(گزشتہ سے پیوستہ)
حالت جوں جوں خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔لیکن شاید انہیں جس تاریخ کا انتظار تھا وہ ابھی دور تھی۔ حالت یہاں تک آ پہنچی کہ ایک کھجور اگر کھلا دی تو قے ہوتی اور وہ باہر آ جاتی ۔قبر کی تعمیر جو کہ اس لیے ملتوی ہو رہی تھی کہ میری طبیعت سنبھلی تو خود اپنے سامنے تعمیر کرواؤں گا۔ اس کیلئے بڑے بھائی کو ہدایات دے دیں اور کہا کہ اب مزید دیر نہ کی جائے ۔قبر کیلئے اینٹیں ذاتی ملکیتی زمین میں اپنے سامنے تیار کروائی تھیں ۔ محراب کیلئے اینٹیں گھڑنی پڑتی ہیں، مگر ان کی فرمائش تھی کہ فلاں گاؤں میں ایک کاریگر رہتا ہے ۔ اس کی تیار کردہ اینٹیں خاص طور پر محراب کیلئے ہوتی ہیں۔ اسے کہا جائے ۔ مگر ہدایات تھیں کہ بھاؤ تاؤ نہ کرنا ، جتنے پیسے وہ مانگے دینا۔ اور اس سے پہلے جس کی زمین میں اینٹیں تیار کی جائیں اس سے مٹی بخشوائی جائے ۔ اینٹیں تیار کرنے والے کاریگر کامعاوضہ چھ روپے فی اینٹ تھا، مگر اس نے پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ آخر تین روپے فی اینٹ لینے پر بھی زبردستی منایا گیا۔
اس کے بعد میت نہلانے کیلئے تختہ جو کہ پہلے ہی اپنے درختوں سے حاصل شدہ لکڑی سے اپنے سامنے تیار کروا چکے تھے ۔ فرمائش کی کہ اسے رندہ پھیرا جائے ، تاکہ جب مجھے نہانے کیلئے اس پر لٹایا جائے تو مجھے چبھے نہیں۔ کاریگر نے جب رندہ پھیر دیا تو مجھے کہا کہ ہاتھ پھیر کر چیک کرو۔ ،میں نے اوکے کا سگنل دیا تو فرمایا کہ سرخ رنگ کیا جائے ۔ہم سب حیران کہ یہ کیا منطق ہے ۔۔۔؟؟؟استفسار پر مسکرائے اور اُچ شریف کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ حضرت سید جلال الدین بخاری سر خ پوش کا رنگ ہے یہ۔ الغرض کہ تختے پہ سرخ رنگ ہو گیا۔ شام کا وقت تھا ، مجھ سے کہا کہ اٹھا لاؤ اور مجھے دکھاؤ۔میں نے حکم کی تعمیل کی اور تختہ دیکھ کر خوش ہوئے اور سب سے پوچھا کہ اچھا لگ رہا ہے نا۔۔۔؟؟
اس کے بعد چارپائی کا نمبر آیا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب میں چھوٹا ہوتا تھا تب ہمارے صحن میں کیکر کا ایک بہت بڑا درخت تھا ۔ اس درخت کو جب کٹوایا گیا تو اس کی لکڑی سے چارپائی کیلئے پائے اور بازو نکلوا کے کاریگر گھر بلا کے چارپائی بنوا کے رکھ دی گئی تھی۔ ہم ہمیشہ سوچتے تھے کہ اس چارپائی کو بُنوایا کیوں نہیں جاتا۔ اب اس کی بُنائی کا وقت بھی آ گیا ۔
بڑے بھائی کو پیسے دئیے اور فرمایا کہ بان خرید لاؤ ، اچھے سے اچھا خریدنا ، پیسے بچانے کا لالچ نہ کرنا ، جتنے مانگیں وہی دینا ۔ بان آ گیا ، اسے دیکھ کر پسند کیا ، پھر کاریگر بلوا کر چارپائی جسے کہ بھورا رنگ کیا گیا تھا ، اسے بُنوایا گیا۔ اس کے بعد بڑے بھائی اٹھا کے دکھا نے لائے کہ تیار ہو گئی ہے ۔ دیکھ کر پسند کی اور حسبِ عادت ہم سب سے بھی پوچھا۔
جمعہ کے بعد ہم سب ہر دن ذہنی طور پر تیار رہنے لگے۔ لیکن مطلوبہ تاریخ ابھی دور تھی۔منگل کے دن سے ان پہ وقفے وقفے سے غشی طاری ہو جاتی تھی ۔اکثر بے خبری کے عالم میں باتیں کرتے ، کوئی پوچھ لیتا تو برا مناتے اور کہتے مجھے نہ چونکایا کرو، آپ سب کو نہیں معلوم میں کہاں کہاں سے ہو آتا ہوں۔ منگل کے دن سے ان کی رہی سہی طاقت جواب دے گئی ۔ اب انہیں اٹھا کے بٹھانے اور کروٹ بدلوانے کیلئے ہمیں ہی سہارا دینا پڑتا ۔ ذرا ذرا دیر کے وقفے سے فرماتے اٹھا کے بٹھاؤ۔ اور دروازے کی طرف دیکھ کر سر جھکا کے ہاتھ گود میں باندھ کے بیٹھ جاتے ، چند سیکنڈ بعد پھر لٹانے کا کہتے ۔ جتنی دیر ہوش میں رہتے یہی معمول رہتا ۔
حتیٰ کہ منگل کے دن صبح نو بجے جب میں انار کے درختوں کو پانی لگا رہاتھا ، تو اماں کے کلمے پڑھنے کی آواز آئی ۔اماں نے چھ کلمے اور ایمانیات سنائے پھر ابا جی نے خود سنائے ۔ ٍپھر سارا دن یہی معمول رہا۔ہر آنے جانے والے کو فرماتے مجھ سے چھ کلمے اور ایمانیات سنو۔ سنا کے فرماتے میرے لیے گواہ ہو جاؤ۔ منگل کے دن ظہر کے بعد میرے ماموں سید بشیر احمد شاہ بخاری آئے تو انہیں چھ کلمے اور ایمانیات سنا کر فرمایا آپ گواہ رہیں۔ ان کے آنسو نکل آئے اور بمشکل اتنا کہا:۔"بے شک آپ ہمیشہ بزرگوں کے رستے پہ رہے ۔" مزید ان سے کچھ نہ کہا جا سکا تو وہ آنسو پیتے باہر چلے گئے ۔
منگل کے دن مغرب سے تھوڑی دیر پہلے طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی ۔ میں نے سب کو کہا کہ چل کے وضو کریں اور ہم دو بھائی ، اماں اور بھابھی وغیرہ نے سورۃ یسین کی تلاوت شروع کر دی۔ تھوڑی ہی دیر میں بڑے چچا(میرے والد صاحب سے بیس سال بڑے ہیں) اور چچا زاد بھائی ، بہن اور ان کے پوتے بھی آ گئے ۔ وہ بھی سورۃ یسین کی تلاوت کرنے لگے۔ اتنے میں ابا جی نے فرمایا کہ "مبین" کے حساب سے پڑھیں۔
(اس طریقے میں سورۃ یسین شروع سے پڑھتے پڑھتے جب لفظ مبین پر پہنچیں تو پھر دوبارہ بسم اللہ سے اور جب اس مبین سے اگلے مبین پر پہنچیں تو پھر دوبارہ بسم اللہ سے شروع کریں۔ اسی طرح سات بار ہوتا ہے کیونکہ سورۃ یسین میں مبین لفظ سات بار ہے)۔
مغرب سے تھوڑی دیر بعد پاس کے گاؤں سے ہماری دو رکی شتہ دار خواتین تشریف لائیں۔ ابا جی رشتے میں ان کے دور کے ماموں لگتے تھے لیکن سلوک ہمیشہ اپنی بیٹیوں کی طرح کرتے تھے ۔ پس سورۃ یسین کی تلاوت ہوتے دیکھ کر ان سے کنٹرول نہ ہو سکا اور وہ ماماجی کہتے ہی رونے لگیں۔ ابا جی نے آنکھیں کھولیں اور ہنس کے بولے :۔"اڑی مائی ، خیر تاں ہے ، جیندے کوں روندی بیٹھی ایں۔"(ارے بی بی خیر تو ہے ؟ زندہ کو ہی رونے بیٹھ گئی ہو) اس مذاق پہ ان کو اور زیادہ رونا آ گیا۔ تو بڑی مشکل سے انہیں چپ کراکے ہٹا یا گیا۔
عشا ء سے پہلے طبیعت سنبھل گئی ۔ اور ہم سب کی طرف دیکھا، مسکرائے اور مجھ سے پوچھا کیا پڑھ رہے ہو؟؟؟ میں نے کہا سورۃ یسین۔ ہنس پڑے اور پوچھا :۔کس لیے؟" میں لاجواب ہو کر کھسیا گیا اور کوئی جواب نہ بن پڑا۔
عشا ء کے وقت ہم سب کو زبردستی سونے بھیج دیا ۔ہمیں نیند کہاں تھی، اب ہوتا یہ کہ میں ایک بار چپکے سے دروازے کے باہر سے جھانک آتا، میں کھڑا ہوتا کہ بڑے بھائی آ جاتے ، اور ہم اشاروں میں بات کر لیتے کہ ابھی تو سکون سے لیٹے ہیں۔
بڑے بھائی کا بیان ہے کہ رات دو بجے کے قریب (یہ وقت ان کی تہجد اور ذکر اللہ کا ہوتا تھا) اس وقت میں کمرے میں موجود تھا۔ مجھے کہا کہ سہارا دے کر بٹھاؤ ۔ پھر ہاتھ باندھ کے بیٹھ گئے اور پوچھا کہ ہمارے جد امجد(صاحب ِ دربار کوٹ والا) کا نام کیا ہے ۔ بھائی نے بتایا ۔ تو ابا جی نے ان کا نام باآواز بلند نعرہ لگانے والے انداز میں پکارا۔ یا سید محمد باغ علی شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، اسی طرح بالترتیب سید محمد نواز شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور پھر اپنے دادا جان سید محمد عبدالقادر شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ پھر اپنے والد محترم سید شرف حسین شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا نام لے کر پکارااور اپنی والدہ محترمہ کو آواز دے کر بولے :۔(ترجمہ)"مجھے بشارت دیجئے ، کیا آپ سب مجھے لینے آئے ہیں۔؟ "اس کے بعد پھر لیٹ گئے۔
(جاری ہے)
سبحان اللہ ۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر !
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ ہم سب کو ایسے مقربین صالحین بندوں کا فیضان نصیب فرمائے تاکہ زندگی اور موت کی منزلیں آسان ہوجائیں آمین
ہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ تُو نے ایک ہی شوخی میں کھو دئیے
پیدا کئے تھے چرخ نے جو خاک چھان کر
بہت شکریہ
ملک صاحب زبردست شعر ہے
اللہ اکبر۔۔۔۔
جزاک اللہ
رقت انگیز