ لکھا ہی نہ تھا۔ اگر مجھے غالب کے علاوہ کسی اور مضمون میں اتنی دلچسپی ہوتی تو پچھلے سال فیل ہونے کی بجائے ہر سوال میں سے پچھتر فی صد مارکس لے کر پنجاب یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن نہ لے لیتا۔ کیونکہ میرا نہیں خیال کہ لوگ پچھتر فیصد لیتے ہوں گے ایم- اے اردو میں۔ مزید کوئی جاننے والا بتا سکتا ہے۔ لو بھائی لوگو آپ کو چھوٹے غالب صاحب کی وجہ تسمیہ معلوم ہو چکی ہو گی۔ والسلام