گزشتہ سے پیوستہ
اس کے بعد بھائی سے پوچھا کہ قبر کی تعمیر کا کام چل رہا ہے ۔۔۔؟؟؟ مزدوروں اور مستری صاحب کو کھانا کھلا دیا گیا ہے۔۔۔؟؟ بھائی نے بتایا کہ جی انہیں ناشتا بھی کروا دیا گیا ہے ۔ اور انہوں نے چائے کی فرمائش کی تھی ۔ شہر سے ایک بندہ تھرموس میں ان کیلئے چائے بھی بنوا لایا ہے ۔ یہ سن کر اطمینان کا اظہار فرمایا اور دوپہر کے کھانے کیلئے تاکید کی کہ اچھا کھانا کھلایا جائے مزدوروں کو۔ بھائی نے بتایا کہ شہر کے سب سے اچھے ہوٹل سے ان کیلئے چکن کڑاہی منگوانے کا آرڈر دے دیا گیا ہے ۔ وقت پر انہیں کھانا کھلا دیا جائے گا۔اس کے بعد پوچھا کہ جنازے کیلئے زمین تیار ہے ۔؟
(ہماری زمین جو کہ مستاجری دی ہوئی ہے ۔ اس کیلئے منیر احمد (کسان) سے ابا جی نے کہلوایا تھا کہ ابھی دو دن تک کاشت نہ کریں ۔ )
بتایا گیا کہ ہاں جی ! ہل مارے ہوئے تھے ، کل ہی لیزر لیولر بلوا کر ایک ایکڑ زمین جنازے اور قل خوانی کے لیے تیار کروا دی گئی ہے ۔ اس کے بعد بڑے بھائی کو قبرستان بھیج دیا کہ خود موجود رہیں اور اپنی نگرانی میں سارا کام کروائیں ۔
(اس دوران میں نے گھر میں سب کو الٹی میٹم دے دیا کہ ابا جی آج مغرب تک ہمارے ساتھ ہیں۔مغرب سے پہلے پہلے ساری مصروفیات نمٹا لیں ۔ کچھ نے حیرانی سے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتا اور کچھ محض حقارت سے مسکرا دئیے۔ جیسے کہتے ہوں تم بڑے بزرگ آ گئے موت کا وقت بتانے والے)
ٹھیک گیارہ بجے ابا جی نے پوچھا :۔ "کیا وقت ہوا ہے"۔ میں نے دیوار گیر گھڑی دیکھ کر بتایا کہ گیارہ بج گئے ہیں۔ فرمایا کہ میرے دانت صاف کروائے جائیں ۔ ایک بھائی برش پر ٹوتھ پیسٹ لگا کر لائے ، انہیں برش کرایا گیا ۔ بمشکل کلی کی ۔ اس کے بعد ان کی منہ دھلانے کی فرمائش پر تولیہ بھگو کر ان کے منہ پر پھیر دیا گیا۔ اس کے بعد اپنی کنگھی منگوائی ۔(ان کی ایک جیبی کنگھی تھی ۔ جو وہ داڑھی میں پھیرتے تھے ) تلاش کر کے لائی گئی ۔ لیٹے لیٹے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی داڑھی میں کنگھی کی۔ کنگھی کرنے کے بعد داڑھی پر دو بار ہاتھ پھیرا اور مسکرا کے بولے :۔ "الحمد اللہ"۔۔۔
تکلیف کی شدت میں جوں جوں اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا ۔ سیکنڈوں کے حساب سے کروٹیں بدلوائی جاتیں اور اٹھاکے بٹھایا جاتا اور لٹایا جاتا۔ آفرین ہے ابا جی پہ کہ "میڈے اللہ سائیں رحم کر" کے علاوہ کوئی اور تکلیف کے اظہار کا لفظ نہ نکلا۔ پیر انتہائی ٹھنڈے پڑ گئے ، جیسے بالکل بے جان ہوں ۔ ہاتھ بھی بالکل ٹھنڈے ہوتے جا رہے تھے ۔ بے چینی کی شدت میں اضافہ ہوا تو میں نے سب کو باری باری وضو کر کے آنے کو کہا ۔ اور خود بھی سورۃ یسین کی تلاوت شروع کر دی۔
سورۃ یسین کی تلاوت ہوئی تو کچھ سکون محسوس کرنے لگے۔ اسی دوران بہاولپور سے ان کے ماموں زاد بھائی سید محمد عباس شاہ بخاری صاحب اپنے داماد کے ساتھ تشریف لائے ۔ انہیں دیکھ کر خوشی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ میں بس آپ ہی کا انتظار کر رہا تھا۔ انہوں نے پوچھا کیا حال ہے ؟۔ فرمایا :۔ "الحمد اللہ ۔" تھوڑی دیر بعد فرمایا :۔ "کچھ سنائیے ۔" آواز دھیمی تھی اس لیے کسی کو ٹھیک سے سنائی نہ دیا۔
(چونکہ گزشتہ روز سے ہر آنے جانے والے سے کلمے سن اور سنا رہے تھے۔ اس لیے میں نے سمجھا شاید ان سے بھی کلمے سننے سنانے کی فرمائش کر رہے ہیں۔) میں نے کہا کہ ان کا کہنا ہے کلمے سنیے اور سنائیے۔ لیکن اسی اثنا میں وہ پوچھ چکے تھے کہ کیا فرمایا۔؟
اب کی بار ابا جی ذرا وضاحت سے وہی بات دہرائی :۔" مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اور تعریف سنائیے ۔ " چچا جی کچھ دیر خاموش رہے اور پھر ایک حدیث مبارکہ ترجمہ اور تشریح کے ساتھ سنائی ۔
(مفہوم کچھ ایسا تھا) اللہ تعالیٰ نے حضرت عزرائیل علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں بھیجا ۔ ان سے جا کے پوچھیں کہ کیا آپ اس دنیا کی زندگی کو خیر باد کہہ کر اللہ تعالیٰ کے پاس تشریف لانا پسند کریں گے۔ جب وہ منظوری دے دیں تو ان کی مبارک روح کو قبض کیا جائے ۔ حسب ارشاد حضرت عزرائیل علیہ السلام نے عرض کی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت مرحمت فرما دی ۔ جب روح قبض کی جانے لگی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ تکلیف محسوس فرمائی ۔ اور ملک الموت سے پوچھا کہ کیا سب کو موت کے وقت ایسی ہی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ملک الموت نے مودبانہ عرض کیا :۔ "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں جان قبض کرتے وقت سب سے زیادہ نرمی آپ سے اختیار کی گئی ہے ۔ تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔ "میں چاہتا ہوں کہ موت کے وقت جو تکلیف میری امت کو دی جانی ہے وہ مجھے دے دی جائے ، اور میرے لیے جو نرمی روا رکھی گئی ہے وہ میری امت کیلئے ہو ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبرئیل علیہ السلام پیغام لے کر حاضر ہوئے اور بشارت سنائی کہ اللہ تعالی ٰ نے آپ پر ایمان رکھنے والے اور آپ کی محبت دل میں رکھنے والے ہر امتی کیلئے موت کی سختی آسان فرما دی ہے۔
یہ سن کرابا جی بہت خوش ہوئے۔ اور مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ چہرے پر بشاشت پھیل گئی۔ کچھ دیر مسکراتے رہے ، اور پھر درود شریف پڑھا ، اور (جیسے مزے لیتے ہوئے ) بولے :۔ "کچھ اور بھی سنائیے ۔" اب کی بار چچا جی نے ایک اور حدیث مبارکہ تشریح کے ساتھ سنائی ۔ جس میں ان لوگوں کیلئے بشارت سنائی گئی تھی جو حج بیت اللہ کی خواہش رکھتے تھے ، مگر یہ خواہش دل میں ہی لیے مر گئے ۔ (یہ سن کر ایک بار پھر مسکرائے )
اماں جان کو بلوایا ۔ ان سے کہا کہ ان کی جو امانت رکھی ہے وہ لا دیں ۔ اماں جان نے دس ہزار روپے لا کر دئیے ۔ ابا جی نے وہ چچا عباس صاحب کے حوالے کر دئیے۔ (یہ آخری قرضہ تھا جو انہوں نے اپنے ہاتھ سے ادا کر دیا)۔اس کے بعد ابا جی حسب معمول انہیں چھ کلمے اور ایمانیات سنا کر انہیں گواہ بنا لیا ۔یہ حال دیکھ کر چچا صاحب سمجھے کہ "بیمار کا حال اچھا ہے"انہیں ذرا بھی اندازہ نہ ہو سکا کہ یہ اب محض کچھ ہی گھنٹوں کے مہمان ہیں۔ اور وہ تشریف لے گئے۔
ان کے جانے کے بعد میرے حقیقی چچا (جو کہ میرے والد صاحب سے بیس سال عمر میں بڑے ہیں) اور ان کی اولاد جن کے خیال میں ہم سب (میں اور میرے بھائی) عقل سے پیدل اور وغیرہ وغیرہ ہیں۔ نیز اپنے باپ کے دشمن بھی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ زندہ باپ کی قبر تعمیر کروائی جا رہی ہے ۔(ان کے خیال میں ہم اپنے شوق کے مارے ایسا کر رہے ہیں)اور اسی پراپیگنڈے کا زور و شور سے پرچار وہ ہر آتے جاتے کے سامنے کر بھی رہے تھے۔ جیسا کہ ابھی کچھ دیر پہلے انہوں نے چچا عباس صاحب کے سامنے رونا رویا کہ "ڈاکٹر نے تو کہا کہ کمزوری کی وجہ سے انہیں ڈرپ لگا دی جائے ۔ مگر یہ بڑے ڈاکٹر(یہ طنزیہ اشارہ میری اور میرے بھائی کی طرف تھا) کچھ زیادہ ہی سیانے ہیں۔ ڈرپ وہ سامنے ریفریجریٹر میں پڑی ہے۔"بڑی مشکل سے میں نے خود پر کنٹرول کیا ۔ اور دل میں کہا کہ اب کسی سے یہ جملہ کہہ کے دیکھو اور پھر میں بتاتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔
چچا عباس صاحب کے جاتے ہی ان دونوں نے با ر بار یہی جملہ دہرانا شروع کر دیا کہ "ہمارے ذمے کوئی کام ہو تو بتائیں۔" "ہم حاضر خدمت ہیں ، کوئی ہمارے لائق ہو تو بتائیں۔" ابا جی سنی ان سنی کرتے رہے ۔ مگر جب میرے چچا زاد بھائی نے زور دے کر ان سے پھر یہی بات پوچھی تو ابا جی نے ناگواری سے منہ پھیر لیا اور فرمایا:۔" الحمد اللہ میرا کوئی کام باقی نہیں رہتا ۔ اور ویسے بھی میرے بیٹے موجود ہیں۔"۔۔۔
ایسے سے جو داغ نے نباہی
سچ ہے کہ یہ کام تھا اسی کا
یسے سے جو داغ نے نباہی
سچ ہے کہ یہ کام تھا اسی کا
بھروسہ کرنے والوں کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کر یں
اور ہم اللہ پر برہی
بھروسہ کرتے ہیں
کچھ ایسے بھی اٹھ جائیں گے اس بزم سے جن کو
ہم ڈھونڈنے نکلیں گے مگر پا نہ سکیں گے