سات بجے بجلی آئی تو صحن میں بڑے بھائی نے چھڑکاؤکر دیا۔ باہر شامیانے اور دریاں آ چکی تھیں۔ وہ اندر لگوا دئیے اور دریاں خود بچھاتے رہے ۔ اس کے بعد اباجی کو باہر صحن میں لایا گیا۔ اماں جی نے کہا کہ 14 مرتبہ سورۃ بقرہ کی تلاوت کرنی ہے۔ مدرسے سے حفاظ بلا لیتے ، میں نے کہا ابا جی نے ہمیں کیا اس لیے پڑھایا تھا کہ جب وقت آئے تو ہم ان کیلئے اتنی سی تلاوت بھی نہ کر سکیں۔ ہم خود بھی تو انہی کے شاگرد ہیں ، لہذا ہم سب بھائی خود پڑھیں گے۔ اور وضو کرکے میں اور بڑے بھائی اباجی کے دائیں طرف کھڑے ہو کر سورۃ بقرہ کی تلاوت کرنے لگے۔ آہستہ آہستہ دوسرے شاگرد سید احسن عطا ، سید توقیر مصطفےٰ ، سید محمد عرفان ، سید ذیشان ، سید عدنان شاہ وغیرہ بھی آتے گئے اور قطار لمبی ہوتی گئی ۔ یہاں تک کہ گیارہ مرتبہ سورۃ بقرہ پڑھ لی گئی ۔ سوا دوپاروں پر مشتمل ہونے کے سبب سب ایک ہی بار پڑھ کے تھک گئے ۔ اور باقی تین مرتبہ میں نے اور ذیشان نے اپنے ذمے لے لی۔
اندر خواتین اور باہر مرد حضرات کی آمد جاری ہو چکی تھی۔ ایک عجیب سا رواج ہو گیا ہے تعزیت کا کہ خواتین آتے ہی خاتون خانہ کے گلے لگ کر چند مصنوعی قسم کی کوکیں مار کے افسوس کا اظہار کرتی ہیں۔ ہمارے خاندان میں الحمد اللہ بین کرنے کا رواج نہیں ، لیکن یہ کوکیں مارنا بزرگوں کے بعد سے جاری رہا۔
مجھے بے حد غصہ آیا کہ ایک تو ہماری تلاوت میں خلل پڑ رہا تھا ۔ دوسرا یہ کہ خواتین کی مسلسل آمد جاری تھی اور ہر ایک بنفس نفیس اماں جی کے گلے لگ کے خود تو بے شک مصنوعی کوکیں ماری رہی تھی ، لیکن اماں جی کی صحت اور عمر ایسی نہیں کہ چار پانچ سو خواتین کا ساتھ دینے کو سہی رو سکیں۔ میں نے سختی سے منع کر دیا کہ خبردار !میری اماں کو کسی نے اس عجیب سی حرکت سے افسوس کے بہانے رلایا تو میں بے عز ت کر کے نکال دوں گا۔ وفات ہمارے ابا جی کی ہوئی ہے ۔ ہم صبر کر کے بیٹھے ہیں اور آپ سب جو ان کی زندگی میں ان سے خائف رہے ، آج اپنا غم دکھانے آ گئے ۔ غم ہمیں بھی ہوا ہے ، لیکن صبر افضل ہے۔ آپ سب کے رونے دھونے سے اباجی کو نہ کوئی فرق پڑنے والا ہے نہ ہی انہیں کوئی فائدہ ہونے والا ہے ۔ جنہیں ان کی خیر خواہی مقصود ہے یہ قرآن مجید پڑے ہیں، اور سورۃ یٰسین وغیرہ بھی کافی تعداد میں موجود ہے، بیٹھ کے تلاوت کریں ۔ جس کیلئے ہم آپ کے شکر گزار ہوں گے۔ تلاوت کی توفیق نہیں تو کم از کم ہم پڑھنے والوں کی تلاوت میں اپنی مصنوعی کوکوں سے خلل اندازی نہ کریں۔
اس بات پر خالہ جی سمیت کچھ خواتین نے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔ اور مجھے اپنی بڑائی جتانے کی کوشش کی مگر میرے تیور دیکھ کے کچھ کہنے کی ہمت نہ کر سکیں ۔ البتہ ایک غالب اکثریت جن میں ہماری آپی محترمہ بھی شامل تھیں ، نے میری اس بات کو سراہا ۔ اور دوسروں کو بھی تلاوت کی تلقین کی۔
کل سے میں جتنا ضبط کر کے بیٹھا تھا اب اس ضبط میں دراڑیں پڑنے لگیں تھیں۔ اباجی نے اپنی زندگی میں ہی میرے متعلق فرمایا تھا کہ یہ جتنا بھی سخت دل سہی میری چارپائی کا پایہ پکڑ کے روئے گا ضرور۔ جس بات کو سن کے میں نے چٹکی میں اڑا دیا تھا آج وہی بات سچ ہوگئی ۔ میں ضبط کرنے کیلئے اور ساری توجہ تلاوت پر رکھنے کی پوری کوشش کرتے کرتے اباجی کی چارپائی کا پایہ پکڑ کے اپنے آپ کو کنٹرول کرنے لگا۔ اس وقت کی منظر نگاری میرے لیے مشکل ہے ۔ دل میں تہیہ کیا ہوا تھا کہ میں بالکل نہیں روؤں گا۔ لیکن چار پانچ سو خواتین کے مجمعے میں ان کی ہلکی ہلکی رونے آواز اور اماں جی کو دیکھ کر ضبط مشکل سا ہو گیا۔ اسی کوشش میں چار پائی کا پایہ پکڑ لیا ۔ یہ دیکھ کر باجی اور دیگر واقفان حال کی چیخیں نکل گئیں۔ جنہوں نے وہ پیش گوئی خود سنی تھی اور اب خود دیکھ لیا ۔ یہ میں جانتا ہوں یا میرا خدا کہ اس وقت میں کس قدر مشکل میں تھا۔ میں اپنا رونا روکنے کی بھرپور کوشش میں دھندلائی آنکھوں سے سورۃ بقرہ کا آخری رکوع کی بلند آواز میں تلاوت کرنے لگا تو حاضرین سے بھی ضبط مشکل ہو گیا۔ یہ آخری رکوع تین بار تلاوت کیا ۔ ابا جی کا کفن کھولا اور ان کے سینے پر پھونک مار کے اماں جی کی گود میں سر رکھ دیا۔ اور ایسا محسوس ہوا کہ ایک دم سے سارا غم کنٹرول ہو گیا۔ ساری شدت تھم سی گئی ۔
خواتین کی مسلسل آمد جاری تھی ، ہم نے اپنے اندازے سے کچھ فاضل دریاں بھی بچھائی تھیں ، لیکن تعداد اتنی زیادہ ہو گئی کہ وہ دریاں بھی کم پڑ گئیں۔ باہر مردوں کی نشست کیلئے بچھائی گئی دریوں سے چھ دریاں اندر لا کر بچھا دیں۔ اماں جی نے زبردستی مجھے نہانے کیلئے بھیجا کہ باہر جو پرسے کیلئے آ رہے ہیں وہ چھوٹے بیٹے کا بھی پوچھ رہے تھے ۔ غسل کے بعد باہر مردوں میں آن بیٹھا۔ یہاں بھی وہی تماشا تھا۔
کہنے کو سب تعزیت کیلئے آئے بیٹھے تھے ۔ اپنے درمیان سے ایک انسان کا دنیا سے چلے جانا بھی ان کو غفلت سے جگانے کیلئے کافی نہ تھا۔ درود شریف کیلئے سامنے شمارپڑے تھے لیکن حضرات غیبتوں اور حالاتِ حاضرہ پہ سیر حاصل تبصروں میں مصروف تھے۔ سوائے چند گنے چنے حضرات کے سب اسی مشغلے میں مصروف تھے۔ اس کے علاوہ ہر نیا آنے والا ایک سکہ بند جملہ دہراتا "پیر سائیں! اللہ دی مرضی دے کم"(اللہ کی مرضی)، آنے والے اکثر مجھے شکل سے نہیں جانتے تھے ۔ اس لیے میری تو کافی حد تک بچت رہی لیکن باقی بھائیوں کے تو کان پک گئے ہوں گے۔ ویسے تعزیت کیلئے اتنا ہی کافی ہے ، لیکن یہ کیا کہ ایک ایک بندے کو مخاطب کر کے وہی گھسا پٹا سکہ بند جملہ کہا جائے ۔ پیر سائیں! اللہ دی مرضی دے کم، جنید سائیں اللہ دی مرضی دےکم، شاہد شاہ صاحب اللہ دی مرضی دے کم ۔ ایک ہی سانس میں تین چار بندوں سے تعزیت کا فرض ادا ہو گیا۔
دریاں کم پڑتی جا رہی تھیں۔ اور دریاں منگوا کے میں نے وہاں سے ہٹ کے جنازے کیلئے خالی رکھی گئی جگہ پر پندرہ بیس دریاں بچھا دیں۔ اور خود وہاں آ کے بیٹھ گیا۔ دھیرے دھیرے بزرگوں کے ستائے اکثر وہیں آ کے بیٹھنے لگے ۔ اور وہاں پہ باقاعدہ درود شریف پڑھا جانے لگا۔ جب کہ بزرگ حضرات کی وہی بدگوئیاں جاری رہیں۔
قبرستان سے مستری صاحب نے کچھ کچی اینٹیں منگوائی تھیں، وہ ریڑھی پر لوڈ کروا کے بھیجیں۔ اور اب ذیشان کو سید مظہر شاہ صاحب کے ساتھ قبرستان روانہ کیا ۔ کہ جو حفاظ صبح سے قبر کے اندر تلاوت قرآن مجید میں مصروف ہیں ، ان کی جگہ لے لیں۔ اور انہیں آرام کا کہیں۔ نیز ان کیلئے دوپہر کا کھانا بھی بھجوا دیا۔
اندر آیا تو اندر محفل میلاد سی جاری تھی ۔ سب خوش آواز خواتین کورس میں نعتیہ کلام پڑھنے میں مصروف تھیں۔ رونا دھونا الحمد اللہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ایک بجے کے قریب باجی نے کہا کہ چار مرتبہ میت پر سورۃ ملک پڑھنی ہے ۔ فدوی ، جنید ، عرفان اور اس کی اہلیہ نے چارپائی کے چاروں کونوں پر کھڑے ہو کر ایک ایک بار سورۃ ملک کی تلاوت کی ۔ محفل نعت پھر جاری ہو گئی ۔ اور قصیدہ بردہ شریف پڑھا جانے لگا۔
بڑے بھائی کو یہ پریشانی تھی کہ کل سے رات سے صاحبزادہ سید سجاد سعید کاظمی شاہ صاحب قدس سرہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میرا تو جتوئی مظفر گڑھ میں ایک قل خوانی کا پروگرام فکس ہے۔ انہوں نے اپنے بڑے بھائی مرکزی امیر اہلسنت پروفیسر سید مظہر سعید کاظمی شاہ صاحب قدس سرہ العزیز کو جنازہ پڑھانے کیلئے بلانے کا مشورہ دیا۔ لیکن جناب پی ٹی ممتاز صاحب (جن کے ذمہ جنازے کیلئے صاحبزادہ صاحب کو بلانا تھا) نے انہیں بتایا کہ مرحوم کی وصیت نما فرمائش تھی کہ میرا جنازہ سید سجاد سعید کاظمی شاہ صاحب پڑھائیں ۔ تو انہوں نے تین بجے پہنچنے کا عندیہ دے دیا تھا۔ اب جتوئی سے دھنوٹ کا سفر کم از کم بھی 5 گھنٹوں کا تو ضرور ہے۔ جنازہ کیسے وقت پہ پڑھایا جا سکے گا۔
دو بجے کے بعد میں اندر آیا اور سب کو اطلاع دی کہ جنازے کاوقت قریب ہے ۔ جنہوں نے آخری زیارت کرنی کر لیں ۔ تاکہ یہ نہ ہو کہ جب ہم اٹھانے کیلئے آئیں تو سب کو آخری دیدار یاد آ جائے ۔ تین بجنے میں ابھی بیس منٹ باقی تھے اور میں وضو کر کے نکلا تو سب رشتہ دار مرد حضرات آخری دیدار کیلئے اندر آگئے ۔
ایسی تحریر جس کا حرف حرف سچائی پر مبنی۔۔۔۔۔ اور تحریر کی روانی ایسی کہ یوں لگے ۔۔۔۔۔۔
ہم بھی وہیں موجود تھے۔۔۔!
اللہ کے اس نیک ولیء کامل پر اللہ کی بے حد و بے حساب رحمتوں کا نزول ہو اور اس میں سے کچھ حصہ عقیدتمندوں کے حصے میں بھی آئے آمین ثم آمین۔
آمین ثم آمین
دعاؤں کیلئے مشکور و منمون
تبصرے کیلئے بے شمار جزاک اللہ
کہ آپ نے نہ صرف اسے پڑھا بلکہ تبصرے سے بھی نوازا
اللہ آپ کے حسنِ ذوق میں مزید اضافہ فرمائے