مجلسِ نبوی میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہ الکریم ، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام اور اکابر حاضر ہیں ۔ چشم ِ فلک نے نہ تو کبھی ایسا میر ِ مجلس دیکھا نہ ایسے پاکیزہ و مقدس شرکاء ِ مجلس ۔
اس مجلس میں ایک انصاری نوجوان داخل ہوا اور سلام کرکے ایک گوشے میں بیٹھ گیا ۔ اور تھوڑی دیر بعد سوال کیا :۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖ وسلم سب سے بہتر مسلمان کون ہے ۔؟ارشاد ہوا :۔ جس کے اخلاق بہتر ہوں۔عرض کیا:۔ سب سے زیادہ دانشمند اور ذہین کون ہے ۔؟حضور صلی اللہ علیہ وآلہ ٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔ سب سے زیادہ سمجھدار وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ موت کو یاد کرنے والا اور موت کی تیاری کرنے والا ہو ۔
حضورصلی اللہ علیہ وآلہ ٖ وسلم کا جواب سن کر انصاری نوجوان خاموش ہو گیا ۔
اور یہ تذکرہ بھی اللہ کے پسندیدہ بندوں اور بہترین مسلمانوں میں سے ایک ، اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ارشاد مبارک کے مطابق سب سے سمجھدار اور ذہین شخصیت کاہے۔ سنی سنائی باتوں کی بجائے فدوی صرف وہی لکھے گا جن کا عینی شاہد ہے۔
خانوادہ ءِ سادات کے بنیادی طوردو رنگ ہیں۔ جمالی اور جلالی ۔حسنی سادات کرام میں جمالی رنگ غالب ہے اور حسینی سادات کرام میں جلالی رنگ غالب ہے۔لیکن سادات کا بخاری خاندان جلال و جمال منفرد امتزاج ہے۔ بخاریوں میں جلال و جمال یکجا ہیں۔ پانی کو آگ لگنا ناممکن سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن کسی کو یہ عجوبہ روزگار نظارہ دیکھنا ہو تو بخاری خاندان کی اس شاخ کا کوئی بھی سید دیکھ لے ، تسلی ہو جائے گی ۔
جنوری 1943 کو فخر الحکماء سید شرف حسین بخاری کے گھر پیدا ہونے والے تیسرے اور سب سے چھوٹے بیٹے کا نام سید ممتاز حسین بخاری رکھا گیا۔ ہمہ خانہ آفتاب تھا ، ایک سے بڑھ کر ایک فقیر ، بزرگ اس خاندان کا نام روشن کر چکے تھے ۔ نانا سید شاہ خدا بخش شاہ بخاری پیدائشی مجذوب تھے ۔ دادا جان حضرت عبدالقادر شاہ بخاری دیوار چلانے والے بزرگ کے نام سے مشہور تھے ۔ والد محترم حضرت حکیم سید شرف حسین بخاری اور سسر ِ محترم حضرت سید باغ علی شاہ بخاری (سوم)کسی تعارف کے محتاج نہیں۔13 مارچ 2014 کو 3 بجے سہ پہر جنازہ میں جم ِ غفیر یہ ثابت کرنے کیلئے کافی تھا کہ موصوف کا حسنِ اخلاق کس درجے کا تھا۔ اور باقی رہی ان کی ذہانت اور سمجھداری ۔۔۔۔۔تو اپنی وفات سے تقریباً سات یا آٹھ سال پہلے اپنی اور اپنی زوجہ محترمہ کی قبر کی تعمیر کیلئے اینٹیں اپنی ذاتی ملکیتی زمین سے بنوا کے رکھ دی تھیں۔ اپنا اور اپنی بیگم صاحبہ کا کفن سی کر درود تاج اور آیت الکرسی لکھ کر کعبۃ اللہ کا طواف کرنے اور آبِ زم زم سے بھگونے کیلئے وفات سے کئی سالوں پہلے ہی بھیج دیا تھا۔
خاندان میں ہونے والی تقریباً 90 ٪ تجہیز و تکفین اور قبر کی تعمیر اور میت کو قبر میں اتارنے کے سلسلے میں آپ کا ہونا سب کے اطمینان کا باعث تھا۔ قبر اپنی نگرانی میں کھدواتے اور تعمیر کرواتے تھے ۔اپنی قبر بھی اپنی نگرانی میں کروانے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ لیکن پے در پے بیماریوں نے سنبھلنے کی مہلت نہ تھی ۔ دو بار ہرنیا کا آپریشن پہلے بھی ہو چکا تھا ۔ اس کے بعد سال 2013 کے آخر میں تیسری بار پھر ہرنیا کا آپریشن ہوا۔ آپریشن کے بعد ابھی طبیعت سنبھلی نہ تھی کہ بخار نے گھیر لیا ۔ اور پھر صحت مسلسل گرتی ہی چلی گئی ۔ یوں ان کا اپنی قبر تعمیر کروانے کا ارادہ ملتوی ہوتا رہا۔ اس کے علاوہ عمرے کی شدید ترین خواہش میں پاسپورٹ بھی بنوا لیا اور عین تیسرے آپریشن سے کچھ دن پہلے عمرہ کیلئے اپلائی بھی کرنے والے تھے ۔
زبردستی انہیں چیک اپ کیلئے بہاول وکٹوریہ ہسپتال لے جایا گیا تو انکشاف ہوا کہ جگر کا کینسر اپنی انتہائی آخری سٹیج پر ہے اور پھٹنے کے بالکل قریب ہے ۔ صرف ایک یا دو دن۔۔۔۔
لیکن یہاں علامہ اقبال والا فارمولا لاگو ہوا تو میڈیکل سائنس منہ تکتی رہ گئی ۔خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلےخدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہےہم سب نے اپنے تئیں ان سے یہ بات چھپائی ہوئی تھی ۔ لیکن عین وفات والے دن(وفات سے 6 گھنٹے پہلے) کسی قابل اعتماد گواہ کے بیان کے مطابق وہ نہ صرف اپنی وفات کے دن بلکہ اپنے جنازے کے امام کی پیش گوئی بھی کر چکے تھے۔
جگر بالکل ختم ہو گیا ، دوران ِ خون نہ ہونے کے برابر تھا۔ معدہ کوئی بھی چیز قبول کرنے سے مکمل انکاری تھا۔ ایک مالٹے یا ایک امرود سے گھٹتے گھٹتے خوراک انار کے چند قطرے جوس تک آ پہنچی ۔ اور وفات سے تین دن پہلے وہ بھی بند ہو گئی۔ حتیٰ کہ انہیں پینے کیلئے عام پانی کی جگہ جو آب زم زم کے چند گھونٹ پلائے جاتے تھے ، وہ بھی بوجھل کرنے لگے۔تکلیف کا اندازہ تو کینسر کے مریض ہی لگا سکتے ہیں۔ یہ حالت تھی کہ لیٹے لیٹے تھک جاتے تو چند سیکنڈ بیٹھنا بھی دائیں ٹانگ میں شدید ترین درد کا باعث بن جاتا تھا۔لیکن ایک کمال یہ دیکھا کہ آخری وقت تک انہوں نے کسی کا سہارا لینا گوارا نہیں کیا۔تین تین گھبرو جوان بیٹے سامنے ہیں۔ مگر انہیں اتنا بھی گوارہ نہ تھا کہ ہم میں سے کوئی اٹھا کر صحن میں لٹا دے۔ نہ ہی انہیں یہ پسند تھا کہ چلتے وقت انہیں پکڑ کر سہارا دے کر چلایا جائے ۔ زیادہ سے زیادہ کسی بیٹے کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے چلنا پسند کرتے تھے ۔
وفات سے پہلے جمعہ کے دن جب انہیں زندگی کا آخری غسل کروایا گیا ۔ تو اس دن میرے چچا زاد بھائی سید ضمیر حسین شاہ صاحب اپنے اہل خانہ کے ساتھ عیادت کو آئے ہوئے تھے ۔ غسل کیلئے پانی کا انتظام کر کے صحن میں چارپائے بچھا کے میں نے اطلاع دی کہ غسل کے لوازمات تیار ہیں۔ اب بس آپ کا انتظار ہے ۔ ضمیر بھائی نے کہا اس حالت میں وہ کیسے چلیں گے ۔ انہیں اٹھا کے وہاں تک لے چلیں ۔ مگر ابا جی نے سختی سے منع کر دیا۔ ضمیر بھائی حیرت سے گنگ ، جب اٹھ کر بیٹھنے لگے تو کمزوری کو دیکھ کر ضمیر بھائی نے سہارا دینا چاہا لیکن ابا جی نے روک دیا۔ ضمیر بھائی مزید حیران۔۔۔۔۔ پھر سب نے دیکھا کہ وہ کوشش کر کے خود اٹھ بیٹھے اور پھر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کے چلتے ہوئے صحن میں بچھی چارپائی تک آئے اور لیٹ گئے ۔ اماں نے قمیض اتارنے میں مدد دی ۔ میں نے کہا کہ ننگی چارپائی چبھے گی نیچے تولیہ بچھا دیتا ہوں مگر روک دیا۔
(جاری ہے)
اس مجلس میں ایک انصاری نوجوان داخل ہوا اور سلام کرکے ایک گوشے میں بیٹھ گیا ۔ اور تھوڑی دیر بعد سوال کیا :۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖ وسلم سب سے بہتر مسلمان کون ہے ۔؟ارشاد ہوا :۔ جس کے اخلاق بہتر ہوں۔عرض کیا:۔ سب سے زیادہ دانشمند اور ذہین کون ہے ۔؟حضور صلی اللہ علیہ وآلہ ٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔ سب سے زیادہ سمجھدار وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ موت کو یاد کرنے والا اور موت کی تیاری کرنے والا ہو ۔
حضورصلی اللہ علیہ وآلہ ٖ وسلم کا جواب سن کر انصاری نوجوان خاموش ہو گیا ۔
اور یہ تذکرہ بھی اللہ کے پسندیدہ بندوں اور بہترین مسلمانوں میں سے ایک ، اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ارشاد مبارک کے مطابق سب سے سمجھدار اور ذہین شخصیت کاہے۔ سنی سنائی باتوں کی بجائے فدوی صرف وہی لکھے گا جن کا عینی شاہد ہے۔
خانوادہ ءِ سادات کے بنیادی طوردو رنگ ہیں۔ جمالی اور جلالی ۔حسنی سادات کرام میں جمالی رنگ غالب ہے اور حسینی سادات کرام میں جلالی رنگ غالب ہے۔لیکن سادات کا بخاری خاندان جلال و جمال منفرد امتزاج ہے۔ بخاریوں میں جلال و جمال یکجا ہیں۔ پانی کو آگ لگنا ناممکن سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن کسی کو یہ عجوبہ روزگار نظارہ دیکھنا ہو تو بخاری خاندان کی اس شاخ کا کوئی بھی سید دیکھ لے ، تسلی ہو جائے گی ۔
جنوری 1943 کو فخر الحکماء سید شرف حسین بخاری کے گھر پیدا ہونے والے تیسرے اور سب سے چھوٹے بیٹے کا نام سید ممتاز حسین بخاری رکھا گیا۔ ہمہ خانہ آفتاب تھا ، ایک سے بڑھ کر ایک فقیر ، بزرگ اس خاندان کا نام روشن کر چکے تھے ۔ نانا سید شاہ خدا بخش شاہ بخاری پیدائشی مجذوب تھے ۔ دادا جان حضرت عبدالقادر شاہ بخاری دیوار چلانے والے بزرگ کے نام سے مشہور تھے ۔ والد محترم حضرت حکیم سید شرف حسین بخاری اور سسر ِ محترم حضرت سید باغ علی شاہ بخاری (سوم)کسی تعارف کے محتاج نہیں۔13 مارچ 2014 کو 3 بجے سہ پہر جنازہ میں جم ِ غفیر یہ ثابت کرنے کیلئے کافی تھا کہ موصوف کا حسنِ اخلاق کس درجے کا تھا۔ اور باقی رہی ان کی ذہانت اور سمجھداری ۔۔۔۔۔تو اپنی وفات سے تقریباً سات یا آٹھ سال پہلے اپنی اور اپنی زوجہ محترمہ کی قبر کی تعمیر کیلئے اینٹیں اپنی ذاتی ملکیتی زمین سے بنوا کے رکھ دی تھیں۔ اپنا اور اپنی بیگم صاحبہ کا کفن سی کر درود تاج اور آیت الکرسی لکھ کر کعبۃ اللہ کا طواف کرنے اور آبِ زم زم سے بھگونے کیلئے وفات سے کئی سالوں پہلے ہی بھیج دیا تھا۔
خاندان میں ہونے والی تقریباً 90 ٪ تجہیز و تکفین اور قبر کی تعمیر اور میت کو قبر میں اتارنے کے سلسلے میں آپ کا ہونا سب کے اطمینان کا باعث تھا۔ قبر اپنی نگرانی میں کھدواتے اور تعمیر کرواتے تھے ۔اپنی قبر بھی اپنی نگرانی میں کروانے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ لیکن پے در پے بیماریوں نے سنبھلنے کی مہلت نہ تھی ۔ دو بار ہرنیا کا آپریشن پہلے بھی ہو چکا تھا ۔ اس کے بعد سال 2013 کے آخر میں تیسری بار پھر ہرنیا کا آپریشن ہوا۔ آپریشن کے بعد ابھی طبیعت سنبھلی نہ تھی کہ بخار نے گھیر لیا ۔ اور پھر صحت مسلسل گرتی ہی چلی گئی ۔ یوں ان کا اپنی قبر تعمیر کروانے کا ارادہ ملتوی ہوتا رہا۔ اس کے علاوہ عمرے کی شدید ترین خواہش میں پاسپورٹ بھی بنوا لیا اور عین تیسرے آپریشن سے کچھ دن پہلے عمرہ کیلئے اپلائی بھی کرنے والے تھے ۔
زبردستی انہیں چیک اپ کیلئے بہاول وکٹوریہ ہسپتال لے جایا گیا تو انکشاف ہوا کہ جگر کا کینسر اپنی انتہائی آخری سٹیج پر ہے اور پھٹنے کے بالکل قریب ہے ۔ صرف ایک یا دو دن۔۔۔۔
لیکن یہاں علامہ اقبال والا فارمولا لاگو ہوا تو میڈیکل سائنس منہ تکتی رہ گئی ۔خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلےخدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہےہم سب نے اپنے تئیں ان سے یہ بات چھپائی ہوئی تھی ۔ لیکن عین وفات والے دن(وفات سے 6 گھنٹے پہلے) کسی قابل اعتماد گواہ کے بیان کے مطابق وہ نہ صرف اپنی وفات کے دن بلکہ اپنے جنازے کے امام کی پیش گوئی بھی کر چکے تھے۔
جگر بالکل ختم ہو گیا ، دوران ِ خون نہ ہونے کے برابر تھا۔ معدہ کوئی بھی چیز قبول کرنے سے مکمل انکاری تھا۔ ایک مالٹے یا ایک امرود سے گھٹتے گھٹتے خوراک انار کے چند قطرے جوس تک آ پہنچی ۔ اور وفات سے تین دن پہلے وہ بھی بند ہو گئی۔ حتیٰ کہ انہیں پینے کیلئے عام پانی کی جگہ جو آب زم زم کے چند گھونٹ پلائے جاتے تھے ، وہ بھی بوجھل کرنے لگے۔تکلیف کا اندازہ تو کینسر کے مریض ہی لگا سکتے ہیں۔ یہ حالت تھی کہ لیٹے لیٹے تھک جاتے تو چند سیکنڈ بیٹھنا بھی دائیں ٹانگ میں شدید ترین درد کا باعث بن جاتا تھا۔لیکن ایک کمال یہ دیکھا کہ آخری وقت تک انہوں نے کسی کا سہارا لینا گوارا نہیں کیا۔تین تین گھبرو جوان بیٹے سامنے ہیں۔ مگر انہیں اتنا بھی گوارہ نہ تھا کہ ہم میں سے کوئی اٹھا کر صحن میں لٹا دے۔ نہ ہی انہیں یہ پسند تھا کہ چلتے وقت انہیں پکڑ کر سہارا دے کر چلایا جائے ۔ زیادہ سے زیادہ کسی بیٹے کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے چلنا پسند کرتے تھے ۔
وفات سے پہلے جمعہ کے دن جب انہیں زندگی کا آخری غسل کروایا گیا ۔ تو اس دن میرے چچا زاد بھائی سید ضمیر حسین شاہ صاحب اپنے اہل خانہ کے ساتھ عیادت کو آئے ہوئے تھے ۔ غسل کیلئے پانی کا انتظام کر کے صحن میں چارپائے بچھا کے میں نے اطلاع دی کہ غسل کے لوازمات تیار ہیں۔ اب بس آپ کا انتظار ہے ۔ ضمیر بھائی نے کہا اس حالت میں وہ کیسے چلیں گے ۔ انہیں اٹھا کے وہاں تک لے چلیں ۔ مگر ابا جی نے سختی سے منع کر دیا۔ ضمیر بھائی حیرت سے گنگ ، جب اٹھ کر بیٹھنے لگے تو کمزوری کو دیکھ کر ضمیر بھائی نے سہارا دینا چاہا لیکن ابا جی نے روک دیا۔ ضمیر بھائی مزید حیران۔۔۔۔۔ پھر سب نے دیکھا کہ وہ کوشش کر کے خود اٹھ بیٹھے اور پھر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کے چلتے ہوئے صحن میں بچھی چارپائی تک آئے اور لیٹ گئے ۔ اماں نے قمیض اتارنے میں مدد دی ۔ میں نے کہا کہ ننگی چارپائی چبھے گی نیچے تولیہ بچھا دیتا ہوں مگر روک دیا۔
(جاری ہے)
اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔۔ !
بے شک اللہ والوں کی شان نرالی ہی ہوتی ہے عام لوگوں سے الگ اور منفرد حیثیت کے حامل ۔۔۔ اللہ کے رنگ میں رنگے ہوئے ۔۔۔سبحان اللہ
جزاک اللہ چھوٹا غالب
اللہ اکبر۔۔۔۔
ان للہ و ان الیہ راجعون
کیفیت عجب ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔
اللہ اکبر
موضوع کے عنوان نے ہی اپنی جانب کھینچ لیا۔ آپ کی بیشتر تحریریں آپ کے بلاگ پر "پینڈنگ" موڈ میں چھوڑی ہوئی تھیں لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ اس تحریر کو بھی پینڈنگ رکھا جا سکتا، آپ نے منظر کشی کرنے کی بہت اعلیٰ کاوش کی ہے اللہ کرے آپ کی تحریر میں مزید ٹھہراؤ آ جائے اور مضمون مزید نکھر کر سامنے آنے لگے۔
ماں مرے تے ما پے مکدے،پیو مرے گھر ویلا
شالا مرن نہ ویر کسے دے اجڑ جاندا جے میلا
باپ مرے سر ننگا ہوے،تے ویر مرن کنڈ خالی
ماواں با ہجھ محمد بخشا کون کرے رکھوالی
بھائی بھائیاں دے دردی ہوندے تے بھائی بھائیاں دہیاں باہنواں
باپ نے سراں دے تاج محمد تے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
ہرگز نمیرد آنکہ دِلش زندہ شُد بعشق
ثِبت است بر جریدہ عالم دوام ما
صورت از بے صورتی آم بروں
باز شُد اِنا اِلیہ راجعوں
اللہ تعالٰی درجات بُلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر دے آمین
وارث شاہ اوہ سدا ای جیوندے نے جنہاں کیتیاں نیک کمائیاں نے،،،،،
@خاتون معظم
حوصلہ افزائی اور تبصرے کا شکریہ
یہ سب آپ کے ہی اصارا کا نتیجہ ہے، ورنہ اکثر لوگوں کو میں نے ٹال دیا تھا۔ میرا اس موضوع پر لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا مبادا کوئی سمجھ کہ باپ کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں۔
جزاک اللہ
@بیرنگ خیال
صدقے جاواں
میں نے سنا تھا کہ نین نے قسم اٹھائی ہوئی کہ جوگی کے ڈیرے پہ نہیں جانا
پھر آج فوجاں ادھر کدھر؟؟؟
@عبدالرزاق قادری
سرکار آپ بڑے لوگ ہیں
ویسے بھی آج کل آپ کسی اور ہوا میں ہیں
چھوٹے موٹے پہ کہاں نظر پڑتی ہے آپ کی
جزاک اللہ آپ نے پڑھا اور تبصرے سے نوازا
@ملک حبیبی
ملک صاحب یہ کیا آپ کو شوخیاں سوجھتی ہیں؟؟؟
اتنی فارسی تو مجھے بھی نہیں آتی ھاھاھاھاھاھا
دعاؤں اور تبصرے کیلئے جزاک اللہ
اتنا مکھن صحت کے لئے اچھا نہیں ہوتا، تھوڑا جیا ہتھ ہولا رکھو۔ میں پہلے ای بوہت لِسّا جیا بندا ہاں۔ میں تہاڈی گل نئیں سننی تے ہور کیہدی سننی ایں۔ میں تو ہر گز کوئی فورم شورم جوائن نہ کرتا
اگر تم نہ ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انا للہ و ان الیہ راجعون
اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور انکے صدقے ہماری بھی بخشش فرمائے
اب جب میں نے ایک ماہ کے اندر دو عزیزوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے جاتا دیکھا ہے تومجھے آپکی تکلیف کا اندازہ لگانے میں اتنی مشکل نہیں پیش آئی۔
جانے والے چلے تو جاتے ہیں لیکن بہت کچھ ساتھ لے جاتے ہیں اور کچھ سبق بھی دے جاتے ہیں لیکن ہم لوگ بہت جلد یہ سب بھلا دیتے ہیں
شکریہ حسیب پیارے
آپ نے کن کن عزیزوں کو کھویا؟؟
افسوس کہ میں بے خبر رہا
انا للہ و انا الیہ راجعون
سلام ہو بابرکت شخصیت پر جس دن وہ پیدا ہوے اور جس دن وہ اپنے رب سے ملے اللہ رب العزت اس درد فرقت کا آپ کو بہترین اجر ا دے اور خیر کثیر نعم البدل مرحمت فرماےٌ آمین
دل سے جوبات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے تحریر دلسوز ہے
بارک اللہ خیر کثیرا آمین
@شفا
جزاک اللہ پڑھنے اور تبصرہ کرنے کیلئے بھی جزاک اللہ
دعاؤں کیلئے آمین اور جزاک اللہ