گزشتہ سے پیوستہ
ظہر کا وقت ہو چکا تھا ۔ کچھ نماز کے بہانے کھسک گئے اور کوئی کسی بہانے ۔ مہمانوں کی آمد ہنوز جاری تھی ۔ لیکن گھر کی خواتین کے علاوہ کسی کو اندر آنے کی اجازت نہیں تھی۔ اور جو بھی اندر آتے انہیں ایک منٹ سے زیادہ میں بیٹھنے نہیں دے رہا تھا ۔ اسی وجہ سے اس دن کئی خواتین اور کئی حضرات مجھ سے اچھے خاصے ناراض ہو گئے (اپنے دل میں) منہ سے کہنے کی کسی کو جرات نہ ہوئی۔اماں باہر خواتین کو بھی حال احوال سنا رہی تھیں ، اور ساتھ ہی آنے والے وقت کیلئے انتظامات کروا رہی تھیں ۔ چاول پکا کر بانٹے گئے لیکن ہم گھر والوں میں سے شاید کسی کے منہ میں ایک چمچ چاول بھی نہیں گئے۔
بہوؤں نے میدان خالی دیکھا تو اندر آ کے بیٹھ گئیں ۔ اسی وقت طٰہ بلال (میرا بھتیجا ۔ جنید بخاری کا بیٹا) سکول سے واپس آیا تو سیدھا ابا جی کے پاس آ گیا ۔ ابا جی نے خوش ہو کر اسے اپنے پاس بٹھا لیا ۔ یہ دیکھ کر باقی بہوؤں کو بھی اپنی اپنی اولاد یاد آ گئی ۔ ایک نے عمیر کو بلا لیا کہ دادا ابو کا حال کیوں نہیں پوچھا ۔ دوسری نے عزیر کو بلا لیا کہ آؤ ادھر دادا ابو کو دباؤ۔
ابا جی نے انتہائی تکلیف کے باوجود بھی پوتوں کو خود سے لپٹا کر پیار کیا اور ان کا حال چال پوچھا ۔ عمیر سے کہا کہ اب بھی تمہارا ابو تمہیں مارتا تو نہیں ۔؟ عزیر سے پوچھا کہ تمہارے پیپر کیسے ہو رہے ہیں ۔ یہ ان کی انتہائی محبت تھی ، ورنہ جو ان کی حالت تھی اس میں انہیں کمرے میں بھیڑ بھاڑ سے بھی بے چینی ہورہی تھی ۔ اور انہی کی اسی حالت کے پیش نظر میں اندر تو کیا باہر بھی کسی کھانسنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا ۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے پوتوں کو آخری بار خود سے لپٹا کر پیار کرتے رہے ۔
آخر میں نے بھابھیوں سے سے بھی باہر جانے کو کہا ۔ ایک تو بجلی نہیں تھی ۔ دوپہر کا وقت ، اور اس پہ ان کی روح کی بے چینی ۔ ایک بھانجے کو ان کے سرہانے کھڑا کے ہاتھ والے پنکھے سے ہوا کرنے پہ لگا دیا۔ لیکن اس کے باوجود ان کے چہرے پہ پسینہ ہی پسینہ تھا ۔ ماتھے پہ ہاتھ رکھنے سے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے برف کی سل پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔
دوبجے کے قریب مجھ سے فرمایا کہ مستری کا نمبر ملاؤ ۔ میں نے کہا کہ آپ بڑی مشکل سے بول رہے ہیں ، اس لیے فون پر شاید ٹھیک سے بات نہ کر سکیں ۔ فرمایا نہیں میں خود اس سے بات کرنا چاہتا ہوں ابھی۔ میں نے ان کے موبائل کی کنٹیکٹ لسٹ میں دیکھا مستری حاجی محمد رمضان صاحب کا نمبر نہیں ملا ۔ میں نے اس خیال سے کہ بڑے بھائی خود قبرستان میں موجود ہیں ان کا نمبر ملایا اور کہا کہ ابا جی حاجی صاحب سے بات کرنا چاہتے ہیں ۔انہوں نے کہا میں اس وقت ہوٹل سے مزدوروں کیلئے دوپہر کا کھانا لینے آیا ہوا ہوں ۔ ابھی کچھ دیر میں وہاں پہنچ کر بات کرواتا ہوں ۔ابا جی کا اصرار جاری تھا کہ ابھی بات کرائی جائے ۔ میں نے ان کی جیبی ڈائری جس پر نمبر زمحفوظ تھے حاجی صاحب کا نمبر ڈھونڈا ، مگر نہیں ملا ۔ میں نے جنید بھائی سے کہا کہ مستری کا نمبر ڈھونڈیں ، ان کے موبائل میں حاجی صاحب کا نمبر محفوظ تھا ۔ نمبر ملایا تو ابا جی نے موبائل اپنے کان سے لگانے کو کہا ۔ سلام دعا کے بعد اباجی نے کہا کہ حاجی صاحب آپ غلطی کر رہے ہیں۔ ایک قبر زنانہ ہے اور ایک مردانہ ۔ آپ درمیانی قبر(میری اماں جان کی ) کیلئے شگاف پائنتی کی جانب سے رکھیے اور دوسری قبر کا ویسے ہی ٹھیک ہے جیسے آپ نے رکھ لیا ہے ۔
(تدفین کے وقت عورت کی میت کو پائنتی کی جانب سے قبر میں اتارا جاتا ہے اور مرد کی میت کو سرہانے کی جانب سے ۔ حاجی صاحب کو معلوم نہیں تھا کہ ایک قبر اماں جان کیلئے اور ایک اباجی کی اپنی ہے ۔ اس وقت وہ قبر تعمیر کرتے کرتے شگاف کی جگہ مختص کرنے ہی والے تھے ۔ اگر ایسا ہو جاتا تو اماں جی کی قبر دوبار ہ تعمیر کرنی پڑتی ۔)۔
کچھ دیر بعد جب بڑے بھائی کھانا لے کر قبرستان پہنچے تو انہوں نے مجھے فون کیا ۔ میں نے بتایا کہ ابا جی بات کر چکے ہیں مستری صاحب سے اور جو سمجھانا تھا وہ سمجھا دیا ہے ۔وہاں بڑے بھائی اور مستری مزدور حیران یہاں میں اور دیگر حاضرین حیران۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد طبیعت پھر سے بگڑنے لگی ۔ اور اب تک صرف دائیں ٹانگ میں شدید ترین درد ہوتا تھا اب بائیں کندھے میں بھی درد شروع ہو گیا ۔ سورۃ یسین کی تلاوت صبح سے ہنوز جاری تھی ۔ ایک بھائی اور بھانجا (حافظ محمد ذیشان ) مسلسل تلاوت میں مصروف تھے ۔ جبکہ میں ادھر ادھر سے فارغ ہوتے ہی پھر کھڑے کھڑے تلاوت کرنے لگتا ۔
چچا اور آل اولاد کو نہ تو تلاوت کی توفیق ہوئی اور نہ کندھا یا ٹانگ دبانے کی ۔ وہ جیسے صرف کچر کچر باتیں کرنے اور طنزیہ جملے کسنے کیلئے بیٹھے تھے ۔ ابا جی نے منگل کے دن ہی کہہ دیا تھا کہ جب میرا وقت آئے اس فیملی میں سے تو کیا کوشش کرنا کوئی بھی موجود نہ ہو ۔ نہیں معلوم میرا وہ وقت کیسا ہو ، اور ان کی عادت ہے بعد میں نقلیں کرنے اور مذاق بنانے کی ۔
اب جب کہ تلاوت کرنے کرنے والوں کیلئے بیٹھنے کی خاطر خواہ جگہ نہ تھی ۔ چار لوگ بے چارے ایک ہی چارپائی پر دبکے بیٹھے پڑھ رہے تھے ، جبکہ یہ حضرات بائیں طرف سے اپنی سٹھیائی ہوئی بزرگی کا پھن پھیلائے تماشائی تھے ۔ ابا جی بائیں طرف کو کروٹ بدلوانے کا کہتے لیکن جلد ہی دائیں طرف بدلنے کو کہتے ۔ آخر انہوں نے ایک بازو اوپر کیا اور شہادت کی انگلی سے میری طرف اشارہ کیا ۔ میں ان کی چارپائی کی پائنتی کی طرف تھوڑا سا فاصلے پر کھڑا سورۃ یسین پڑھ رہا تھا ۔ سب نے حیرانی سے نہ سمجھنے والے انداز میں میری طرف دیکھا ۔ میں شہادت کی انگلی کے اشارے سے سمجھا کہ کلمہ پڑھنے کا کہہ رہے ہیں ۔ میں نے کہا کہ کلمہ طیبہ کا ورد شروع کیجئے ۔ لیکن ابا جی نے اس بار اسی انگلی سے ایک بار نیچے اور ایک بار میری طرف سے گھما کر اپنی دائیں طرف اشارہ کیا ۔ عطاحسین شاہ صاحب (میرے سب سے بڑے چچا زاد بھائی) نے پوچھا کہ آپ نے کیا کہا ہے ہمیں سمجھ نہیں آیا ۔لیکن ابا جی نے پھر وہی اشارہ کیا ۔ اب میں سمجھ گیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ سورۃ یسین رکھ دو اور میری بائیں طرف سے آ جاؤ ۔ میں اس وقت ابھی سورۃ کے درمیان میں تھا ، اشارہ پاتے ہی میں سورۃ میزپر رکھی اور چچا اینڈ آل اولاد سے مطلع صاف کرنے کو کہا۔ انہوں نے برا سا منہ تو بنایا لیکن مجھ سے کچھ کہنے کی ہمت نہ پڑی ۔ اسی وقت کمرے سے فریج بھی اٹھوا کر ایک اور کمرے میں رکھوا دیا ۔ اور اس کی جگہ ایک اور چارپائی رکھوا دی ۔ اب دائیں طرف سے صرف میں کھڑا تھا ۔ تین بجے کے قریب بڑے بھائی قبرستان سے گھر میں دیکھنے کیلئے آئے تو ابا جی نے ان سے پوچھا کہ"اب کتنی دیر ہے۔۔۔؟؟؟" انہوں نے کہا :۔ "سائیں ڈاٹ مریندی پئی اے" (محراب بنائی جا رہی ہے )۔ ابا جی نے کہا آپ لوگ دیر کر رہے ہیں ۔ جتنی جلدی ہو سکے اب کام نمٹانے کی کوشش کی جائے ۔ یہ تاکید کر کے انہیں دوبارہ قبرستان بھیج دیا ۔ اس کے بعد اماں جان کو بلوایا ۔ میں نے سہارا دے کر بٹھایا ۔ اماں نے کان قریب کیا ۔ بولے :۔" کفن اور متعلقات تیار ہیں ناں۔۔۔؟؟" اماں نے اثبات میں جواب دیا تو پھر پوچھا :۔ "پلیتے بنائے نی یا کوئینہ ۔۔۔۔ ہر چیز سنبھل گھن ۔ اوں ویلے تھتھوی نہ تھی ونجیں ۔"(پلیتے بنالیے گئے یا نہیں ؟ ہر چیز سنبھال لیں ، اس وقت بدحواس نہ ہو جانا)(وضاحت :۔ پلیتا دراصل کپڑے کا ایک سادہ سا دستانہ ہوتا ہے ۔ اسے ہاتھوں پر چڑھا کر میت کا استنجا وغیرہ کروایا جاتا ہے ۔ کفن تو جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ سالوں پہلے سیے جا چکے تھے ۔ لیکن پلیتے نہیں بنے تھے ۔ یہ اسی بارے استفسار کیا گیا تھا)۔
آواز آہستہ آہستہ دھیمی سے دھیمی ہوتی جا رہی تھی ۔ مجھے ٹائم کی فکر تھی کہ ان کا تو وقت بالکل قریب آ چکا ہے جبکہ میں نے تو سب کو مغرب تک کی گارنٹی دی تھی ۔ آواز آہستہ آہستہ دھیمی سے بالکل بند ہوتی گئی ۔ چار بجے کے قریب مجھ سے فرمایا کہ میری یہ ٹوپی بدلواؤ ۔ میں نے وضاحت سے پوچھا تو آہستہ سے بولے :۔" یہ اتار لو اورنئی ٹوپی لے آؤ ۔ جلدی ۔" میں باہر لپکا اور اماں سے نئی ٹوپی دینے کو کہا ۔ نئی ٹوپی لا کر پہنا دی گئی ۔ اس کے بعد اٹھا کے بٹھانے کا اشارہ کیا ۔ میں نے سب کو دروازے کے سامنے سے ہٹ جانے کا اشارہ کیا ۔ اور انہیں اٹھا کے بٹھا دیا ۔ حسب معمول ہاتھ باندھ کے سر جھا کے بیٹھ گئے ۔ اس بار معمول سے زیادہ دیر تک بیٹھے رہے ۔ چار بجے تک ان کی آواز بالکل بند ہو گئی ۔ اب میری آنکھیں ان کی کی آنکھوں پر جمی تھیں ۔ کیونکہ اب وہ آنکھ کا اشارہ ہی کرتے تھے کہ کروٹ ادھر بدلنی ہے ، ادھر بدلنی ہے یا اٹھا کے بٹھانا ہے ۔ اور یہ زندگی میں پہلی بار تھا جب خاکسار نے اپنے والد صاحب کی آنکھوں کا رنگ دیکھا ۔ پہلی بار ان کی آنکھوں میں جھانکنے کا موقع ملا ۔ اتنی مقناطیسیت تھی ، اتنی کشش تھی ۔کہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی ۔ ہلکے نیلے رنگ کی شفاف آنکھیں ، جیسے اندر تک اتری جا رہی ہوں۔ تین بجے سے پانچ بجے تک مجھے کمر سیدھی کرنے یا سر اٹھا کے ادھر ادھر دیکھنے کا ہوش نہیں تھا۔ کمر ایسا لگتا تھا کہ اکڑ گئی ہو اور اب کبھی سیدھی نہ ہو سکے گی۔ پانچ بجے تک کروٹیں بدلنے میں کمی آئی ، اور اب بالکل سیدھے لیٹے تھے ۔ میں پیروں کے بل ان کی چارپائی کی سائیڈ پر بیٹھ گیا اور ان کے ماتھے سے پسینہ پونچھا ۔ پانی کا اشارہ کیا تو میں نے آب زم زم والی بوتل اٹھا کے منہ سے لگا ئی اور اتنا پانی اندر گیا کہ صرف حلق ہی تر ہوا ہوگا۔ دوسری طرف سرہانے حافظ محمد ذیشان سورۃ یسین کی تلاوت کر رہا تھا ۔ اس کی طرف دیکھا اور ہاتھ اٹھا کے لکیر کھینچنے کی طرح کا اشارہ کیا ۔ اسے سمجھ نہ آئی تو انگلی اٹھا کہ پہلے ہوا میں علامتی مد بنائی اور پھر اسی انگلی کے اشارے سے سیدھا کھینچنے جیسا اشارہ کیا ۔ وہ دراصل ایک مد کو کھینچنا بھول گیا تھا ۔ اس کی درستگی کی کہ درست طور پر مد کو کھینچ کے پڑھو۔(خو د قرآن مجید کے حافظ نہیں تھے لیکن ساری زندگی قرآن مجید پڑھتے اور پڑھاتے گزری ۔ ہم سب بھائی بھی انہی کے شاگرد ہیں۔ اور ہمارے علاوہ کم و بیش دو سو ان کے شاگرد اسے قرآن مجید ناظرہ پڑھ چکے ہیں۔ منزل اس قدر پختہ تھی کہ اچھے اچھے حفاظ کی بھی غلطیاں پکڑ لیتے تھے ۔ تراویح میں بہت کم حافظ ان کے سامنے پڑھنے کی جرات کر پاتے تھے )۔
آہستہ آہستہ یہ ہاتھوں کی حرکت بھی تھمتی گئی ۔ سواپانچ بجے کے قریب ان کے ہونٹ ہلے ۔ میں نے جھک کر کان قریب کیے تو انتہائی مدہم سی آواز آئی :۔"کلمے"۔۔۔۔
میں نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا ۔ آہستہ آہستہ ۔۔۔۔ لاالہ ۔۔۔ الا اللہ ۔۔۔ محمد الرسول اللہ ۔۔۔۔ ان کے ہونٹ میرے بعد ویسے ہی ہلتے گئے ۔جب میں اسم مبارک "محمد " پڑھتا تو ابا جی دونوں ہاتھ اٹھا کے انگوٹھے چومنے کی کوشش کرتے ، کانپتے ہاتھ بمشکل ہونتوں تک لا پاتے ، میں نے ان کے ہاتھ جوڑ کر انگوٹھے دونوں ہاتھوں سے تھام لیے اور جب ہم دونوں اسم مبارک "محمد " پڑھتے تو میں ان کو ہاتھ ہونٹوں تک لے جا کر چومنے اور پھر آنکھوں پر پھیر نے میں مدد دیتا رہا ۔چند منٹ تک کلمہ طیبہ کا ورد کرنے کے بعد میں نے دوسرا کلمہ پڑھنا شروع کیا ۔ وہ بھی میرے ساتھ ساتھ پڑھتے گئے ۔ اسی طرح بالترتیب چھ کلمے اور پھر ایمانیات میں نے پڑھے اور وہ ساتھ ساتھ دہراتے گئے ۔
اس دوران کلمے پڑھے جانے آواز سن کر باہر بھی ہلچل سی مچ گئی ۔ اور چچا جان اپنی آل اولاد کے ساتھ اور ان کے علاوہ میرے ماموں سید بشیر احمد شاہ بخاری اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ اندر داخل ہوئے ۔ اس کے بعد جونہی یہ خبر پھیلی تو رشتے داروں کی آمد شروع ہو گئی ۔ بہاولپور سے خالہ اپنے بیٹے کے ساتھ اور ملتان والی خالہ خالو بھی مغرب سے پہلے پہلے پہنچ آئے ۔کلموں کا ورد مسلسل جاری تھا ۔ مجھے کلمے پڑھتا دیکھ کر تایا جی جی نے ایسی نظروں سے مجھے دیکھا جیسے انہیں میری دماغی توازن پر شک ہو ۔ ماموں جی آتے ہی دوسروں کو سورۃ یسین پڑھتا دیکھ کرخود بھی پڑھنے بیٹھ گئے ۔ کچھ دیر بعد ان کے موبائل کی رنگ ٹون بجی ۔ قصیدہ بردہ شریف پڑھا جا رہا تھا ۔ ابا جی سن کراتنے مزے سے جھومنے لگے کہ ماموں جی کال اٹینڈ ہی نہیں کی اور بیل بجنے دی ۔ اس کے بعد میں نے کلمے پڑھنا روک کر ذیشان کو کہا کہ ابا جی کو نعت شریف سناؤ ۔ ذیشان نے نعت شریف پڑھنا شروع کر دی۔ ابا جی کی آنکھوں کے دونوں گوشے بھیگے اور دونوں طر ف سے ایک ایک آنسو یاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لڑھک گیا۔
چھ سے سات بجے کے دوران مجھے کوئی ہوش نہیں تھا ۔ میں چاہ کر بھی اپنی آنکھیں ان کی آنکھوں سے ہٹا نہیں پا رہا تھا ۔ اس ایک گھنٹے کے دوران مجھے نہیں معلوم کون اندر آیا کون باہر گیا ۔ میں بس ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بلند آواز میں کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت کا مسلسل ورد کیے جا رہا تھا ۔ حاضرین بھی آہستہ آہستہ شامل ہوتے گئے ۔ اور پورا کمرہ کلمہ طیبہ سے گونجنے لگا ۔ مغرب کی نماز ادا کر کے اماں جان بھی آ گئیں اور ان کے بائیں طرف چارپائی پر بیٹھ گئیں ۔ دائیں طرف جنید حسنین بخاری اور دائیں طرف سرہانے سے ہماری محترم بہنا (مومنہ کی امی )ان کا ہاتھ پکڑ کے بیٹھ گئیں ۔ اماں جان والی سائیڈ پر ابا جی کے سرہانے میں بیٹھا تھا ۔ کلمہ طیبہ کا ورد جاری تھا کہ بڑے بھائی بھی قبرستان سے کام ختم کر کے لوٹ آئے ۔ ابھی تک انہوں نے ہاتھ منہ بھی نہیں دھوئے تھے ، سیدھا ادھر ہی آ گئے ۔
اباجی نے ایک نظر ہم سب کی طرف دیکھا ۔ ایک ہچکی آئی ۔ جسم نے ایک ہلکا سا جھٹکا کھایا ۔ اور آنکھیں سیدھا آسمان کی جانب دیکھنے لگیں۔ تایا جی لپک کرسرہانے آئے اور آتے ہی کمرے میں موجود خواتین (صرف میری بہن اور اماں جان ہی تھیں) کو باہر جانے کو کہا ۔ (اس کی ایک مجہول سی وجہ انہوں نے یہ گھڑ رکھی تھی کہ عورتوں کی موجودگی میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے )۔ آپا جی نے باہر جانے سے سختی سے انکار کر دیا ۔میرا بھی پارہ ہائی ہو گیا۔ اب کی بار تایا صاحب نے بازو آگے کر کے سختی سے کچھ کہنا ہی چاہا کہ میں نے ان کا آگے بڑھا ہوا بازو نہایت سختی سے پکڑ لیا ۔ اور ایک زور دار جھٹکے سے دور دھکیل دیا۔ تایا جی نے ایک کھا جانے والی نظر سے مجھے گھورا اور خفت مٹانے کو ابا کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ میرا دماغ مسلسل دو دن دو راتوں سے جاگتے اور 4 گھنٹے مسلسل ایک ہی پوزیشن کھڑے رہ رہ کر گھوماہوا تھا اب بالکل ہی پھر گیا۔ اول تو ابھی روح قبض نہیں ہوئی تھی ۔ دوم یہ کہ جب آنکھ کا تار بندھا ہو تو اس وقت روح کو اس کا مقام دکھایا جاتا ہے ۔ اور یہ حضرت اپنی بدحواس بزرگی کے زعم میں جہالت کا مظاہرہ فرما رہے تھے۔ سوم یہ کہ ہاتھ میں تسبیح بھی تھام رکھی تھی ۔ جو کہ ابا جی آنکھوں میں چبھی ہوگی ۔ میں نے ہاتھ پکڑ کر جھٹکا اور انتہائی ضبط سے دانت پیس کرصرف اتنا کہا:۔ "ساری زندگی کی منافقت سے دل نہیں بھرا ؟ اب کیا مارنے کی بھی آپ کو جلدی ہے ۔" تایا جی جن کی بدزبانی مشہور ہے ، اور ان کی عمر کی وجہ سے بھی کوئی ان کے سامنے نہیں بولتا ۔ لیکن کم مشہور میں بھی نہیں تھا ۔ اس لیے میرے سامنے ان کی زبان تو نہ ہل سکی ۔ البتہ منہ بنا کر باہر کو چل دئیے ۔
پیچھے سے ماموں اور خالو کی آوازیں آئیں انہیں روکنے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔ میں نے بلند آواز سے کہا اب اگر یہ شخص میرے سامنے اپنی بزرگی دکھانے آیا تو اس کے ساتھ ساتھ اس کے ہمدردوں کی بھی عزت کی دھجیاں بکھیر دوں گا۔ سب کو سانپ سونگھ گیا۔میری موجودگی میں کسی کو قریب آنے کی ہمت نہ ہوئی ۔ اماں نے کہا کہ چہرہ قبلہ رخ کر دو۔ میں نے ابا جی کا چہرہ قبلہ رخ کر دیا ۔ اور کلمہ طیبہ کا ورد جاری ہو گیا ۔ سب پڑھنے لگے ۔ اتنی دیر میں ایک اور ہچکی آئی ۔ ہونٹ ہلے ۔ الا اللہ ۔۔۔۔۔آخری سانس نکلا۔ اور آنکھیں بے نور گئیں ۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
اب ایک پٹی دی گئی کہ ابا جی کا منہ باندھ دیں ۔ اماں نے ماموں سے کہا ، لیکن تازہ ترین واقعہ کے پیش نظر انہوں نے کہا پہلے اویس کو سرہانے سے ہٹا لیں ۔ اماں نے مجھے کہا بیٹا آپ پائنتی کی طرف ہو جاؤ ، اور اب تجربہ کار لوگوں کا کام ہے ۔ میں کلمہ پڑھتے ہوئے ہٹ گیا ۔اور ماموں نے آگے بڑھ کر سر اور منہ پر پٹی باندھ دی ۔ اس دوران بلند آواز سے کلمہ شہادت کا ورد جاری رہا ۔
(جاری ہے)
ذیشان نے نعت شریف پڑھنا شروع کر دی۔ ابا جی کی آنکھوں کے دونوں گوشے بھیگے اور دونوں طر ف سے ایک ایک آنسو یاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لڑھک گیا۔
چھ سے سات بجے کے دوران مجھے کوئی ہوش نہیں تھا ۔ میں چاہ کر بھی اپنی آنکھیں ان کی آنکھوں سے ہٹا نہیں پا رہا تھا
انا للہ و انا الیہ راجعون
خوگرِ پرواز کو پرواز میں ڈر کچھ نہیں
موت اس گلشن میں جز سنجیدنِ پر کچھ نہیں
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے !
سبزہء نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
جزاکم اللہ
لا الہ دی پھیر بہاری الا اللہ گھر آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجیب انداز بیان ہے ایک لمحے کے لئے بھی خیال ادھر اُدھر نہیں گیا،،،،، مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میں بھی وہاں آپ کے پاس موجود ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
اللہ حضرت شاہ صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین
شکرا یا ھبیبی
ملک صاحب داد اور تبصرے کیلئے فدوی ممنون و مشکور ہے
جزاک اللہ