Pak Urdu Installer

Saturday 8 June 2013

سی پی سی (قسط 1) ۔

5 آرا

جمعہ کا  دن  ویسے  تو  ہمیشہ آیا کرتا  تھا ۔ مگر  گزشتہ  جمعہ  کا دن  جو آیا تو بہت  کچھ  ساتھ لایا۔  اور  جب گزرا  تو اتنی  یادوں کا ذخیرہ  سونپ کے گزرا  کہ  جی جانتا ہے۔

زیادہ  سسپنس  پھیلانا مناسب نہیں۔  سیدھی سی بات ہے  کہ  
جون  کا  مہینہ  اور اس کی گرمی  ہمیشہ کی طرح عروج پر تھی ۔  جب  عین سہ پہر  کے وقت کچھ سر پھروں کے  جی میں سمایا کہ بہاولپور  چلتے ہیں۔
اندازہ  قارئین خود فرما لیں کہ  جنوبی پنجاب  اور جون کی گرمی  اور پھر  سہ پہر کا وقت ۔ جب گرمی اپنے  عروج پر  ہوتی ہے ۔
کیا خوب فرمایا ہے میرؔ صاحب نے بھی :۔ 
حوصلہ مند چٹانوں  کو بھی ریزہ ریزہ  کر دیں
شوقِ منزل میں رکاوٹ  نہیں دیکھا کرتے
موج در موج بنا لیتے ہیں ساحل
چل پڑیں  میر ؔ تو مسافت نہیں دیکھا کرتے 
  میرؔ  تقی میر  میں اگر دو سو  سال پہلے اتنا حوصلہ  تھا  تو پھر  اس  ٹیکنالوجی کے زمانے میں ہم بھلا کیوں گرمی کے سامنے ہتھیار ڈالتے ۔  جبکہ میرؔ کے مقابلے میں ہمارے پاس  موٹر سائیکل  سواری  کیلئے  موجود  تھا ۔ بس کک لگانے کی دیر  تھی ۔
یاسر  میاں نے  ہیلمٹ  پہن کر  کک  لگائی اور  فدوی کو  مسافر  سیٹ  پر  بٹھائے  ہوا سے باتیں کرنے لگے ۔ مجھے ہوا  کی زبان  سمجھ نہیں آتی  ورنہ  ضرور  بتاتا کہ کیا باتیں کر رہے تھے ۔ قصہ کوتاہ ڈرائیور  بدلی  کے ایک  چھوٹے سے بے ضرر واقعہ  کے باوجود  آخر کار یہ  چھوٹا سا چار رکنی قافلہ  بہاولپور  پہنچ گیا۔
لکھنؤ  آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی
ہوسِ سیر و تماشا ، سو وہ کم ہے ہم کو 
شبیر  صاحب  کی رہنمائی  میں  سی پی سی  کے  دفتر  میں دندناتے  ہوئے گھس گئے ۔
لو  کے تھپیڑے  کھاتے کھاتے  دماغ کچھ کھسک گیا تھا  اس لیے مناسب یہی  جانا  کہ  پہلے ہاتھ منہ دھو کر  بھوتوں کے حلیے سے انسانی  حلیے  میں آ جانا چاہیے۔
جب ذرا دماغ  ٹھکانے آیا تو معلوم ہوا  ایک  بہت ہی  پر کشش  اور دلآویز  شخصیت کہ  دنیا انہیں ساجد سلیم  کے نام سے جانتی  ہے ، نہایت تپاک سے ہمیں  گلے مل رہے  ہیں۔  اللہ  انہیں  جزا دے  کہ  صرف معانقے  اور خالی خولی  رسمی قسم  کی  مزاج پرسی پر  ہی نہ ٹرخایا  بلکہ  سرائیکی  وسیب کی پہچان  پرخلوص مہمان نوازی  کے طور پر  سیب کا  جوس  بھی  پلایا ۔  شاید  کوئی سمجھے کہ سیب کا جوس  حلال کر رہا ہے ۔  واللہ  ایسی کوئی  بات نہیں۔
پھر  بھی اگر کسی  صاحب کو شک ہو تو انہیں دعوت ہے کہ  خود تشریف لا کر  معائنہ  فرما لیں  میرے بیان  میں کہاں  تک صداقت ہے  اور کہاں  تک گپ  ہے ۔بقول مرزا  غالب :۔ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کیلئے 
تعارف  کے بعد جب  ساجد  صاحب کی پٹاری  کھلی تو معلوم پڑا کہ   ستاروں  سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔  سبحان اللہ ۔۔۔۔۔۔ صرف شخصیت ہی متاثر کن نہیں بلکہ  ان کا کام  اور ان کا ویژن بھی سراہے جانے کے لائق ہے ۔ حیرت  بھی ہوئی  کہ  یا اللہ  یہ کون لوگ ہیں جو عین قیامت کے نزدیک اس نفسا نفسی  اور  آپ تڑاپی  کے  زمانے  میں خدمتِ  خلق  اور فلاح ِ انسانیت  کیلئے  مصروفِ کار ہیں۔
یقین  تو اس لیے کرنا پڑا کہ میں سن نہیں بلکہ خود اپنی  آنکھوں سے دیکھ رہا  تھا ۔ آج جبکہ  این جی اوز  کی  وبا پھیلی ہے ، جس کو ایک میز  اور دو کرسیاں  میسر  آتی ہیں وہ  ایک این جی  او کی دوکان سجائے  بیٹھا ہے ۔ دعوے ہی دعوے  ہیں۔ کچھ کے ہاں خواتین کے حقوق کے نام  پر صرف  پراپیگنڈہ  ہی پراپیگنڈہ  ہے ۔  ایسے میں این جی  او کا  نام لینا  کوئی  چونکانے والی بات نہیں۔ لیکن چونکانے  والی بات تو ہے ۔۔۔۔۔
جی ہاں ۔۔۔۔۔!!!  ان  کے ہاں  دعوے  نہیں کارنامے ہیں۔ یہ باتوں  سے  کسی کا دل نہیں بہلاتے نہ اعدادو شمار  سے شیخ چلیوں کا پیٹ بھرتے ہیں۔
وطنِ عزیز کا  اور بالخصوص  جنوبی پنجاب یعنی  سرائیکی  وسیب کا  سب سے بڑا مسئلہ  بے روزگاری  ہے ۔ اور بے روزگاری کی ماں  ناخواندگی ہے ۔  لیکن یہ بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ خالی خولی  خواندگی  بھی تو روزگار نہیں دیتی۔۔۔۔ میرے جیسے کتنے ہی  بے چارے اسناد  اور سرٹیفکیٹس کا  پلندہ اٹھائے پھرتے ہیں۔
پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی  پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی  گئی 
اس  مایوسی  کے عالم  میں سی پی  سی نے ایک امید کا چراغ  جلایا ہے ۔  اپنی مدد آپ کے تحت تعلیم اور  روزگار  دینے  کا ایک شاندار  منصوبہ لے کر میدان  میں اترے ہیں۔ یہ نہ تو آپ کو روزگار  کے  خواب دکھاتے  ہیں، نہ  ہی  تعلیم  کے نام  پر آپ کی جیبیں خالی کرتے  ہیں۔  نہ  ہی چندے اور  زکوٰۃ  کے پیسے  سے  آپ  کو برائے  نام تعلیم دے کر آپ کی  خودی  کو مجروح کرتے ہیں۔
خواجہ غلام  فرید رحمۃ اللہ علیہ کا شعر  حسبِ حال ہے :۔
 اپنی  نگری آپ وسا توں ۔۔۔۔  پٹ  انگریزی  تھانے "
 کے تحت یہ  ایک اپنی  مدد آپ  کے تحت  چلنے  والا ایک  خوبصورت پروگرام ہے ۔ جس میں انتہائی  مناسب بلکہ میں تو کہوں گا کہ  برائے نام  فیس  لے کر  آپ کو ہنر مندی  کی تعلیم  دیتے ہیں۔  پھر  تعلیم دینے کے بعد  یہ  آپ کو خدا حافظ نہیں کہتے بلکہ  یہ آپ کیلئے ایک  پلیٹ  فارم مہیا کرتے ہیں۔ ہنر مند وں کیلئے مواقع  ڈھونڈتے ہیں ، اور جیسی جس کی صلاحیت  اسے  ویسا  ہی موقع  دلانے میں مدد کرتے ہیں۔ 
سب سے زیادہ  مزے کی بات یہ کہ آپ کی دی ہوئی فیس  کے نام پر ادا کی گئی  رقم آپ کو  بہانے  بہانے  سے لوٹا دیتے ہیں۔ کبھی  دو ہزار  روپے  وظیفہ کے طور پر  کبھی موبائل  فون  کی صورت میں تحفے  کے  طور پر ،  اور اگر  آپ کی کارکردگی  بہترین  ہے تو سی پی سی اپنے وعدے  کے مطابق  نہ صرف آپ کو  لیپ ٹاپ ، موٹر بائک دے  گی  ، بلکہ  ایک  عدد  کار کی چابی  بھی آپ کے حوالے  کرے گی ۔

کیا آپ اب  بھی سوچ رہے ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟
رہنے دیں  جناب ۔۔۔۔۔ سوچی پیا تے بندہ گیا۔۔۔۔۔           
     

5 آرا:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آپ کی قیمتی آرا کا منتظر
فدوی چھوٹا غالب

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

کرم فرما