جو آتا ہے
وہ جاتا ہے
دنیا آنی جانی ہے
فقط ایک کہانی ہے
جانے والے کو کوئی کب روک سکا ہے ۔ وعدہ پورا ہوا اور کم و بیش 71 سال اس دار ِ فانی میں گزار کر ابا جی بھی دارالقرار کو چلے گئے ۔ میں کمرے سے نکلا تو دیکھا کہ رات کا ندھیرا پھیل رہا تھا ، اور ایسا ہی اندھیرا ہم سب پسماندگان کی زندگی میں بھی پھیل چکا تھا۔سرائیکی محاورہ "کنڈ خالی تھی گئی" اپنے اصل مطلب کے ساتھ اس وقت مجھ پر واضح ہوا۔ لکھنے کو یہاں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے ، حزن بیانی کے جوہر دکھائے جا سکتے ہیں۔ لیکن بقول غالب "کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے"حقیقت یہ ہے کہ ایک عجیب سی بے حسی نے گھیر لیا۔ صحن خلاف ِ توقع رشتہ داروں سے بھر چکا تھا۔ ایک تو چشمہ نہیں تھا ، اور پھر عشاء کے وقت کا اندھیرا، کچھ اندازہ نہ ہوا کہ کون کہاں ہے۔ سب کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ لیکن نجانے کیوں میری آنکھیں خشک تھیں ۔ اماں کی تلاش میں آگے بڑھا تو حاضرین مجھ سے بغلگیر ہو ہو کر اظہار افسوس کرنے لگے ۔ کچھ بڑے بھائی کے گلے لگ کے رو رہے تھے ، کچھ میرے گلے لگ گئے ۔ اور عجیب بات یہ کہ بجائے اس کے کہ کوئی ہمیں صبر کا کہتا الٹا ہم ہی دوسروں کو صبر صبر کہہ رہے تھے ۔حسنین بھائی بھرائی آواز میں سب کو اونچی آواز میں رونے سے منع کر رہے تھے۔ میں کھسکتا کھسکتا اماں تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ اماں میرے گلے لگ گئیں ، اور کہا"پتر آپاں رُل گیوسے" میں نے کہا" اماں موت تو سب کو آنی ہے ، اور جس نے ہمیں پیدا کیا وہ تو ازل سے زندہ و جاوید ہے ۔ وہ حی و قیوم ہے۔ جب اللہ ہے تو پھر کاہے کا غم ؟" اس بات پہ اماں نے مجھے ماتھے پہ بوسہ دیا اور "شیر پتر" کا خطاب دیا۔
بے شک خوشی ہو یا غم اللہ کی طرف سے ہے۔ میں خاندان میں دوسروں کے ماں باپ کی وفات پر انہیں روتے کرلاتے دیکھ کر ہمیشہ یہ سوچتا تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ وقت مجھے بھی دیکھنا ہے۔ اور جب مجھ پر ایسا وقت آیا تو اس وقت میرا کیا رد عمل ہو گا۔ اور پاک ہے وہ ذات جس نے یہ وقت آنے پر مجھےصبر کی توفیق دی۔یقیناً یہ اس کی دی ہوئی توفیق ہی تھی کہ نہ صرف میں اور حسنین بھائی بلکہ اماں اور باجی نے بھی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیا۔
رشتے دار تو مہمانوں کی طرح آ گئے ، اب یہ ہماری ذمہ داری تھی کہ ان سب کیلئے بیٹھنے اور سونے کے انتظامات کے ساتھ ساتھ ابا جی کے غسل اور تکفین کا بھی انتظام کریں۔ گھر چونکہ ابھی زیر تعمیر ہی تھا اور ابا جی کے آپریشن اور پھر وفات کی وجہ سے تعمیر ابھی نامکمل تھی ۔ اس وجہ سے جن کمروں میں ابھی تک وائرنگ نہیں ہوئی تھی وہاں عارضی طور پر تاریں لگا کر بلب لگا دئیے ، اور باہر جو مرد حضرات آ رہے تھے ان کی نشست کیلئے دریاں بچھادیں ، تایا جی وہاں بیٹھ کے سب کے سامنے اپنے رونے رونا شروع ہو گئے ، اور میری غیبتیں ہوتی رہیں۔ساڑھے آٹھ بجے تک حسنین بھائی نے جنازے کے وقت کا بتا دیا کہ کل بروز جمعرات سہ پہر تین بجے نماز ِ جنازہ ہو گی ۔ اب ہم دونوں بھائیوں نے موبائل کے ذریعے فرداً فرداً سب رشتہ داروں اور ابا جی کے مریدین تک ابا جی کی وفات اور جنازے کے وقت کی اطلاع پہنچائی ۔
غسل کیلئے پانی میں بیری کے پتے بھی ابالے جاتے ہیں۔ رات کے اندھیرے میں بیری کے درخت سے پتے توڑ لایا ۔اور پانی ابلنے کیلئے تنور پر رکھ دیا۔ جنید حسنین(منجھلے بھائی ) نے میرے مشورے سے غسل دینے کی جگہ کا تعین کر کے گڑھا کھودنا شروع کر دیا۔ اور میں ان کا تیار کروایا ہوا سرخ رنگ کا تختہ غسل اٹھا لایا۔ رشتہ دار شاید اس امید میں تھے اور جیسا کہ اکثر ہوتا ہے کہ آل اولاد تو رونے پیٹنے اور غم کا بہانہ بنا کر چارپائی کی پٹی سے چپک کر بیٹھ جاتی ہے ۔ لیکن یہاں تو صورت ہی نئی تھی۔ ہم نے نہ تو کسی سے کوئی کام کہا اور نہ کسی کو کرنے دیا۔ سب کام اپنے ہاتھوں سے انجام دئیے۔ساڑھے نو بجے کے قریب جب کہ پانی اور غسل کیلئے گڑھا تیار ہو گیا تو میں پہلے سے تیار شدہ کفن لے آیا ۔ ابا جی اور اماں جی کے چچا زاد بھائی جنہیں ہم ماموں کہتے ہیں، اس موقعے پر آگے بڑھے اور بولے کہ یہ کام بچوں کا نہیں ، میں نے کہا لیجئے آپ ہی مجھے سکھا دیں کہ کفن کیسے پہنایا جاتا ہے ۔ اور انہوں نے کفن کو ترتیب سے چارپائی پر بچھا دیا۔
اس کفن کی بھی ایک کہانی ہے۔ یہ کفن اور اماں جی کا کفن انہوں نے اپنی وفات سے تقریباً 11 سال پہلے ہی تیار کر کے رکھا ہوا تھا۔ اماں جی نے اپنے ہاتھوں سے دونوں کفن سیے تھے ۔ پھر یہ دونوں کفن عرب بھجوائے گئے جہاں سے یہ آبِ زم زم میں بھگو کر اور کعبہ کا طواف کر واکے واپس لائے گئے۔ بجلی تو حسب معمول اس موقع پر تھی ہی نہیں، موبائلز اور ٹارچ کی روشنی میں دیکھا کہ ابا جی نے بدست خود بیری کے پتوں کے رس سے سینے والی جگہ پر کلمہ طیبہ ، کلمہ شہادت اور درود تاج مکمل لکھا تھا۔ اور اس کے حصار کے طور پر مستطیل شکل میں آیت الکرسی لکھی ہوئی تھی۔
چاند نکل آیا تھا اور چاندنی خوب چٹکی ہوئی تھی۔ اندر سے ابا جی کو ہم سب بھائی غسل کیلئے مقررہ مقام پر لے آئے ۔ اورتختے پر لٹا دیا۔ موقع پرموجود بزرگوں نےجنہیں اس بات کا یقیناً بہت غصہ تھا کہ ہم کسی کام میں مدد مانگنا تو درکنار کسی بات پہ مشورہ بھی نہیں مانگ رہے تھے ۔پھر بھی وقتاً فوقتاً اپنی بزرگی کے ذکر کے ساتھ مشوروں سے نوازنا جاری رکھا ۔ ایک بولے کہ اب قمیض اتارنا مشکل ہوگا۔ بہتر ہے کہ قینچی سے کاٹ کر علیحدہ کی جائے ۔ حسنین بھائی نے با آوازِ بلند دیگر بزرگوں کو بھی پاس بلایا اور کہا میں آپ کی غلط فہمی آپ کی آنکھوں کے سامنے ہی دور کر دوں ، کہیں کوئی یہ کہے کہ باپ کی کرامات گھڑلی ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی ان کی قمیض اتارنا شروع کر دی۔ اور گردن و بازو تک پہنچے تو دونوں بازو کھڑے ہی نہیں پیچھے کر اتنے آرام سے قمیض اتار کے دونوں بازو چھوڑے تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ابا جی فوت نہیں ہوئے بلکہ بے ہوش پڑے ہیں۔بازو آرام سے خود بخود اپنی جگہ پر واپس آ گئے۔ وفات کے تین گھنٹے بعد بھی جسم اس طرح تازہ اور نرم تھا کہ لگتا ہی نہ تھا کہ میت ہے۔ موقع پر موجود جن جن لوگوں نے یہ منظر دیکھا انہیں بے اختیار خدا یاد آ گیا۔ ماموں نے رشک کے مارے آگے بڑھ کر بازو اٹھا کے دیکھا اور اللہ اکبر اللہ اکبر کہنے لگے۔ایک چادر ابا جی کے جسم پر گردن تک ڈال دی گئی اور ہم انہیں غسل دینے لگے۔ غسل کے بعد انہیں کافور اور عطر لگایا گیا ۔
اس موقع پر ماموں کے مشوروں میں شدت آئی تو حسنین بھائی نے کہا آئیے آپ ہی پہنا ئیے۔ آپ آگے بڑھے اور کفنی پہنا کر کفن کی پہلی چادر باندھنے ہی لگے کہ جنید حسنین نے کہا مجھے لگتا ہے کہ آپ نے کفنی الٹی پہنائی ہے ۔ سخت چراغ پا ہوئے اور حاضرین کو مطلع فرمایا کہ جتنی ان کی عمر ہے اتنا میرا تجربہ ہے تجہیز و تکفین میں۔ یہ ہے وہ ہے ۔۔۔۔میں نے ماما جی حوصلہ رکھیں! ایک بار دیکھ لینے سے آپ کی بزرگی میں کوئی فرق نہیں آ جائے گا۔ موبائل ٹارچ آگے کی تو واضح ہوا کہ کفنی واقعی الٹی پہنائی تھی ۔ ماما جی کو ان کی بزرگی نے قطعاً شرمندہ نہ ہونے دیا ، خیر کفنی میں کلمے اور درود شریف والی سائیڈ سیدھی کر کے دوبارہ پہنائی گئی ۔ دونوں چادریں پہنا کہ کفن کے بند باندھ دئیے گئے ۔ اور اباجی کو اندر کمرے میں لٹا دیا گیا۔اس دوران دس بج گئے اور بجلی بھی تشریف لے آئی ۔ اندر موجود بہوئیں اور دیگر خواتین تلاوت کرنے لگیں۔
اس کے بعد ایک اور لطیفہ سامنے آیا ماما جی کہ مطابق غسل کا پانی جس گڑھے میں جاتا ہے ، پلیتے (کپڑے کے بنے دستانے) اور بیری کے ابلے ہوئے ہتے وغیرہ بھی اسی گڑھے میں دفن کیے جانے ضروری ہیں۔ چونکہ کھودا جنید نے تھا اس لیے اب گڑھا دوبارہ پر کرنے کیلئے میں آگے بڑھا تو ماما جی نے ایک اور شگوفہ چھوڑا کہ یہ غلط ہے ۔ لازم ہے کہ جس نے گڑھا کھودا ہو پر بھی وہی کرے۔ غصہ تو مجھے بہت آیا کہ فقہ کی کسی کتاب میں مجھے تو یہ اہم مسئلہ کبھی نظر نہ آیا تھا اور آج یہ اہم اسلامی مسئلہ سننے کو مل رہا تھا۔ سنی ان سنی کر کے میں نے ہی آدھا گڑھا بھرا اور مزید آدھا بھرنے کیلئے جنید نے میرے ہاتھ سے کسی لے لی۔
رات گیارہ ساڑھے گیارہ تک دھنوٹ شہر اور آس پاس کے گاؤں سے آئے رشتہ دار واپس چلے گئے اور جو دور سے آئے تھے ان کےلیے آرام کا انتظام کر دیا گیا۔
بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
اللہ پاک انکے درجات کو مزید بلند فرمائے آمین۔
آمین ثم آمین
تبصرے اور دعاؤں کیلئے جزاک اللہ